
زیرِ نظر مضمون کتاب ’’چمن پہ کیا گزری‘‘ سے لیا گیا ہے، جو ایک سابق سفارت کار، سلطان محمد خان کی ذاتی معلومات، مشاہدات، ڈائریوں اور یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ مضمون نگار ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۶ء تک کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے۔ ادارہ
معاملات طے ہو چکے تھے، یحییٰ خان تفصیلات کے بارے میں متفکر ہوگئے اور تفصیلی انتظامات میں ذاتی دلچسپی لینے لگے، چھوٹی سے چھوٹی بات پر دھیان دینے لگے۔ بہت سی ملاقاتوں میں میرے ساتھ منصوبوں کا جائزہ لیا تغیر و تبدل حیلے بہانے، اوقات، فلائٹ کی راہ اور چینیوں سے رابطہ غرض ہر پہلو پر تبادلہ خیال کیا۔ سفر کی تکان دور کرانے کی غرض سے نو ہزار فٹ کی بلندی پر نتھیا گلی (ایک ہل اسٹیشن) کو ڈاکٹر ہنری کسنجر کے لیے منتخب کیا گیا، تاکہ وہ ایک دو روز وہاں آرام کر سکیں۔ اس پر واقع شمال مغربی سرحدی صوبے کے گورنر کی رہائش گاہ میں کسنجر کو ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ برطانوی راج کے عہد میں یہ خوبصورت رہائش گاہ تعمیر ہوئی تھی جس کے آگے تختہ دار باغ تھا، چاروں طرف کی وادیوں میں جنگل اور برف سے ڈھکی پہاڑوں کی چوٹیاں دلفریب نظارہ پیش کرتی تھیں۔ بہرحال ڈاکٹر کسنجر کو اس شاندار منظر اور نتھیا گلی کی خنک ہوا سے لطف اندوز ہونا مقصد نہیں تھا۔ یہ طے ہوا کہ ایک پاکستانی بوئنگ کے ذریعہ شمالی راستے سے کوہستان قراقرم کے اوپر سے کسنجر کو بیجنگ لے جایا اور واپس لایا جائے۔ علاوہ وقت کی بچت کے اس راستہ کو اختیار کرنے میں یہ فائدہ بھی تھا کہ پی آئی اے کی عمومی کمرشل پرواز جو ڈھاکا ہو کر چین جاتی تھی اس سے گریز ہو جاتا۔ چینیوں نے بھی اس راستے سے اتفاق کیا۔
۲۴ جون کو نکسن کا مراسلہ یحییٰ خان کو موصول ہوا، جس میں نکسن نے یحییٰ خان کی ’’خدمات برائے امن‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ باہمی مراسم کی وجہ سے فریقین (امریکا اور چین) میں مصالحت کرانے کی جو کوشش دونوں ملکوں کے سچے دوست کی حیثیت سے کر رہے ہیں وہ مستحسن ہیں۔ یہ بھی لکھا کہ ڈاکٹر کسنجر کے اعلان شدہ دورے میں بینکاک، اسلام آباد، دہلی اور پیرس شامل ہیں۔ اسلام آباد اور دہلی کے لیے مساوی وقت رکھا گیا تاکہ ہندوستان کو کوئی شک نہ ہو۔ پاکستان اور چین کے درمیان شمال کا ہوائی راستہ چونکہ شاذ و نادر ہی استعمال میں آتا تھا اس لیے طے کیا گیا کہ ایک تجرباتی اڑان ۶ جولائی کو کی جائے۔ اس اڑان کے لیے چین اپنے ماہرین جہاز رانی بھیجنے پر راضی ہوگیا تاکہ وہ پاکستانی طیارہ چلانے والوں (Crew) سے باہم ربط کرسکیں۔ چینی ماہرین جہاز رانی (Navigation) ایک سویلین طیارہ کے ذریعہ ۳ جولائی کو آپہنچے، انہیں چینی سفارتخانہ میں ٹھہرایا گیا۔ ۶ جولائی کو ایک پاکستانی طیارہ صبح چار بجے بیجنگ کے لیے روانہ ہوا اور دن کے ساڑھے بارہ بجے بیجنگ پہنچ گیا، وہاں سے ۳۰:۳ بجے روانہ ہو کر شام ۶ بجے چکلالہ کے فوجی ہوائی اڈے پر اتر آیا، ہر کام منصوبے کے مطابق ہوا۔ واپسی میں طیارے کے ساتھ مسٹر چانگ وین چین، سابقہ چینی سفیر برائے پاکستان بھی آگئے، یہ اس وقت چین کی وزارت خارجہ میں یورپ اور امریکن معاملات کے ڈائریکٹر تھے ان کے ہمراہ پروٹوکول کے کچھ افسر اور مترجمین بھی آئے تھے۔
سفیر چانگ وین کا انتخاب خصوصیت کا حامل تھا۔ وہ نہ صرف دفتر خارجہ کے یو ایس اے سے متعلق اعلیٰ افسر تھے بلکہ چو این لائی کے معتمد بھی تھے۔ یہ سب اس لیے آئے تھے کہ ڈاکٹر کسنجر کی باعزت طریقہ سے پیشوائی کریں اور ان کے ہمراہ بیجنگ تک جائیں۔ یہ لطیف انداز پذیرائی اور میزبانی یہ احساس دلانے کے لیے تھا کہ چینی آنے والے مہمان کی اور اس کے مشن کی کس درجہ قدر و منزلت کرنے والے ہیں۔ چینی سفیر کے ہمراہ جاکر میں نے چانگ وین چینی اور ان کے ساتھ آمد ہ دیگر صاحبان کا استقبال کیا اور چینی سفارتخانے تک پہنچایا۔ وہیں ان کے قیام کا بندوبست تھا، فکر یہ تھی کہ ان کی آمد اور چکلالہ کے فوجی ہوائی اڈہ پر ان کا اترنا لوگوں میں تجسس پیدا کرے گا لیکن چونکہ ان دونوں ملکوں کے افسروں کی آئے روز آمدورفت رہتی تھی، لہٰذا ان کے آنے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ پاکستانی بوئنگ کا عملہ (Crew) جن کو مختلف مقامات سے ان کے تجربے اور پیشہ ورانہ مہارت دیکھ کر اکٹھا کیا گیا تھا، وہ بھی حیران تھے کہ یہ غیر معمولی انتظامات آخر کیوں ہو رہے ہیں؟ ان کے تجسس کو تسلی دینے کے لیے صرف طیارے کے کپتان سے کہا گیا کہ یہ تیاریاں اس وجہ سے ہیں کہ پاکستان کے صدر ۹ جولائی کو ایک خفیہ پرواز سے کہیں جائیں گے، لہٰذا اس بات کو وہ اپنے ہی تک رکھیں۔ اس پرواز کے انتظامات کا ایک دلچسپ پہلو ریڈیو کو مکمل طور سے خاموش رکھنا تھا، تاکہ کیپٹن اور نیویگیٹر کے درمیان قراقرم کے اوپر سے گزرتے وقت گفتگو نہ ہونے پائے، کیونکہ یہ راستہ ہندوستان اور روس کی مانیٹرنگ حدود میں پڑتا تھا۔
بالآخر ۸ جولائی کو ڈاکٹر کسنجر مع اپنے چار نائبین کے آپہنچے۔ ان کو صدر کے مہمان خانے میں ٹھہرایا گیا۔ میں نے شام کو ڈاکٹر کسنجر سے ملاقات کی اور علاقے کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، وہ دہلی سے جو تاثر لے کر آئے تھے اس کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ وہاں کا موڈ کڑوا اور جارحانہ تھا۔ ہندوستان ان کے خیال میں پاکستان سے جنگ کرنے والا ہے۔ ڈاکٹر کسنجر کا یہ تجزیہ چونکا دینے والا تھا، دیگر ذرائع سے اس کی تصدیق ہوتی تھی۔ شام کسنجر سے ملاقات کرنے سے قبل میں نے صدر کو ان خیالات سے باخبر کر دیا تھا لیکن ان کے مزاج کی کیفیت تو اس وقت ساتویں آسمان پر تھی۔ ان کا دماغ تو بس ایک مہم میں سرگرداں تھا کہ کسنجر کو چین پہنچا دوں۔ جو کچھ میں نے کہا اس پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا بعد میں تخلیے میں ڈاکٹر کسنجر سے ایک گھنٹے تک بات چیت کی جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، البتہ اس سے قبل جب میری صدر سے ملاقات ہوئی تھی اس سے تو یہی اندازہ ہوتا تھا کہ چین کے سفر کے علاوہ گفتگو شاید ہی کسی اور موضوع پر ہوئی ہو۔ کئی مہینوں کی تیاری کے بعد جب وقت آگیا کہ صبح روانگی ہے تو قدرے سکون ملا۔ ڈنر جلدی ختم کر دیا گیا تاکہ طویل سفر سے قبل ڈاکٹر کسنجر آرام کر لیں۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق میں صبح ۳۰:۳ بجے صدر کے مہمان خانے پہنچ گیا اور دیکھا کہ ڈاکٹر کسنجر اور ان کے نائبین متعلقہ کاغذات کا آخری بار مطالعہ کر رہے ہیں۔ احتیاطاً مہمان خانے کی طرف میں اپنی ذاتی کار میں گیا، کیونکہ رات کے اس حصہ میں سرکاری کار لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی۔ گزشتہ شب میرے فرزند ریاض نے کار کو استعمال کیا تھا اور مجھے کار کی چابیاں نہیں مل رہی تھیں، جب میں نے اسے جگایا تو گھڑی پر نظر ڈال کر کہا، امی خیریت سے تو ہیں؟ کیا آپ ڈاکٹر کو لینے جارہے ہیں؟ یہ سوالات اس وجہ سے تھے کہ میری اہلیہ کی طبیعت کچھ عرصے سے ناساز تھی۔ میں نے اسے تسلی دی کہ سب کچھ ٹھیک ہے بس ذرا نتھیا گلی جارہے ہیں تاکہ کچھ تبدیلیٔ آب و ہوا ہو جائے۔ چابیاں دیتے ہوئے اس نے حیرت سے کہا ’’نتھیا گلی اور اس وقت! آپ کو میں سمجھ نہیں پایا!‘‘
ڈاکٹر کسنجر کے ساتھ میں صبح مہمان خانہ سے روانہ ہوا، پیچھے اسٹاف کاروں میں ان کے نائب اور حفاظتی دستے کے افراد تھے، تھوڑی دیر میں ہم چکلالہ ہوائی اڈے پہنچ گئے۔ فضائیہ کے حصے میں پہنچے تو وہاں کے محافظین نے جو ہمارے منتظر تھے، میری شناخت کو چیک کر کے ہماری کاروں کو اندر جانے دیا۔ جنرل عمر مع چانگ وین چین اور چینی سفارتخانے کے کچھ افسر وہاں پہلے سے ہی موجود تھے، ڈاکٹر کسنجر اور دیگر افراد کو فوراً سوار کر دیا گیا۔ حسبِ منصوبہ ہوائی جہاز ٹھیک ۳۰:۴ بجے صبح پرواز کر گیا۔
دریں اثنا حسب پروگرام امریکن سفیر فارلینڈ میری اہلیہ کو لے کر صدر کے مہمان خانے پہنچ گیا۔ ہم وہاں پہنچے تو ڈاکٹر کسنجر کا نجی نائب جو ان سے مشابہ تھا پہلے سے مع تین محافظین کے موجود تھا۔ سفیر فارلینڈ اور کسنجر کا ہم شکل صدر کی لیموزین میں سوار ہوئے، اس کے عقب میں میری سرکاری کار اور دو مزید کاریں جن میں دیگر افراد سوار تھے، موٹر سائیکل سوار پولیس کے گھیرے میں نتھیا گلی کی طرف روانہ ہوئے۔ مقصود یہ ظاہر کرنا تھا کہ ڈاکٹر کسنجر کو آرام کی ضرورت ہے۔ کاروں کا یہ قافلہ پولیس کی حفاظت میں لوگوں کی توجہ کا باعث تھا اور یہ سب ڈرامہ ڈاکٹر کسنجر کے اصل سفر کو پردہ میں رکھنے کے لیے تھا۔
اسلام آباد کی سخت گرمی سے نکل کر ٹھنڈی خوشگوار نتھیا گلی کی ہوا ایک نعمت معلوم ہوتی تھی۔ کسنجر کے ہم شکل کو اس کے کمرے میں چھوڑ کر ہم نے اپنے اپنے کمروں کا معائنہ کیا اور پھر چائے سے لطف اندوز ہونے اور مناظر قدرت کا نظارہ کرنے برآمدے میں آبیٹھے۔
اسی شام مجھے مطلع کیا گیا کہ ’’ڈاکٹر کسنجر‘‘ اوپر کی منزل میں گوشہ نشین ہو گئے ہیں، طبیعت خراب ہے اور مجھے یاد فرما رہے ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ جناب نے لنچ کی جگہ آدھے درجن آم کھا لیے تھے۔ اب ہمارا پالا پڑ گیا تھا ایک بیمار ڈاکٹر کسنجر سے! ڈاکٹر کے لیے پشاور فون کیا کہ ایک مشہور ہستی کے معالجہ کے لیے ڈاکٹر درکار ہے اور وہ ہستی ہے ڈاکٹر کسنجر، کیا یہ نام کبھی سنا ہے؟ فون سننے والا ڈاکٹر کسنجر کے نام سے شناسا تھا اور ان کی کتاب بھی پڑھ رکھی تھی، کہا کہ ان کا علاج کرکے اسے بڑی مسرت ہوگی۔ میں نے اس ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرکے کہا کہ فی الوقت طبیعت اتنی خراب نہیں ہے کہ علاج کی ضرورت ہو لیکن وہ میرے اگلے فون کا انتظار کرے۔ ایک اور ڈاکٹر سے میں نے رابطہ قائم کیا وہ ڈاکٹر کسنجر سے ناواقف تھا، لہٰذا اس کو بلا لیا گیا۔ جو دوائیں تجویز کر گیا تھا اس سے صبح تک طبیعت ٹھیک ہوگئی۔ میری اہلیہ کو بیمار ڈاکٹر کسنجر سے خواہ مخواہ ہمدردی ہوگئی، جو اوپر بستر علالت پر لیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے ڈنر اور اگلے دن ان کے لنچ کے لیے زود ہضم غذا خود تیار کرکے بھیجی۔ اس راز میں ان کو شریک نہ کرنے کی وجہ سے انہوں نے مجھے ایک عرصے تک معاف نہیں کیا۔ اس دکھاوے کے لیے کہ ڈاکٹر کسنجر نتھیا گلی میں مقیم ہیں، دیگر ذرائع بھی استعمال کیے گئے تھے۔ چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید اور محکمہ دفاع کے جنرل سیکرٹری غیاث الدین احمد نے بطور نمائش کسنجر کی خیر و عافیت دریافت کرنے کے لیے نتھیا گلی کے چکر کاٹے۔ اس مضحکہ خیز بہانے بازی کے کھیل میں ہمیں ہندوستان سے خلافِ امید اعانت ملی تھی۔
میرے پرائیویٹ سیکرٹری احمد کمال اور پرسنل اسسٹنٹ وحید الدین ہیلی کاپٹر سے میرے پاس کچھ ضروری سرکاری کاغذات لے کر آئے تھے، ہیلی کاپٹر اترتے وقت غلط اندازے سے اتر کر الٹ گیا، خوش قسمتی سے کسی کے شدید ضرب نہ آئی، چونکہ دوسرا ہیلی کاپٹر آنے میں تاخیر ہو جاتی لہٰذا میں نے دفتر خارجہ کو فون پر کمال کی اہلیہ کو مطلع کرنے کی ہدایت دی کہ اگر کمال کو واپس ہونے میں دیر ہو جائے تو ان کی اہلیہ فکرمند نہ ہوں۔ میں صرف اتنا ہی نتیجہ اخذ کر سکتا ہوں کہ ہندوستانی انٹیلی جنس نے ہمارے فون کو ٹیپ کیا تھا، مگر ان کی تشریح میں نقص تھا، اس شام آل انڈیا ریڈیو نے ایک خبر اس طرح بھی نشر کی کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نتھیا گلی میں ڈاکٹر کسنجر کی آمد کا مقصد پاکستانی حکومت اور شیخ مجیب الرحمن کے مابین تنازع کو حل کراکے باہم رضامندی کرانا ہے۔ مجیب کے مندوب کمال الدین احمد سے نتھیا گلی میں گفت و شنید چل رہی ہے۔ (اس وقت مجیب اور کمال الدین دونوں مغربی پاکستان میں زیر حراست تھے)
کسنجر اور ان کے ہمراہی ۱۱ جولائی کو واپس اسلام آباد پہنچنے والے تھے لہٰذا، ۱۱؍جولائی کو دوپہر سے پہلے ہم نتھیا گلی سے روانہ ہو گئے۔ میں ایوان صدر پہنچا جہاں جنرل عبدالحمید، جنرل گل حسن، ایئر مارشل رحیم خان، سیکرٹری دفاع غیاث الدین احمد کی موجودگی میں کسنجر کی آمد سے قبل صدر سے گفتگو کی، نتھیا گلی کے قیام کے دوران میں نے مشرقی پاکستان کی موجودہ صورتحال پر ایک رپورٹ تیار کی تھی، جس میں یہ ذکر بھی خاص طور سے تھا کہ حالیہ حالات سے فائدہ اٹھانے کی غایت سے ہندوستان کیا کیا ممکنہ اقدام کر سکتا ہے؟ میں نے تجزیہ کیا تھا کہ ایک منتخبہ قدم ہندوستان کے لیے یہ بھی کھلا ہوا ہے کہ یا تو وہ مشرقی پاکستان کا خود الحاق کرلے، یا اس کو ہم سے جدا کردے۔ اس کاغذ کو تیار کرنے سے میرا مقصد یہ تھا کہ یحییٰ خان کسنجر کے ساتھ صورتحال پر تبادلہ خیال کر لیں تاکہ ان کے خیالات سے بھی آگاہی ہو جائے اور ہندوستان پر قدغن لگانے کے لیے امریکا کی بھی اعانت مل جائے۔
یحییٰ خان نے مجھ سے کہاکہ جو کچھ میں نے لکھا ہے اسے باآواز بلند پڑھوں، اور جب میں مندرجہ بالا مقام پر آیا تو بولے: ’’نہیں! میں اس تجزیے سے اتفاق نہیں کرتا، دونوں اقدامات (الحاق یا انقطاع) ہندوستان کے لیے باعث کشش نہیں ہوں گے۔ مغربی بنگال پر ہندوستان کی پکڑ مستحکم نہیں ہے، اگر اس نے مداخلت کی (اس طرح کہ جس طرح میں نے پیش بینی کی تھی) تو یقینا یہ ایک متحدہ اور آزاد بنگال کا پیش خیمہ ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہاکہ ان کی رائے کا انحصار ایسے باخبر افراد پر ہے جن کی رسائی ہندوستان کی جدید ترین، خاص طور سے مغربی بنگال کی انٹیلی جنس تک ہے۔ یحییٰ خان نے اس گفتگو کا باب یہ کہہ کر بند کر دیا کہ ان معاملات کے بارے میں کسنجر سے گفتگو کا کوئی ارادہ نہیں ہے، کئی ماہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ ماہر جس کی صلاح پر یحییٰ خان اعتماد کر رہے تھے وہ تھا امریکا کا سفیر برائے پاکستان، فارلینڈ! یحییٰ خان بارہا تخلیے میں فارلینڈ سے ملے۔ ان ملاقاتوں کا کوئی ریکارڈ نہیں اور نہ ہی دفتر خارجہ کو اعتماد میں لیا جاتا تھا۔ ضمناً یہ بھی واقعہ ہے کہ مجھ سے ایک گفتگو کے دوران بھٹو نے بھی انہی خیالات کی تائید کی تھی اور یحییٰ خان کو یقین دلایا تھا کہ ہندوستان سب کچھ کر سکتا ہے لیکن فوجی مداخلت نہیں کرے گا۔
جس گھڑی کا بے چینی سے انتظار تھا بالآخر وہ آگئی! اطلاع آئی کہ کسنجر کا طیارہ اترنے والا ہے، لہٰذا میں ہوائی اڈے کی جانب روانہ ہو گیا۔ روانگی کی طرح واپسی پر بھی طیارہ ہوائی اڈے کے اس حصہ میں اترا جو فضائی فوج کے لیے مخصوص تھا، واپسی چونکہ روز روشن میں ہوئی تھی اس لیے پی آئی اے کے طیارے کے بجائے سویلین سائیڈ میں اترنے کے، فضائیہ کی طرف اترتا لوگوں کے استعجاب و جستجو کا باعث ہو سکتا تھا۔ اتفاق سے اس پر کسی کا دھیان نہیں گیا۔ کسنجر اور ان کے ہمراہیوں کو مہمان خانے لے جایا گیا، کسنجر فرط مسرت سے بے قابو ہو رہے تھے۔ گیسٹ ہاؤس جاتے وقت چین لے جائے جانے کے انتظامات کے لیے بے انتہا مشکور ہوئے۔ وہ چواین لائی سے تاریخی ملاقات کے بارے میں خاصے جذباتی تھے، بحیثیت ایک انسان اور سیاستدان ان کی صفات حمیدہ کا بھی ذکر کیا۔ کسنجر کو فکر اس بات کی تھی کہ کیا یہ راز اس وقت تک سربستہ رہ پائے گا جب تک کہ نکسن اس کو افشا نہ کریں؟ ہماری طرف سے راز افشا کا خطرہ پی آئی اے کے عملے کی طرف سے تھا، جو مختلف جگہ سے یکجا کیے گئے تھے اور اب ان کو اپنے اپنے مستقر پر روانہ کرنا تھا۔ کسنجر کی روانگی میں زیادہ وقت نہیں تھا، تھوڑی دیر مہمان خانے میں آرام کرکے انہوں نے یحییٰ خان سے ملاقات کی۔ یحییٰ خان برصغیر کے حالات پر کسی بھی قسم کی گفتگو سے پرہیز کرتے رہے۔ اس گفتگو کا ریکارڈ میں نے قلمبند کیا اس کا لب لباب یہ تھا کہ چینی قائدین سے گفتگو کے بارے میں جو صلاح مشورہ یحییٰ خان نے دیا تھا وہ بہت مفید ثابت ہوا، اس کا شکریہ ادا کرنے کے بعد کسنجر نے کہاکہ چینی قائدین صدر یحییٰ کا بہت احترام کرتے ہیں، انہوں نے اپنی نیک خواہشات بھیجی ہیں۔ پاکستان کے لیے چین کی دوستی علانیہ ہے اور چینی جو اہمیت اس دوستی کو دیتے ہیں، اس سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ بعدازاں کسنجر نے کہاکہ چینیوں کا کہنا ہے کہ اگر ہندوستان نے پاکستان کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام کیا تو وہ نفری اور حربی قوت سے مداخلت کریں گے۔ پیش آمدہ واقعات سے ظاہر ہو جائے گا کہ جو زبان چو این لائی نے استعمال کی تھی اس کی ترجمانی کسنجر سے غلط طریقے سے کی گئی تھی۔
کسنجر نے کہاکہ جہاں تک امریکا کا معاملہ ہے آپ کو امداد پہنچائی جاتی رہے گی، مگر کھلے عام نہیں، کیونکہ ہماری کوششیں پس پردہ ہی آپ کے لیے زیادہ مفید ہوں گی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ امریکا میں ہندوستان کے سفیر کے ذریعے پاکستان پر حملہ کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف سخت وارننگ دے دی جائے گی۔ ہر بین الاقوامی ادارہ جو مالیات اور اقتصادیات سے تعلق رکھتا ہے، اس کی حمایت امریکا کرے گا اور ووٹ بھی دے گا کہ وہ پاکستان کی اقتصادی حالت کو مستحکم کرے، اگر ہندوستان نے جنگ کرنے میں پہل کی تو نکسن ہندوستان کو دی جانے والی تمام امداد بند کر دیں گے۔ کسنجر نے یہ بھی وعدہ کیا کہ ہندوستان کے ایسے کیمپ جن میں مشرقی پاکستان کے جلاوطن پڑے ہوئے ہیں اور ان کیمپوں کا معائنہ کرنے کے لیے پاکستان بین الاقوامی مشاہدین بھیجنے کی جو درخواست کر رہا ہے امریکا اس کی بھی حمایت کرے گا اوریہ مشاہدین ان بے خانماں مہاجرین کو صدر اور حکومت پاکستان کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرنے کا مشورہ بھی دیں گے کہ ان کو اپنے گھروں میں بدستور بسا دیا جائے گا۔ اگر ہندوستان انکار کرتا ہے تو ذمہ داری ہندوستان کی ہوگی کہ ان کی وطن واپسی میں وہی رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔
ڈاکٹر کسنجر ۱۱ جولائی ۱۹۷۱ء کی شام ۵ بجے براہ پیرس، امریکا روانہ ہو گئے تھے۔ پی آئی اے کا عملہ کہیں راز افشا نہ کر دے؟ یہ تشویش برقرار تھی، لہٰذا جنرل عمر نے حب الوطنی اور ملک کی خیر خواہی کے نام پر اپیل کی کہ، تاآنکہ سرکاری طور پر اس کا اعلان نہ ہو جائے وہ خاموش رہیں کہ انہوں نے بیجنگ کا سفر کیا تھا اور احتیاطاً انہیں ۱۵ جولائی تک قرنطینہ میں رکھ دیا گیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے یہ راز، راز ہی رہا حتیٰ کہ یہ خبر ۱۵ جولائی کو بیجنگ اور سان کلیمنٹ سے نشر نہ ہو گئی۔ (سان کلیمنٹ امریکا کے مغربی ساحل پر نکسن کی موسم گرما کی رہائش گاہ تھی)۔
جولائی ۱۹۷۱ء سے جنگ کے بادل پانچ ماہ دور تھے۔ اس وقت کسنجر کے یہ الفاظ یحییٰ خان کو اچھے لگے، ان خوش نما الفاظ نے ان کے دل میں امید کے چراغ روشن کر دیے تھے۔ بعد میں جب ہم نے دفتر خارجہ میں ان کا تجزیہ کیا تو صاف ظاہر ہو گیا کہ مصیبت کا وقت آنے پر پاکستان کو ہر آفت کا سامنا خود ہی کرنا پڑے گا۔ کسنجر کو چو این لائی کے ان الفاظ سے کہ چین عملاً فوجی مدد دینے کو راضی ہے، اس وجہ سے غلط فہمی ہوئی کہ اس کے تجزیے کے مطابق چین کو کسی کا ڈر نہیں تھا، لیکن عملاً کیا ہوا؟
۱۴؍جولائی کو چینی سفیر چانگ تنگ ایک مراسلہ وزیراعظم چو این لائی کا لایا، جس کا متن یہ تھا:
’’چیئرمین ماؤ اور وزیراعظم چو این لائی نے ڈاکٹر کسنجر کے ذریعہ صدر یحییٰ خان کو اپنی نیک خواہشات بھیجی تھیں۔ مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی، جس کی اطلاع بعد میں بھیج دی جائے گی۔ وزیراعظم چو این لائی نے ڈاکٹر کسنجر کو باور کرایا تھا کہ اگر ہندوستان پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو چین تماشائی بن کر خاموش نہیں بیٹھے گا بلکہ پاکستان کی حمایت کرے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ امریکا اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے ہندوستان کو اس اقدام سے باز رکھے گا۔ پھر بھی اگر ہندوستان غیر محتاط قدم اٹھاتا ہے تو خمیازہ بھی بھگتے گا۔ کسنجر نے بتا دیا تھا کہ دہلی کے تاثرات جو ان پر ثبت ہوئے ان کے مطابق تو حملہ ممکن ہے، اگر ایسا ہوا تو امریکا سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے گا اور علی الاعلان اس کی مخالفت کرے گا‘‘۔
اس مکتوب میں جو خاص جملہ (’’اگر ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا تو چین تماشائی بن کر خاموش نہیں بیٹھے گا بلکہ پاکستان کی حمایت کرے گا‘‘) وہ مدد کا اظہار کر رہا تھا اور یہی مطلب کسنجر نے اس کا نکالا تھا۔ تاہم حمایت کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جیسے اخلاقی حمایت، سیاسی حمایت، اقتصادی مدد، سامان حرب و ضرب کی فراہمی اور یہ بھی کہ عسکری قوت سے مداخلت کی جائے، جس ضمن میں وزیراعظم چو این لائی بات زبان پر لائے تھے، اس سے یہ قطعی اظہار نہیں ہوتا تھا کہ انہوں نے فوجی مداخلت کا تہیہ کر لیا ہے۔ ثقافتی انقلاب سے چین میں داخلی مشکلات پیدا ہو گئی تھیں اور اس کی سرحدوں پر روسی خطرے کے بادل منڈلانے سے چین کے لیے یہ ناممکن ہو گیا تھا کہ وہ پاکستان کی مدد ہتھیار بند فوج سے کرے۔ علاوہ ازیں ۱۹۷۱ء کا ہندوستان، ۱۹۶۲ء کا ہندوستان نہیں رہا تھا جب اسے چین نے روند ڈالا تھا۔ اب وہ بہت زیادہ مضبوط پوزیشن میں تھا۔ مشرقی پاکستان میں فوج کشی کرتے وقت ہندوستان نے پورا بندوبست کر لیا تھا کہ چین سے ملحقہ اس کی سرحدیں مضبوط دفاعی پوزیشن پر رہیں۔ چین پاکستان کا پکا دوست رہا ہے اور ہے، لیکن ہر دوستی کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ یہ کہنا پڑتا ہے کہ چین کا قابل ستائش عمل یہ تھا کہ پاکستان کا حالانکہ سامنا خالصتاً خانہ جنگی سے تھا تاہم وہ متواتر اور علی الاعلان پاکستان کی علاقائی سالمیت کے اصول کی حمایت کرتا رہا۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں خارجی دخل اندازی کی سختی سے مخالفت کرتا رہا۔ بہ رضا و رغبت اور مفت ہر اس سامان کی سپلائی کرتا رہا جس کی پاکستانی افواج کو اشد ضرورت تھی۔ اقتصادی امداد بھی فیاضانہ شرائط پر فراہم کی اور یہ سب کچھ چین نے اس وقت کیا جب خود اس کے اندرونی مسائل ناگفتہ بہ تھے اور اقتصادی حالت بھی دگرگوں تھی۔ سیاسی سطح پر اقوام متحدہ میں اپنا پورا وزن پاکستان کے حق میں استعمال کیا اور بعد میں اپنے مفادات کو قربان کرکے بنگلادیش کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جب تک کہ پاکستان نے تسلیم نہیں کر لیا! پاکستان کے پاس دوستی کی کوئی ایسی نادر مثال ہے؟ اگر کچھ لوگ اس سے زیادہ کی توقع رکھتے ہیں تو وہ ایک خالی دنیا میں رہتے ہیں۔
اصل میں کسنجر نے جو کچھ کہا تھا وہ اس بنا پر تھا کہ میں نے سفیر چانگ تنگ کی معرفت ۹ جولائی کو ایک زبانی پیام چو این لائی کو بھیجا تھا، جو اس طرح تھا کہ ’’کسنجر کا بیان ہے انہوں نے دہلی میں تلخی اور جارحیت کا ماحول پایا ہے اور ایسا اندازہ ہے کہ وہ پاکستان سے آمادۂ پیکار ہے۔ امریکا نے حالانکہ ہندوستان کو جنگ کرنے کے خلاف کڑی وارننگ دی ہے مگر شاید وہ اس کی پروا اس وجہ سے نہ کرے کہ امریکی پریس اور کانگریس کا رجحان پاکستان کے خلاف ہے، اس لیے ہندوستان کے لیے یہ موقع اچھا ہے۔ ان حالات میں برصغیر کے جنگ و امن میں فرق پڑے گا، اگر چین واضح طور پر بلاواسطہ یا کسنجر جیسی اہم شخصیت کے ذریعہ ہندوستان پر دوٹوک واضح کر دے کہ چینی مفادات پاکستان کی سالمیت اور تحفظ سے وابستہ ہیں اور کسی حالت میں نہیں بدلیں گے اور یہ کہ اگر پاکستان حملے کا شکار ہوا تو چین ہرممکن مدد کرے گا۔
دو دہائیوں سے چین اور امریکا کے مابین کشیدگی کو دور کرا کے پاکستان نے ان دونوں کے ارتباط میں جو اہم کردار ادا کیا تھا، چین نے اسے فراموش نہیں کیا تھا۔ چین کے سابقہ سفیر برائے پاکستان اور سابقہ نائب وزیر خارجہ چانگ وین چین (جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسلام آباد سے بیجنگ تک ۱۹۷۱ء میں یہی کسنجر کے ہم رکاب تھے) کا ایک مضمون پیپلز ڈیلی نے ۲۱ مئی ۱۹۸۴ء کو چینی اور امریکی تعلقات کی پندرہویں سالگرہ پر شائع کیا تھا۔ اس کا اقتباس یہاں درج ہے۔
’’خاص اہمیت کی بات یہ تھی کہ پاکستان نے چین اور امریکا کے درمیان ٹوٹے ہوئے رشتوں کی بحالی اور ان کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وسیع اور نوک پلک سے درست انتظامات کرکے پاکستان نے کسنجر کے بیجنگ جانے کی خفیہ طور سے راہ فراہم کی تھی، جس کی وجہ سے نکسن کے چین جانے کا راستہ ہموار ہوا‘‘۔ انہوں نے آگے تحریر کیا تھا:
’’میں یہاں خاص طور سے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کے سیکرٹری محکمہ خارجہ سلطان محمد خان نے بڑی جانفشانی اور لگن سے چین اور امریکا کے درمیان کشیدگی کی خندق کو پاٹ کے ملاقات کا انتظام کیا تھا اور یہ انتظام اتنا مکمل تھا کہ اس کی خوبی کی وضاحت چینی اظہار بیان سے کرتا ہوں، جیسے بنا شکن کی آسمانی پوشاک، مسٹر سلطان محمد خان چین اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں سفیر رہ چکے ہیں اور ان دونوں ممالک کے قائدین سے ان کی گہری دوستی رہی ہے اور دونوں ملکوں کا اعتماد بھی انہیں حاصل تھا۔ چینیوں کی گہری محبت سے یہ لطف اندوز ہوئے، سفارتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی بغیر چوں چرا بیجنگ میں ایک بین الاقوامی بنک کے اعلیٰ مقیم نمائندے کی حیثیت سے سرگرم کار ہیں اور چین کی تجدید نو میں ہنوز ہاتھ بٹا رہے ہیں‘‘۔
باوجود اس کے مندرجہ بالا اقتباس میری فطرت (جو خود نمائی کو پسند نہیں کرتی) کے خلاف ہے، محض اس وجہ سے یہ حوالہ دیا کہ ثابت ہو سکے کہ چینی اپنے دیرینہ احباب کو فراموش نہیں کرتے اور طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کے کارہائے نمایاں کو یاد کرتے ہیں۔ فی زمانہ یہ صفت نایاب ہے، کبھی یہ احسن صفت پاکستانیوں کی رگ وپے میں بھی سمائی ہوئی تھی مگر اب مغربی تمدن کی نقل کرنے سے یاد ماضی بن کر رہ گئی ہے۔
Leave a Reply