
اسلامک اسٹیٹ آف عراق اور الشّام اب مل کر اردن کے مساوی رقبے پر قابض ہیں، جو شام میں حلب کے نواح سے بغداد تک محیط ہے۔ یہ علاقائی سلامتی اور امریکی مفادات کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جو لوگ اس خطرے کو ٹالنا چاہتے ہیں، اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا چاہتے ہیں، ان کے پاس اب زیادہ آپشن بچے نہیں ہیں۔ جہادی گروپوں نے عراقی فوج کو کسی بڑی دِقّت کے بغیر پریشان کرکے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ تعداد کے اعتبار سے جہادی گروپوں کی نفری عراقی فوج کے ایک فیصد کے مساوی ہے۔ جہادی گروپ ایران کے پاس دارانِ انقلاب کا بھی ایسا ہی حشر کرسکتے تھے جو عراقی سرحد پر جمع ہوچکے ہیں تاکہ عراقی فورسز کو مضبوط کیا جاسکے۔ بات یہ ہے کہ عراقی فوج کی طرح پاس دارانِ انقلاب بھی بہت بکھرے ہوئے ہیں اور اُن پر دباؤ زیادہ ہے۔ امریکا اب تک اپنے فوجی دوبارہ عراقی سرزمین پر اتارنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتا۔
اب توجہ کردستان کی علاقائی حکومت اور اس کی فورسز پر ہے۔ عراق میں اب صرف کردوں کے پاس ہی باضابطہ تربیت یافتہ اور پرعزم فوج ہے۔ ایران اور امریکا دونوں چاہیں گے کہ جہادی گروپوں کو زیر دام لانے کے لیے کردوں کی فوج استعمال کی جائے۔ ایران کے دارالحکومت تہران میں حال ہی میں کردستانی وزیر اعظم برزانی اور ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی نے ملاقات کی جس میں ایرانی حکام نے کردستانی وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ اپنی فورسز کو اسلامک اسٹیٹ آف عراق اور الشّام کے خلاف لڑائی کے لیے میدان میں اتاریں اور عراقی فورسز کا ساتھ دیں۔ امریکا بھی یہی چاہتا ہے کہ جہادی گروپوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کردستانی فوج کو بھی عمدگی سے استعمال کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اگر عراق میں جاری لڑائی کو اپنی مرضی کے مطابق جیتنا چاہتا ہے، تو اسے کردستانی فوج کو میدان میں اُترنے کی تحریک دینی ہوگی۔
مگر کیا ایران اور امریکا وہ حاصل کرلیں گے، جو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ بہت سوں کا کہنا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ کردستانی فوج کو میدان میں لانے کے لیے کردستان کی علاقائی حکومت کو چند ٹھوس ترغیبات دینی ہوں گی۔ کردوں کو تیل کی آمدنی کا معقول حصہ دینے کے ساتھ ساتھ بجٹ میں بہتر فنڈنگ کے ذریعے بھی راضی کیا جاسکتا ہے۔ کردستان کی علاقائی حکومت نے ترکی کے علاقے کیہان (Ceyhan) کو ۳۰ لاکھ بیرل تیل فراہم کیا ہے تاہم اب تک وہ بین الاقوامی مارکیٹ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تیل کی برآمد کے معاملے میں بغداد خاصی مداخلت کرتا ہے۔ اگر کردوں کو یقین دلایا جائے کہ اُنہیں تیل کی آمدن کا معقول حصہ ملے گا، بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں گے اور سب سے بڑھ کر اپنے علاقے میں پائے جانے والی تیل کی برآمد کی اجازت بھی دی جائے گی، تو بہت ممکن ہے کہ وہ جہادی گروپوں کے خلاف جاری جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے راضی ہوجائیں۔
کردستان کی علاقائی حکومت جہادی گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے راضی ہو بھی سکتی ہے کہ اب تک جہادی گروپ کردوں کے لیے بھی نرم گوشہ رکھتے دکھائی نہیں دیے۔ انہوں نے حال ہی میں موصل کا کنٹرول حاصل کرنے سے ایک ہفتہ قبل پیٹریاٹک یونین آف کردستان کے دفتر دیالہ پر حملہ کرکے ۱۸؍افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ آئی ایس آئی ایس کے بارے میں پورے یقین سے کچھ بھی کہا نہیں جاسکتا۔ یہ مستقبل قریب میں کرد علاقوں کو بھی بڑے پیمانے پر نشانہ بنا سکتی ہے۔ کردستان کی علاقائی حکومت نے سکیورٹی کے معاملات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر جہادی گروپوں نے کرد علاقوں کو بھی نشانہ بنایا تو یہ کرد علاقائی حکومت کے لیے شدید دھچکے جیسا ہوگا۔ کرد حکام اپنے علاقوں سے قربت کی بنیاد پر عراقی صوبے دیالہ کو بھی کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں۔ اس صوبے میں جہادی گروپوں نے کرد سکیورٹی فورسز پر حملے کیے ہیں۔ کرکوک میں بھی جہادی گروپوں اور کرد فورسز کے درمیان خاصی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ صوبے کے بہت سے علاقوں پر جہادی گروپوں کا کنٹرول ہے، خاص طور پر جنوب میں۔ کرد فورسز نے اب تک مکمل جنگ کی حالت میں جانے سے گریز کیا ہے۔ جہادی گروپوں نے بھی کرد فورسز کو مکمل طور پر حریف یا دشمن سمجھنے یا قرار دینے سے اجتناب برتا ہے۔ وہ شاید کوئی نیا محاذ کھولنا ہی نہیں چاہتے۔ کم و بیش ایک ہزار کلو میٹر کے علاقے میں کردوں اور جہادی گروپوں کے درمیان فالٹ لائن ہے۔ جب تک جہادی گروپ اس کا احترام کرتے رہیں گے، کرد فورسز لڑائی میں کودنے سے گریز کریں گی۔
مغرب میں جو لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ جہادی گروپوں کو کنٹرول کرنے میں کرد فورسز بھی اپنا کردار ادا کریں گی، وہ سادہ لوحی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ماضی کا تجربہ گواہ ہے کہ جب بھی کردوں نے مغربی فورسز کی مدد کی ہے، اُنہیں صِلے میں کچھ نہیں ملا۔ جب کچھ ملا ہی نہیں اور کچھ ملنے کی توقع بھی نہیں تو پھر کوئی کیوں پرائی آگ میں کودنے کو تیار ہوگا؟ اس وقت کرد عراق کے طول و عرض میں جاری لڑائی میں فریق بننے کو بظاہر تیار نہیں۔ انہوں نے اپنے علاقوں کو محفوظ رکھنے پر زیادہ توجہ دی ہے تاکہ کوئی بھی ایسی ویسی صورت حال پیدا نہ ہو۔ کرد فورسز عوام کی بھرپور حمایت سے تشکیل پائی ہیں۔ کرد علاقائی حکومت کسی بھی حال میں ایسا کچھ نہیں چاہے گی کہ بہت کچھ یا سب کچھ داؤ پر لگ جائے۔ یہ حکومت اپنے تمام علاقوں میں پائیدار ترقی اور سکیورٹی یقینی بنائے رکھنا چاہتی ہے۔ اگر اُسے عراق کے طول و عرض میں جہادی گروپوں کے خلاف جاری جنگ میں شریک ہونے کو کہا جائے تو اول تو وہ آسانی سے شریک نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو اِس شرط پر کہ اُس کے تمام علاقوں میں ترقی کا گراف بلند کرنے کی گنجائش پیدا کی جائے۔
گزرے ہوئے زمانوں میں جو کچھ ہوا ہے، وہ کردوں کے ذہن سے محو نہیں ہوا ہے۔ شاہ کے دور میں کردوں نے ایرانی حکومت کی حمایت کی، جس کی پاداش میں انہیں عراقی حکومت کے ہاتھوں مظالم برداشت کرنا پڑے۔ اُس دور کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے معاہدۂ الجزیرہ کے ذریعے ایران اور عراق کے درمیان کچھ دیر کے لیے صلح تو کرادی مگر تنازع میں ایران کی حمایت کرنے والا فریق بن کر کردوں نے بھاری قیمت چکائی۔ اب اگر اُن سے ایران کی حمایت کی بات کی گئی تو وہ سوچ سمجھ کر جواب دیں گے اور کوئی بھی ایسا قدم نہیں اُٹھائیں گے کہ بعد میں کسی حکومت کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے۔ کردوں کو اندازہ ہے کہ ماضی میں جب اُنہیں دھوکا دیا گیا تو اُنہیں کتنی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ اب اگر اُن سے فریق بننے کو کہا جائے تو وہ ممکنہ نتائج اور مضمرات پر ضرور غور کریں گے۔
اور بات صرف ۱۹۷۵ء کی نہیں۔ ۲۰۰۳ء میں جب امریکی فوج نے عراقی سرزمین پر لشکر کشی کی تو انصار الاسلام کے خلاف کرد فورسز نے بھی امریکی فوج کے ساتھ مل کر لڑنے کو ترجیح دی۔ کردوں نے سوچا کہ شاید ایسا کرنے سے ملک میں ان کی پوزیشن بہتر ہوجائے گی اور وہ اپنے تمام مطالبات منوانے میں بہت حد تک کامیاب ہوجائیں گے۔ مگر پھر انہیں اس وقت شدید مایوسی ہوئی جب امریکی فوج نے ملک کے دیگر علاقوں کو غیر مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ کردوں پر بھی ایسا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ اب جبکہ اوباما انتظامیہ نے عراق سے فوج نکال ہی لی ہے تو کرد فورسز کے پاس لڑائی میں باضابطہ فریق بننے کی گنجائش برائے نام رہ گئی ہے۔
کردوں کو دھوکا دینے میں امریکا تنہا نہیں۔ عراقی فوج بھی کردوں کا اعتماد کھونے کے معاملے میں آگے آگے رہی ہے۔ حال ہی میں جلائولہ کے علاقے میں جہادی گروپوں کو نشانہ بنانے کے بجائے عراقی فوج نے کرد فورسز کو نشانہ بنا ڈالا جس کے نتیجے میں کئی ’’پیشمرگہ‘‘ سپاہی مارے گئے۔ اس کے نتیجے میں کرد عوام میں عراقی فوج کے خلاف جذبات مزید شدت اختیار کرگئے۔
آئی ایس آئی ایس اور دیگر گروپوں کے خلاف لڑائی میں کردوں کے حصہ لینے کی بہت اہمیت ہے۔ امریکا چاہے گا کہ کرد فورسز اس لڑائی میں حصہ لیں اور اگر وہ براہِ راست نہ بھی لے سکیں تو عراقی فوج کو لاجسٹک اور دیگر سہولتیں فراہم کریں تاکہ میدانِ جنگ میں بھرپور فتح یقینی بنائی جاسکے۔ اگر عراقی حکومت اور امریکا چاہتے ہیں کہ جہادی گروپوں کے خلاف لڑائی میں کرد فورسز سے مدد ملے تو لازم ہے کہ عراقی وزیراعظم نوری المالکی کو ایران کی طرف بہت زیادہ اور غیر ضروری طور پر جھکنے سے روکا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اُنہیں ایسی باتیں کرنے سے روکا جائے جن سے عراق کے سُنّی مزید بدظن ہوں اور سرکاری فوج کے خلاف صف آرا ہونے والوں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوں۔ نوری المالکی بیان بازی کے معاملے میں بڑھک کی حدوں کو چھونے لگتے ہیں۔ اُنہوں نے کرد فورسز اور آئی ایس آئی ایس کے گٹھ جوڑ کا جو شوشہ چھوڑا ہے، اُس سے کردوں میں ان کے خلاف بدگمانی کی سطح بلند ہوگئی ہے۔
اگر امریکا کرد فورسز کی مدد لینے کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو اُسے کردوں کے اسٹیکز میں اضافے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایک ٹھوس اقدام تو یہ ہوسکتا ہے کہ کرد علاقوں سے نکالے جانے والے تیل کی برآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اب تک امریکا کردوں کی طرف سے تیل کی فروخت کی مخالفت کرتا آیا ہے۔ یہ مخالفت ترک کرکے اُسے کردوں کے تیل کے ممکنہ خریدار تلاش کرنے چاہئیں۔ امریکا کو کرد علاقائی حکومت کی آمدنی کے ذرائع میں اضافے پر خاطر خواہ توجہ دینی چاہیے۔
امریکا کو کرد فورسز (پیشمرگہ) کا معیار بلند کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ اسے جدید ترین ہتھیار فراہم کیے جائیں۔ امریکا نے عراقی فوج کے لیے جو ہتھیار فراہم کیے تھے وہ اب آئی ایس آئی ایس اور دیگر جہادی گروپوں کے کارکن دندناتے ہوئے لیے پھرتے ہیں۔
اور آخر میں یہ نکتہ کہ امریکا کو کرد علاقائی حکومت کو یقین دلانا ہوگا کہ وہ کرد علاقوں سے متعلق اس کے جائز اور درست دعوئوں کے حوالے سے اس کا ساتھ دے گا۔ اس حوالے سے کسی بھی غیر حقیقت پسندانہ وعدے سے گریز کرنا ہوگا۔ کرد علاقائی حکومت ماضی کی تلخیوں کی روشنی ہی میں کوئی فیصلہ کردے گی۔ اگر کوئی غیر حقیقت پسندانہ وعدہ کیا گیا یا بڑھک مارنے کے انداز سے کوئی بات کہی گئی تو اُسے بھروسا کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔
“Kurds to the rescue”.
(“Foreign Affairs”. June 17, 2014)
Leave a Reply