
دوسری مرتبہ منتخب ہونے کے بعد بش یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ امریکی عوام نے انہیں ووٹ اس لیے دیا ہے کہ وہ اپنی یکطرفہ پالیسی کو جاری رکھیں۔ وزیرِ خارجہ کولن پاول کا استعفیٰ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ امریکی حکام کو صرف طاقت پر انحصار کرنے سے روکنے میں ناکام ہو گئے ہیں اور جدید قدامت پرست گروہ (Neo-Cons) کامیاب ہو گئے ہیں جو کہ دنیا کو چلانے میں صرف واحد سپر پاور امریکا کا کردار ہر جگہ نمایاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ڈیمو کریٹ امیدوار نے عراق جنگ سے متعلق امریکا میں پائی جانے والی واضح بے چینی سے فائدہ اٹھانا چاہا تھا۔ عراق مسئلے کی حساسیت اور نزاکت کا احساس کرتے ہوئے بش نے اقوامِ متحدہ کو مصروف رکھنے کی پالیسی اختیار کرنا چاہی اور اس کے لیے انہوں نے بظاہر کچھ ایسے اقدام کیے جس سے اقوامِ متحدہ کو عراق میں قدرے راست شرکت کا موقع فراہم ہوتا ہے‘ خاص طور سے عراق کے انتخابی عمل میں۔ عراق میں امن و امان کی صورتحال کو قابو میں کرنے کی امریکی کوشش ناکام ہو چکی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مسلح مزاحمت‘ اغوا اور عراقی پولیس اور نیشنل گارڈز پر حملوں میں پہلے سے کہیں زیادہ تیزی آگئی ہے حتیٰ کہ امریکیوں کی ہلاکت کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس سے قبل امریکا نے فلوجہ پر حملوں کا سلسلہ اس وقت بند کر دیا تھا جب اس شہر میں معصوم شہریوں کی ہونے والی ہلاکتوں کی خبر کی پبلی سٹی سے امریکا کو پریشانی لاحق ہوئی اور مقامی القاعدہ کمانڈر زرقاوی کے حامیوں کو اپنے حق میں فضا ہموار کرنے کا موقع مل گیا۔ چنانچہ بغداد کے گرد و پیش سنی علاقوں میں معاملات اتحادی افواج کے قابو سے باہر ہوتے دکھائی دینے لگے۔ امریکی کمانڈرز جو اَب تک کچھ برداشت سے کام لے رہے تھے‘ آپے سے باہر ہو گئے‘ اس لیے کہ ممنوعہ علاقوں میں عراقی مزاحمت کو کچلنے کے لیے ان کے پاس کافی اسلحے بھی موجود تھے۔ یہ توقع کہ دوسرے ممالک اقوامِ متحدہ کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی افواج بھیجیں گے‘ پوری نہیں ہوئی اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ واشنگٹن نے اقوامِ متحدہ کے عملے کی حفاظت کی ضمانت کے حوالے سے نااہلی و ناتوانی کا مظاہرہ کیا تھا۔ دریں اثنا بش اور بلیئر دونوں کو اندرونِ ملک روز افزوں تنقیدوں کا سامنا ہوا کیونکہ عراق میں عام تباہی کے اسلحوں سے متعلق انٹیلی جنس کی اطلاعات اور القاعدہ سے رابطے کے حوالے سے فراہم کردہ خبریں ثابت نہیں ہو سکیں۔ بالآخر یہ صورتحال سامنے آئی کہ عراق پر حملے کا منصوبہ پہلے سے تیار کر لیا گیا تھا اور خفیہ اطلاعات کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے مسخ کر کے پیش کیا گیا۔
یہ تنازعہ برقرار تھا اور عراق پر حملے کے قانونی جواز پر سوالیہ نشان تھا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اپنے اس خیال کا اظہار کر دیا کہ عراق پر حملہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر تھا اور یہ کہ امریکا نے اس عالمی ادارے کے چارٹر کی مخالفت کی۔ بہ الفاظِ دیگر یہ کہ یہ جنگ غیرقانونی اور ناجائز تھی۔ کوفی عنان نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ عراق پر جنگ تھوپنے کے نتیجے میں دنیا محفوظ تر نہیں ہوئی۔ کوفی عنان کی یہ بات بش کو بری لگی جس کا اظہار انہوں نے واضح طور سے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد کیا۔ ۱۹۹۱ء کی جنگِ خلیج کے بعد تیل برائے غذا کے پروگرام سے متعلق بے ضابطگیوں سے متعلق پہلے بھی اگرچہ اطلاعات مل رہی تھیں لیکن ابتدائی سالوں میں اس کا ذمہ دار کوفی عنان کو کبھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ یقینی طور سے عراق سے تیل کی اسمگلنگ روکنے کی ذمہ داری اقوامِ متحدہ نیول ٹاسک فورس پر عائد ہوتی تھی‘ جس میں زیادہ تر جہاز امریکا اور برطانیہ کے شامل ہیں۔ یہ دونوں طاقتیں تیل برائے غذا کے پروگرام کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سرگرم اور فعال نہیں ہوئیں اور ان کی حکومتوں نے ایسے ہزاروں معاہدوں کی اجازت دے دی جو امریکا اور یورپ کی شپنگ اور آئل کمپنیاں تیل درآمد کرنے کے لیے کر رہی تھیں‘ قیمتوں اور دوسری شرائط کی صحیح چھان بین کے بغیر ہی۔ تیل برائے غذا کے ابتدائی پروگراموں میں سرمایہ لگانے والوں میں ایک نمایاں نام Marc Rich کا ہے جو ایک بیلجیم نژاد یہودی اور امریکی شہری ہے۔ Rich بہت بڑا سرمایہ دار ہے اور اس نے صدر کلنٹن کی انتخابی مہم میں کافی بڑی رقم عطیہ دی تھی۔ یہ ٹیکس کی چوری کے الزام میں گرفتار ہوا اور اسے سزائے قید بھی ہوئی۔ جب ۲۰۰۱ء میں کلنٹن کے وائٹ ہائوس میں آخری ایام تھے تو انہوں نے اسے معافی دے دی۔ اتفاق یہ ہے کہ نوے کی دہائی کے وسط میں پاکستان رائس ایکسپورٹ کارپوریشن کی جانب سے طے پانے والے ایک معاہدۂ فروخت میں کثیر منافع اندوزی میں یہ ملوث تھا۔ جارج ڈبلیو بش ریپبلکن انتظامیہ نے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیا جب ۲۰۰۴ء میں بدعنوانی کے الزامات تیل برائے غذا کے حوالے سے دوبارہ ابھر کر سامنے آئے۔
امریکی حساسیت کے حوالے سے کوفی عنان کی واضح بے رخی نے امریکا کو غضبناک کیا۔ کوفی عنان کی پوزیشن خاص طور سے اس وقت اور بھی نازک ہو گئی جب ان کے بیٹے کو‘ جس کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ اس بدعنوانی میں ملوث ہے۔ ایک سوئس فرم Contecna میں وہ ملازم تھے‘ جس کا نام بعض بڑے معاہدوں کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ سیکرٹری جنرل کا اپنا ریکارڈ بہت ہی اچھا رہا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے آپ کو اقوامِ متحدہ کی تفتیش کے سامنے پیش کر دیا جب وہ سیکرٹری جنرل برائے سکیورٹی کے ماتحت تھے اور یوگو سلاویہ نیز رونڈا میں نسل کشی روکنے پر مامور تھے۔
تیل برائے غذا کے حوالے سے تازہ ترین اسکینڈل جس میں کہ ان کے صاحب زادے کے بھی ملوث ہونے کی ’’خبر ہے‘‘ کا علم ہونے کے فوراً بعد انہوں نے بلاتاخیر ایک انتہائی محترم شخص یعنی امریکی فیڈرل ریزرو بورڈ کے سابق چیئرمین Volcker کو انکوائری کمیٹی کا سربراہ مقرر کر دیا۔ بش کے وفاداروں کی جانب سے مذمت کے سلسلے کو پھر بھی ان کا یہ اقدام نہیں روک سکا۔ William Safire جو کہ اسرائیل اور بش کی پالیسیوں کے حامی کے طور پر بہت مشہور ہے‘ نے کوفی عنان پر نیویارک ٹائمز کے اپنے ایک کالم میں انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور گفتگو کے عمل کو مبہم بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ مانسٹوا کے سینئر کول مین نے سیکرٹری جنرل کے اعتبار کو مشکوک قرار دیتے ہوئے ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ خود صدر بش نے بھی ۲ دسمبر کو پریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس معاملے میں ایک مکمل‘ شفاف اور کھلی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ جس انداز میں سیکرٹری جنرل کی تصویر کو بھیانک بنا کر پیش کیا جارہا ہے‘ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ اقوامِ متحدہ میں ان کی خدمات کا ریکارڈ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک سے دادِ تحسین وصول کر چکا ہے نیز انہیں ان کی خدمات کے عوض امن نوبل انعام سے بھی نوازا گیا ہے‘ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بش انتظامیہ اپنی یکطرفہ پالیسی کی جانب ہی مائل ہے۔ سینئر ریپبلکن رہنما خاص طور سے نائب صدر ڈک چینی کے متعلق ہنوز یہ اطلاعات ہیں کہ وہ ان تیل کمپنیوں سے جن کے ساتھ ان کا اشتراک ہے بڑی رقمیں وصول کر رہے ہیں۔ بش کی سابق کابینہ کے ارکان امریکا کی تاریخ میں ذاتی دولت کے حوالے سے امیر ترین لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کمانے کے عمل کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ بڑے بڑے ٹھیکے جو امریکی فرموں کو ان کی پشت پناہی کے لیے دیے گئے‘ سے کوئی شور و غوغاں پیدا نہیں ہوا۔ کوفی عنان کا دوسرا دور ۲۰۰۶ء کے آخر تک باقی ہے اور انہیں اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی اکثریت احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عراق کے مسئلے پر امریکی پالیسی پر تنقید کی وجہ سے ان پر ڈالا جانے والا امریکی دبائو ان کے لیے قابلِ برداشت ثابت ہو گا۔ بہرحال آثار و قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ بش انتظامیہ اقوامِ متحدہ کے کردار کو ثانوی بنا ڈالے گی اور نہ صرف عراق میں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی فوجی قوت پر انحصار کرے گی۔ بش انتظامیہ کا یہ عہد کہ وہ امریکی طرز کی جمہوریت متعارف کرائے گی اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنائے گی‘ اسی تبدیلیٔ حکومت (Regime Change) کی پالیسی کا تسلسل ہے جو امریکا نے گیارہ ستمبر کے بعد سے اسلامی ممالک کے لیے اپنا رکھی ہے۔ امریکا کے اندر اعتدال پسندی کے حق میں کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں‘ جن پر بش انتظامیہ کو ضرور توجہ دینی چاہیے۔ اپنے ایک تازہ اداریے میں نیویارک ٹائمز نے نشاندہی کی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی دفتر شاہی کو یہ اختیار نہیں دیا گیا تھا کہ وہ تیل برائے غذا پروگرام کی پوری طرح نگہداشت کرے جو کہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری تھی۔ معاصر نے مکمل تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے کوفی عنان سے استعفیٰ کے امریکی مطالبے کو بہت ہی بچکانہ قرار دیا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی)
Leave a Reply