خواجہ خیرالدین اور احسن منزل

نیو ٹوئنٹی میں میری کوٹھری سے نزدیک ہی خواجہ خیرالدین بھی چار ماہ رہے۔ جدید دور کے تقاضوں سے خائف رجحان، میں نے ان میں بھی دیکھا۔ میں انہیں ذاتی طور پر نہیں جانتا تھا۔ جیل میں ڈالے جانے سے قبل تک میں نے ان کا صرف نام سنا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں ہم اچھے دوست بن گئے۔ وہ بھی خاصے نفاست پسند تھے اور جیل کے گندے ماحول سے پریشان رہا کرتے تھے۔ میری طرح وہ بھی پنیر کھانے کے بہت شوقین تھے اور اسلام کے جواز سے متعلق میرے نظریات سے متفق تھے۔ البتہ اسلام کے بارے میں ان کے خیالات خاصے لگے بندھے اور قدرے فرسودہ تھے۔ تاہم وہ میرے اس نکتے کو سمجھتے تھے کہ اسلام کو جدید فکر کی روشنی میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مذہب کے حوالے سے ان کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ اسلام کے دورِ اول کے بارے میں مجھ سے کہیں زیادہ جانتے تھے۔ اپنی مادری زبان اردو کا ایڈوانٹیج بھی انہیں حاصل تھا، جس کی مدد سے وہ مذہب پر بڑی اور قابل قدر کتب کا مطالعہ کر پائے تھے۔ اردو سے میری شناسائی واجبی سی تھی۔ بہت سے لوگ کسی زبان سے عدم واقفیت کی بنیاد پر اصل کتاب سے زیادہ اس کی شرح سے واقف ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر شہیداللہ مرحوم کا تعلق ایسے ہی گروہ سے تھا۔

خواجہ خیرالدین کا تعلق پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے خانوادے سے تھا۔ خواجہ خیرالدین مشرقی پاکستان میں کونسل مسلم لیگ کے سربراہ بنائے گئے۔ پرانے مکتب فکر کے سیاست دانوں میں ان کا اہم مقام تھا۔ ڈھاکا میں ان کی مقبولیت غیر معمولی تھی اور وہ پارٹی لیبل سے کہیں بلند حیثیت کے حامل تھے۔ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں خواجہ خیرالدین نے شیخ مجیب الرحمٰن کے مرکزی مخالف کا کردار ادا کیا تھا۔ انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، تاہم ان کے حق میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد اس امر کی مظہر تھی کہ ان کے چاہنے والوں کی کچھ کمی نہ تھی۔ لوگ سیاسی وابستگی سے ہٹ کر بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ وہ طویل مدت تک ڈھاکا میونسپلٹی کے وائس چیئرمین رہے اور شہر کو ہر اعتبار سے اس قدر جانتے تھے کہ ۱۹۷۳ء میں یہ خوف محسوس کیا جارہا تھا کہ کہیں وہ عوامی لیگ کے خلاف لوگوں کو متحرک نہ کردیں۔

میں جب نیو ٹوئنٹی بلاک میں آیا تب خواجہ خیرالدین کا مقدمہ شروع ہوچکا تھا۔ انہوں نے مجھے وہ بیان دکھایا جو انہوں نے آئین کے آرٹیکل ۳۴۲ کی روشنی میں تیار کیا تھا۔ میں نے چند ایک نکات کو درست کرنے اور دوبارہ لکھنے کا مشورہ دیا جو انہوں نے بہ خوشی قبول کرلیا۔ یہ ایک جرأت مندانہ بیان تھا اور اس کے لہجے سے مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ اس نوعیت کے بیانات میں جو بڑھکیں اور دعوے شامل ہوا کرتے ہیں، وہ اس بیان میں بھی شامل تھے۔ تاہم جس امر نے اسے ڈاکٹر عبدالمالک اور ان کی کابینہ کے ارکان کے بیانات سے ممتاز بنایا وہ یہ تھا کہ خواجہ خیرالدین نے پاکستان اور اسلام پر اپنے محکم یقین کو چھپایا نہیں تھا اور ۱۹۷۱ء کے تنازع میں اپنے کردار پر پردہ ڈالنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔ خواجہ خیرالدین کا کہنا تھا کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اسی نکتے کی بنیاد پر انہوں نے ایوب خان کی آمریت کی بھی مخالفت کی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی معاملے میں مخالفت کو ملک کے وجود کے لیے خطرہ بننے کی حد تک نہیں لے جانا چاہیے۔ عوامی لیگ کی جانب سے شروع کی جانے والی خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا حوالہ دیتے ہوئے خواجہ خیرالدین نے اپنے بیان میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا ان حالات کی روشنی میں وہ اور عوامی لیگ کی مخالفت کرنے والے دیگر افراد اپنے موقف پر درست ثابت نہیں ہوئے؟

خواجہ خیرالدین نے جب یہ بیان تیار کیا تب انہیں اندازہ نہیں تھا کہ جیل کے باہر لوگوں پر اس کا کیا اثر مرتب ہوگا۔ لوگوں نے بیان کا انداز اور لہجہ تبدیل کرنے پر زور دیا۔ مگر خواجہ خیرالدین نے بیان میں کوئی نرمی پیدا کرنے سے انکار کرتے ہوئے دلیل دی کہ بیان خواہ کیسا ہی (معذرت خواہانہ) ہو، جج کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور پھر وہ اپنے ماضی کی مکمل ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرکے خواہ مخواہ کیوں منافق کا لیبل اپنے وجود پر چسپاں کریں؟ ان کی بات درست ثابت ہوئی۔ ان کے مقدمے کی کارروائی سننے کے لیے عدالت کے باہر ہزاروں افراد جمع ہوئے۔ انہوں نے عوامی لیگ کی کرپشن، جابرانہ و آمرانہ انداز کی حکمرانی اور بدنظمی کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ ہزاروں، لاکھوں دلوں کی آواز تھی۔ ہمیں بتایا جاتا رہا کہ عدالت میں بہت سے اجنبی ان سے ملنے آتے، انہیں بے باکی سے مقدمے کا سامنا کرنے پر مبارک باد دیتے اور جب وہ ظہر کی نماز کے لیے جاتے تو مسجد میں لوگ ان سے ہاتھ ملانے کے لیے جوق در جوق آتے۔

ہمیں جیل کے باہر سیاسی فضا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا کسی نہ کسی طرح علم ہوتا رہا۔ خواجہ خیرالدین کے مقدمے سے اندازہ ہوا کہ عوامی لیگ کے خلاف فضا تیار ہو رہی تھی۔ یہ خاصی حیرت انگیز بات تھی۔ کیا لوگ سونار بنگلہ کے تصور سے اس قدر جلد اکتا گئے تھے؟ خواجہ خیرالدین کے عدالتی بیان کو غیر معمولی بے باکی فراہم کرنے میں مرکزی کردار اس حقیقت نے ادا کیا کہ وہ مقدمے کی کارروائی کو ذرّہ بھر اہمیت دینے کو تیار نہ تھے۔ اس امر کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ عدالت انہیں بیس سال تک قید کی سزا سنائے گی۔ اس صورت حال میں بھی انہوں نے حس مزاح سے محروم ہونے کا اشارہ نہیں دیا۔ وہ جیل کے کھانے اور دیگر ’’سہولتوں‘‘ کے بارے میں تفنن طبع سے چوکتے نہیں تھے۔ میں اس بات سے بہت متاثر ہوا کہ خواجہ خیرالدین عدالت میں وکلاء کی جرح اور جج کے ریمارکس سے ذرا بھی دل برداشتہ نہیں ہوتے تھے اور مزاج کی شگفتگی کو داؤ پر نہیں لگنے دیتے تھے۔

خواجہ خیرالدین بہت ہنس مکھ اور زندہ دل انسان تھے۔ وہ اچھا کھانا اور اچھی سنگت پسند کرتے تھے۔ انہیں باتیں کرنا اور جلد بے تکلف ہو جانا پسند تھا۔ وہ اجداد کے بارے میں بہت فخر سے بتایا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پیدائشی سیاست دان ہیں اور جو کچھ انہیں اپنے بزرگوں سے ملا، شاید ہی کسی کو ملا ہو۔ وہ اپنے آپ کو فطری طور پر اشرافیہ میں شمار کرتے تھے۔ میرا خیال یہ ہے کہ شائستگی اور کردار کی بلندی کے باوجود، جو ان کی اعلیٰ پرورش و نگہداشت کا مظہر تھی، وہ کمتر خاندانی پس منظر والوں کو قدرے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ اپنے خاندان کی دولت کے بارے میں بھی بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ کس طرح انیسویں اور بیسویں صدی میں یہ خاندان غیر معمولی سیاسی حیثیت کا مالک اور دولت مند رہا۔ اس سے بھی زیادہ فخر کے ساتھ وہ اپنے والد کے بارے میں بتاتے تھے، اور یہ بتاتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے تھے کہ وہ شراب اور شباب کے رسیا تھے۔ خواجہ خیرالدین کی نظر میں اہل ثروت میں شراب و شباب کے رسیا ہونے کی عادت پر صرف حقیقی مفلس ہی اعتراض کرسکتے تھے۔ اپنے بارے میں وہ پارسائی کا اعلان کرتے ہوئے کہتے کہ اپنی بیوی کے سوا انہوں نے کسی غیر عورت سے تعلق نہیں رکھا۔

میں خواجہ خیرالدین کی باتیں بہت شوق اور توجہ سے سنتا تھا اور اپنے ذہن میں ان کا قد کاٹھ متعین کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ بائیں بازو کے لوگ طبقاتی فرق پر یقین نہیں رکھتے اور کسی کو پیدائشی طور پر کسی چیز کا حق دار نہیں مانتے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ خواجہ خیرالدین جیسے لوگوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ پیدائشی طور پر کچھ نہ کچھ فائدہ تو انسان کو ملتا ہی ہے۔ جو لوگ انہیں طویل مدت سے جانتے تھے، ان کی نظر میں وہ بہترین قائد تھے۔ اس نوعیت کی فوقیت ہی کا ان کے اجداد نے فائدہ اٹھایا تھا۔ اس خاندان سے سیاست میں جانے والوں میں سے تین اصحاب نے خاصا نام کمایا۔ ان میں خواجہ سلیم اللہ، خواجہ ناظم الدین اور خواجہ شہاب الدین شامل تھے۔

۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کے قیام میں ڈھاکا کے نواب سلیم اللہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ کلکتہ کے ہندوؤں کے زیر نگیں رہ کر بنگال کے مسلمان کبھی ترقی نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے مشرقی بنگال اور آسام کے صوبے کے لیے آواز بلند کی۔ خواجہ ناظم الدین نے اچھی تعلیم پائی تھی اور شبانہ روز محنت سے میونسپل سیاست کی سطح پر نمودار ہوئے۔ کبھی کبھی لوگ سیاسی اعتبار سے انہیں اوسط درجے کا لیڈر قرار دے بیٹھتے تھے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کی اہلیت اور ایمانداری پر انگلی اٹھائے۔ ان کے بھائی خواجہ شہاب الدین نے شاید ہی رسمی تعلیم پائی ہو۔ وہ صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کے گورنر بنے۔ یہ گویا میرٹ کا خون تھا۔ خواجہ شہاب الدین کا شمار ملک کے چالاک ترین افراد میں ہوتا تھا۔ ان کے خاندان سے سید عبدالسلیم، سید عبدالحافظ، خواجہ نصراللہ، کالو میاں صاحب اور نواب حبیب اللہ پیدائشی حق کو بنیاد بناکر سیاست پر چھائے رہے۔ ان کے منصوبوں اور حالات سے فائدہ اٹھانے کی ان کی صلاحیت نے بہت سے باصلاحیت افراد کو سیاست میں حصہ لینے اور حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بننے کا موقع فراہم کیا۔ یہ بات اس زمانے کی ہے جب حقِ رائے دہی (’’بنیادی جمہوریت‘‘ یا Basic Democracy System کی بنا پر) محدود تھا۔ بیشتر حلقے دراصل جیبی حلقے تھے۔ صوبے میں طاقتور ترین گروپ جسے چاہتا تھا اسی کا انتخاب عمل میں آتا تھا۔

