
وسط ایشیا فطرت کی رعنائیوں‘ لطافتوں اور دلچسپیوں میں ڈھلی ہوئی سرزمین ہے۔ صدیوں سے اس کے ساتھ تاریخی‘ افسانوی اور رومانوی داستانیں اور واقعات وابستہ ہیں۔ یہ سرزمین تاریخ کے بہت سے مدوجزر سے ہو کر گزری ہے۔ اسی سرزمین کا ایک حصہ قازقستان (Kazakhstan) کہلاتا ہے جو ۱۴ دسمبر ۱۹۹۱ء تک روسی فیڈریشن کا حصہ رہا مگر اب گزشتہ ۱۸ برس سے ایک جمہوریہ کے طور پر ایک آزاد وطن اور ریاست کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ خوابوں اور رومانوں کی یہ سرزمین ایک زرعی اور صنعتی ایمپائر میں ڈھلتی دکھائی دیتی ہے۔
اس کا موجودہ رقبہ ۲۷۲۷۳۰۰ کلو میٹر ہے جو مغربی یورپ سے بھی بڑا ہے۔ اس کے شمال میں رشین فیڈریشن‘ مشرق میں چین‘ جنوب مغرب میں کیپسٹن کا سمندر اور تمام جنوبی سرحد کرغیزستان‘ ازبکستان اور ترکمانستان سے ملی ہوئی ہے۔ یہ ملک چٹیل میدانوں‘ پتھریلی وادیوں (Rock-eanyous Taigas) پہاڑوں‘ ڈیلٹائوں‘ برف پوش پہاڑوں اور صحرائوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا میں ۶۲ویں نمبر پر ہے۔ اس کے ایک مربع کلو میٹر میں صرف ۶ افراد بستے ہیں۔
قازقستان میں زیادہ تر Nomadic قبائل رہتے ہیں۔ سولہویں صدی عیسوی میں یہ ایک نمایاں علاقے کے طور پر معروف ہوا۔ اٹھارہویں صدی میں روس نے اس پر نگاہیں جمائیں اور انیسویں صدی کے وسط تک اس نے اس پورے علاقے کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ۱۹۳۶ء میں یہ USSR کے ایک حصے کے بطور قازق سوویٹ سوشلسٹ ری پبلک کے بطور متعارف ہوا۔ اسے ایک مدت تک روسی استعمار کے خلاف سول وار لڑنا پڑی۔ روس میں شامل ہو جانے کے بعد اسے بڑے صنعتی منصوبوں کے لیے منتخب کیا گیا۔ روس نے اپنے نیوکلیئر توانائی پر مبنی ہتھیاروں کی آزمائش بھی اس علاقے میں کی۔ یہ روسی فیڈریشن کا آخری ملک تھا جو ۱۴ دسمبر ۱۹۹۱ء کو اس سے الگ ہوا اور اب اپنی خودمختار حیثیت سے ایک جمہوریہ ہے۔ نور سلطان نذر بایوف (Noorsultan Nazarbiayev) نے اس کے پہلے صدر کا عہدہ سنبھالا جو ابھی تک قائم ہے۔ یہ ایک متوازن خارجہ پالیسی کا حامل ملک ہے۔ آزادی کے اٹھارہ سال کے بعد اس نے زیادہ تر اپنی اقتصادی ترقی کے منصوبوں پر توجہ دی ہے بالخصوص ہائیڈرو کاربن انڈسٹری پر۔ نور سلطان نذر بایوف کی ملک کی سیاست پر گرفت بہت گہری اور سخت ہے۔ گزشتہ برسوں میں سیاسی کشمکش کے نتیجے میں بہت سے ممتاز اپوزیشن رہنما اور صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ قازقستان کے انتخابات کو صاف اور شفاف تسلیم نہیں کرتے مگر اس کے باوجود یہ ملک وسط ایشیا میں ایک طاقتور ریاست کے طور پر ابھر رہا ہے‘ بہت سی عالمی تنظیموں کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا رکن ہونے کے علاوہ امن کے حصول میں نیٹو (NATO) کا حلیف ہے۔ خودمختار ریاستوں کی دولتِ مشترکہ میں بھی شریک ہے۔ شنگھائی کارپوریشن کی تنظیم میں بھی اس نے شرکت اختیار کر رکھی ہے۔قازقستان میں بہت سی نسلیں اور ثقافتیں موجود ہیں۔ اسٹالن کے دور میں بہت سے قبائل اور نسلوں کو یہاں سے نکال کر روس کے دوسرے علاقوں میں دھکیل دیا گیا۔ قازق ان میں سب سے بڑے گروہ کی حیثیت سے موجود ہیں۔ موجودہ قازقستان میں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے مگر اسلام بنیادی مذہب ہے۔ اس کے ساتھ قدامت پسند عیسائیوں کی ایک اقلیت موجود ہے۔ قازق زبان کو ریاست کی زبان کا درجہ حاصل ہے مگر روسی زبان سرکاری معاملات میں دفتری زبان کا مقام رکھتی ہے۔ کاروباری معاملات میں ابھی بھی روسی زبان کو غلبہ حاصل ہے۔
تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو قازقستان پتھروں کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ مؤرخوں کا خیال ہے کہ گھوڑے سب سے پہلے اسی علاقے میں سواری کے لیے استعمال ہوئے۔ قدیم شہریوں میں تاراز (Taraz) اور حضرت ترکستان شاہراہِ ریشم پر قائم کیے گئے جو مشرق کو مغرب سے ملاتے تھے۔ یہاں پر تیرہویں صدی عیسوی میں منگولوں نے سیاسی تگ و دو کے لیے فوجی پیش قدمی اختیار کی۔ اسی منگول دور میں مختلف اضلاع قائم کیے گئے اور قازان خانوں کی عملداری شروع ہوئی۔ یہاں پر Nomadic کی روایتی زندگی کا آغاز ہوا۔ پندرہویں صدی میں ترک قبائل میں قازان خاندان نے سر نکالنا شروع کیا اور اپنی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی۔ سولہویں صدی میں قازاق زبان نے اپنی ثقافتی شناخت کو قائم کرنا شروع کیا۔ یہی وہ دور ہے جس میں قازاق اور فارسی بولنے والے قبائل میں چھوٹے بڑے جھگڑے پیدا ہونا شروع ہوئے۔ سترہویں صدی عیسوی کے ابتدا میں قازاق خان قبائلی جھگڑوں میں الجھے دکھائی دیتے ہیں جس کے نتیجے میں مختلف نسلی اور ثقافتی گروہوں نے اپنا تشخص قائم کرنا شروع کر دیا۔ یوں مشرق و مغرب میں تجارت کے زمینی راستے مسدود ہونا شروع ہو گئے۔
سترہویں صدی میں قازاق خانوں نے منگول کے خلاف جو مغربی منگول قبائل کی فیڈریشن تھی‘ لڑائیاں شروع کیں جس میں Dzungars خاص طور پر جارح تھے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کی ابتدا میں قازاق اپنے اقتدار کے عروج پر تھے۔ اسی زمانے میں ۱۷۲۳۔۱۷۳۰ء کے درمیان ان کی Dzungars کے خلاف جنگ ہوئی جس میں وہ بری طرح تباہ ہوئے۔ ابو خیر خان قازاق نے دزنگر پر فتح پائی۔ ۱۷۲۶ء میں قازاق دریائے بلنٹی (Bulanty) تک پہنچ گئے۔ ۱۷۲۰ء سے ۱۷۵۰ء کے دوران میں ابلائی خان (Ablai Khan) نے دزنگرز کے خلاف قابلِ ذکر جنگیں لڑیں جس میں اسے ایک ہیرو کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ مگر اس دور میں وولگا کے کال مائکس (Kalmyks) نے قازقوں پر اپنے مسلسل حملے جاری رکھے۔
