
علم ایک نور ہے جس کی بدولت انسان نہ صرف معروضی اشیاء کا مشاہدہ کرتا ہے بلکہ وہ اس کی باطنی دنیا کو روشن کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ علم انسان کو ایک ایسی نظر عطا کرتا ہے جس کے ذریعے سے وہ خود کو پہچان سکتاہے اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کا بغور جائزہ لے سکتا ہے جو زمانوں سے ایک باقاعدہ نظام کے تحت مصروف عمل ہے اور اس میں ذرا برابر فرق بھی نہیں آیا۔ کائنات کے نظام پر غور کرنے سے انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے اورنہ محض ایک کھیل تماشا ہے بلکہ اس نظام کے پیچھے ایک زبردست قوت موجود ہے جو عظیم بھی ہے اور خبیر بھی۔
کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے انسان نے بہت سے راستے تلاش کیے۔ خوب سے خوب تر کی یہ جستجو ابھی تک جاری ہے اور پھر اس سلسلے کی ہر ایک کوشش ایک علیحدہ دنیائے علم کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے۔ چنانچہ سائنسی علوم ہوں یا عمرانی علوم‘ دینی علوم ہوں کہ روحانی علوم سب اتنے پھیل گئے ہیں کہ ان کی فہرست مرتب کرتے ہوئے بھی بندہ چکرا جاتا ہے۔
علم انسان کو صراط مستقیم کی طرف کھینچتا ہے اور جہالت کی تاریک کھائیوں میں گرنے سے بچاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کلام پاک کے ذریعے سے علم کی اہمیت اجاگر کی ہے اور اس کے حصول پر زور دیا ہے۔قرآن پاک میں جہاں جہاں علم کا ذکر آیا ہے وہاں علم کے ساتھ ساتھ تربیت ‘ تزکیہ نفس‘ دانائی اور حکمت کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس سلسلہ کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
۱۔ اے پروردگار مجھے مزید عطا کرو۔
۲۔ جب موسیٰ ؑمکمل عنوان شباب کو پہنچا تو ہم نے اسے حکم اور علم عطا کیا۔
۳۔ اور ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھتے ہیں۔
۴۔ اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔
۵۔ پوچھیے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟
۶۔ پڑھ اپنے رب کے نام سے۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی علم کی اہمیت واضح کی گئی ہے اور اس کے حصول کی تاکید کی گئی ہے۔ چند مشہور مثالیں درج ذیل ہیں:
۱۔ علم حاصل کرنا تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر فرض ہے۔
۲۔ مہد سے لحد تک علم حاصل کرو۔
۳۔ عالم کے قلم کی روشنائی شہید کے خون سے قیمتی ہے۔
آیات و احادیث کی ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ علم کے بغیر ایک شخص نیک و بد میں فرق نہیں کرسکتا۔
خوشحال خان خٹک خود بھی ایک بلند پایہ عالم تھے اور اپنے وقت کے ممتاز علماء کے ساتھ محبت رکھتے تھے۔ اس لیے وہ علم کی اہمیت جانتے تھے۔ خوشحال نے شعر کی زبان میں بھی علم کی اہمیت اور افادیت بیان کی ہے اور نثر میں بھی علم کی فضلیت پر روشنی ڈالی ہے۔ کہتے ہیں:
’’علم تجھے بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے اور جہل تجھے پستیوں کی طرف دھکیلتا ہے۔ یا تو تم عیسیٰ ؑ کی طرف چلے جاؤ یا خود کو قارون کے حوالے کردو۔ جو بندہ علم و فضل حاصل کیے بغیر تخت شاہی پر بیٹھ جاتا ہے وہ ایک ریچھ کی مانند ہے یا بھیڑیا ہے یا اسے ایک جانور سمجھ لیجیے‘‘۔
’’جس چیز سے روحانی خوشی ملتی ہے اسے اعلیٰ سمجھو۔ علم حاصل کرو کہ علم اژدہا بھی ہی اور عصا بھی۔ حقیقی لذت یا تو علم میں ہے یا عشق الٰہی میں‘‘۔
’’علم کی بڑی فضلیت ہے اور ہنر کی بھی۔ کثرت اولاد بھی باعث فضلیت ہے اور کثر مال بھی‘‘۔
ایک اور موقع پر علم کی فضلیت یوں بیان کرتے ہیں:
’’علم سیکھنا مردوں اور عورتوں پر فرض ہے بلکہ قرض ہے۔ جو علم کی طلب کرتا ہے اس پر صد رحمت ہو۔علم عبادت ہے جتنا ہوسکے علم حاصل کرو کیونکہ علم عین سعادت ہے۔ عالم کی صحبت میں ایک گھنٹہ بیٹھنا عام لوگوں کی صحبت میں پہروں بیٹھنے سے بدرجہابہتر ہے۔ جب کوئی علم کی طلب میں نکلتا ہے خواہ دن ہو یا رات اسے قدم قدم پر ثواب ملتا ہے اگر کوئی مکہ سے واپس گھر آتا ہے ایسی حالت میں کہ ایک دینی مسئلہ سیکھ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو بخش دے گا۔ ہزار رکعت نفل سے ایک مسئلہ نقل کرنا افضل ہے۔ جس گاؤں میں عالم نہ ہو اسے گرادینا چاہیے۔ میرے فرزند! عالم کا مرتبہ شہید سے افضل ہے۔ علم کی فضلیت بہت زیادہ ہے اس کاکوئی حساب نہیں۔ شرعی نظام جو کچھ بھی ہے علم کا مرہون منت ہے‘ حلال ہو کہ حرام علم دونوں کا فرق بیان کرتا ہے گفت ہے کہ شنید ‘ آمدورفت ہے کہ نشست و برخاست‘ خوردونوش ہے یا کہ آنکھوں سے نظارہ کرنا‘ سجدہ ہے یا اطاعت و عبادت ‘ ادب ہے یا خدمت یا اس طرح کے اور کام یہ سب علم کے بغیرممکن نہیں۔بغیر علم کے اطاعت و عبادت ہزاربار کیوں نہ ہو قبول نہیں ہوتی۔ جو بے علم بندہ کسی مسئلے پر بحث کرتا ہے تو گویا وہ اپنے لیے خطرے کا باعث ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوجائے تو پھر دل علم کا مسکن بن جاتا ہے۔
خوشحال خان خٹک نے شعر کے علاوہ نثر میں بھی علم کے بارے میں اپنے عالمانہ خیالات کا اظہار کیا ہے اور علم کی فضلیت واضح کی ہے کہتے ہیں:
’’علم کے لغوی معنی سیکھنے کے ہیں۔ بہرحال اب اصطلاحاً عربی و فارسی وغیر کے علوم کا حصول جو چودہ علوم پر مشتمل ہیں‘ علم کہا جاتا ہے۔ جو کوئی بھی یہ علم حاصل کرلیتا ہے اور تمام علوم سیکھ لیتا ہے اسے دانشمند ‘ فقیہہ ‘ فاضل ‘ عالم اور ملا کہا جاتا ہے۔ وہ جس کا اپنے زمانے میں ان علوم میں کوئی ثانی نہ ہو اسے عالم العلماء کہا جاتا ہے‘ مخدوم الملک کہا جاتا ہے۔ علم اللہ تعالیٰ کی دین ہے اور لامتناہی فیض‘ دونوں جہانوں کی فضلیت علم میں ہے۔ خدا کی پہچان جو دونوں جہانوں کا سرمایۂ سعادت ہے علم میں مضمر ہے۔
آگے لکھتے ہیں۔ ’’علم اور فضلیت حاصل کرنے کی سعی کیجیے کیوں کہ دولت اور فضلیت کا رشتہ گویا برادرانِ توام کا رشتہ ہوتا ہے۔ بادشاہ بھی صاحبانِ علم و فضلیت کے محتاج ہوتے ہیں۔ ہر ایک شے میں اچھائی اور برائی دونوں پائی جاتی ہیں۔ آدمی کا کمال علم اور فضلیت میں مضمر ہے بشرطیکہ اسے حاصل کرلے۔ اگر اس نے حاصل کیا تو کمال حاصل کیا بصورت دیگر نقصان میں رہا۔
خوشحال خان خٹک کی نظم و نثر سے یہ اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بہت سی فضیلتوں سے نوازا تھا۔
خوشحال کے آباؤ اجداد مغلوں کے منصب دار تھے مگر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ خوشحال سے قبل اس خاندان میں کسی نے علم حاصل نہیں کیا تھا مگر خوشحال کے آثار یہ بتاتے ہیں کہ اس نے کافی علم حاصل کیا تھا مگر کہاں سے؟ اگرچہ ہمارے پاس اس کی کوئی معتبر سند نہیں ہے تاہم خوشحال نے دستار نامے میں اپنے دو اساتذہ حضرت اویس صدیقی ملتانی اور مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی کا ذکرکیا ہے جو اپنے زمانے کے مشہور و معروف عالم تھے۔
جب بھی خوشحال اور اس کی اولاد کی تعلیم و تربیت کا ذکر کیا جاتا ہے تو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمیں حالات و واقعات کو اس دور کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مغلوں کا دورِ حکومت اگرچہ پشتونوں کے لیے سیاسی طور پر خوش آئند نہیں تھا مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مغل حکمران علم و فنون اور علم و حکمت کے دلدادہ تھے۔ ہمایوں نے جتنا بڑا کتب خانہ بنایاتھا وہ اس کی علم دوستی اور ذوق مطالعہ کا مظہر تھا۔ آخر اس کی موت بھی اسی کتب خانے کی سیڑھیوں سے پھسل کر واقع ہوئی۔
ان دنوں نہ تو موجودہ دور کے مدارس او رکالجوں کی طرح ادارے تھے اورنہ یونیورسٹیاں تھیں۔ البتہ بڑی بڑی مسجدوں کو علمی درسگاہوں کی حیثیت حاصل تھی جہاں اساتذہ اور مذہبی عالم طالب علموں کو درس دیا کرتے تھے ۔ ان اساتذہ اور طلبہ کی ضروریات زندگی یا تو حکومت وقت وظائف کی شکل میں پورا کرتی تھی یا ادارے کو وقف جاگیر کی آمدن سے ان کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں یا اہل ثروت رؤسا ‘ خواتین اور نواب ادارے کے اخراجات برداشت کرتے تھے البتہ وہ معلمین جن کی مالی حیثیت تسلی بخش ہوتی تھی وہ کسی معاوضے کے بغیر علم کی روشنی پھیلانے میں مصروف رہتے ان مدارس میں کچھ تو اقامتی ہوتے تھے اور کچھ غیر اقامتی۔
درس و تدریس کے طریقے بھی روایتی قسم کے تھے۔ استاد کسی تخت پر بیٹھ کر ایک علمی مسئلے یا دینی موضوع کی تشریح کرتا۔ شادگرد استاد کی تقریر توجہ سے سنتے ۔ باقاعدہ شاگردوں کے علاوہ علم کے دیگر شائقین کو بھی استاد کے درس میں بیٹھنے کی اجازت ہوتی۔ تقریر کے اختتام پر سوال و جواب کا وقفہ ہوتا۔ان دنوں عصر حاضر کی طرح امتحانی نظام نہیں تھا اور نہ ان کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔ جب بھی طلبہ کا ایک گروہ مجوزہ نصاب پر عبور حاصل کرلیتا تھا اور اساتذہ کو تشفی ہوجاتی کہ اب وہ اس قابل ہیں کہ انہیں فارغ التحصیل قرار دیا جائے تب ان کی دستار بندی کی جاتی‘ فارغ شدہ طلبہ کسی بھی دینی درسگاہ میں معلمی کا فریضہ ادا کرنے کے مجاز ہوتے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ خوشحال نے بھی ان روایتی طریقوں سے تعلیم حاصل کی ہوگی۔ ان دنوں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ جاگیردار‘ خوانین اور متمول لوگ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام اپنے گھروں پر کرتے اور ان کے لیے باقاعدہ اتالیق مقرر کرتے۔ چونکہ خوشحال کے آباؤ اجداد صاحب حیثیت لوگ تھے اس لیے ممکن ہے کہ خوشحال کی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی ہو۔ خوشحال کے افکار سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تعلیم ہر ایک انسان کا حق ہے یہاں تک کہ غلاموں کے لیے بھی تعلیم و تربیت ضروری سمجھتے ہیں۔
دنیا میں تعلیم و تربیت کے جتنے بھی ادارے قائم ہوئے ہیں یا مستقبل میں بنیں گے ان اداروں کے قیام کا مقصد بالکل واضح ہے وہ یہ کہ ان اداروں میں آنے والے طلبہ و طالبات کو اساتذہ اور علماء پڑھائیں گے اور ان کی تربیت کریں گے۔ ظاہر ہے کہ ان اداروں میں دو طبقے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں اول اساتذہ‘ دوم تلامذہ‘ اس قسم کے تمام تعلیمی و تربیتی ادارے ان دو طبقوں کے لیے قائم ہیں۔ استاد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پوری محنت سے اپنے شاگردوں کی رہنمائی کرے اور شاگرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پورے لگن اور عقیدت و احترام کے ساتھ اساتذہ کے آگے زانوے تلمذ تہہ کرتے ہوئے کچھ سیکھے گا۔ اور اگر ان میں سے دونوں یا کوئی ایک اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا تو تعلیم کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں حکومت وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اساتذہ اور طلبہ کے لیے ایسی خوشگوار تعلیمی فضا مہیا کرے کہ وہ اطمینان کے ساتھ درس و تدریس کا وظیفہ پایہ تکمیل کو پہنچائیں۔ حکومت وقت اساتذہ اور طلبہ کی ضروریات کا خیال رکھے تاکہ وہ فقط اپنے کام پر توجہ دے سکیں۔
مختلف ادوار میں کبھی تو تعلیم و تدریس کے حوالے سے استاد کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اور کبھی طالب علم کو ۔ جو بھی ہو اور جیسی بھی ہو مگر طلبہ اور طالبات کی چوطرفہ تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کی عمر‘ خواہشات‘ ماحول اور پسند کا خیال رکھا جائے۔ جس طالب علم کی صحیح جسمانی‘ ذہنی‘ روحانی اور اخلاقی تربیت کی جائے وہ صحیح معنوں میں معاشرے کا ایک کامیاب شہری بن سکتا ہے۔ ایسا طالب علم خود اعتمادی اور مستقل مزاجی کے اوصاف سے متصف ہوتا ہے۔ وہ صاحب کردار بھی ہوتا ہے اور سخت کوش بھی۔ ایسا انسان کسی قسم کی ذمہ داری سے نہیں گھبراتا بلکہ ہر مصیبت کو للکارتا ہے۔
خوشحال نے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ بچے کو تعلیم دینے کے بارے میں کہتے ہیں:
’’جب بچہ پہلی بار درس کے لیے استاد کے ہاں جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے والدین کو بخش دیتا ہے‘‘ معلم کو چاہیے کہ بچے کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئے تاکہ اس کا دل پڑھنے سے بیزار نہ ہو۔ جس طرح بچہ چاہے معلم اسی طرح کرے۔ اگربچہ عالی فطرت ہو تو سات سال تک پڑھنے کے قابل ہوجائے گا۔
خوشحال نہ صرف بیٹوں یعنی لڑکوں کے لیے تعلیم و تربیت ضروری سمجھتا ہے بلکہ بیٹیوں یعنی لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم و تربیت لازمی سمجھتا ہے۔ اس زمانے میں پشتونوں کے معاشرے میں یہ پہلا باپ دکھائی دیتا ہے جو بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اتنی سنجیدہ سوچ رکھتا تھا اور جس نے بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے علیحدہ نصاب مرتب کیا کیونکہ اس تربیت کی تکمیل کے بعد ایک لڑکی مستقبل کی پیار کرنے والی‘ ذمہ دار اور ہوشیار ماں بن جائے گی کہتے ہیں’’جس طرح بیٹے کی تربیت لازمی ہے اور اس کے ساتھ پیار کرنا چاہیے اسی طرح بیٹی کے ساتھ بھی پیار کیا جائے‘ بلکہ بیٹیاں زیادہ حقدار ہیں۔ بچپن کی تربیت کے مراحل جس طرح لڑکے کے ہونے چاہئیں اسی طرح لڑکی کے بھی ہونے چاہئیں البتہ بیٹے کے مقابل میں بیٹی کو زیادہ نازو نعم میں پالنا چاہیے۔
’’بچپن سے حد بلوغت تک بچے کو زیادہ نازو نعم میں نہ رکھاجائے۔ اسے قیمتی پوشاک سے باز رہنے کی ترغیب دی جائے کیونکہ مردوں کا اچھے لباس سے کیا کام؟ یہ تو عورتوں کا شیوہ ہے۔ اسے ان فنون کے سیکھنے کی طرف راغب کیا جائے جو مردوں کے لیے باعث کمال ہوں۔ اسے ناپسندیدہ عادات اور ناشائستہ نشست و برخاست وغیرہ سے باز رہنے کی تلقین کی جانی چاہیے۔ خاموشی اور اخفائے راز جیسی عادات کی تعریف کی جائے۔ برے لوگوں کی صحبت سے گریز کرنے کی تلقین کی جائے۔بچے کاذہن کورے کاغذ کی طرح سفید ہوتا ہے جو کچھ اس پر لکھا جائے وہی حروف اس پر منقش ہوتے ہیں اگر اس پر برے لوگوں کی صحبت کا اثر ہوجائے تو ان کا ہی ہوکر رہ جاتا ہے اور اگر ان پر نیک لوگوں کی صحبت کا اثر ہوجائے تو نیک بن جاتا ہے۔
اس سلسلے میں آگے لکھتے ہیں:
’’بچے کو ہمیشہ لذیذ طعام کا عادی نہیں بنانا چاہیے۔ کبھی کبھی اسے روکی سوکھی بھی کھلانی چاہیے۔ اس کے لیے دھوپ اور سردی میں ننگے پاؤں اور ننگے سرپھرنا مفید ہوتا ہے۔ اسے ناز پرور اور نازک مزاج نہیں بنانا چاہیے۔
خوشحال نے نثر کے علاوہ شعر کی زبان میں بھی تعلیم و تربیت کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ لڑکے یا لڑکی کی مناسب تربیت ہونی چاہیے۔ خوشحال کے یہ خیالات ان اعلیٰ اقدار کی عکاسی کرتے ہیں جو ہمیں ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن کرتے ہیں۔ انسانی کردار کی تعمیر کے حوالے سے خوشحال نے جو مثالیں دی ہیں۔ وہ بڑی معنی خیز اور معقول دکھائی دیتی ہیں۔ اور اس کے کردار سازی کے نظریے کی تائید کرتی ہیں۔
٭ اصلی فولاد سے تیغ آبدار اس وقت تیار ہوتی ہے جب بار بار کے عمل سے اس سے بیکار لوہا الگ کردیا جائے۔
جب فولاد سے بیکار مادہ الگ نہ کیا جائے اور پونڈہ یعنی بے کار لوہا اس سے علیحدہ نہ کیا جائے تو پھر اس سے کس طرح دو ھاری تلوار بن سکتی ہے۔ استاد بے چارے کو اس پر سوچنا چاہیے۔
٭ اگر تجربہ کار مالی کے ہاتھوں پرورش پائیں تو پھر ہر جگہ باغ کے پھول کھل سکتے ہیں اور اگر چند سال خوشحال کے پہلو میں بیٹھ جائیں تو سارے کوہستانی خٹک شاعر بن جائیں گے۔
٭ جب گنا آگ کی تپش قبول کرلے تب وہ قند میں تبدیل ہوجاتا ہے۔پھر ہر دیار میں اس کے ذائقے کے چرچے ہوتے ہیں۔ بیٹوں اور بھائیوں کی تربیت لازماً ہونی چاہیے۔ تلوار کے جوہر صیقل کرنے سے ہی ظاہر ہوتے ہیں۔
بازسب دلیر ہیں مگر جب وہ صحیح شکار نہیں پکڑتے تو اسے باز داروں کی غلطی سمجھنا چاہیے ۔ جب گھوڑوں میں کوئی نقص پیدا ہوتا ہے تو پھر ماہر شہسوار ہی نقص کو نکال سکتا ہے۔
اچھی طرح جانو کہ آدمی کی حقیقت کیا ہے؟ آدمی کی مثال تیز کی خمیدہ خشک لکڑی کی ہے۔ اگر بغیر استاد کے اس کی تراش خراچ ہوجائے تو اس سے کچھ نہیں بنتا۔ البتہ ماہر استاد کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس سے اچھی شے تیار کرلیتا ہے۔
تو کمہار کے چرغے سے نکلا ہوا مٹکہ ہے۔ ابھی تک تونے آنچ کی تپش نہیں دیکھی۔ اگر تو آگ کی حرارت میں تپ جائے تجھے ’’خام‘‘ کا نام نہیں دیا جائے گا۔
جب لکڑی تراشی جائے تو اس سے تیر بن جاتا ہے۔ جب سینگ پر فنی عمل کیا جائے تو وہ زہ گیر یعنی ریم کش بن جاتا ہے۔ جب کوئی درس کے مراحل طے کرے تو علم حاصل کرلیتا ہے اور جب کوئی اپنے سر سے گزر جائے تو امیر بن جاتا ہے۔
مسلسل مشق کے بارے میں وہ کہتے ہیں:
جب کوئی کثرت سے تیر مارتا ہے تو تیر انداز بن جاتا ہے۔ جب کوئی خط کی مشق کرتا ہے تو خوش نویس بن جاتا ہے۔ اصل بات محنت کی ہے۔ مشق کرتے کرتے بندہ ایک خاص ہنر میں نام پیدا کرلیتا ہے۔ اس سلسلے میں محمدصدیق روہی لکھتے ہیں ’’اوپر دیے گئے حوالوں سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ خوشحال کے تعلیم و تربیت کے نظریے کے اہداف ‘ طریقہ تعلیم ‘ تعلیم و تربیت کا فلسفہ‘ تعلیم و تربیت کی نفسیات اور طریقِ تدریس سب دستار نامہ میں موجود ہیں۔ اس بناء پر ہم دستار نامے کو تعلیم و تربیت کا ایک جامع اثر کہہ سکتے ہیں۔
خوشحال کے عہد میں بلکہ اس سے کافی پہلے ہند کے دینی مدارس میں ایک مربوط نظام تعلیم رائج تھا۔ یہ نصاب ابتدائی‘ ثانوی اور اعلیٰ تحصیلات کے مدارج پر مشتمل تھا۔ بعد میں اس نصاب کو ایک مربوط اور متوازن نصاب میں ضم کیا گیا جسے درس نظامیہ کہا جاتا ہے۔ یہ نصاب معمولی فرق کے ساتھ اب بھی ہمارے دینی مدارس میں رائج ہے۔ اس نصاب میں تقریباً تمام مضامین کے کچھ حصے شامل ہوتے ہیں جیسا کہ ادب صرف ونحو‘ فقہ‘ احادیث‘ تفسیر ‘ علم الکلام ‘ریاضی‘ تاریخ ‘ جغرافیہ‘ طب‘ نجوم‘ فلسفہ ا ور اخلاقیات وغیرہ۔
خوشحال خان خٹک کو یہ نصاب بخوبی معلوم تھا۔ کیونکہ حصول تعلیم کے ایام میں یہی نصاب اس نے بھی پڑھا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے مردوں اور عورتوں کے لیے ایک موثر نصاب مرتب کیاہے۔ کہتے ہیں کہ ’’پہلے قرآن پڑھے‘ قرآن میں پنج سورہ ‘ آیت الکرسی‘ سورہ الرحمن‘ پورا پارہ عمّ بھی زبانی یاد کرے پھر صرف و نحو‘ پھر فقہ‘ تفسیر و احادیث ‘ مشائخ کے اقوال‘ علم طب بھی پڑھے۔ العلم العلمان ‘ علم الادیان‘ علم نجوم ان کا پڑھنا واجب ہے۔ فارسی کی مثنوی المعنوی‘ سلسلۃ الذہب ‘ نفخات الانس معارج النبوۃ‘ شاہنامہ‘ سکندر نامہ‘ ظفر نامہ وغیرہ کا مطالعہ کرے‘ اخلاق ناصری‘ گلستان اور بوستان یاد کرے‘ اعلیٰ پائے کے قصائد‘ مقطعات‘ رباعیات وغیرہ خواہ فارسی میں ہوں یا عربی میں انہیں یاد کرے۔ اگر پوری زندگی حصول علم میں گزرے تو عین سعادت ہے تاہم جو کچھ تحریر کیا گیا یہ تو پڑھا جائے تاکہ دین و دنیا کی معلومات سے بے بہرہ نہ ہو اور قابلیت میں کمی واقع نہ ہوجائے۔ اگر منزل بہ منزل علوم کا اتنا حصہ حاصل کرے تو وہ قابلیت کے دائرے سے خارج ہوگا۔ جو کوئی علم حاصل کرنے کا ذوق رکھتا ہو علم کی کوئی سرحد نہیں‘ خود علم کے پیچھے پھرے گا مگر جن علوم کا ذکر کیا گیا والدین اس کے حصول پر مصر رہیں۔
اسی طرح طبقہ نسواں کی تعلیم کے لیے بھی خوشحال نے علیحدہ نصاب مرتب کیا ہے جس کا زیادہ تر تعلق ہوم اکنامکس یعنی امور خانہ داری کے ساتھ ہے۔ اس نصاب کے پڑھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ لڑکی ایک تعلیم یافتہ‘ قابل اور کامیاب اور سلیقہ شعار بیوی ثابت ہوگی۔ کہتے ہیں:
بچپن کی تربیت کا کام بیٹے او ربیٹی کا ایک جیسا ہوتا ہے البتہ بیٹی کی تربیت زیادہ نازو نعم میں ہونی چاہیے۔ اسے عصمت‘ عفت اور شرم و حیا کی تلقین کرنی چاہیے۔ قرآن خوانی‘ مسائل کی کتابیں‘ فرائض ‘ سنن وغیرہ کی تعلیم تاکہ دینی امور سے کماحقہ آگاہی حاصل کرے‘ مرغوب رنگین حکایات‘ شیریں کہانیاں‘ بزرگوں اور مشائخ کے اقوال یاد کیے جائیں۔ قصے اور افسانے بھی سیکھ لے۔ نرد اور شطرنج بھی خوب سیکھ لے۔ سوزن کاری‘ کشیدہ کاری میں خوب مہارت پیدا کرے‘ کھاناپکانا‘ بنائی کا کام‘ گھر کی آرائش ‘ ذاتی سنگار و زیبائش‘ عطریات تیار کرنے کے طریقے خوب جان لے۔ لکھنے کا کام اس قدر کافی ہے کہ حساب کتاب ‘ ہندسوں اور قوم وغیرہ کی سمجھ آجائے۔ مشروبات اور مفرحات تیار کرنا سیکھ لے‘ قسم قسم کے کھانے پکانے کا ڈھنک سیکھ لے‘ طعام چننے اور اسے ترتیب سے رکھنے کا ہنر بھی سیکھ لے۔ لباس کی کٹائی‘ سلائی‘ دھلائی اور رنگائی کا فن سبھی سیکھ لے۔ اگر نقاشی کا ہنر بھی ضرورت کے مطابق سیکھ لے تو کوئی ہر ج نہیں البتہ اگر کشیدہ کاری کی تمام اقسام سیکھ لے تو بہترہے۔ اور اگر ا ن امور میں ماہر نہ ہو تو نقصان دہ ہے۔ جواہرات اور موتیوں کی قدر و قیمت کا شعور بھی رکھتی ہو۔ بزرگ دعائیں اور قرآن کی نمایاں سورتیں جتنی حفظ کرسکے کر لے۔ نظم قصائد‘ غزلیات ‘ ابیات بھی تھوڑا بہت یاد کرلے تاکہ شعر کے فن میں بھی کچھ نہ کچھ فہم رکھتی ہو۔
خوشحال ایک مخصوص عمر تک تو طلبہ اور طالبات کی مخلوط تعلیم کا قائل ہے مگر حد بلوغ کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی ہر ایک صنف کے لیے جداجدا نصاب کی ترتیب کا حامی ہے۔ خوشحال ان مسائل سے بخوبی آگاہ تھا جو مخلوط تعلیم کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ ماہرین تعلیم اور دانشوروں نے مختلف اوقات میں اپنے اپنے انداز میں علم کا مقصد بیان کیا ہے کیونکہ بے مقصد تعلیم کی مثال غیر معین منزل مقصود کی طرف سفر کرنا ہے۔ بے مقصد تعلیم گویا چراغ کے بغیر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانے کے مترادف ہے۔ اس سلسلے میں ایک دانشور کا قول ہے کہ اسلام کا مقصد انسان کو انفرادی اور اجتماعی ہر دو حیثیتوں سے راہِ مستقیم پر چلانا ہے ایک مسلم کی زندگی کا نصب العین احکامات خداوندی پر عمل کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے کہ ملت راہ ترقی پر گامزن ہو اور اس میں وہ معاون اور مددگار ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے ضروری چیز علم ہے جس کے بغیر نہ تو اس مقصد کو واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس کے لیے پوری جدوجہد کی جاسکتی ہے۔
فاضل پروفیسر مزید لکھتے ہیں ’’اسلام کی نظر میں تعلیم و تعلّم کا اصل مقصد انسانی پیدائش کے منشا کو پور اکرنا‘ اخلاق حسنہ سے خود آراستہ ہونا اور دوسرو ں کو آراستہ کرنا‘ اپنے علم کی روشنی میں جہل اور نادانی کے اندھیروں کو دورکرنا۔ یہ جاننے والوں کو سکھانا‘ بھولے بھٹکوں کو راہ دکھانا ‘ حق کو پھیلانا اور باطل کو مٹاناہے۔
اس سلسلے میں ایک اور ماہر تعلیم کی رائے ہے کہ ’’تعلیم میں لذت بھی ہے لیکن مستقبل میں اس سے کام بھی لینا ہے۔ یہ صرف رہبر ہی نہیں بلکہ سفر زیست کے لیے سہولتیں بھی مہیا کرتی ہے‘‘۔
اسی طرح ایک اور دانشور کا خیال ہے کہ ’’تعلیم کا مقصد ایسے انسان تیار کرنا ہے جو مکمل شخصیت رکھتے ہوں‘ جس کی وجہ سے وہ ذی ہوش اور دانشمند بنیں۔ ہم بڑی بڑی سندیں چاہیں حاصل کریں اور بندھے ڈھرے پر خوبی سے ہر کام انجام بھی دے سکیں مگر یہ لازمی نہیں کہ ہم اس کے ساتھ دانشمند بھی ہوں ۔ محض معلومات کا نام فہم و ذکاوت نہیں۔
مذکورہ دانشور مزید لکھتے ہیں ’’ناخواندہ شخص لازمی نہیں کہ جاہل اور نادان ہو۔ جاہل تو وہ ہے جو خود اپنے آپ کو نہ پہچانے۔ پڑھا لکھا شخص اگر فہم و دانش حاصل کرنے کے لیے محض کتابیات ‘ وسیع معلومات یا مستند احکام کا سہارا لیتا ہے تو وہ احمق ہے۔ دانشمندی صرف حق شناسی سے حاصل ہوتی ہے۔
آیئے اب یہ دیکھیں کہ سرزمین روہ کے عظیم دانشور کے نزدیک علم کا کیا مقصد ہونا چاہیے۔
خوشحال علم کے مقاصد کے سلسلے میں واضح نظریہ رکھتا ہے اور اس میں کسی قسم کے شک و شبے کی گنجائش نہیں۔ خوشحال نے لفظ ’’علم ‘‘ کو وسیع معنوں میں لیا ہے۔ کہتے ہیں ’’علم وہ ہے جو بندے کو دین کی طرف راغب کرے اور دنیا کی محبت اور اس کے دل میں ٹھنڈی کرے‘ اطاعت‘ عبادت اور محبت کے عرفان کو بڑھائے تاکہ قاضی نہ بنے‘ مفتی نہ بنے‘ زکواۃ خور نہ بنے‘ نفسانی خواہشات کا اسیر نہ ہو بلکہ عالم ربانی ہو نہ کہ نفسانی‘ شیطانی اور دیوانی جو خوشامدی ہو اور دینوی علم کے ذریعے سے امیروں کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہو‘ دین کو دنیا کے عوض بیچتا ہو‘ ایسا شخص عالم کم اور طفل زیادہ ہے۔
خوشحال نے شعر کے ذریعے سے بھی علم کا مقصد بڑے واضح انداز میں بیان کیا ہے ۔ کہتے ہیں:
اچھے دین کی خاطر علم و دانش حاصل کرو نہ اس لیے کہ اس کے ذریعے سے اوروں کے گھر لوٹ لو۔ جو علم صرف تن پروری کے لیے ہو سانپ کی مانند ہے اور جو علم دل کے دریچے روشن کرتا ہے وہ دوست ہوتا ہے۔
خوشحال علم کو معاش کا ذریعہ نہیں سمجھتا۔ اسے تزکیۂ نفس اور حصول کمال کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ بلکہ وہ اسے دانش و بینش اور حکمت ودانائی میں اضافے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ خوشحال بے علم آدمی کی مثال گدھے سے دیتا ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اور وہ اسے پیٹھ پر لیے پھرتا ہو۔ ظاہر ہے کہ گدھے کے لیے ان کتابوں کا بوجھ اٹھائے پھرنا ایک لاحاصل زحمت ہے۔ کہتے ہیں:
اگر آدمی دنیا کے تمام علوم حاصل کرلے مگر اس کے عمل کا پہلو کمزور ہو تو یہ علم بیکار ہے۔۔۔ اگر تیرے پاس بہت زیادہ علم ہے اور تو اس پر عمل نہیں کرتا تو گویا تو ایک گدھا ہے اور تیری پیٹھ پر کتابیں لدی ہوئی ہیں۔۔۔۔ میں نے (اپنے استاد سے) پوچھا کہ جوان کو جوانی میں کیا کرنا چاہیے‘ جواب دیا کہ اسے علم کے مطابق اپنا عمل درست کرنا چاہیے۔ اگر تمام علوم حاصل کرنے کے بعد تمہاری خو نہ سنور سکے تو گویا تجھ پر گدھے کی مانندکتابیں لدی ہوئی ہیں۔
اگر بات دیدن کی ہو تو بہت ہوگئی اور اگر بات خوردو نوش کی ہو تو یہ بھی بہت ہوچکی۔ اے خوشحال ! اب سنبھل جا کیونکہ اب عمل کا وقت ہے۔ پڑھنا بھی بہت ہوچکا اور باتیں بھی بہت ہو چکیں۔۔۔ کسب کمال سعادت کی سیڑھی ہے۔ وہ بندہ اچھا ہے جو کمال حاصل کرنے پر تلا ہوا ہو۔
تم دل کی مراد عالم سے مانگو۔ جس نے علم پر عمل کیا وہ کامیاب ہوا۔۔۔۔ جو بندہ عالم ربانی ہو میں اس کے قربان جاؤں او رجو نفس کے غلام ہیں میں ان کا دشمن ہوں۔
جو بندہ علم و عمل کے مطابق درست ہو ربانی ہے کیونکہ بغیر عمل کے علم نری ابلیست ہے۔۔۔ بدذات اگر تھوڑا سا علم حاصل کرلے تو اس کے اطوار بدل جاتے ہیں۔ حبشی اگر چہرے پر کالا تل سجائے تو کم بخت اور بھی کالا ہوجاتا ہے۔
تعلیم و تدریس کے سلسلے میں استاد بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایک اچھے استاد کا جتنا احترام کیاجاتا ہے وہ شاہان وقت کا بھی نہیں کیا جاتا۔ تاریخ میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں کہ ادارے بعض استادوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ا چھے استاد رکھنے والے اداروں میں طلبہ کا ہجوم ہوتا ہے مگر اچھا استاد کون ہوسکتا ہے؟ وہ جو اپنے پیشے کو عبادت سمجھتا ہے‘ اسے محض معاش کا ذریعہ نہیں سمجھتا۔ استاد کے پیشے کے تقدس کے حوالے سے اسے پیغمبری پیشہ کہا جاتا ہے اور اس کے اعلیٰ کردار اور بے داغ شخصیت کی وجہ سے اسے روحانی باپ کہا جاتا ہے۔
دیکھیے خوشحال شعر کے ذریعے استاد کی اہمیت کس طرح بیان کرتے ہیں: ’’میں بار بار اپنی استاد کا مرہون منت ہوں‘ جس نے میرے ضمیر کو زنگ سے صاف کیا‘‘۔
خوشحال اس شخص کو استاد سمجھتا ہے جو اپنے شاگردوں کے علم میں اضافہ کرے اور درس کے دوران خود ستائی اور میاں مٹھو بننے سے گریز کرے۔۔۔ اسے استاد مانو جو تجھے کچھ سکھائے۔ عمر میں چھوٹے کو بھی بڑا سمجھو جو تجھے نیک کام کرنے کی ترغیب دے۔ اگر کوئی لڑکا آجائے اورمجھے کوئی عقل کی بات بتا دے تو میں سفید ریش ہوتے ہوئے بھی اس کا احساسن مند رہوں گا۔۔۔ خوشحال استاد اور شاگرد کے تعلق کو ایک روحانی رشتہ سمجھتا ہے اور اسے بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اس کے خیال کے مطابق علم کی روشنی جبر کے مقابلے میں میٹھے بول سے زیادہ پھیلتی ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے پشتو زبان میں خوشحال کو کیا مقام حاصل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خوشحال ایک عالم فاضل شخص تھا۔ وہ بلخ و بدخشاں سے لے کر دہلی تک گھوما پھرا تھا۔ آگرہ‘ لاہور اور ہند کے دیگر مقامات میں قیام کیا تھا اور اس وقت کے تعلیم کے نظام اور ڈھانچے کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے تعلیم و تربیت کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے یہ وہی جدید تصورات ہیں جنہیں ماہرین تعلیم بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ خوشحال کے نظریے کے مطابق درس و تدریس کا پیشہ اختیار کرنا ہر ایرے غیرے کا کام نہیں بلکہ تجربہ کار اور باعمل علماء کا کام ہے۔ خوشحال درس و تدریس کے سلسلے میں جبر‘ قہر‘ غصے اور سزا کے مقابلے میں شفقت ‘ محبت ‘ ملائم رویے اور ذہنی آمادگی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ وہ علم کو روشنی سمجھتا ہے اور اس کے خیال میں اس روشنی کے پھیلانے میں استاد پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جس طرح زندگی کے دیگر میدانوں مثلاً فنون حرب و ضرب‘ فن شعر گوئی‘ طب‘ فلسفہ‘ اجتماعیات ‘ جمالیات‘ شکاریات‘ مصوری اور موسیقی میں اس دور میں اس کا کوئی مدمقابل نہیں تھا اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی اس کا کوئی ہم پلہ نظر نہیں آتا۔ ہم روشن حقائق کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پشتو زبان میں خوشحال سے پہلے اور اس کے بعد بھی ایسا ماہر تعلیم پیدا نہیں ہوا جس نے تعلیم و تدریس کے بارے میں اتنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو زبان میں تعلیم و تدریس کے میدان میں بھی خوشحال لاثانی نظر آتے ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’دعوۃ‘‘ اسلام آباد۔ شمارہ: مئی ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply