
گھوٹکی شہر سے پچیس ،تیس کلو میٹر دور بھرچونڈ کا علاقہ ہے ۔جسے آج کل بھرچونڈی شریف کہا جاتا ہے ، اس درگاہ کے گدی نشین پیر عبدالخالق عرف میاں مٹھو ہیں، اس درگاہ کے اول گدی نشیں حافظ محمد صدیق رحمہ اللہ تھے۔ ان کے مریدین اور معتقدین پاکستان بھر میں جبکہ خصوصاً سندھ میں لاکھوں کی تعداد ہے۔مخصوص سفید ٹوپی اور کرتا پہنے ہوئے ان کے مریدین پورے گھوٹکی شہر میں نظر آتے ہیں۔ اور بھرچونڈی شریف تو ان سے بھرا ہوا ہے ۔سندھ کے دوسرے صوفیوں اور گدیوں کی طرح یہ بھی ایک ایسی گدی ہے کہ جس کے مریدین اپنے پیر کے اشارے پر اپنی جان تک نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ آج کل میڈیا میں یہی بھرچونڈی شریف مشہور ہے۔
سندھ میں لوگ صوفیوں کی عزت واحترام میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتے۔ بھرچونڈی شریف بھی ان صوفیا کرام کی آماجگاہ رہا ہے جن لوگوں نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو سندھ کے کونے کونے میں پھیلانے کی کوششیں کیں، سندھ کی ایک بڑی گدی ہے جس کے حالیہ گدی نشیں پیر عبدالخالق عرف میاں مٹھو ہیں۔اس گدی پر آکر ہندوکمیونٹی کا مسلمان ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری تھا جب حافظ محمد صدیق بھرچونڈی شریف جلوہ افروز ہوا کرتے تھے اور یہی نہیں یہ معاملہ ان کے مریدین میں بھی چلا آرہا ہے۔ مولانا تاج محمود امروٹی رحمہ اللہ، حافظ محمد صدیق بھرچونڈی کے خلیفہ تھے ان کے پاس ہندوؤں کا آکر مسلمان ہونا معمول کی بات تھی۔ ہندو اس وقت بھی یہاں آکر مسلمان ہوا کرتے تھے جب سندھ میں محبت بانٹی جاتی تھی، جب قوم پرست پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ یہاں پر ہندو اس وقت بھی مسلمان ہوا کرتے تھے جب سندھ کی مہمان نوازی ضرب المثل ہوا کرتی تھی۔ آج سندھ میں مہمان تو ہیں لیکن خوئے نوازی نہیں ۔اس وقت کسی ہندو کے مسلمان ہونے پر کسی نے بھی آوازے نہیں کسے، کسی نے بھی شور شرابہ نہیں کیا، کوئی جلاؤگھیراؤ نہیں ہوا ،کسی مسلمان تو درکنار کسی ہندو نے بھی واویلا نہیں کیا ۔ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ لوگ عدالتوں کا رخ کرتے اور کیس کیا کرتے تھے، مگر مسلمان ہونے والے شخص کے اقرار کرلینے پر معاملہ رفع دفع ہوجایا کرتا تھا۔اورفتح ہمیشہ اسلام کی ہی ہوئی ،کیوں کہ دین اسلام ،فطری دین ہے ۔اور ان لوگوں کا اسلام قبول کرنا اسلام کی حقانیت پرواضح دلیل ہے ۔
یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب محمد بن قاسم نے اس علاقہ کو فتح کیا ،تو یہاں آباد غیر مسلم جوق درجوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے۔ کون نہیں جانتا کہ مروند سے آنے والا عثمان مروندی سندھ کے جس علاقے میں آکر بسا تھا اور اسلام کی تعلیمات لوگوں میں پھیلانا شروع کی تھیں۔ وہ سیہون شریف سے پہلے سیوستان ہوا کرتا تھا، اور اس علاقہ میں ہندو راجہ کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ انہی کی محنت اور برکت ہے کہ آج وہ علاقہ مسلمان آبادی سے بھرا ہوا ہے یہی نہیں اس کے بعد اور بہت سے ہندو لوگ مسلمان ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے اور کبھی بھی اس معاملہ نے اتنی شدت اختیار نہیں کی جتنی بھرچونڈی شریف میں اسلام قبول کرنے والی فریال کے معاملہ نے کی ہے۔
سندھ کی ہندوکمیونٹی کی ایک لڑکی رنکل کماری نے بھرچونڈی شریف میں آکر اسلام کیا قبول کیا اور اسلامی طریقے سے شادی کیا کرلی، ایک طوفان برپا ہو گیا۔ غیرمسلم تو غیر مسلم کچھ مفاد پرست اور لادین قوتیں بھی اس معاملہ کو اچھالنے لگیں۔ میڈیا جو جمہوریت اور حق خودارادیت کا نعرہ لگاتا ہے،جس کا مقصد جیو اور جینے دو ہے، جو معاشرے میں عورت کو کھلی آزادی دلوانے کے نعرے بلند کرتا ہے اور آزادی رائے پر سیمینار منعقد کرتا ہے۔ تمام کے تمام اہل میڈیا اس معاملے پر سیخ پا ہوگئے اور اس معاملہ کو ملکی سطح کا معاملہ بناڈالا۔
ان لوگوں کو تو اسی وقت خاموش ہوجانا چاہیے تھا، جب فریال نے بھری عدالت میں اپنے ہوش و حواس سے یہ اقرار کیا تھا کہ میں نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا ہے اور نکاح کیا ہے۔لیکن ان لوگوں نے عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بھی اس معاملے کو طول دیا اور بات ملکی سطح تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔کیا یہ لوگ درپردہ اس فریال کو یہ کہنے پر مجبور نہیں کر رہے کہ وہ اسلام لانے سے انکار کردے اور دوبارہ ہندو ہوجائے؟ پھر عدالتوں میں اس کے سامنے رام رام کے نعرے کیا معنی رکھتے ہیں ؟
اس میں کوئی شک نہیں اغوا کرنے کا جھوٹا الزام لگا کراور اس معاملہ کو طول دے کر کچھ قوم پرستوں اور سیکولر طاقتوں نے اپنے مقاصد پورے کرنے ہیں اور یہ بھی عیاں ہے کہ فریال کے معاملے کو طول دے کر بہت سی ایسی ہندو لڑکیوں، کو جو اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں، روکنا بھی مقصود ہے۔ قوم پرست اور لادین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سندھ کے اندر وڈیروں اور جاگیرداروں کی نجی جیلوں میں کتنے ہی ہندو زنجیروں میں جکڑے ہوئے موجود ہیں۔ کیا ان لوگوں نے ان کے لیے کبھی آواز بلند کی؟ کیا کسی این جی او نے کبھی ان غریب ہندوؤں اور مسلمانوں کے بارے میں کسی فورم پر بات کی جن کی نسلیں وڈیروں اور جاگیرداروں کے پاس غلامو ں کی سی زندگی گزار رہی ہیں؟ کیا کبھی ان لوگوں نے ان ہندو اور مسلمان عورتوں کے بارے میں بھی بات کی جن کی وڈیرے عصمت دری کیا کرتے ہیں؟ یہ لوگ اس وقت کیوں خاموش رہتے ہیں جب یہ مفلس اور بے بس عورتیں پانچ پانچ میل کا سفر طے کر کے پینے کا پانی لایا کرتی ہیں؟ یہ سب اس لیے کیونکہ سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں کے سامنے ان کی دال گلنا تو دور کی بات ہے، دال چولہے پر چڑھتی ہی نہیں۔
اس طرح کے معاملات کو اچھالنا دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں جو کہ پاکستان کے چہرے پر ایک داغ لگانے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف ہندو کمیونٹی کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ تم لوگ پاکستان میں غیر محفوظ ہو۔ یہ بات تاریخ سے بھی عیاں ہے کہ اقلیتوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی بات جتنی مذہبی لوگوں نے کی ہے۔ اتنی قوم پرستوں اور سیکولر لوگوں نے کبھی نہیں کی۔ اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ کسی کو ایذا نہ پہنچائی جائے۔ کون نہیں جانتا کہ سندھ کے ہندوؤں کو اگر کسی سے خوف ہے تو وہ سندھ کے وڈیرے اور جاگیردار ہیں۔ علمائے کرام اور مذہبی طبقے سے کبھی ان کو تکلیف نہیں پہنچی ہے۔ اگر یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں، تو جا کر دیکھ لیں کتنی ہی ایسی گدیاںاور درگاہ ہیں جن پر ہندو کمیونٹی کے افراد آکر حاضریاں بھرتے ہیں۔
حیرت کی بات دیندار مسلمانوں کی خاموشی ہے۔ وہ آگے بڑھ کر مسلمان فریال کی حمایت کیوں نہیں کرتے؟ اس کو ہندو ازم میں دھکیل دینے کی سازش و کوشش کی مزاحمت کیوں نہیں کرتے؟ افسوس کہ ایک لڑکی بھری عدالت میں اقرار کرتی ہے کہ میں مسلمان ہوں اور ہمیں پھر بھی یقین نہیں آتا، اور دوسری طرف ہندو ؤں نے بھری عدالت میں رام رام کے نعرے بلند کیے اور ہمیں یقین آگیا کہ انہوں نے نعرے لگائے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری حس مرچکی ہے۔؟؟؟؟
☼☼☼
Leave a Reply