
جدید زمانے کی جنگ بے چہرہ ہوتی جا رہی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اسلحہ خودکار اور مزید خودکار ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے خودکار ہتھیار بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، جن کو استعمال کرنے میں انسانی ارادے کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ قاتل ڈرون اور روبوٹ ایسے ہی ہتھیار ہیں۔
جدید جنگی اسلحے میں ایسے روبوٹ بنائے جا چکے ہیں جنہیں میدان جنگ میں تعینات کیا جاسکتا ہے۔ پائلٹ کے بغیر ڈرون جنہیں کہیں دور بیٹھ کر کنٹرول کیا جا رہا ہوتا ہے، اپنے اہداف پر حملے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ تقریباً ایک عشرے سے جاری ہے۔ ان سے پہلے کروز میزائل ٹیکنالوجی تھی۔ ڈرون کو ’جنگی جرائم‘ میں ملوث قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ غیر مسلح اور بے گناہ لوگوں کو بھی حملوں کا نشانہ بناتا ہے، ان لوگوں کا قصور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ غلط وقت پر، غلط جگہ پر موجود تھے۔
ڈرون طیاروں نے وزیرستان کے لوگوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ حکومتِ پاکستان کا تحریکِ طالبان کے خلاف آپریشن جاری ہے تاہم ڈرون حملے اب بھی وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ پاکستان میں امریکی صدر جارج بش کے حکم پر پہلا ڈرون حملہ ۲۰۰۴ء میں ہوا، تب سے اب تک ایسے ۳۹۰ حملے ہو چکے ہیں، ان میں سے ۳۳۹ حملوں کی اجازت اوباما انتظامیہ نے دی۔ اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں مجموعی طور پر ۲۳۴۷ سے ۳۷۹۶؍افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، ان میں ۴۱۶ سے ۹۵۷ بالغ شہری اور ۱۶۸؍سے ۲۰۲ معصوم بچے ہیں۔ ان حملوں میں ۱۰۹۹؍ سے ۱۶۶۰؍ شہری زخمی بھی ہوئے۔
وزیراعظم نواز شریف ان حملوں کے خاتمے کا بارہا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ڈرون طیاروں کا استعمال نہ صرف ہماری علاقائی خودمختاری کی مسلسل خلاف ورزی ہے بلکہ اپنے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے ہمارے عزم اور کوششوں کے لیے مہلک بھی ہے‘‘۔ پشاور ہائیکورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ ڈرون حملے غیر قانونی، غیر انسانی، اقوام متحدہ کے اعلان انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنگی جرم کے مساوی ہے۔ تاہم اوباما انتظامیہ اس بات سے اختلاف رکھتی ہے اور اپنے طرزِ عمل پر قائم ہے، اگرچہ اگست ۲۰۱۴ء میں ڈرون حملوں کی شرح کم ہوئی ہے۔
مستند اداروں کی طرف سے کیے گئے متعدد عوامی سروے بتاتے ہیں کہ ڈرون حملے پاکستان میں انتہائی ناپسندیدہ ہیں، ان حملوں سے امریکا کے بارے میں منفی تاثر پھیلا ہے۔ ان حملوں نے انتہا پسندوں کو مزید لوگ بھرتی کرنے کا جواز فراہم کیا ہے کیونکہ وہ خود کو ’استعمار کا دشمن‘ کہتے ہیں۔
امریکا جن ملکوں میں ڈرون طیارے استعمال کرتا ہے، اُن میں پاکستان، یمن، اور صومالیہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ افغانستان، عراق، اور لیبیا میں بھی جنگی مہمات میں ڈرون طیارے استعمال کیے گئے ہیں۔ اب ڈرون طیاروں کا نیٹ ورک شام تک پھیل چکا ہے [ملاحظہ کیجیے، تمام مسلم ممالک ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے؟ (مترجم)]۔ آئی ایس آئی ایس نے عراق میں ہزاروں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہلاک کر کے جو گھناؤنے جرائم کیے ہیں، اُن کی بنا پر امریکی انتظامیہ پر دباؤ پڑا ہے کہ آئی ایس کے زیر انتظام علاقوں میں ڈرون استعمال کیے جائیں۔ دو امریکی صحافیوں کے حالیہ قتل سے اس مطالبے میں زور آ گیا ہے۔
ڈرون کی ہلاکت خیزی اس کے ماڈل پر منحصر ہے۔ ’’ریپر‘‘ (Reaper) ہزاروں پونڈ گولہ بارود لے جا سکتا ہے، جس سے بڑی تعداد میں عام لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ’’پری ڈیٹر‘‘ (Predator) ڈرون سے کم نقصان دہ ہوتا ہے تاہم ’’ہیل فائر‘‘ (نارِ جہنّم) اپنے ہدف کے لیے مہلک ہوتے ہیں۔ امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا کے مطابق انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین ’’ہیل فائر‘‘ میزائلوں کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ ان کی ہلاکت خیزی اُس حد سے زیادہ وسیع ہے، جو حدِ نفاذِ قانون کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے۔
جب لوگوں کو محض شک اور شبہ کی بنیاد پر ہلاک کر دیا جائے تو اسے علامتی حملے (Signature strikes) کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہدف بننے والے شخص کا رویہ ’مشکوک‘ ہو، یعنی وہ کسی ہتھیار بند ’مشتبہ جنگجو‘ کا ساتھی معلوم ہو۔ یہ فیصلہ امریکا کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ کس رویے کو ’مشکوک‘ قرار دے اور کس کو نہیں۔ ایسی صورت میں وہ علامتی حملے کا جواز پیش کرتا ہے۔ ’ڈبل ٹیپ‘ اس حملے کو کہا جاتا ہے جو ایک حملے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والوں پر کیا جائے، یہ لوگ صورتحال جاننے کے لیے یا حملے میں بچ جانے والوں کی تلاش کے لیے یا زخمیوں کی مدد کے لیے جائے وقوع پر پہنچتے ہیں اور ’ڈبل ٹیپ‘ حملے کے نتیجے میں خود جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
یہ مفروضہ کہ ڈرون طیارے ہدف پر سو فیصد درست نشانہ لگاتے ہیں، ایک رپورٹ نے پارہ پارہ کر دیا۔ ڈرون کی طرف سے مطلوبہ ہدف کو درستی کے ساتھ نشانہ بنانے کی شرح محض ڈیڑھ سے دو فیصد ہے۔ بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کے تخمینے کے مطابق ڈرون حملوں میں جاں بحق ۹۸ فیصد افراد عام شہری، بچے یا مشکوک جنگجو ہوتے ہیں جو یا تو معمولی، کم درجے کے وابستگان ہوتے ہیں یا پھر وہ جن کا جنگجوؤں کے ساتھ تعلق کبھی ثابت نہیں ہوتا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں اور انسانی حقوق کے لیے خطرہ ہیں کیونکہ ڈرون حملوں سے نہ صرف وسیع پیمانے پر ہلاکتیں ہوتی ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ حکومتِ پاکستان نے ان کی منظوری نہیں دی۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے انسداد دہشت گردی اور انسانی حقوق بین ایمرسن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’حکومتِ پاکستان امریکی ڈرون حملوں کو توقع کے برعکس، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف سمجھتی ہے‘‘۔
ڈرون طیاروں اور میزائلوں کی تیاری انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔ صف اول کی کئی امریکی کمپنیاں جنگی جرائم کے اس کاروبار میں شامل ہیں۔ امریکا ڈرون پر جو اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے اس سے نفع اٹھانے والے اداروں میں بوئنگ، جنرل ایٹامکس، لاک ہیڈ مارٹن، نارتھ راپ گرمن، ایرو وائرومنٹ، پراکس ڈائنامکس اے ایس، ڈینیل ڈائنامکس، ایس اے آئی سی، اسرائیلی ایرو اسپیس انڈسٹری، ٹیکسٹرون، جنرل ڈائنامکس، ڈی جے آئی شامل ہیں۔
سان ڈیگو میں واقع ’جنرل ایٹامکس ایروناٹیکل سسٹمز‘ (GA-ASI) پری ڈیٹر اور ریپر تیار کرتی ہے، جو جنرل ایٹامکس کی شریک کمپنی ہے۔ سان ڈیگو یونین ’’ٹریبیون‘‘ کے ایک مضمون ’نفع کے لیے شکار کی تلاش میں پھرنا‘ (Prowling for profit) کے مطابق عموماً ’’پری ڈیٹر‘‘ پر ۴ ملین ڈالر اور ’’ریپر‘‘ پر ۱۲؍ ملین ڈالر لاگت آتی ہے۔ یہ ۴ ملین ڈالر فاٹا کے علاقے میں ۴۰ ہائی اسکولوں کی عمارات کے لیے کافی ہیں اور ہر اسکول میں ۲۰۰ طلبہ کو تعلیم دی جا سکتی ہے۔
اس صنعت میں موجود اداروں کے مطابق ڈرون طیاروں کی تیاری اور ذخیرے کے اعتبار سے امریکا کے بعد اسرائیل آتا ہے۔ ڈرون رفتہ رفتہ بڑے اور جدید تر ہوتے جا رہے ہیں، چنانچہ وہ مزید مہنگے ہو رہے ہیں۔ چھوٹے ڈرون طیاروں پر بیسیوں ہزار ڈالر لاگت آتی ہے، بڑے ڈرون ۶۰ ملین ڈالر تک کے ہوتے ہیں۔
ہیرون ٹی پی، Eitan اور ہرمس۔۴۵۰ مہلک ڈرون طیارے ہیں، انہیں Elbit سسٹمز لمیٹڈ اور اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز لمیٹڈ تیار کرتی ہے۔ امریکا ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۸ء تک اسرائیل کو ۳۰؍ ارب ڈالر کی جنگی امداد دینے کا ذمہ دار ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کم از کم ۲۰۰۵ء سے بہت سے آپریٹرز اور Maintainers کو تربیت دے رہی ہے۔
اس جدید مہلک ہتھیار کی تیاری پر امریکی اداروں کی بالادستی کے بعد دیگر بہت سے ممالک بھی اس دوڑ میں شریک ہونے لگے ہیں۔ روس جنگی ڈرون اور روبوٹ بنانے میں بہت پیچھے ہے، تاہم اب وہ اپنی ڈرون ٹیکنالوجی تیار کر رہا ہے۔ وہ اپنے جوہری میزائلوں کے ذخائر کی حفاظت کے لیے ایسی گاڑیاں بنا رہا ہے، جو بغیر انسان کے (Unmanned) فرائض ادا کر سکیں۔
بعض ہتھیاروں کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں، مثلاً ان ’’پری ڈیٹر‘‘ ڈرون کے بارے میں جن پر ’’ہیل فائر‘‘ یا ’’اسٹنگر‘‘ میزائل نصب ہیں اور جنہیں سی آئی اے عراق میں اور ۲۰۰۱ء سے افغانستان میں استعمال کرتی آئی ہے۔
ان جدید مہلک ہتھیاروں کی تیاری سے قطع نظر ہمیں ان مہمات میں شامل ہونا چاہیے، جو انسانوں کو ہلاک اور عمارات کو تباہ کرنے والے ہر طرح کے ہتھیاروں کے خلاف چلائی جا رہی ہیں۔ ڈرون طیاروں اور روبوٹوں کی تیاری اس خیال کو کہ انسانی ارادے کے بغیر چلائے جانے والے ہتھیار ہرگز نہیں ہونے چاہئیں، شکست دے رہی ہے۔ ہمیں ہتھیاروں سے انکار کرنا چاہیے اور انسانی ترقی کی حمایت کرنی چاہیے۔
(مترجم: منصور احمد)
“Killer drones, killer robots”.
(“The News”. October 14, 2014)
Leave a Reply