روسی سلطنت کا آغاز
انیسویں صدی عیسوی میں روس سلطنت نے انگڑائیاں لینا شروع کیں اور یہ بتدریج وسط ایشیا میں پھیلتی چلی گئی۔ عظیم کھیل (Great Game) کا زمانہ ۱۸۱۳ء سے ۱۹۰۷ء تک اینگلو اسٹیشن کنونشن تک جاری رہا۔ اس دور میں زارانِ روس نے موجودہ قازقستان پر مؤثر انداز میں حکومت کرنا شروع کر دی تھی۔ گریٹ گیم میں روسی مقتدر حکمرانوں نے ان علاقوں میں اپنی فوجی گیریژن اور بیرکوں کی تعمیر شروع کی تاکہ وسط ایشیا میں اپنے قبضے کو مستحکم کر سکیں اور برطانوی مقبوضات کو یہاں داخل ہونے کا موقع نہ مل سکے۔ ۱۷۳۰ء میں اورسک (Orsk) میں پہلی چوکی قائم ہوئی۔ قازقستان میں روسیوں نے قوت کے بل پر اسکولوں اور عام ماحول میں روسی زبان کو جاری کیا اس سے قازاق لوگوں میں شدید ردِعمل پیدا ہوا مگر ۱۸۶۰ء تک مزاحمت کے بعد وہ سست پڑ گئے کیونکہ ان کا طرزِ زندگی اور وسائل بہت بری طرح متاثر ہو رہے تھے اور قازاق قحط کا شکار ہو رہے تھے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں قازاق لوگوں نے اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کی بھرپور کوشش کی۔
۱۸۹۰ء سے روسی مقتدر قوت نے قازقستان میں اپنی نوآبادیاں قائم کرنا شروع کر دیں۔ بالخصوص (Semirichyl) صوبے میں انہوں نے اپنا اقتدار مستحکم کر لیا۔ ۱۹۰۶ء تک انہوں نے ٹرانس ارال (Trans Aral) ریلوے کو اورن برگ سے تاشقند تک مکمل کر لیا اور اب سینٹ پیٹرز برگ میں آبادی کو منتقل کرنے کے منصوبے تیار کر لیے گئے۔
قازقستان کی نوآبادیوں میں داخل ہونے والے روسیوں اور مقامی لوگوں کے درمیان پانی اور زمین کے مسائل پر کشمکش شروع ہو گئی۔ زارانِ روس کے خلاف ۱۹۱۶ء میں ایک بغاوت پیدا ہو گئی۔ قازاق لوگوں نے روسیوں‘ کوساک اور ملٹری گیریژن پر حملے شروع کر دیے۔ اس سے دونوں اطراف کا بہت سا جانی نقصان ہوا مگر روسیوں کا انتقام خون خوری کا رنگ لیے ہوئے تھا۔ روسیوں کی فوجی قوت نے تین لاکھ قازقوں کو پہاڑوں یا چین کی طرف بھاگ جانے پر مجبور کر دیا جن میں سے بمشکل ۸۰ ہزار اگلے سال تک واپس آسکے۔ ان میں سے بہت سوں کو زار کی افواج نے بے دردی سے ذبح کر دیا۔ ۱۹۲۱۔۱۹۲۲ء کے دوران میں قازقستان کے علاقے کو ایک قحط نے آلیا جس میں دس لاکھ قازاق بھوک کے ہاتھوں موت کی وادی میں اتر گئے۔
زارانِ روس کے زوال کے ساتھ کچھ وقت کے لیے قازقستان کو خودمختاری کا سیاسی موقع ملا‘ مگر ۱۹۲۰ء میں قازقستان کا موجودہ علاقہ نئی روسی نظریاتی مملکت میں ایک خودمختار ریپبلک کے بطور شامل ہو گیا۔ ۱۹۲۰۔۱۹۳۰ء کے دوران میں روسیوں کی نظریاتی اجتماعیت نے قازقستان میں بھی اپنا عمل دخل شروع کیا مگر اس دوران تاریخی قحط نے ان علاقوں میں ایک شدید ردِعمل پیدا کیا۔ قازاق آبادی بھوک کے ہاتھوں ۲۲ فیصد تک کم ہو گئی۔ ان دنوں ہم آزاد قازقستان کی آبادی کو ۲۰ ملین کے قریب سمجھتے ہیں۔ اگر قحط اور اسٹالن کے ہاتھوں قازاق مصنفین‘ فلسفی‘ شعرا‘ سیاست دان اور مؤرخ ذبح نہ ہوئے ہوتے تو اس ملک کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوتا۔ مگر اسے قازقوں کی بدنصیبی سمجھیے یا ایک تاریخی حادثہ کہ ۱۹۳۶ء میں قازقستان ایک سوویت ریپبلک بن گیا۔ ۱۹۳۰۔۱۹۴۰ء کے دوران میں روس کے دوسرے علاقوں سے ایک زبردست نقل مکانی موجودہ قازقستان میں شروع ہوئی جس کے نتیجے میں مقامی آبادی کا توازن بہت حد تک بگڑ گیا۔ نسلی اور مذہبی اثرات کے باعث لاکھوں لوگوں کو سائبریا میں دھکیل دیا گیا۔ موجودہ آستانہ کے قریب ایسے بدنصیبوں کا ایک بہت بڑا کیمپ الزہبر (Alzbir) کے نام سے قائم کیا گیا جس میں صرف باغیوں کی بیویوں کو قید رکھا گیا۔ اشتراکی غلبے نے قازقوں کی خودمختاری کو ختم کر دیا اور وہ قازاق سوویت سوشلسٹ ریپبلک کی صورت میں وجود کو ایک نئے نظام کے تحت گزارنے پر مجبور تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ۱۹۴۷ء میں سیمی پلاٹنسک (Semipalatinsk) ٹیسٹ سائٹ جو نیوکلیئر آلات کا سب سے بڑا مرکز تھا‘ قازقستان میں قائم کیا گیا۔ اسے سیمی (Semiy) شہر کے قریب تعمیر کیا گیا۔ ۱۹۴۹ء میں یہاں پر ایٹمی تجربہ کیا گیا۔
روسی دور میں قازقستان میں زرعی پیداوار پر توجہ دی گئی اور صنعتی یونٹ لگانے کی پالیسی مرتب کی گئی۔ معدنی ذرائع بھی دریافت کیے گئے۔ ۱۹۵۳ء میں پہلی مرتبہ نکیتا خرد شحیئیف نے زمینوں میں غذائی ضروریات پیدا کرنے کے لیے قازقستان میں ایک بہت بڑا منصوبہ بنایا۔ برزنیف کے زمانے میں اس زرعی منصوبے پر خاطر خواہ عمل ہوا جس سے قازقستان کی زرعی اور غذائی ضرورتیں قدرے پوری ہونے لگیں۔
۱۹۸۰ء میں روس میں سیاسی اور معاشی اصلاحات کے لیے آوازیں اٹھنے لگیں۔ دسمبر ۱۹۸۶ء میں الماتی (Almaty) میں قازاق نوجوانوں نے احتجاجی مظاہرے کیے جس کے نتیجے میں قازاق ایس ایس آر کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری دین محمد کنائف (Dinmuhammed Konayev) کی جگہ چناڈی کالبن (Gannady Kolbin) کو مقرر کیا گیا جو روس کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس احتجاج کو قوت سے دبا دیا گیا اور اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مار دیے گئے اور اس سے زیادہ جیلوں میں بند کر دیے گئے۔ اب روس میں میخائل گوربا چوف کی حکومت قائم ہوئی جس کی گلاس ناسٹ (Glaasnast) کی پالیسی نے اظہار اور احتجاج کی لہر کو مزید تیز کر دیا۔ قازقستان میں حقوق کی طلب بڑھتی چلی گئی‘ جو اَب خودمختاری کے مطالبے میں ڈھل گئی۔ اکتوبر ۱۹۹۰ء میں قازقستان نے یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک میں رہتے ہوئے اپنی خودمختاری کا اعلان کر دیا۔ اگست ۱۹۹۱ء میں ماسکو میں علیحدگی کی قوتوں نے برسرِ عام بغاوت کا راستہ اپنایا جس کے باعث سوویت یونین بکھرتی چلی گئی اور نتیجتاً ۱۶ دسمبر ۱۹۹۱ء کو قازقستان نے اپنی ملکی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یوں قازقستان آخری جمہوریہ تھی جس نے اپنی آزادی اور خودمختاری کا اعلان کیا۔
قازقستان کی اس خودمختاری کے بعد بھی یہاں روسی طرز پر ہی معیشت اور اقتدار کی اجارہ داری کا اسلوبِ سیاست جاری رہا۔ نور سلطان نذر بایوف (Noorsultan Nazarbayev) کو جو ۱۹۸۹ء سے قازقستان کمیونسٹ پارٹی کا سربراہ تھا‘ ۱۹۹۱ء کی آزادی اور خودمختاری کے بعد اس نئی آزادی مملکت کا سربراہ منتخب کر لیا گیا۔ نئے سربراہ کی قیادت میں قازقستان نے مارکیٹ اکانوی میں پیش رفت کی کوشش کی۔ اس سرزمین میں تیل‘ گیس اور معدنیات کے بڑے بڑی ذخائر موجود تھے جس کے باعث ۲۰۰۰ء سے مملکت نے ترقی کا نیا صنعتی سفر شروع کیا۔ جون ۲۰۰۷ء میں قازقستان کی پارلیمنٹ نے نور سلطان نذر بایوف کو تاحیات منصبِ اقتدار کے ساتھ اپنے جانشین کا انتخاب‘ مجرموں کی سزا کی معافی اور داخلی اور خارجی حکمتِ عملی کی مکمل سربراہی کے اختیارات سونپ دیے۔ اختیارات کی اس کامل گرفت کے دوران میں ستمبر ۱۹۹۸ء میں سلفی عقائد پر پابندی لگا دی گئی‘ اپوزیشن کی ویب سائٹس کو منجمد کر دیا گیا۔ قازقستان کے چودہ صوبوں کے گورنروں کو منتخب کرنے کے بجائے نامزد کرنے کا اختیار بھی موجودہ صدر کے پاس رہا۔ ۲۰۰۰ء تک دستوری اور جمہوری مطلق العنانیت نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔
قازقستان ایک صدارتی جمہوریہ کے بطور پروان چڑھا۔ ملکی صدارت کے علاوہ صدر کے پاس تمام افواج کے کمانڈر اِن چیف کے اختیارات بھی موجود ہیں اور اسے پارلیمنٹ کے پاس کردہ قوانین کو ویٹو کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ صدر کے تین ڈپٹی پرائم منسٹر اور سولہ وزراء ہیں۔ کریم ماسی موف (Karim Massi Mov) ۱۰ جنوری ۲۰۰۷ء سے وزیراعظم کے بطور کام کر رہے ہیں مگر حقیقی اختیارات اور اقتدار صرف صدر مملکت کے پاس موجود ہے۔ یہاں دو ایوانی مقننہ ہے جو مجلس اور سینیٹ کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ مجلس کی ۶۷ نشستیں ہیں۔ دس اراکین کا انتخاب پارٹی کے ووٹوں سے ہوتا ہے۔ سینیٹ کے ۳۹ رکن ہیں۔ دو سینیٹروں کا انتخاب دونوں ایوانوں کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ ۱۴ صوبوں کے علاوہ آستانہ اور الماتی الگ سے انتظامی یونٹس ہیں۔ صدر کے پاس ۷ سینیٹروں کو نامزد کرنے کے اختیارات ہیں۔ صدر اوٹن پارٹی (Otan Party) کے سربراہ ہیں۔ دو اور سیاسی قوتیں صدر نور سلطان نذر بایوف کی حمایت کرتی ہیں۔ ان دونوں کی مؤسس موجودہ صدر کی صاحب زادی ہیں۔ باقی اپوزیشن پارٹیاں جو قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہوتی ہیں انہوں نے ابھی تک ایک سیٹ حاصل کی ہے‘ اس لیے عالمی جمہوری تنظیمیں ان انتخابات کی صحت پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہیں۔ اسی باعث قازقستان کو کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی کی رکنیت پیش نہیں کی گئی اور اسے جمہوری اداروں اور بنیادی حقوق کو بہتر بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔
دسمبر ۲۰۰۵ء میں نور سلطان نذر بایوف نے ۹۰ فیصد ووٹ لے کر صدارتی میدان دوبارہ جیت لیا۔ ۱۷ اگست ۲۰۰۷ء کو نور سلطان کی پارٹی نے ۸۸ فیصد ووٹ لے کر زیریں پارلیمنٹ کی تمام نشستیں حاصل کر لیں۔ اس ملک میں جون ۱۹۹۲ء میں ایک نیشنل سیکورٹی کمیٹی قائم کی گئی ہے اسے کئی طرح کے اختیارات حاصل ہیں اور یہ ایک میجر جنرل کی زیر انتظام فرائض انجام دیتی ہے۔
اپنی جغرافیائی ہیئت کے لحاظ سے قازقستان ایک بڑا وسیع ملک ہے جس کا رقبہ ۲۶۷ ملین مربع کلو میٹر ہے۔ یہ دنیا کا نواں بڑا ملک ہے جو اپنے رقبے میں مغربی یورپ کے ملکوں کے برابر ہے۔ روس کے ساتھ اس کی سرحد ۴۲۵۴ کلو میٹر‘ ازبکستان کے ساتھ ۲۲۰۳ کلو میٹر‘ چین کے ساتھ ۱۵۳۳ کلو میٹر‘ کرغیزستان کے ساتھ ۱۰۵۱ کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ بڑے شہروں میں آستانہ (Astana)‘ الماتی (Almaty)‘ کاراگنڈی (Karagandy)‘ شائم کینٹ (Shym Kent)‘ آتی را (Atyrau) اور اوسکمن (Oskemen) شامل ہیں۔ یہ بنیادی طور پر براعظم ایشیا کا ملک ہے مگر اس کا ایک چھوٹا سا حصہ مشرقی یورپ کے یورال مغرب سے بھی ملتا ہے۔ قزاق کا میدانی علاقہ ۵۰۰,۹۰۴ مربع کلو میٹر ہے اور دنیا کا سب سے بڑا خشک میدانی علاقہ ہے۔ اس میں کہیں کہیں گھاس کے قطعات یا پھر ریتلے میدان ملتے ہیں۔ بحیرہ ارال کے علاوہ کالی (Kli)‘ ارتائش (Irtysh)‘ ایشام (Ishim)‘ یورال‘ سیر دریا‘ چرائن اور جارج کے نام کے دریا قازقستان میں بہتے ہیں۔ جھیل بلخاش کینیڈی اور ذمے سان بھی معروف ہیں۔ گرما اور سرما دونوں موسم پائے جاتے ہیں۔
قازقستان چودہ صوبوں اور دو بڑے شہروں الماتی اور آستانہ پر مشتمل ہے۔ آستانہ کی آبادی ۶۰۰,۲۰۰ اور الماتی کی آبادی۱۲۲۶۳۰۰ ہے۔ باقی صوبوں کے صدر مقامات کی آبادی حسبِ ذیل ہے:
کوکشیئو ۸۶۹۰۰۰‘ اکٹوبے ۶۶۱۰۰۰‘ تال ڈائیکورگاں ۸۶۰۰۰۰‘ انائرہ ۳۸۰۰۰۰‘ بیکونور ۷۰۰۰۰‘ اوسکمن ۸۹۷۰۰۰‘ کاراگانڈی ۲۸۷۰۰۰‘ کوستانے ۹۷۵۰۰۰‘ کیز لورڈا ۵۹۰۰۰۰‘ رکاتوے ۳۱۶۸۴۷‘ پیٹردیال ۵۸۶۰۰۰‘ پاولو ڈار ۸۵۱۰۰۰‘ شائم کینٹ ۶۴۴۰۰۰‘ اورال ۵۹۹۰۰۰‘ تاراز ۹۶۲۰۰۰ نفوس پر مشتمل ہے۔
ہر صوبے کے گورنر کو صدر مقرر کرتا ہے۔ قازقستان کا صدر مقام پہلے الماتی تھا مگر ۱۰ دسمبر ۱۹۹۷ء کو اسے آستانہ میں منتقل کر دیا گیا۔ روس سے آزاد ہونے والی ریاستوں میں یہ واحد ملک ہے جس نے ۲۰۰۷ء میں آئی ایم ایف کو اپنے تمام قرضے چکا دیے حالانکہ وہ مزید سات سال تک ان قرضوں کو استعمال کر سکتا تھا۔ یہ مالی طرزِ عمل بہت سے ممالک کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ معدنی اور زرعی وسائل پر حکومت کی گرفت مضبوط ہے۔ توانائی کے وسائل بہت زیادہ ہونے کے باعث صنعتی ترقی کے تمام تر امکانات موجود ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں قازقستان میں ۵۱۶۲ ملین ٹن گیس پیدا کی گئی۔ اس ملک کے پاس چار بلین ٹن تیل کے محفوظ ذخائر اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ یہ دنیا کے دس بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
قازقستان کی GDP کا دس فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔ گندم کی پیداوار سے یہ ملک دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ ملک میں زرعی رقبہ ۸۴۶۰۰ مربع کلو میٹر ہے۔ جس میں بہت بڑے بڑے گھاس کے میدان ہیں جو چراگاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں لائیو اسٹاک کے امکانات بہت زیادہ اور روشن ہیں۔ ڈیری کی مصنوعات کے علاوہ چمڑا‘ گوشت اور اون بہت زیادہ ہے۔ فصلوں میں گندم‘ جو‘ کپاس اور چاول زیادہ ہوتے ہیں۔ گندم تو برآمد بھی کی جاتی ہے جس سے خالص زرِ مبادلہ وصول ہوتا ہے۔ ملک میں شراب بھی کثرت سے تیار ہوتی ہے۔ اس دختر رز سے چھٹکارا بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔
قازقستان کو پھلوں کا گھر کہا جاتا ہے۔ سیب تو شاید دنیا میں سب سے پہلے یہیں پر پیدا ہوا۔ الماتی کے معنی ہی ایسی سرزمین کے ہیں جو سیبوں سے لدی ہو۔ سیب کے باغات لگانے کے علاوہ یہ قدرتی طور پر بھی بہت سے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ معدنیات پر توجہ کریں تو دنیا بھر میں یورینیم کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ اسی نسبت سے کرومیم‘ سکہ اور زنک بھی پائے جاتے ہیں۔ جہاں تک کوئلے‘ لوہے اور سونے کا تعلق ہے‘ یہ دنیا کے دس بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ اب تو یہ جواہرات اور ہیرے بھی برآمد کرنے لگا ہے۔ یہ قدرتی گیس اور تیل کے لحاظ سے دنیا کا گیارہویں بڑا ملک قرار دیا جاتا ہے مگر پورے ملک میں صرف تین بڑی ریفائنریز آتی را‘ پاولیوڈار اور شائم کینٹ میں موجود ہیں۔ بہرطور یہ ۱۴۲۶ ملین بیرل تیل اور ۲۳۶۵ کیوبک میٹر گیس سالانہ پیدا کرتا ہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’دعوۃ‘‘ اسلام آباد۔ اکتوبر‘ نومبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply