
لالو پرشاد یادیو نے ۲۳ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو بہار کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ایڈوانی کو راتھ یاترا میں جانے سے روک کر اور پھر بی جے پی کے مشہور راہنما کو سماستی پور میں فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے کے جرم میں گرفتار کر کے عالمی سطح پر اپنے آپ کو انڈیا کے سیکولر رہنما کے طور پر منوایا۔ اب ایک چوتھائی صدی بعد لالو پرشاد نے پھر BJP کی شکست میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ BJP کی بدعنوانی کے الزامات اور جنگل راج کے خلاف چلائی گئی بھرپور مہم کے باوجود لالو پرشاد کی قیادت میں راشٹریہ جنتا دل نے ۱۰۱ میں سے ۸۰ نشستیں حاصل کر کے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا۔یہ نشستیں انہوں نے ایک بڑے انتخابی اتحاد کا حصہ بن کر حاصل کیں۔ ۲۰۱۰ء کے انتخاب میں راشٹریہ جنتا دل نے تنہا انتخاب لڑکر صرف ۲۲ نشستیں حاصل کی تھیں۔
اس سے بھی زیادہ شرمناک بات BJP کے لیے یہ ہے کہ وہ اب تیسری پوزیشن پر چلی گئی ہے۔اس دفعہ کے انتخاب میں بی جے پی نے ۵۳ نشستیں حاصل کی ہیں جو کہ ۲۰۱۰ء کے مقابلے میں ۳۹ کم ہیں ( بی جے پی نے ۲۰۱۰ء میں ۹۲ نشستیں حاصل کی تھیں)۔ نریندر مودی کی شخصیت اور امیت شاہ کی منصوبہ بندی بھی کسی کام نہ آسکی۔ اتحاد کی تمام جماعتوں کی نشستوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جنتا دل ۷۲ نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر جبکہ کانگریس ۲۴ نشستوں کے ساتھ اتحاد میں تیسرے نمبر پر رہی۔ کانگریس نے بھی اپنی پوزیشن کافی بہتر کی ہے، ۲۰۱۰ میں کانگریس کی صرف ۲ نشستیں تھیں۔
لالو پرشادکی سیاسی فراست
دس سال سیاسی گمنامی میں گزارنے کے بعد بہار کی انتخابی جیت نے لالو پرشاد کو دوبارہ شہرت اور نئی زندگی دی ہے۔ لالو پرشاد نے اس جیت سے ثابت کیا ہے کہ وہ اب بھی مسلم یادیو اتحاد کے سربراہ ہیں۔
بی جے پی کی حماقتیں
بے شک سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ نے اتحاد کو کامیاب بنایا لیکن اس کی جیت میں زیادہ بڑا کردار خود بی جے پی کی خراب منصوبہ بندی نے ادا کیا۔ BJP نے بجائے وزیراعلیٰ کے مقامی امیدوار کو متعارف کروانے کے نریندر مودی اور امیت شاہ پر زیادہ انحصار کیا،اور اس عمل کو نتیش کمار نے انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کیا کہ بہاریوں کا مقابلہ باہر سے آنے والوں کے ساتھ ہے (بہاری بمقابلہ باہری)۔ اور انتخابات میں اس نعرے کی گونج واضح سنائی دی۔ RSS کے سربراہ کے اقلیتوں کے کوٹہ سسٹم مخالفت میں دیے گئے بیانات نے بھی اتحاد کی مدد کی، ان کے بیانات کو لالو پرشاد نے بہت اچھے طریقے سے منفی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا اور اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں کو قومی جمہوری اتحاد کے مخالف کر دیا۔ دادری میں محمد اخلاق کے قتل اور گائے کے گوشت پر پابندی کے مسئلے نے تمام مسلمانوں کو بی جے پی کے خلاف یکجا کر دیا۔ BJP کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں ووٹ کی تقسیم کا باعث بنیں گی، جیسا کے اویسی اور طارق انور وغیرہ کی جماعت، جو کہ اس انتخاب میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔
وزیر اعظم کے اصلاحاتی ایجنڈے کو دھچکا
ایک ہی سال میں دہلی کے بعد بہار میں بھی بری شکست کے بعد BJP پر، آنے والے دنوںمیں متعدد منفی اثرات پڑیں گے۔ اس بات کا بھی قوی امکا ن ہے کہ مودی اور شاہ کی جوڑی کی مخالفت اب خاموش مخالفت نہ رہے بلکہ پارٹی میں زبان زد عام ہو جائے۔ امیت شاہ پر الزامات ہیں کہ پارٹی ٹکٹ کی تقسیم سے لے کر انتخابات کی منصوبہ بندی تک سب کام اپنے ہاتھ میں رکھے اور علاقائی رہنمائوں کو نظر انداز کیا گیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس شکست کے اثرات مودی کے اصلاحاتی ایجنڈے پربھی پڑیں گے، جن کا عکس ابھی کچھ دنو ں میں مودی کی طرف سے پیش کیے جانے والے GST بل پر پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ مستقبل میں سیکولر وزرائے اعلیٰ کا اتحاد مودی حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنے۔
بڑے انتخابی اتحاد کی فتح نے اس بات کے امکانات بہت بڑھا دیے ہیں کہ ٓائندہ اسمبلی کے اندر اور باہر اپوزیشن کا ایک بڑا اتحاد نظر آئے۔ بی جے پی کی عدم برداشت کی پالیسی اور پارٹی کے انتہا پسند رہنمائوں کا مودی کے کنٹرول سے باہر ہونا نہ صرف اپوزیشن کو متحد کررہا ہے بلکہ مستقبل میں اور بھی بہت سے مسائل کھڑے کرے گا۔ اور یہ مودی کے لیے خطرے کی علامت ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Lalu’s Comeback: From halting rath in 1990 to beating Modi in 2015”.(“thequint.com”. Nov.8,2015)
Leave a Reply