شرعی طور پر اہم ترین ترجیحات میں سے ایک یہ ہے کہ علم، عمل پر مقدّم ہے۔ کیونکہ علم پہلے ہوتا ہے اور عمل بعد میں۔ علم عمل کا رہنما اور مرشد ہوتا ہے۔ حضرت معاذؓ کی حدیث میں ہے کہ اَلْعِلْمُ اِمَامٌ وَّالْعَمَلُ تَابِعُہٗ (علم امام ہے اور عمل اس کا مقتدی۔۔۔ حدیث موقوف)
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح جامع کی کتاب العلم میں ایک باب کا عنوان رکھا ہے: بَابٌ اَلْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ۔ (علم، قول و عمل سے پہلے ہے)۔
بخاری کے شارحین کہتے ہیں کہ اس سے امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ قول اور عمل کی صحت کے لیے علم شرط ہے۔ یہ دونوں اس کے بغیر معتبر نہیں ہیں۔ اس لیے یہ ان پر مقدم ہے، یہاں تک کہ یہ اس نیت کی بھی تصحیح کرتا ہے جو عمل کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ شارحینِ بخاری کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اسی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ہے تاکہ جب یہ کہا جائے کہ عمل کے بغیر علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو اس سے کسی کے ذہن میں یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ علم کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اور اس کی طلب ضروری نہیں ہے۔
امام بخاری نے اپنی بات کی دلیل کے طور پر وہ احادیث اور آیات ذکر کی ہیں جو ان کے مدعا پر دلالت کرتی ہیں۔
آیات میں سے ایک یہ ہے: فَاعْلَمْ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۔۔۔ (جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اپنے گناہوں کی بخشش مانگو اور مومنین اور مومنات کے گناہوں کی بھی۔۔۔ محمد:۱۹)۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو سب سے پہلے علمِ توحید کا حکم دیا ہے اور اس کے بعد استغفار کی تاکید ہے جوکہ ایک عمل ہے۔ اور یہاں خطاب اگرچہ نبیﷺ سے ہے، مگر ساری امت اس خطاب میں شامل ہے۔
دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآء۔۔۔ (یقینا اللہ کے بندوں میں اُس سے ڈرنے والے وہی ہیں جو علم رکھتے ہوں۔۔۔ فاطر:۲۸)۔
وہ علم ہی ہے جو انسان میں خشیت کی صفت پروان چڑھاتا ہے اور اس کی وجہ سے آدمی عمل پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
احادیث میں سے ایک یہ ہے کہ مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّہْہُ فِی الدِّین۔۔۔ (اللہ تعالیٰ جس کی بہتری چاہتا ہے اُسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔۔۔ صحیح بخاری)۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ سمجھے گا تو عمل کرے گا اور صحیح عمل کرے گا۔
علم کی عمل پر تقدیم کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن کی سب سے پہلی وحی جو نازل ہوئی وہ اقراء تھی، یعنی پڑھو۔ پڑھنا علم کی کنجی ہے۔ عمل کے احکام اس کے بعد نازل ہوئے، جیسے: یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْo وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْo وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرْo (اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! اٹھو اور خبردار کرو، اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو، اور اپنا دامن صاف رکھو۔۔۔ المدثر:۱۔۴)۔
پھر علم اس وجہ سے بھی عمل پر مقدم ہے کہ یہ اعتقادات میں حق اور باطل کے درمیان، اقوال میں صحیح اور غلط کے درمیان، عبادات میں سنت اور بدعت کے درمیان، معاملات میں صحیح اور فاسد کے درمیان، افعال میں حلال و حرام کے درمیان، اخلاق میں اچھے اور بُرے کے درمیان، معیارات میں مقبول اور مردود کے درمیان اور اقوال و اعمال میں راجح اور مرجوح کے درمیان تمیز سکھاتا ہے۔
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علمائے سابقین اکثر اپنی کتابوں کا آغاز کتاب العلم سے کرتے ہیں۔ جیسا کہ امام غزالی ؒ نے اپنی دو ’’کتابوں احیاء علوم الدین‘‘ اور ’’منہاج العابدین‘‘ میں کیا ہے۔ یہی طریقہ حافظ منذریؒ نے اپنی کتاب ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں بھی اپنایا ہے۔ انہوں نے نیت، اخلاص اور اتباعِ کتاب و سنت کی احادیث کا آغاز کتاب العلم ہی سے کیا ہے۔
ترجیحات کا مسئلہ، جس کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں، اس کی اصل بنیاد بھی علم ہی پر ہے۔ اسی کے ذریعے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کس کا حق مقدم ہے اور کس کو مؤخر کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہمیں اس چیز کا علم نہ ہو تو پھر ہم اپنے موضوع کے بارے میں اندھیرے میں تیر چلائیں گے۔
خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے کیا ہی خوب صورت بات کہی ہے: مَنْ عَمِلَ فِیْ غَیْرِ عِلْمِ کَانَ مَایُفْسِدُ أَکْثَرَ مِمَّا یُصْلِحُ۔۔۔ (جو شخص علم کے بغیر عمل کرتا ہے، وہ اصلاح سے زیادہ فساد کا سبب بنتا ہے)۔
یہ بات ان بعض مسلمانوں کے طرزِ عمل سے واضح ہے جن میں تقویٰ، اخلاص اور شجاعت کی کمی نہیں تھی، مگر ان میں شریعت کے مقاصد اور دین کے حقائق کے بارے میں علم و فہم کی کمی تھی۔ یہی صفات خوارج کے اندر پائی جاتی تھیں جنہوں نے حضرت علیؓ بن ابی طالب کے خلاف جنگ کی۔ انہوں نے حضرت علیؓ کی فضیلت، دین کے غلبے میں ان کی خدمات اور رسول اللہؐ سے نسب، رشتہ داری اور محبت میں ان کے قرب کے باوجود حضرت علیؓ کا خون بہانا جائز سمجھا اور ان کے علاوہ دوسرے بہت سے مسلمانوں کا بھی۔ وہ اس کے ذریعے اللہ کے قریب ہونا چاہتے تھے۔
وہ ایسے ہی لوگوں کا تسلسل تھا جن میں سے ایک نے کسی موقع پر نبیﷺ کی مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا۔ اس نے جہالت اوربے وقوفی کے ساتھ نبیﷺ سے کہا تھا: اَعدل [عدل سے کام لو] آپﷺ نے فرمایا تھا: ارے کم بخت! اگر میں عدل نہ کروں گا تو اور کون کرے گا؟ اگر میں نے عدل نہ کیا تو تُو یقینا خائب و خاسر ہو جائے گا۔
ایک روایت میں ہے کہ اس تند خو اور اُجڈ آدمی نے آپﷺ سے کہا تھا: یا رسول اللہ اِتَّقِ اللّٰہُ۔ (اے اللہ کے رسول! اللہ سے ڈریئے!) آپﷺ نے فرمایا: کیا اہلِ زمین میں کوئی ایسا بھی ہے جومجھ سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہو؟
اسے اور اس طرح کے لوگوں کو تالیفِ قلوب کی پالیسی سمجھ نہیں آئی تھی جو امت کے لیے بہت بڑے مصالح رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت اپنی کتاب میں دی ہے اور اس مد میں زکوٰۃ و صدقات خرچ کرنا بھی جائز ٹھہرایا ہے، تو غنیمت اور فے میں اس پر اعتراض کا کسی کو کیا حق ہے؟
پھر جب بعض صحابہ کرامؓ نے اس منہ زور آدمی کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تو رسول اللہﷺ نے انہیں روکا اور یہ پیش گوئی فرمائی کہ ’’اسی طرح کا ایک گروہ ظہور پذیر ہو گا جن کی صفات یہ ہوں گی: تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازیں، ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزے اور ان کے عمل کے مقابلے میں اپنے عمل کو حقیر جانو گے۔ وہ قرآن کو پڑھتے ہوں گے، مگر قرآن ان کے گلے سے نیچے نہیں اُترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکلیں گے جیسا کہ تیر کمان سے نکلتا ہے‘‘۔
’’قرآن ان کے گلے سے نیچے نہیں اُترے گا‘‘ والے فرمانِ نبویؐ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کے دلوں میں جگہ نہیں بنائے گا، نہ ان کی عقل اس کے نور سے منور ہوگی۔ وہ اس کی تلاوت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کریں گے، اگرچہ کہ یہ بہت نماز روزے ادا کرتے ہوں گے۔
ان کی صفات میں سے ایک یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اہلِ اسلام کے خلاف جنگ کریں گے اوران کو بُت پرست کہیں گے۔ (اللولؤوالمرجان)
ان لوگوں کے دلوں یا ان کی نیتوں میں فتور نہیں تھا بلکہ ان کی عقل و فہم میں کمی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری حدیث میں ان کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ: حُدَثَائُ الْأَسْنَانِ، سُفَہَائُ الْأَحْلَام۔۔۔ (ان کی عمریں کم اور ان کے خیالات بے وقوفوں جیسے ہیں۔۔۔ اللولؤوالمرجان)۔
ان کا علم تھوڑا اور ان کی سمجھ کم تھی۔ اس وجہ سے انہوں نے کتاب اللہ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا، باوجود اس کے کہ وہ اسے روانی سے پڑھتے تھے۔ یہ سمجھ کے بغیر تلاوت تھی یا پھر انہوں نے اسے غلط انداز میں سمجھا تھا۔ ان کا فہم اس مفہوم کے خلاف تھا جو اس کے نازل کرنے والے کے ہاں تھا۔
اسی وجہ سے امامِ جلیل حضرت حسن بصریؒ نے اس وقت تک عبادت اور عمل میں غلو سے بچنے کی تاکید کی ہے جب تک کہ آدمی علم و فقہ کے قلعے میں بند نہ ہو۔اس کے بارے میں انہوں نے اپنا انتہائی بلیغ کلام اِن الفاظ میں پیش کیا ہے:
’’علم کے بغیر عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے درست راستے کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر چلنے والا۔ جو شخص علم کے بغیر عمل کرتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرتا ہے۔ علم کی طلب اتنی ہو جو عبادت کے لیے نقصان دہ نہ ہو اور عبادت ایسی ہو جو علم کے لیے مضر نہ ہو۔ ایک قوم نے عبادت کو اپنایا اور علم کو ترک کیا تو وہ تلوار لے کر امت محمدﷺ کے خلاف بغاوت کر گئی۔ اگر انہوں نے علم حاصل کیا ہوتا تو وہ انہیں اس کام کا حکم نہ دیتا جو انہوں نے کیا۔‘‘ (بحوالہ مفتاح دارالسعادۃ)
قیادت اور علم:
یہیں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ہر قسم کی قیادت کے لیے علم شرط ہے، خواہ وہ سیاسی اور انتظامی قیادت ہو۔ جیسے حضرت یوسفؑ کی قیادت، کہ جب ان سے شاہِ مصر نے کہا: اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌo (اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔۔۔ یوسف:۵۴)۔
تو انہوں نے کہا: اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌo (ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔۔ یوسف:۵۵)۔
اس میں آپ علیہ السلام نے اپنی خاص اہلیتوں کے بارے میں بتایا جو آپؑ کو اس عظیم کام کا اہل ثابت کر رہی تھیں، جس میں اس دَور کے مطابق مالی اور اقتصادی امور، زراعت، منصوبہ بندی اور رسد کے انتظامات شامل تھے۔ ان اہلیتوں میں بنیادی حیثیت دو امور کی تھی۔ ایک حفاظت یعنی امانت، اور دوسرا علم۔ یہاں علم سے مراد تجربہ بھی ہے اور کافی معلومات بھی۔
یہ دونوں صفات سورۂ قصص میں شیخ کبیر کی بیٹی کی زبان سے نکلی ہوئی صفات کے موافق ہیں جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم کے طور پر رکھنے کے لیے اپنے باپ کو بتائی تھیں۔ اس نے کہا تھا: اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُo (بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھ لیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔۔۔ القصص:۲۶)۔
یہی معاملہ فوجی قیادت کے بارے میں بھی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بادشاہ مقرر کیا تو اس کی وجہ یہ بتائی: اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ۔۔۔ (اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو علمی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔۔۔ البقرہ:۲۴۷)۔
یہی معاملہ عدالتی امور کا بھی ہے۔ حتیٰ کہ قاضی کے لیے بھی وہی شرط لگائی ہے جو خلیفہ کے لیے مقرر ہے، اور وہ یہ کہ وہ مجتہد ہو۔ یہاں اس بات پر اکتفا نہیں کیا گیا کہ وہ محض دوسروں کا مقلد ایک عالم ہو۔ علم کی اصل حقیقت یہ ہے کہ آدمی حق کو دلیل کے ساتھ پہچانے، نہ کہ انسانوں میں سے کسی زید یا عمرو کے ساتھ موافقت کو اپنے اوپر لازم سمجھ لے۔ جس نے کسی دلیل کے بغیر یا کسی بھونڈی دلیل کے ساتھ اپنے جیسے ایک انسان کی پیروی کی، تو یہ علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔
مقلّد کی قضا کو ضرورتاً قبول کیا گیا ہے جیسا کہ اس شخص کی ولایت کو ضرورتاً قبول کیا گیا ہے جو فقاہت نہ رکھتا ہو۔ اس کے باوجود علم کی ایک حد مقرر ہے کہ کم ازکم اتنا علم اس میں ضرور ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ جہالت کے ساتھ فیصلے کرے گا اور آگ والوں میں سے بن جائے گا۔
حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قاضی تین قسم کے ہیں: ان میں سے دو آگ میں جائیں گے اور ایک جنت میں۔ ایک وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنت میں ہوگا۔ دوسرا وہ شخص جو جہالت کے ساتھ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے، یہ آگ میں ہوگا اور تیسرا وہ ہے جو حق کو پہچانے لیکن ظلم کرتے ہوئے غلط فیصلہ دے تو یہ بھی آگ میں ہوگا‘‘۔ (صحیح الجامع الصغیر)
مفتی کے لیے علم کی ضرورت:
قضا کی طرح فتویٰ کا معاملہ بھی ہے۔ چنانچہ جائز نہیں ہے کہ ایک ایسے عالم کے سوا، جسے اپنے علم پر قدرت ہو اور جسے دین کی سمجھ ہو، کوئی اور شخص لوگوں کو فتویٰ دے۔ ورنہ وہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرے گا، واجبات کو ساقط کرے گا یا لوگوں پر ایسی باتیں لازم کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے ان پر لازم نہیں کی ہیں۔ وہ بدعات کو درست قرار دے گا اور جائز امور کو بدعت گردانے گا۔ وہ اہلِ ایمان کی تکفیر کرے گا اور کافروں کے کفر کو جواز فراہم کرے گا۔ یہ ساری چیزیں یا ان میں اکثر کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ آدمی میں علم اور تفقہ کی کمی ہو۔ خاص طور پر یہ بات کہ آدمی فتویٰ دینے پر جری ہوتا ہے یا اس کی حرمت کو پامال کرتا ہے یا ہر کس ناکس کو اس کی اجازت دیتا ہے تو اس کی وجہ علم ہی کی کمی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم اپنے دَور میں دیکھ رہے ہیں، جس میں دین ایک بازیچۂ اطفال بنا ہوا ہے کہ جو چاہے اس کے بارے میں رائے زنی کرے۔ جو کچھ بول سکتا ہو یا کچھ لکھ سکتا ہو، تو وہ دین کے بارے میں کہنا اور لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ قرآن و سنت اور سلف صالحین نے اس کے بارے میں شدت کے ساتھ تاکید کی ہے کہ اِس کی شرائط اور اہلیتوں کے بغیر، دین میں رائے زنی نہ کی جائے۔ وہ شرائط بھی ایسی ہیں کہ انہیں اپنے اندر جمع کرنا اور ان کی پوری قدرت حاصل کرنا آسان نہیں۔
رسول اللہﷺ نے اس شخص پر شدت کے ساتھ نکیر فرمائی ہے جس نے آپؐ کے دَور میں فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام لیا تھا۔ اس نے ایک شخص کو، جو زخمی تھا اور اسے جنابت لاحق ہوگئی تھی، فتویٰ دیا تھا کہ اس پر غسل کرنا لازم ہے۔ اس نے اس بات کا کوئی خیال نہیں رکھا تھا کہ اس کو زخم ہے۔ اس سے وہ آدمی فوت ہو گیا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’اسے اپنے ساتھیوں نے ہلاک کیا ہے، اللہ انہیں ہلاک کرے۔ جب انہیں علم نہیں تھا تو کسی سے پوچھا کیوں نہیں۔ مرضِ جہل کا علاج یہ ہے کہ پوچھا جائے۔ اُس کے لیے تیمم ہی کافی تھا‘‘۔ (صحیح الجامع الصغیر)
دیکھیں کہ نبیﷺ نے کس طرح ان کے فتویٰ کو اس شخص کے قتل کے مترادف ٹھہرایا اور انہیں ان الفاظ میں بددعا دی: قَتَلَہُمُ اللّٰہ (اللہ انہیں ہلاک کرے)۔ معلوم ہوا کہ جہالت کا فتویٰ کبھی ہلاک کرے گا اور کبھی تخریب کا ذریعہ بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن قیمؒ وغیرہ نے اس بات کے عدم جواز پر اجماع نقل کیا ہے کہ کوئی شخص علم کے بغیر دین میں فتویٰ دے۔ اسے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے ضمن میں لیا ہے کہ: وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اﷲِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo (اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو، جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو۔۔۔ الاعراف:۳۳)۔
انہوں نے اس کے بارے میں احادیث، آثارِ صحابہ اور سلف کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں، جن سے مدعیانِ فتویٰ، طفلانِ مکتب اور نیم ملائوں کے لیے راستہ بند ہوگیا ہے۔
علامہ ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی جاہل مرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ بے علمی کی حالت میں کوئی فتویٰ دے۔ ابوحصین اشعریؒ فرماتے ہیں کہ تم میں سے ایک شخص کسی مسئلے میں بے دھڑک فتویٰ دیتا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اگر یہ مسئلہ حضرت عمرؓ کو پیش آتا تو وہ اس کے لیے بدری صحابہ کو جمع کرتے۔
اگر اشعری بے چارے ہمارے دَور کو دیکھتے تو پتا نہیں ان کے دل پر کیا گزرتی۔
حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: جس نے ہر اس مسئلے میں فتویٰ دیا، جو لوگوں نے اس سے پوچھا، تو وہ دیوانہ ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اگر میں وہ بات کہوں جو مجھے معلوم نہ ہو تو کون سا آسمان ہوگا جو مجھ پر سایہ کرے گا، اور کون سی زمین ہوگی جو مجھے پناہ دے گی‘‘۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’اس بات سے میرا سینہ ٹھنڈا ہوتا ہے (یہ بات انہوں نے تین بار دہرائی) کہ آدمی سے ایک مسئلہ پوچھا جائے اور وہ اسے معلوم ہو، مگر وہ کہے کہ اَللّٰہُ أَعْلَمُ (اللہ بہتر جانتا ہے)‘‘۔
سید التابعین حضرت سعید بن مسیبؒ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ جب کوئی فتویٰ دیتے تو یہ ضرور کہتے: اَللّٰہُمَّ سَلِّمْنِیْ، وَسَلِّمُ مِنِّی۔۔۔ (اے اللہ! مجھے بھی محفوظ فرما اور مجھ سے بھی لوگوں کو محفوظ فرما۔۔۔ اعلام الموقعین، ابن قیمؒ)۔
یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ فتویٰ دینا ایک حساس معاملہ ہے۔ اور اس کا اہل بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی علمِ راسخ کے اسلحے سے مسلح ہو، اس کا فکری افق وسیع ہو اور اس کے ساتھ اس میں وہ پرہیزگاری بھی ہو جو اسے اپنے نفس یا دوسرے لوگوں کی خواہشات کی پیروی سے بچا سکے۔
اس مقام پر آکر آدمی کو علمِ شریعت کے طالب ایسے نوجوانوں پر… جو اکثر اوقات اس میدان میں نووارد ہوتے ہیں… بجاطور پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ نازک سے نازک اور حساس سے حساس مسائل میں پوری تعلّی کے ساتھ بے دھڑک فتوے صادر کرتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے علما پر بھی دست درازی کرتے ہیں بلکہ ائمہ عظام اور صحابہ کرام پر بھی تنقید کرنے سے نہیں چُوکتے۔ وہ بڑے غرور کے ساتھ نتھنے پُھلا کر کہتے ہیں: ہُمْ رِجَالٌ وَّنَحْنُ رِجَالٌ! (وہ بھی انسان تھے اور ہم بھی انسان ہیں)۔
ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ اپنی حیثیت پہچانیں، پھر مقاصد شریعت میں فقاہت کا مقام حاصل کریں اور زمینی حقائق کو سمجھیں۔ لیکن ان کا غرور ان کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔
داعی اور معلم کے لیے علم کی ضرورت:
جب علم قضا اور فتویٰ کے لیے ضروری ہے تو دعوت و تربیت کے لیے بھی اس کی ضرورت مسلّم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قُلْ ہٰذِہِ سَبِیْلِیْ اَدْعُو اِلَی اﷲِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ۔۔۔ (تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔۔۔ یوسف:۱۰۸)۔
پس ہر داعی الی اللہ، جو رسول اللہﷺ کا پیروکار ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی دعوت بصیرت کے ساتھ ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی دعوت سے پوری طرح آگاہ ہو۔ جس چیز کی طرف وہ دعوت دے رہا ہو، اسے اس نے خوب سمجھا ہو۔ اسے معلوم ہو کہ وہ کس چیز کی طرف دعوت دے رہا ہے، کس کو دے رہا ہے، کیوں اور کیسے دے رہا ہے۔
اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ’’ربانی‘‘ اس کو کہتے ہیں جو خود جانتا ہو، اس پر عمل کرتا ہو اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔
حضرت ابن عباسؓ نے ’’ربانی‘‘ کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ وہ علما اور فقہا ہوں۔ (امام بخاری کتاب العلم)
کہا جاتا ہے کہ ’’ربانی‘‘ وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی تربیت کرتا ہے، بڑے علم سے پہلے چھوٹے علم کے ساتھ۔ چھوٹے علم سے مراد واضح مسائل ہیں اور بڑے علم سے مراد دقیق مسائل ہیں۔
اس سے مراد تعلیم میں تدریج، متعلمین کی حالت اور ان کی سطحِ استفادہ کا لحاظ اور ان کو ایک درجے سے دوسرے درجے کی طرف اٹھاتے چلے جانا ہے۔
دعوت اور تعلیم کے لیے علم سے جو چیزیں ضروری ہو جاتی ہیں ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ معلم، لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرے، انہیں مشکل میں نہ ڈالے، انہیں خوشخبری سنائے، اور انہیں متنفر نہ کرے۔ جیسا کہ ایک متفق علیہ حدیث میں آیا ہے: ’’آسانی پیدا کرو، مشکل میں نہ ڈالو، خوشخبری سنائو، متنفر نہ کرو‘‘۔ (شیخین بروایت حضرت انسؓ۔ اللؤلؤ والمرجان)
اس حدیث کی تشریح میں حافظ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نومسلموں کی تالیفِ قلب اور ابتدا میں اس کے بارے میں عدمِ شدت ہے۔ اسی طرح اس سے مراد گناہوں سے روکنا بھی ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ کام تدریج کے ساتھ ہو۔ کیونکہ ایک کام جب ابتدا میں آسان ہو تو نئے داخل ہونے والے کے لیے اس میں دلچسپی ہوتی ہے، اور وہ اسے خوشی سے قبول کرتا چلا جاتا ہے۔پھر اس کا نتیجہ اکثر اوقات یہ نکلتا ہے کہ اس کی دلچسپی مزید بڑھتی جاتی ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس معاملہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ بھی برعکس نکلتا ہے۔
یہ تیسیر صرف نومسلموں تک محدود نہیں ہے، جیسا کہ حافظ کی بات سے معلوم ہوتا ہے، بلکہ یہ ایک عمومی اور دائمی امر ہے اور یہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو نومسلم ہو، یا جس نے حال ہی میں گناہوں سے توبہ کی ہو، یا وہ شخص جو تخفیف کا محتاج ہو، جیسے مریض یا عمر رسیدہ یا کسی اور حاجت میں مبتلا شخص۔
علم کے تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ داعی دینی معلومات کو گھونٹ گھونٹ کر کے آدمی کے گلے سے اُتارے، تاکہ اس کا عقلی معدہ اسے ہضم کرتا جائے۔ اور اسے وہ باتیں نہ بتائی جائیں جو اس کی عقل اور سمجھ برداشت نہ کر سکے۔ ورنہ یہی بات اس کے لیے یا اسی طرح کے دوسرے لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گی۔
اسی کے بارے میں حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ’’لوگوں سے ایسی باتیں کرو جو اُن کے لیے مانوس ہوں۔ جو باتیں نامانوس ہوں، انہیں چھوڑ دو۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے؟‘‘۔ (امام بخاری کتاب العلم)
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’جب تم لوگوں سے کوئی ایسی بات کہتے ہو جس تک ان کا ذہن نہیں پہنچتا، تو وہ ضرور ان میں سے بعض لوگوں کے لیے باعثِ فتنہ ہوگی‘‘۔
☼☼☼
Leave a Reply