۱۹۳۵ء میں احسن منزل کے لیے (جس سے خواجہ خیرالدین فیملی کا تعلق تھا) خطرناک صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب اشرافیہ کے مخصوص حلقے سے باہر کے لوگ بھی سیاست میں اعلیٰ منصب پر پہنچنے لگے۔ ۱۹۳۵ء کے انتخابات میں اے کے فضل الحق کے ہاتھوں خواجہ ناطم الدین کی شکست نے یہ ثابت کردیا کہ اب عوام کے رجحانات میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ ۱۹۵۴ء میں خواجہ ناظم الدین کے خاندان کو زبردست سیاسی تباہی کا سامنا کرنا پڑا جب مسلم لیگ کا صفایا ہوگیا۔ یہ خاندان حکمراں اتحاد یونائٹیڈ فرنٹ کا حصہ نہیں تھا، تاہم انفرادی حیثیت میں چند افراد نے سیاست میں اپنا اثر و رسوخ جاری رکھا۔ خواجہ شہاب الدین نے ایوب خان کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی اور جب ایوب خان کی بنائی ہوئی کنونشن مسلم لیگ کے مقابل سیاسی اتحاد قائم کرنے کا مرحلہ آیا تو خواجہ ناظم الدین کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا۔

پورے صوبے میں سیاسی سطح پر جو کچھ بھی رونما ہو رہا تھا اس سے قطع نظر، ڈھاکا میں احسن منزل (نواب سلیم اللہ کا محل)، جہاں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، کی پوزیشن بہت مضبوط تھی اور خواجہ ناظم الدین اور شیخ مجیب الرحمٰن کے درمیان سخت مقابلہ متوقع تھا۔ جیت شیخ مجیب الرحمٰن کے حصے میں آتو گئی، مگر اکثریت نے اس فتح پر شکوک کا اظہار کیا۔ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ عوامی لیگ نے کھل کر لوگوں کو ڈرایا دھمکایا تھا۔ بوگس ووٹ بھی کاسٹ کیے گئے تھے۔ دھاندلی تو خیر پورے مشرقی پاکستان میں ہوئی تھی۔ اب خواجہ خیرالدین کے مقدمے سے اندازہ ہوتا تھا کہ بنگلہ دیش کے قیام کا سہرا اپنے سر باندھنے والی جماعت کی مقبولیت میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی تھی۔ ایسے میں خواجہ خیرالدین کا سیاسی خانوادہ ایک بار پھر سیاسی افق پر ابھر رہا تھا۔

سوال یہ تھا کہ خواجہ خیرالدین اور ان کے خاندان کی مقبولیت میں دوبارہ اضافہ اصولوں کی بنیاد پر تھا یا پھر ان کی جانب سے لوگوں پر کیے جانے والے احسانات کا نتیجہ؟ ایک طرف تو خواجہ خیرالدین اور ان کے خاندان کے لوگوں کا یہ سیاسی عقیدہ تھا کہ پاکستان کا قیام پورے خطے کے مسلمانوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہ تھا جس کی حفاظت کرنے میں وہ ناکام رہے۔ اس پس منظر میں آج (۱۹۷۳ء میں) یقینا رائے عامہ اس نقطہ نظر کی طرف دوبارہ جارہی تھی۔ مگر دوسری طرف معاملہ یہ بھی تھا کہ اب یہی لوگ سیاسی یا حکومتی امور میں پرانے دَور کی سرپرستی اور چند سیاسی خاندانوں کے واضح اثر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ لوگ وسیع البنیاد جمہوریت چاہتے تھے جس میں معاشرے کے تمام طبقات سے نمائندے شامل ہوں اور حکومت کی بنیاد وسیع ہو۔ اس تصور کی خود خواجہ خیرالدین بھی کسی حد تک حمایت کرتے تھے۔

کبھی کبھی خواجہ خیرالدین یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے تھے کہ جدید معاشی نظریات غلط ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ طویل مدت تک میونسپلٹی کی سطح پر سیاست سے وابستہ رہے تھے اور بیشتر کاروباری امور سے واقف ہونے کی بدولت اچھی طرح جانتے تھے کہ معاشی ڈھانچا کس طرح کام کرتا ہے۔ مگر مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا (اور ہوسکتا ہے کہ میری رائے غلط ہو) کہ وہ جدید معاشی نظریات کو اچھی طرح سمجھنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ وہ معیار (Merit)کے مطالبے یا سوشل ازم کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایسا کہتے تھے۔ وہ انصاف کے اسلامی اصولوں کی بات کرتے تھے اور اس سلسلے میں خلافت راشدہ کے زمانے سے بہت سی مثالیں دیا کرتے تھے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں مولانا نورالزماں کی طرح وہ بھی ٹھوس نظریات کے حامل نہ تھے اور جدید دور میں اسلامی اصولوں کے نفاذ یا انطباق کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے قاصر تھے۔ معاشی ناہمواری اور استحصال کے خلاف بولتے وقت وہ قرآن کی آیات اور احادیث کے حوالے دل کھول کر دیا کرتے تھے۔ یہ اچھی بات تھی۔ تاہم جدید دور میں اسلامی اصولوں کو کس طور متعارف کرایا جاسکتا ہے، اس حوالے سے وہ کچھ بھی کہنے سے قاصر تھے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق معاشرے کی سیاسی اور معاشی تعمیرنو کا تصور بہت اچھا ہے، مگر بات تو جب ہے کہ اس کی تفصیلات بھی بیان کی جائیں اور تمام جزئیات کا جائزہ لے کر ٹھوس دلائل پیش کیے جائیں۔

مولانا نورالزماں تو خیر جدید نظریات سے مکمل طور پر ناواقف تھے، خواجہ خیرالدین کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ ایک بار لفظ حق پر قرآن کے حوالے سے بحث ہوئی۔ میں نے کہا کہ اللہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے ارد گرد موجود تمام سچائیوں کا جائزہ لیں اور انہیں اپنی عقل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ مولانا نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ میرے نزدیک اللہ کے کلام سے بڑھ کر عقل ہے۔ وہ بہ ضد ہوئے کہ حق ہر حال میں حق رہتا ہے، اپنے درجے سے کم نہیں ہو پاتا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ عقل ہر حال میں ایمان یا عقیدے سے فروتر ہے۔ اس لیے جب بھی ایمان اور عقل میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کا معاملہ درپیش ہو تو انسان کو چاہیے کہ عقیدے اور ایمان کو ترجیح دے۔ بحث کے دوران مولانا نور الزماں کا لہجہ تلخ تر ہوتا گیا اور میں نے محسوس کیا کہ میں نے چند باتیں ایسی کہہ دی ہیں جو انہیں بری لگی ہیں۔ ایسے میں بحث جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ خواجہ خیرالدین بھی یہ بحث سن رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے جو چند الفاظ استعمال کیے، ان سے اندازہ ہوا کہ مولانا نورالزماں کے مقابلے میں وہ جدید فکر سے خاصے واقف تھے۔

ایک دن گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ خواجہ خیرالدین اشتراکیت پر تنقید تو بہت کرتے تھے، لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی۔ میں نے انہیں کریو ہنٹ کی کتاب ’’تھیوری اینڈ پریکٹس آف کمیونزم‘‘ پڑھنے کی تحریک دی۔ یہ کتاب جیل میں موجود تھی۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بہت عمدہ تھی جو اشتراکیت کا مطالعہ غیر جانبدار نقطہ نگاہ سے کرنا چاہتے تھے اور اس خوف کے بغیر کہ کہیں وہ اس نظریے کو گلے نہ لگا بیٹھیں۔ اس کتاب میں اشتراکیت کے حق میں اور خلاف دلائل کو جمع کردیا گیا تھا۔ اگر مولانا نورالزماں کو اس کتاب کے پڑھنے کی تحریک دی جاتی تھی تو وہ اسے وقت ضائع کرنے کا ایک طریقہ گردانتے!

سیاست دان کی حیثیت سے خواجہ خیرالدین کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ وہ بنگلہ زبان پر عبور نہیں رکھتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بنگالی جانتے ہی نہیں تھے، بلکہ وہ روانی سے بنگلہ بولتے بھی تھے۔ تاہم وہ ڈھاکا کی مقامی بولی تھی، لکھنے والی زبان نہیں تھی۔ وہ بنگالی پڑھ بھی نہیں پاتے تھے۔ البتہ جب کتب و جرائد پڑھ کر سنائے جاتے تھے وہ سمجھ ضرور لیتے تھے۔ جس علاقے میں ۹۵ فیصد افراد بنگالی بولتے تھے، وہاں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے رہنما بنگلہ زبان ہی سے ناواقف ہوں، یہ بڑی عجیب بات تھی۔ خواجہ خیرالدین، خواجہ شہاب الدین اور ڈھاکا کی ’’اَحسن منزل‘‘ خاندان کے دیگر حضرات نے بنگلہ زبان پر عبور حاصل کرنے کی کوئی پروا ہی نہیں کی۔ عوامی لیگ نے اس کمزوری کو بھی عمدگی سے اپنے دلائل درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا۔ جب مشرقی پاکستان میں زبان کی بنیاد پر قوم پرستی کی تحریک چلائی گئی تو ان کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے خواجہ خیرالدین اور ان کے خاندان کو اردو سامراج کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔

حسین شہید سہر وردی کو خواجہ ناظم الدین یا خواجہ خیرالدین سے بھی کم بنگالی آتی تھی۔ مگر چونکہ وہ ذہین انسان تھے، اس لیے انہوں نے زبان کے معاملے میں اپنا دامن بچالیا۔ ان کی کامیابی یہ ہے کہ بہتوں کو آج یہ بھی یاد نہیں کہ حسین شہید سہروردی اس علاقائی زبان سے خاصے نابلد تھے!

خواجہ خیر الدین اور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے سیاست میں گہری جڑیں رکھنے کے باوجود بنگالی کو نہیں اپنایا تھا، تو اس سے ان کی تنگ نظری اور زبان سے متعلق مخاصمانہ رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب موجودہ بنگلہ دیش کے بیشتر حصوں میں اردو کو ایک ثقافتی یادگار کی حیثیت سے اپنانے پر زور دیا جاتا تھا اور مرشد آباد (کلکتہ) اور ڈھاکا میں اردو بولنے والے معقول تعداد میں رہتے تھے۔ مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مشرقی بنگال میں صدیوں سے بنگالی زبان موجود اور متحرک رہی ہے اور یہ اکثریت کی زبان ہے۔ جو سیاست دان عوام کے دکھ درد کو بنیاد بناکر اپنی بات کہتا ہو، وہ زبان جیسی اہم حقیقت کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے؟ انیسویں صدی میں اور اس کے بعد نواب سلیم اللہ تک، سیاست اشرافیہ کا معاملہ تھی۔ معاشرے کے منتخب افراد ہی حکمرانی کے بارے میں سوچ سکتے تھے۔ عوام کی نظر میں وہ دیوتا کا سا درجہ رکھتے تھے۔ اس بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی کہ وہ کون سی زبان بولتے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں معاشرے کی باگ ڈور تھی، وہ اپنی مرضی سے کسی بھی زبان کو اپنا سکتے تھے اور لوگ ان کے نقش قدم پر چلتے تھے۔ مگر جب سیاسی قائدین کے لیے مختلف امور پر عوامی حمایت کے حصول کا مسئلہ کھڑا ہوا، تب زبان کی اہمیت بھی اجاگر ہوئی۔ سیاست دانوں کے لیے لازم ہوگیا کہ جن لوگوں سے مخاطب ہو رہے ہیں، ان کی زبان بھی اپنائیں۔ اگر آپ سیاست دان کی حیثیت سے عوام سے قریبی رابطہ رکھنا چاہتے ہیں تو ترجمان کے ذریعے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ عوام کی زبان سے واقفیت کی صورت میں آپ اپنا مافی الضمیر بہتر انداز سے بیان کرسکتے ہیں اور اپنی بات دوسروں تک آسانی پہنچا سکتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر یا قائد اعظم کا تعلق چونکہ بنگال سے نہیں تھا، اس لیے لوگوں نے انہیں رعایت دی۔ مگر کوئی مقامی لیڈر کس طور یہ دعویٰ کرسکتا تھا کہ وہ عوام کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہے جبکہ وہ مقامی زبان ہی نہ جانتا ہو؟

یہ سمجھنا حماقت پر مبنی ہوگا کہ احسن منزل کے رہنے والے زبان کی اہمیت کو سمجھتے ہی نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں میں اردو رابطے کی زبان رہی ہے اور خواجہ خیرالدین کے خاندان کو بھی اندازہ ہوگا کہ وہ اردو پر کسی اور زبان کو اہمیت نہیں دے سکتے، اور اس لیے بنگالی زبان کبھی وہ مقام نہیں پاسکتی جو اردو کو مل چکا ہے۔ انیسویں صدی میں تو خیر یہ سوچ درست تھی، تاہم بیسویں صدی کے آخری عشروں میں مشرقی پاکستان میں ایسی سوچ کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ مشرقی پاکستان میں لسانی تحریک کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ بنگلہ کو یکسر نظر انداز کیے جانے ہی سے خرابی پیدا ہوئی اور مقامی زبان کی اہمیت کے عدم احساس نے ہی وہ خطرناک صورتحال پیدا کی جو اب سب کے سامنے عیاں ہے۔

جیل میں بھی خواجہ خیرالدین نے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ مشرقی پاکستان کے المیے میں زبان کے کردار کو کچھ اہم گردانتے تھے۔ وہ کبھی کبھی بنگالی میں کچھ مہارت پیدا کرنے کی بات ضرور کرتے تھے، مگر کسی بھی مرحلے پر انہوں نے مشرقی پاکستان کے حالات کی ذمہ داری لسانی مسئلے پر ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کبھی کبھی شدید مایوسی کے عالم میں پاکستان ہجرت کرنے کی بات کیا کرتے تھے، مگر ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جڑیں ڈھاکا میں ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں مستقل رہائش اختیار کرنا ان کے لیے آسان نہ ہوگا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ اس خطے میں ذمہ دار افراد جو کچھ کر دکھانا چاہتے تھے، اس کے لیے انہیں مقامی زبان میں پوری مہارت ہونی چاہیے تھی۔

بہر کیف، ان چند کمزوریوں کے باوجود، خواجہ خیرالدین ہی اُن بچے کھچے لوگوں میں سے ایک تھے جو اپنی شخصیت اور اپنے تصورات کی بناء پر، معاشرہ کو انارکی اور نراجیت سے بچا سکتے تھے اور جن کے گرد شیخ مجیب الرحمن کے مخالف لوگ اکٹھا ہو سکتے تھے۔

(کتاب “The Wastes of Time” کا اردو ایڈیشن ’’شکستِ آرزو‘‘ ان شاء اللہ جلد دستیاب ہوگا)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*