کرغیزستان ہمیشہ روس پر انحصار کرے گا!

کرغیزستان میں خونریز نسلی فسادات نے حالات اس قدر خراب کردیے ہیں کہ اب قومی وحدت خواب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اپریل میں خونریز ہنگاموں کے نتیجے میں قربان بیگ باقئیف کی برطرفی کے بعد روزا کو صدر بنایا گیا۔ قربان بیگ اور ان کے ساتھیوں نے تشدد کو ہوا دی۔ اس الزام کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی درست قرار دیا ہے۔ روزا اوٹنبائیوا نے روس سے استدعا کی کہ امن فوجی بھیجے اور کر غیزستان کے حالات درست کرنے میں مدد دے۔

’’نیوز ویک‘‘ کی اینا نیمتسووا نے بشکیک میں روزا اوٹنبائیوا سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔


٭ حالیہ بدامنی کے کرغیزستان پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

روزا: سرکاری طور پر تو یہ بتایا گیا ہے کہ ۱۸۶؍افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اصل تعداد اس سے کئی گنا ہے۔ کرغیزستان میں روایت یہ ہے کہ لوگ مُردوں کو تیزی سے دفنا دیتے ہیں۔ جلال آباد اور اوش میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ازبک سرحد پر لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ میں ملک کے تمام لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ اپنے گھروں کو واپس آجائیں۔ حالات بہتر ہوتے جارہے ہیں، زندگی رفتہ رفتہ معمول پر آتی جارہی ہے۔ لوگ اب اپنے اپنے علاقوں کو صاف کر رہے ہیں تاکہ زندگی دوبارہ بھرپور انداز سے شروع کی جاسکے۔ سیکورٹی کا معاملہ البتہ اب تک پریشان کن ہے۔ حکومت اس پر بھی توجہ دے رہی ہے۔

٭ نسلی فسادات کا اس طرح پھوٹ پڑنا محض وقتی معاملہ تھا یا اس کی کوئی تاریخ ہے؟

روزا: بات یہ ہے کہ اس علاقے میں نسلی کشیدگی سوویت یونین کے دور سے چلی آرہی تھی۔ اس علاقے میں زندگی بسر کرنا خاصا دشوار ہے۔ لوگ بہت محنت کرتے ہیں تب کہیں جاکر گزارا ہو پاتا ہے۔ معاشی مشکلات نے اشتعال پیدا کر رکھتا تھا۔ باقئیف خاندان اب فسادات کا دائرہ وسیع کر کے شمال میں بھی حالات خراب کرنا چاہتا ہے۔

٭ کیا قربان بیگ باقئیف نے غیر ملکی جنگجوؤں کی خدمات بھی حاصل کیں؟

روزا: قربان بیگ ڈراؤنی اور تھرلر فلمیں بہت دیکھا کرتا تھا۔ اس نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کرنے کے بجائے ایک ایسا ہتھیار استعمال کیا جس کے ذریعے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے، اس نے لوگوں کو نسلی فسادات پر ابھارا۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ باہر سے بھی لوگ لائے گئے۔ انہوں نے ماسکو سے بھی فسادی عناصر بلوائے۔ ان بلوائیوں کو منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث جرائم پیشہ گروپوں کی مدد حاصل رہی۔

٭ امریکا نے باقئیف خاندان سے بہتر تعلقات قائم رکھے۔ کیا کرغیزستان کے حالات خراب کرنے میں امریکا کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے؟

روزا: اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی باقئیف خاندان کے قریب تھے مگر اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ انہیں مناس ایئر بیس استعمال کرتے رہنا تھا۔ ہاں، مناس ایئر بیس کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا بازار گرم رہا ہے۔ کرغیزستان کے خلاف سازش اور اسکینڈلز کی خبریں آتی رہی ہیں۔ امریکی طیاروں کو ایندھن کی فراہمی سے ہونے والی آمدنی پوری کی پوری باقئیف خاندان کی جیب میں جاتی تھی۔ امریکیوںکو اپنے کام سے کام تھا۔ وہ دوسرے کسی بھی معاملے میں بولنے کے روادار نہ تھے۔ جو کچھ کرغیزستان میں ہوا، اس کے لیے امریکا کو ذمہ دار ٹھہرانا غیر منطقی ہوگا۔

٭ اب روس کو کیا کردار کرنا چاہیے؟

روزا: روس اس بات کو سمجھتا ہے کہ بدامنی بڑھی تو ملحقہ ریاستوں میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھے گی۔ دی کلیکٹیو سیکورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (جس کا سربراہ روس ہے) اب کرغیزستان کو عسکری امور میں تکنیکی مدد فراہم کرنے کے لیے کام کررہی ہے۔ کرغیز فوج کو حرکت میں لایا جا چکا ہے اور نیشنل گارڈ (رضاکار) بھی طلب کرلیے گئے ہیں۔ ایسے میں ہمیں افرادی قوت سے زیادہ آلات اور تکنیکی امداد کی ضرورت ہے۔ روس نے حالیہ ریفرنڈم کے لیے بھی ماہرین بھیجے۔ روس چاہتا ہے کہ کرغیزستان میں امن ہو اور زندگی معمول پر آئے۔

٭ کیا روس اب کرغیزستان میں امن فوجی بھیجے گا؟

روزا: میرا خیال ہے کہ روس اس حدتک مداخلت پسند نہیں کرے گا اور شاید اب اس کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ کرغیزستان میں حالات بہت حد تک معمول پر آچکے ہیں۔ ہمیں دی کلیکٹیو سیکورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن کے تمام ارکان کی طرف سے مدد کا یقین دلایا جا چکا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کرغیزستان ہمیشہ روس پر انحصار کرتا رہے گا۔ اس کی بنیادی وجہ تو جغرافیائی حقیقت ہے۔ کسی دوسرے خطے سے مدد مانگنے کے بجائے ہمیں اپنے خطے میں ساتھی تلاش کرنے چاہئیں۔ اپنے مشکل ترین لمحات میں ہم نے پہلا کام یہ کیا کہ روس سے مدد مانگی۔ نیٹو سے مدد ہم نے نہیں مانگی اور اس کی بظاہر کوئی گنجائش بھی نہ تھی۔

(بشکریہ: ’’نیوزویک‘‘ ۲۸ جون تا ۵ جولائی ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*