اس مضمون میں قرآنِ حکیم کی روشنی میں علم کے بعض بنیادی ادَوات (آلات) جیسے قلم، دوات، روشنائی، قرطاس، لوح اور انسانی بدن کے بعض معاون اعضاء اور جوارح، جیسے کان، آنکھیں، دل، ہاتھ، پائوں اور زبان کا ذکر کیا گیا ہے۔ ذیل میں ہم ان کے اوپر مختصر روشنی ڈالتے ہیں۔
(الف) القلم
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا‘‘۔
اس آیت میں قلم کا ذکر ہے، جو حصول علم کے لیے ایک اہم معاون ہے۔ قرآن کریم میں اس کی قسم بھی کھائی گئی ہے۔ سورہ القلم کی پہلی آیت میں فرمایا: ’’ن‘‘ قسم ہے قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں (اس کی قسم)‘‘ ابن منظور ’’لسان العرب‘‘ میں لکھتے ہیں: قلم وہ ’’آلہ‘‘ ہے جس کی مدد سے لکھا جاتا ہے۔ عربی لغت میں اس کی جمع اَقْلام اور قِلام ہے اور قرآن شریف میں اَقْلام استعمال ہوئی ہے۔سورۂ لقمان کی آیت ۲۷ میں فرمایا گیا ’’اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں‘‘۔
واضح رہے کہ قرآن کریم میں ’’القاء الاقلام‘‘ قرعہ اندازی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ سورۂ آل عمران کی آیت ۴۴ میں فرمایا گیا ’’اور آپ اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو، اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے‘‘۔
قلم کی اہمیت اور مقام و مرتبہ کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی (ت ۱۹۹۷ء) ’’تدّبر قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں ’’سابق انبیاء علیہم السلام نے جو تعلیم دی وہ زبانی تعلیم کی شکل میں تھی، جس کو محفوظ رکھنا نہایت مشکل تھا۔ وہ بہت جلد یا تو محرف ہو کر مسخ ہو جاتی یا اس پر نسیان کا پردہ پڑ جاتا، اللہ تعالیٰ نے دین کو اس آفت سے محفوظ رکھنے کے لیے انسان کو قلم اور تحریر کے استعمال کا طریقہ سکھایا جس سے وہ اس قابل ہوا کہ زبانی تعلیم کی جگہ تحریر کے ذریعہ سے تعلیم دی جاتی۔ چنانچہ سب سے پہلے اس کو تورات کے ’’احکام عشرہ‘‘ الواح میں لکھ کر دیئے گئے۔ پھر دوسرے نبیوں کی تعلیمات بھی قلمبند ہوئیں اور سب کے آخر میں سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اس طرح محفوظ کی گئی کہ قیامت تک اس میں کسی تحریف و تغیر کا ادنیٰ احتمال باقی نہ رہا‘‘۔
(تدبر قرآن، ج ۴، ص ۵۱۳)
یہاں یہ بات قابل تحقیق ہے کہ قلم کا باقاعدہ استعمال کب ہوا۔ اس بارے میں ایک حدیث نبویؐ بھی ہے کہ: ’’سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے کہا لکھ! قلم نے پوچھا کیا لکھوں؟ فرمایا: جو کچھ ہو چکا اور جو آئندہ ہو گا‘‘۔ (ترمذی)
اس سے معلوم ہوا کہ تخلیق انسانی سے قبل ہی قلم کے استعمال کا آغاز ہو چکا تھا۔
(ب) نٓ
ارشاد ربانی ہے: ’’ن‘‘قسم ہے قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں (اس کی قسم)‘‘ (القلم) عام طور پر مشہور ہے کہ ’’ن‘‘ حروف مقطعات میں سے ہے، لیکن ’’ن‘‘ کا ایک معنی دوات بھی ہے، جیسا کہ عبدالرحمن بن جوزی (ت ۵۹۷ھ) کی تفسیر ’’زاد المسیر فی علم التفسیر‘‘ اور امام القرطبی (ت ۶۷۱ھ) کی ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم پیدا کیا، پھر ’’النون‘‘ اور وہ دوات ہے‘‘۔ کئی تفاسیر میں جیسے الجامع لا حکام القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کا قول نقل ہے کہ ’’ن‘‘ سے مراد دوات ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ’’النون‘‘ کے معنی مچھلی کے بھی ہیں۔ جیسا کہ سورۃ الانبیاء کی آیت ۸۷ میں حضرت یونسؑ کو ’’ذوالنون‘‘ کہہ کر یاد کیا گیا اور سورۃ القلم کی آیت ۴۸ میں ان کا ذکر ’’صاحب الحوت‘‘ کے نام سے کیا گیا۔
(ج) القرطاس
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’(اے پیغمبر!) اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چُھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے‘‘۔ (الانعام)
اس آیت میں لفظ ’’قرطاس‘‘ آیا ہے۔ امام راغب اصفہانی (ت ۵۰۲ھ) ’’مفرادات القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’(قرطاس) ہر وہ چیز ہے جس پر لکھا جائے‘‘۔ مولانا امین احسن اصلاحی ’’تدبر قرآن‘‘ میں سورۃ الانعام کی آیت ۹۱ کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’(قرطاس) صحیفہ اور ورق کو کہتے ہیں، چاہے وہ کسی چیز سے بنایا گیا ہو۔ اس سے مراد وہ تمام چیزیں ہوں گی جو اس زمانے میں لکھنے کے کام آتی تھیں‘‘۔
اس کی جمع قراطیس ہے جو قرآن مجید میں سورۃ الانعام کی آیت۹۱ میں وارد ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان سے پوچھو کہ وہ کتاب کس نے نازل کی جسے موسیٰ علیہ السلام لائے تھے، جو تمام انسانوں کے لیے نور اور ہدایت تھی، جسے تم پارہ پارہ (الگ الگ ورق) کر کے رکھتے ہو، کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو‘‘۔
(د) مِداد
ارشاد ربانی ہے: ’’(اے نبیؐ!)کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائیں تو وہ لازماً ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں (تو وہ بھی کفایت نہ کرے)‘‘۔
اس آیت میں مِدَاد کا ذکر ہے۔ اس کے اور معنی بھی ہیں جیسے چراغ کا تیل، ہر چیز کی زیادتی، لیکن یہاں ’’روشنائی‘‘ کے معنی مراد ہیں۔ مرتضیٰ الزبیدی کی کتاب ’’تاج العروس من جواہر القاموس‘‘ میں ابن الانباری کا قول نقل کیا گیا ہے کہ روشنائی کو مداد اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ کاتب کی مدد کرتی ہے‘‘۔ ضمنی طور پر یاد رکھیں کہ عربی قواعد میں اسم الآلہ کے تین اَوزان تو مشہور ہیں ’’یعنی مِفْعَل، مِفْعَال، مِفْعَلَۃ، لیکن چار اَوزان اور بھی ہیں: فعالۃ، فاعلۃ، فاعول اور فِعال۔ اس آخری وزن کی مثال مداد بھی ہے۔
آیت کے آخر میں مَدَداَ آیا ہے جس سے بقول امام راغب کے ’’روشنائی‘‘ کے معنی مراد ہیں۔ قرآن شریف میں اس سے فعل بھی استعمال ہوا ہے جیسے سورۂ لقمان کی آیت ۲۷ میں فرمایا: ’’اور سمندر (کا تمام پانی) روشنائی ہو اور سات سمندر اور (روشنائی) ہو جائیں‘‘۔
یَمْدُّ کے معنی ’’سیاہی بن جائیں‘‘ کے ہیں، لیکن اس کے معنی ’’وہ ڈھیل دیتا ہے‘‘ کے بھی ہیں۔ سورہ البقرہ کی آیت ۱۵ میں ’’یَمُدُّھْمْ‘‘ کے معنی ’’ان کو بڑھاتا ہے‘‘ کے ہیں، بشرطیکہ یہاں ھُمْ کو منصوب علی نزع الخافض قرار دیں جیسا کہ علامہ عبدالرشید نعمانی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’لغات القرآن‘‘ میں ذکر ہوا ہے۔
(ہ) لوح
ارشاد الٰہی ہے: ’’(قرآن مجید) لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے‘‘۔ (البروج)
اس آیت میں لفظ ’’لَوحِ‘‘ استعمال ہوا جس کے معنی ’’لکھنے کی چوڑی تختی‘‘ کے ہیں۔ لوح کی جمع الواح ہے۔ سورۃ الاعراف کی آیت ۱۴۵ میں فرمایا ’’اور ہم نے (تورات کی تختیوں میں ان کے لیے ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی‘‘ سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۰ میں فرمایا ’’اور موسیٰ نے (جوش میں) الواح زمین پر پٹخ دیں‘‘۔ سورۃ الاعراف ۱۵۴ میں فرمایا ’’اور جب موسیٰ کا غصہ فرو ہوا تو اس نے الواح اٹھا لیں‘‘۔ قرآن حکیم میں الواح ’’کشتی کے تختے‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ سورۃ القمر میں فرمایا ’’اور ہم نے نوح علیہ السلام کو تختوں اور کیلوں سے تیار شدہ کشتی میں سوار کیا‘‘۔
مندرجہ بالا ذرائع و وسائل وہ تھے جنہیں کسی چیز کو احاطہ تحریر و کتابت میں لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب انسانی بدن کے اُن اعضاء و جوارح کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو علم حاصل کرنے کے معاون ہوتے ہیں۔
(الف) اَلْاٰذَان:
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور ان کے کان ہیں مگر اُن سے سنتے نہیں‘‘۔ (الاعراف ۱۷۹)
یہاں اٰذانٌ کا ذکر ہے جس کا واحد اُذُنٌ ہے۔ اس کے معنی ’’کان‘‘ کے ہیں۔ یہ مؤنث ہے، کیونکہ انسانی بدن کے وہ اعضاء جو جوڑے کی شکل میں ہو وہ مؤنث ہوتے ہیں، خواہ ان کے آخر میں ’’ۃ‘‘ ہو یا نہ ہو، لیکن چند اسماء مستثنیٰ ہیں، جیسے صدغ (کنپٹی)، مرْفَقٌ (کہنی) حاجب (اَبرو) اور خد (رخسار) ہیں، کان حصول علم کا ایک اہم انسانی عضو ہے۔ اسی لیے سورۃ الاعراف میں فرمایا: ’’اور جب قرآن شریف پڑھا جائے تو توجہ سے سُنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔
قرآن شریف میں قوت سامعہ کے لیے ’’اَلسَّمْعُ‘‘ بھی استعمال ہوا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت ۷ میں فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ’’السَّمْعُ، سَمِعَ یَسْمَعُ‘‘ سے مصدر کے طور پر قرآن شریف میں استعمال ہوا ہے۔ سورۃ الشعراء میں فرمایا: ’’وہ تو سننے سے برطرف کر دیئے گئے ہیں‘‘۔ آپ کے ذہنِ میں سوال پیدا ہوا ہو گا کہ سورۃ البقرۃ میں ’’سمع‘‘ (واحد) کیوں استعمال ہوا ہے، اَسْمَاع (جمع) کیوں نہیں آیا، جب کہ اس سے پہلے قلوب اور اس کے بعد اَبصَار (جمع آئے ہیں) اس کا جواب مولانا امین احسن اصلاحی ’’تدبر قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اس چیز کا تعلق اہلِ زبان کے طریق استعمال سے ہے۔ قرآن شریف میں یہ لفظ کم و بیش ۲۰۔ ۲۲ مقامات پر استعمال ہوا ہے اور اکثر جگہ قُلُوْب، اَفْئِدَۃَ اور اَبصَار کے ساتھ استعمال ہوا ہے، لیکن ہر جگہ سمع واحد ہی کی شکل میں استعمال ہوا ہے کہیں بھی جمع کی شکل میں استعمال نہیں ہوا، ظاہر ہے کہ قرآن مجید زبان کے لحاظ سے بھی ایک معیاری چیز ہے، اس وجہ سے ماننا پڑے گا کہ فصحاء اس سباق میں اس لفظ کو اسی طرح استعمال کرتے رہے ہیں‘‘۔ (تدبر قرآن، ج ا، ص ۱۱۰)
(ب) اَلاْعَیُْن
ارشاد الٰہی ہے: ’’اور ان کی آنکھیں ہیں مگر اُن سے دیکھتے نہیں‘‘۔ (الاعراف ۱۷۹)
اس کا واحد عَیْنٌ ہے۔جمع اَعْیَان بھی آتی ہے۔ اور عُیْون بھی۔ ’’عین‘‘ ایک عضو ہے، جو دیکھنے کے لیے ہے۔ آنکھوں کے لیے ابصار بھی قرآن کریم میں آیا ہے، جس کا واحد بصر ہے۔ سورۃ النجم کی آیت ۱۷ میں فرمایا ’’ان کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ آگے بڑھی‘‘۔
(ج) الفْوَّاد:
ارشاد ربانی ہے: ’’بے شک کان، آنکھ اور دل سب (کے اعمال و افعال) کی باز پرس ہو گی‘‘۔ (الاسراء)
اس آیت میں ’’اَلْفُوَّاد‘‘ (دل) کا لفظ وار ہوا ہے۔ اس کی جمع اَفْئِدۃٌ ہے جو قرآن شریف میں کئی مقامات پر وارد ہوا ہے۔ امام رازی نے اپنی تفسیر ’’التفسیر الکبیر و مفاتیح الغیب‘‘ میں اَفْئِدَۃٌ کا مفہوم ’’عقول‘‘ لیا ہے۔غلام احمد پرویز سے لغات القرآن اور اس کی دیگر کتب سے نظری اختلاف ہونے کے باوجود الفواد کے بارے میں ان کی رائے نقل کی جا رہی ہے جو انہوں نے لغات القرآن میں بیان کی ہے: ’’جب انسانی جذبات کی طرف اشارہ ہو گا تو فُواد آئے گا اور جب انسانی فکر کے متعلق بات ہو گی تو قلب آئے گا۔ ان دونوں کی یہ تقسیم عمومی ہے، ورنہ ان دونوں کا استعمال دل کے معنیٰ میں ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں سیاق و سباق کی رُو سے دیکھنا چاہیے کہ کس مقام پر عقل و فکر مراد ہے اور کس مقام پر جذبات، اس فرق کی رُو سے قلب اور فُواد کے معنی کرنے چاہئیں۔ ہمارے ہاں کے لفظ ’’دل‘‘ کے معاملہ میں انگریزی کا لفظ Mind زیادہ جامع ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں فُواد سے مراد Mind یا جذبات۔ Mind اس لیے کہ حواس کے ذریعے جو اطلاعات بہم پہنچتی ہیں وہ ان سے نتیجہ نکالتا ہے اور جذبات اس لیے کہ اگر ان اطلاعات کو جذبات متاثر کر دیں تو انسان کبھی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا‘‘۔
’’المعجم الوسیط‘‘ جو عربی کی لغت ہے، اس میں لکھا ہے کہ ’’ھو فارغ الفوَّاد‘‘ اس شخص کے لیے بولا جاتا ہے جسے کوئی اندیشہ اور غم نہ ہو یا جو بُرے حال میں ہو۔ سورۃ القصص کی آیت ۱۰ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے بارے میں آیا ہے: ’’اُدھر موسیٰ کی والدہ کا دل اُڑا جا رہا تھا‘‘۔ قلُوْب اور اَفئِدَۃ کے ساتھ ایک اور لفظ ’’صدُور‘‘ ہے۔ انسان کا دل ’’صدر‘‘ (سینہ) میں ہی ہوتا ہے۔ یہ بات امام رازی (ت ۶۰۴ھ) نے اپنی تفسیر ’’التفسیر الکبیر و مفاتیح الغیب‘‘ میں سورۃ الحج کی اس آیت کی روشنی میں کہی ہے ’’بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ دل جو سینوں میں ہیں (وہ) اندھے ہو جاتے ہیں‘‘۔ بہرحال قرآن کریم میں کئی مقامات ہیں جہاں صدور سے قلوب مراد لیے جا سکتے ہیں۔ جیسے سورۃ آل عمران کی آیت ۲۹ میں فرمایا ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ کوئی بات تم اپنے دلوں میں مخفی رکھو یا اسے ظاہر کرو اللہ اس کو جانتا ہے‘‘۔ اس آیت میں ’’صدور‘‘ سے ’’قلوب‘‘ مراد لیے جا سکتے ہیں۔ ’’صدر‘‘ دراصل کسی چیز کو زبانی یاد کرنے میں ایک اہم عضو ہے۔ سورۃ العنکبوت کی آیت ۴۹ میں ہے۔ ’’دراصل یہ روشن نشانیاں ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جنہیں علم بخشا گیا ہے‘‘ سید امیر علی ملیح آبادی (ت ۹۱۹) ’’مواہب الرحمن‘‘ میں اس آیت سے حافظ قرآن کی فضیلت ظاہر کرتے ہیں اس آیت کا ایک اور مطلب بھی ہے جسے امام ابن کثیر (ت ۷۷۴ھ) نے ابن جریر کے حوالے سے نقل کیا ہے، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا، ان کے سینوں میں جو اہل کتاب میں سے ہیں۔
(د) اَیْدِیْ:
’’پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کریں‘‘۔
اس آیت میں میں لفظ ’’اَیْدٍ‘‘ استعمال ہوا ہے جو یَدٌ کی جمع ہے۔ لکھنے کا کام ہاتھ سے ہی ہو سکتا ہے۔ امام البیضاوی (ت ۷۹۱ھ) ’’انوار التنزیل و اسرار التاویل‘‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ ’’اَیْدی یہاں تاکید کے لیے ہے، جیسے کوئی شخص کہتا ہے کَتَبْتُہٗ بِیَمِیْنِیُ ’’میں نے اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھا۔
(ہ) اَرْجُلٌ:
’’اَرْجُلٌ‘‘ رِجْلٌ کی جمع ہے۔ یہ عضو باقاعدہ طور پر قرآن مجید میں علم کے پس منظر میں تو نہیں آیا لیکن حصول علم کے لیے کسی کے پاس جانا پڑتا ہے، اس کے لیے پائوں ہی تو معاون ہوتے ہیں۔ اس کا معاون ہونا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے نمایاں طورپر ظاہر ہوتا ہے۔ وہ چل کر اُس شخص کے پاس جاتے ہیں جس کا سورۃ الکہف کی آیات ۶۰ تا ۶۵ میں ذکر ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جس شخصیت کو ملنے کے لیے جاتے ہیں اس کے بارے میں فرمایا گیا: ’’اور اسے ہم نے اپنے پاس سے ایک خاص علم کی تعلیم دی‘‘۔ اس سفر میں چلنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تھکاوٹ بھی ہو گئی۔ جس کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’اس سفر سے ہمیں بہت تھکان ہو گئی ہے‘‘۔ سورہ الکہف کی ان آیات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں جن میں یہ قصہ بیان ہوا ہے:
’’(ذرا ان کو وہ قصہ سنائو جو موسیٰ علیہ السلام کو پیش آیا تھا) جب کہ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریائوں کے سنگم پر نہ پہنچ جائوں ورنہ میں ایک زمانہ دراز تک چلتا ہی رہوں گا۔ پس جب وہ دونوں ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نکل کراس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کوئی سرنگ لگی ہو۔ آگے جا کر موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا لائو ہمارا ناشتہ آج کے سفر میں تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں۔ خادم نے کہ آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا؟ جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے تھے، اس وقت مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھے ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کا ذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ موسیٰ نے کہا کہ اسی کی تو ہمیں تلاش تھی۔ چنانچہ وہ دونوں اپنے قدموں پر پھر واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا‘‘۔
(و) اَللِّسَان:
’’اَلِلّسَان‘‘ یہ عضو اور ’’اللغتہ‘‘ دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے، اس کی جمع اَلْسِنَۃٌ، السُن اور لسنٌ ہے۔اللسان بطور عضو سورۃ البلد میں استعمال ہوا ہے ’’اور زبان اور دو ہونٹ دیئے‘‘۔ اس طرح اللسان ’’اللغہ‘‘ کے معنی میں سورۂ مریم کی آیت ۹۷ میں بایں الفاظ آیا ہے ’’(اے پیغمبر!) ہم نے یہ (قرآن) آپ کی زبان میں آسان (نازل) کیا ہے‘‘۔ قوت گویائی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسے اللہ نے اہم ترین نعمت قرار دیا ہے۔ سورۃ الرحمن میں فرمایا ’’اسی نے اس کو بولنا سکھایا‘‘۔
یہاں قرآن حکیم کی روشنی میں چند اہم آلات اور انسانی بدن کے وہ اعضاء و جوارح جو حصول علم کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں انہیں اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ البتہ حصول علم کے لیے اور چیزیں بھی ہیں جن کے بغیر ہم علم حاصل نہیں کر سکتے، جیسے ذہانت، شوق، محنت، بنیادی خوراک، استاد وقت وغیرہ۔ انہی باتوں کو الامام محمد بن ادریس الشافعیؒ (ت ۲۰۴ھ) نے درج ذیل خوبصورت اشعار کی صورت میں بیان کیا ہے:
أخی لن تنال العلم الابستۃ
سأنیک عن تفصیلھا ببیان
ذکاء و حرص و اجتھاد وبلغۃ
صحبۃ استاذ و طول زمان
(بحوالہ: ’’سہ روزہ دعوت‘‘ دہلی۔ شمارہ،دسمبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply