
اسٹریٹجک امور کے دو امریکی ماہرین نے ایک مقالے میں کہا ہے کہ لائن آف ایکچیوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر چین نے حال ہی میں بھارت کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کا تدارک یقینی نہ بنایا گیا تو آئندہ اس حوالے سے کوئی بھی کارروائی پہلے سے کہیں زیادہ دشوار ثابت ہوگی۔
لداخ میں لائن آف ایکچیوئل کنٹرول کے نزدیک چینی افواج نے بھارت کے اچھے خاصے رقبے پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ قبضہ ختم کرانا بھارت کے لیے ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے بھارت کے امکانات دھندلاتے جارہے ہیں۔ امریکی ریاست میساچوسیٹس کے شہر کیمبرج میں میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سینٹر فار انٹر نیشنل اسٹڈیز کے لیے لکھے جانے والے ایک تحقیقی مقالے میں ایم آئی ٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر وپن نارنگ اور نیو یارک اسٹیٹ کی البینی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹوفر کلیری نے کہا ہے کہ جو کچھ چین نے کیا ہے اس کے تدارک کے حوالے سے بھارت کے لیے کچھ بامعنی کرنے کا آپشن کمزور پڑتا جارہا ہے۔ بھارت کو چینی اقدامات کے جواب میں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ ایسا آسان نہیں، جیسا دکھائی دیتا ہے۔
مقالے میں اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ چینی فوج نے جس نوعیت کی مہم جوئی دکھائی ہے، اس کا تدارک بروقت لازم ہے تاکہ یہ عمل روکا جاسکے اور نقصان کا گراف نیچے رکھنا بھی ممکن ہو۔ وپن نارنگ اور کرسٹوفر کلیری نے اس سلسلے میں عالمی سلامتی اور علاقے فتح کرنے سے متعلق امور کے ماہر امریکا کی جارجیا یونیورسٹی کے ڈین آلٹمین کا بھی حوالہ دیا ہے۔ آلٹمین کا موقف یہ ہے کہ کسی بھی فوج کی طرف سے حملے کے نتیجے میں اگر کسی ملک کا کچھ علاقہ ہاتھ سے جاتا رہے، تو اسے واپس لینے کے لیے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ محض بھرپور نہ ہو بلکہ بروقت بھی ہو۔ اس معاملے میں ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہے۔
کسی بھی علاقے کو دوبارہ حاصل کرنے سے متعلق بروقت اقدامات کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ جارح قوت اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ وہ معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ’’نیو نارمل‘‘ کا قیام یقینی بناتی ہے یعنی یہ کہ جو کچھ اب دکھائی دے رہا ہے وہی حقیقت پر مبنی ہے اور دعوے کرنے، ہوا میں تیر چلانے کی کچھ اہمیت نہیں۔ لداخ کے معاملے میں یہی ہوا ہے۔ چین نے بات چیت کو مزید بات چیت کی راہ ہموار کرنے کے لیے بروئے کار لانے پر توجہ دی ہے، تاکہ مقبوضہ رقبے پر اپنی گرفت زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائی جاسکے۔ اگر وقت زیادہ گزر جائے تو قبضہ ختم کرانا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ وپن نارنگ اور کرسٹوفر کلیری نے یہ موقف جس مقالے میں قلم بند کیا ہے اس کا عنوان ہے: انڈیاز پینگانگ پکل: نیو دہلیز آپشنز آفٹر اِٹز کلیش وِد چائنا۔ آلٹمین نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں کسی دوسرے ملک کی زمین پر قبضہ کرنے کے ۵۹ واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں جن میں ۴۷ معاملات میں جارح اور قابض قوت نے اپنا قبضہ ایک عشرے سے بھی زائد مدت تک برقرار رکھا ہے۔ بھارت کے لیے نئی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمالیہ کے دامن میں چین اپنی نئی ’’ریئل اسٹیٹ‘‘ پر تادیر قابض رہ سکتا ہے۔
پہلا متبادل:
وپن نارنگ اور کرسٹوفر کے مقالے کے مطابق بھارت کے پاس پہلا ممکنہ متبادل یا حل تو یہ ہے کہ وہ بھرپور کوشش کرکے اپنی زمین سے پیپلز لبریشن آرمی (چینی فوج) کو نکال باہر کرے۔ مگر اس کے لیے زیادہ نفری درکار ہوگی اور زیادہ سامان بھی۔ بھارت کی اب تک کی مشکلات دیکھتے ہوئے یہ بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ وقت چین کا ساتھ دے رہا ہے جو ایل اے سی پر اپنی پوزیشن مستحکم تر کرتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ بھارت کے امکانات کو مزید دھندلا رہا ہے۔ فوجی کمانڈروں کی بڑھک سے قطع نظر، بھارت کے لیے اس وقت کسی ایک پوائنٹ یعنی مقام پر بھی منہ توڑ جواب دینا ممکن نہیں رہا۔ تمام متنازع مقامات پر کچھ کر دکھانے کی بات تو رہنے ہی دیجیے۔
مزید یہ کہ لداخ کے علاقے کی طبعی ساخت دفاع کرنے والے کے لیے زیادہ موافق ہے۔ بھارتی فوج کے اندازوں کے مطابق معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی علاقے میں اپنی حیثیت منوانے کے لیے ایک کے مقابلے میں تین کے تناسب سے کام کرنا پڑے گا۔ دفاع کرنے والا ایک ہو تو حملہ کرنے والے تین ہونے چاہییں۔ پیچیدہ پہاڑی علاقوں میں یہ تناسب ایک اور دس کا اور بعض انتہائی بلند مقامات پر اس سے بھی زیادہ ہے۔ ۱۹۹۹ء میں بھارتی فوج کو کارگل میں ایسی ہی بھیانک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بھارت کے لیے دوسرا اور بدتر آپشن یا متبادل یہ ہے کہ کسی اور مقام پر چین کے کچھ علاقے پر قبضہ کرے اور لائن آف ایکچیوئل کنٹرول پر چینی قبضہ ختم کرانے کے لیے اسے بروئے کار لائے۔ اسپیشل فرنٹیئر فورس (ایس ایف ایف) نے اگست کے اواخر میں پینگانگ سو تالاب کے جنوبی کنارے پر چند بلندیاں کنٹرول میں لی تھیں، تاہم ایک سینئر بھارتی آرمی افسر کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اپنے ہی علاقے کا تھا۔ اس کی مدد سے چین کو لداخ میں بھارتی علاقے سے قبضہ ختم کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
مقالے میں یہ نکتہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ بھارتی بحریہ بحرہند کے خطے میں تو چینی بحریہ سے کسی حد تک برابری کرسکتی ہے مگر بحیرۂ جنوبی چین اور مغربی بحرالکاہل کے خطے میں چین کے مقابل اس کے آپشنز خاصے محدود ہیں۔ علاوہ ازیں سمندروں میں جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے اس کا زمین پر زیادہ اثر اب تک دیکھا نہیں گیا۔
معاشی معاملات میں بھی بھارت کو چین کے مقابل مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ دوطرفہ تجارت کا توازن چین کے حق میں ہے۔ فارماسیوٹیکلز اور الیکٹرانک مائکرو چپس کے شعبوں میں چین خصوصی طور پر بھارت سے بہت آگے ہے۔ بھارت اگر چاہے تو معاشی سطح پر کوئی آپشن اپناسکتا ہے یعنی دو طرفہ تجارت کو چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے مگر فی الحال لداخ کی صورت حال کے حوالے سے چین کو پریشان کرنے کے لیے معاشی محاذ پر کچھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے سفارتی سطح پر تھوڑی بہت کوشش کی جاسکتی ہے۔ آسٹریلیا، جاپان اور امریکا کے اتحاد کو بروئے کار لانے پر توجہ دی جاسکتی ہے مگر خیر، اس اتحاد سے بھی کچھ زیادہ توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس بات کی بظاہر کوئی نسبتی اہمیت نہیں کہ چینی فوج لداخ سے پسپا ہو اور بھارتی علاقہ بھارت کے حوالے کرے۔
بدنما ترین آپشن
وپن نارنگ اور کرسٹوفر کلیری کے نزدیک بھارت کے لیے تیسرا اور یقینی طور پر بدنما ترین آپشن یہ ہے کہ وہ لداخ میں اپنے علاقے پر چین کا قبضہ، غیر اعلانیہ طور پر ہی سہی، تسلیم کرلے اور اندرون ملک مرتب ہونے والے دباؤ کو یہ کہتے ہوئے ختم کرنے کی کوشش کرے کہ جس علاقے پر چین نے قبضہ کیا ہے وہ بھارت کا ہے ہی نہیں! مگر ایسا کرنے کی صورت میں چین کو مزید بہت کچھ کرنے کا موقع ملے گا کیونکہ اس کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔
بھارت کے پاس فوجی، سفارتی اور معاشی آپشنز موجود ہیں مگر پھر بھی ہوسکتا ہے کہ نئی دہلی کے پاس بھارتی علاقے پر چینی فوج کے قبضے کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی معقول آپشن نہ بچے۔ چین کو مستقبل میں مزید بھارتی علاقے پر قبضہ کرنے سے روکنے کے لیے نئی دہلی کے پالیسی سازوں کو اس خطے میں بڑے پیمانے پر عسکری نقل و حرکت یقینی بنانا ہوگی۔ عسکری امور کے متعدد بھارتی ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ لائن آف ایکچیوئل کنٹرول کے علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حرکت کے نتیجے میں وہاں بھی وہی صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے جو (مقبوضہ) جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر دکھائی دے رہی ہے۔ یہاں یہ نکتہ نظر انداز نہ کیا جائے کہ بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حرکت عام حالات میں بھی مشکل ہی ہوتی ہے تو کورونا وائرس کی وبا کے دور میں کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں۔ اور اس وبا کے ہاتھوں جو معاشی بحران پیدا ہوا ہے اس نے امکانات کو خاصا محدود کردیا ہے۔
وپن نارنگ اور کرسٹوفر کلیری نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو بھارت کو اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ آخر ایسی کون سی غلطیاں سرزد ہوئیں، کون سی کوتاہی کا ارتکاب ہوا، جس کے نتیجے میں چین نے عسکری مہم جوئی کی راہ پر گامزن ہوکر کئی مقامات پر قبضہ کیا۔ یہ تو کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ بھارتی قیادت کو خفیہ رپورٹس کی بنیاد پر پتا تو چل ہی گیا ہوگا کہ چینی فوج کس نوعیت کی مہم جوئیاں کرنے والی ہے۔ تو پھر روک تھام کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ اس وقت تو بھارت کے لیے کرنے کا فوری کام یہ ہے کہ خوں ریزی روکے۔ یہ خوں ریزی جوہری ہتھیاروں کی حامل دو بڑی ریاستوں کے درمیان کسی بڑے اور زیادہ تباہ کن عسکری مناقشے کی راہ بھی ہموار کرسکتی ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں کسی بھی علاقے پر قبضہ قانون کا ۹۰ فیصد نہیں بلکہ ۱۰۰ فیصد قانون ہے۔
قومی سلامتی کے بھارتی پالیسی ساز اور ماہرین کو اب طے کرنا ہوگا کہ چین سے نمٹنے کے لیے کیا اور کس طور کرنا ہے۔ شمال اور شمال مشرق میں چین سے خطرات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ایسے میں عسکری منصوبہ بندی اور قومی سلامتی کے معاملات سے جڑے ہوئے تمام لوگوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہتھکنڈوں کے بغیر حکمت عملی ترتیب دینا فتح تک پہنچانے والا سب سے سست رفتار راستہ ہے، اور حکمت عملی کے بغیر اپنائے جانے والے ہتھکنڈے شکست سے قبل کی چیخ پکار کے سوا کچھ بھی نہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
LAC Standoff: Indian options are ‘Bad, to worse to wownright ugly’. (“thewire.in”. Sep.18, 2020)
Leave a Reply