
افراد کی مانند زبانوں کی حیات میں بھی بقا کی جنگ ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایک زبان دوسری زبانوں کے غالب آجانے سے پوری طرح مٹ جاتی یا کمزور ہو جاتی ہے اور اس کے بالمقابل دوسری زبانیں زیادہ طاقتور ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی زبان کی بقا اور نمو و ترقی کا انحصار اس کی صلاحیتِ اخذ و قبول پر ہے۔ جس زبان میں اتنی وسعت ہوگی کہ وہ وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل ہو سکے اور جدید تقاضوں یعنی نئی اشیا، نئے نظریات وغیرہ کے لیے مکمل اور صحیح ذخیرۂ الفاظ فراہم کر سکے اور اگر نہ ہو تو ان کو دوسری زبانوں سے اخذ کر سکے، وہی زبان زندہ اور باقی رہ سکتی اور ترقی پاسکتی ہے۔ جس زبان میں یہ خوبی نہ ہو، اول تو اس کی بقا مشکل ہوتی ہے اور اگر باقی رہے بھی تو مقامی اور علاقائی زبان سے زیادہ درجہ اسے نہیں مل سکتا۔ مثلاً Basque اور Iceland کی زبانیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ زبانیں تو چھوٹے علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں، جن کو ہم مقامی زبانیں بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن عالمی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض بہت ترقی یافتہ ممالک کی زبانیں بھی اسی طرح محدود ہیں، مثلاً جاپانی زبان اپنے اندر اس حد تک وسعت نہیں رکھتی کہ عالمی زبان بن سکے۔ وہ صرف جاپان کی حد تک محدود ہے، لہٰذا جاپانی تاجر مجبور ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک سے رابطوں کے لیے دوسری زبانیں سیکھیں، کیونکہ ان کی زبان میں ذرا بھی وسعت نہیں ہے۔ اس کے برعکس عربی اس وقت عالمی زبانوں میں سے ایک اہم زبان ہے۔ اسلام کی زبان ہونے سے قطع نظر اس میں پائی جانے والی وسعت، اخذ و قبول کی زبردست صلاحیت اس کی نمو اور ارتقا کا باعث ہے اور اسی نے اس کو عالمی زبان کے درجہ پر پہنچا دیا ہے۔ لاطینی زبان ایک طویل عرصہ تک برتر زبان کے طور پر دنیا پر راج کرتی رہی اور یہ ہر کسی کی زبان بن گئی تھی کیونکہ یہ زبان علم و فن عیسائیت اور نظامِ قانون سے وابستہ تھی اور اس میں یہ صلاحیت تھی کہ نئی اصطلاحات و الفاظ اور نئی تراکیب کو اپنے قالب میں ڈھال کر انہیں اپنا سکے۔ پھر انگریزی ایک ایسی زبان ہے جو دنیا کے ہر حصے میں کسی نہ کسی حد تک بولی جاتی ہے اور اسے ہر کسی کی زبان کا درجہ حاصل ہو چکا ہے، اس کی سب سے اہم وجہ اس کی وسعت اور اخذ و قبول کی صلاحیت ہے۔ اس صلاحیت سے عاری زبان پہلے تو جمود کا شکار ہوتی ہے، پھر آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ پس زبانوں کی بقا، استحکام اور ترقی اور نشوونما کے لیے اخذ و استفادہ، دیگر زبانوں سے الفاظ لینے اور ان کو اپنے قالب میں ڈھالنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔
دنیا کی مختلف زبانوں کا باہمی میل جول کا ایک لازمی امر ہے اور ایک ایسی ضرورت ہے جس سے کسی طرح مفر ممکن نہیں۔ انسانوں کے مابین تبادلۂ خیالات اور رابطے کا ذریعہ زبان ہی ہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی دو زبانیں بولنے والے لوگ کسی بھی مقصد کے تحت باہم ملتے ہیں تو ایک دوسرے کی زبان سے اخذ بھی کرتے ہیں اور اس کو متاثر بھی کرتے ہیں، کیونکہ بات سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ایسا کرنا ان کی مجبوری ہوتی ہے، اسی لیے جو زبان اخذ و عطا کے عمل کو جاری رکھتی اور آگے بڑھاتی ہے اور اس میں تغیر پیدا کرتی ہے، وہی زندہ رہتی ہے۔ یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ کوئی زندہ زبان بالکل خالص ہو اور اس پر کسی دوسری زبان کے اثرات نہ پڑیں۔
زبانوں میں باہم اخذ و استفادہ کے عوامل
ایسے بہت سے عوامل ہیں جن کے سبب مختلف اقوام اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد کے مابین رابطہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں زبانیں مستقل ردوبدل کی کیفیت سے دوچار ہوتی ہیں۔ مثلاً حکومتوں کا بدلنا، پھیلنا اور ختم ہونا، مذہبی اصولوں یا نظاموں کا بدلنا، کسی علاقے کے لوگوں میں کسی نئے مذہب کا پھیلنا، مختلف زبانیں بولنے والی اقوام کے مابین تجارتی یا پڑوسی ہونے کے ناطے قائم ہونے والے تعلقات، ہجرتیں، فتوحات، جنگیں وغیرہ، یعنی ہر وہ واقعہ جس میں مختلف زبانیں بولنے والے افراد آپس میں ملیں جلیں، اس کے اثرات ان دونوں کی تہذیبوں اور زبان پر لازماً پڑتے ہیں، بلکہ معمولی سا تہذیبی یا ثقافتی رابطہ و تبادلہ بھی زبان پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے اور ان دونوں زبانوں میں، جو آپس میں ملتی ہیں، ایک دوسرے کے الفاظ شامل ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کو اصطلاحاً Borrowing (یعنی مستعار لینا) کہا جاتا ہے۔ M.S Memlen اس عمل کو Language Mixing کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے اور اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود زبانوں کی۔
ذیل میں ان چند عناصر کا اجمالی تذکرہ کیا جارہا ہے جو زبانوں میں اخذ و استفادہ، تبدیلی اور الفاظ و کلمات اور تراکیب کے مستعار لینے کا باعث بنتے ہیں۔
۱۔ نقل مکانی
جب ایک گروہ یا قوم نقل مکانی کرکے کسی دوسری جگہ جابستی ہے، جس کے باشندے کوئی مختلف زبان بولتے ہیں تو ان کی زبانوں کا باہم رابطہ لازماً ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کو آپس میں بات کرنے اور مافی الضمیر بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور جب یہ ضرورت اشاروں، کنایوں سے پوری نہ ہوسکے تو دونوں زبانوں کا باہم گھلنا ملنا بھی لازم ہوجاتی ہے۔ یوں زبانوں کو باہمی امتزاج کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ اس موقع پرالفاظ مستعار لیے دیے جاتے ہیں اور ایک زبان کے الفاظ، تراکیب اور جملے دوسری زبان میں شامل ہوجاتے ہیں۔
۲۔ طویل جنگیں اور عسکری فتوحات
طویل جنگیں مختلف قوموں اور مختلف زبانیں بولنے والے گروہوں کو باہم ملنے جلنے کا بھرپور موقع فراہم کرتی ہیں، اس کے نتیجہ میں زبانوں میں ربط و ضبط اور اخذ و قبول ہوتا ہے۔ جیسے کہ جنگ عظیم دوم میں جرمنی، فرانس اور انگلستان کے باہمی تعلقات نے ان کی زبانوں کو خوب متاثر کیا، اسی طرح فرانس کی اٹلی سے جنگ طرفین کی زبانوں پر بہت زیادہ اثرانداز ہوئی۔ اسی نکتے کو تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو ایران و یونان کے مابین جنگ، جو نشیارش (xerxes) کے عہد میں ہوئی، اس میں اس کی فوج میں شامل لیبیائی، عربی، فینقی، ہندی، حبشی، غرض یہ کہ بہت سی اقوام کو ایک طویل عرصہ میں باہم مل کر رہنا پڑا اور پھر مخالف قوم یعنی یونان سے بھی ان کے تعلقات رہے۔ اتنی طویل قرابت نے ان دونوں کی زبانوں کو خوب متاثر کیا۔
پھر اگلے مرحلہ میں یعنی جنگ کے بعد جب کوئی ایک قوم فاتح اور دوسری مفتوح بن جاتی ہے تو مفتوح قوم کی تہذیب و ثقافت اور اس کی زبان فاتح قوم سے لازماً متاثر ہوتی ہے اور بالعموم مفتوحین اپنی زبان چھوڑ کر فاتح کی زبان اپنا لیتے ہیں۔ ایک مشہور مقولہ ہے:
“Language of the ruler rules” پھر دونوں یعنی فاتح اور مفتوح کے مابین شادیوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے اور یہ بھی زبانوں کے باہمی امتزاج کا اہم سبب بنتا ہے۔ علاوہ ازیں فاتح لوگوں کے گھروں میں مفتوح قوم کے افراد بطور غلام کام کرتے ہیں اور یوں طرفین کی زبانوں کو میل جول کا موقع ملتا ہے اور زبانیں اخذ و قبول کے عمل سے گزرتی ہیں۔
عسکری فتوحات کے نتیجے میں دو زبانوں کا میل جول دو طریقوں پر ہوتا ہے:
۱۔ دونوں گروہوں کی فطری ضرورت ہوتی ہے کہ آپس میں بول چال کے لیے ایک دوسرے سے اصطلاحات و الفاظ لے کر اپنی زبان میں شامل کرلیں اور ایک دوسرے سے مانوس ہوں۔
۲۔ اکثر فاتح گروہ اپنی زبان کو جبری طور پر نافذ کردیتا ہے، جیسا کہ افریقا میں ہوا۔ یعنی فرانس نے افریقا کے ایک حصے، خاص طور سے قرطاجنہ اور تونس وغیرہ پر قبضہ کیا تو وہاں فرانسیسی زبان کو جبراً نافذ کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج بھی وہاں دوسری زبان کے طور پر ملک کے بیشتر لوگ فرانسیسی بولتے ہیں اور قریباً سبھی اس سے مانوس ہیں۔ یونان نے روم کو فتح کیا تو وہاں یونانی زبان رائج ہوئی اور وہ رومی زبان میں اس طرح گھل مل گئی کہ دونوں کی اصطلاحات کو ایک دوسرے سے ممیز کرنا نہایت مشکل ہے، کیونکہ سلطنت روما کے زیادہ تر باشندے رابطے کی زبان کے طور پر صرف یونانی بولنے لگے تھے۔ اسی طرح سکندر نے جب مصر فتح کیا تو اس نے وہاں یونانی زبان بالجبر نافذ کی اور یہ ضروری قرار دیا کہ جو شخص حصولِ تعلیم یا کسی عہدے کے حصول میں دلچسپی رکھتا ہے وہ یونانی زبان سیکھے اور یونانی میں اپنی تعلیم مکمل کرے۔ اس طرح یونانی پڑھنے لکھنے کو لازمی قرار دے دیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں رائج مصری/ قبطی زبان میں یونانی زبان کے بے شمار الفاظ شامل ہوگئے۔ یہی معاملہ اس وقت بھی ہوا جب سلطنتِ روم نے دنیا کے بیشتر مقامات پر فتح حاصل کی۔ اس نے لاطینی زبان کو مختلف مفتوحہ علاقوں میں اپنی جڑیں گہری کرنے کا موقع دیا اور مصر کی مانند روم کے مفتوحہ علاقوں میں بھی لاطینی سیکھنے کو لازمی قرار دیا گیا۔ روم کی حکومت ایک عرصہ تک دنیا پر قائم رہی۔ اہلِ روم نے علاقوں کو صرف فتح نہیں کیا، بلکہ وہاں کے انتظامی امور کو اپنے ہاتھ میں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ لاطینی کو مرکزی زبان کے طور پر نافذ ہونے کا موقع ملا اور اس نے فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی اور ہسپانوی زبانوں کو وجود بخشا۔ اسے رابطے کی زبان ہونے کا درجہ بھی حاصل رہا۔ البتہ تاریخ میں اس کے برعکس مثالیں بھی محفوظ ہیں کہ فاتح قوم نے مفتوح کی زبان کو اپنایا، مثلاً منگولوں نے بغداد کو تباہ و برباد کیا اور اس پر قبضہ کیا، لیکن بعد میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور عربی بولنے لگے، پھر انہوں نے عربی ہی کو رائج بھی کیا۔
۳۔ مذہب
کسی زبان کو کسی دوسرے علاقہ میں رائج کرنے کا ایک اہم محرک مذہب بھی ہے۔ جب بھی کسی علاقے میں کوئی نیا مذہب متعارف ہوگا تو اس سے تعلق رکھنے والی زبان بھی ضرور اپنائی جائے گی۔ مثلاً قبل از اسلام ایران کا مذہب ’زرتشت‘ عربوں کے ہاں بھی پایا جاتا تھا، لوگوں کی ایک تعداد اس کی پیروکار تھی۔ اب چونکہ اس کی تعلیمات اور مقدس کتابیں پہلوی زبان میں تھیں، لہٰذا عرب میں پہلوی زبان متعارف ہوئی۔ عربی پر پہلوی اور بعد کی فارسی کے جتنے بھی اثرات ہیں، وہ بہت حد تک عرب میں زرتشت مذہب کے متعارف ہونے کا نتیجہ ہیں۔ عربی اسلام کی زبان ہے، چنانچہ جہاں بھی اسلام پھیلا عربی کو اولیت کا درجہ ملا۔ اسی طرح انگریزی اور فرانسیسی کو عیسائیت کی زبان ہونے کی وجہ سے اہمیت دی گئی۔ مشرقی افریقا میں سواحلی زبان بھی مذہب کی وجہ سے پھیلی۔ حبشہ میں امہری زبان پھیلانے کے خلاف مسلم اقلیت کی جانب سے مزاحمت کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عیسائی چرچ کی نمائندہ زبان ہے اور تبلیغ عیسائیت کے منصوبہ کے تحت اس کو رائج کیا جارہا ہے۔ انگریزی نے لاطینی سے جو الفاظ مستعار لیے، ان کو عموماً تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں ایک اہم دور وہ ہے جس میں عیسائی مشنری اتنی سرگرم تھی کہ اس کے ذریعے لاطینی مذہبی مصطلحات کثیر تعداد میں انگریزی میں آئیں۔ مثلاً abbess, aposhe, monk, pope, alms, guilt, baptist, altar وغیرہ۔ جاپان میں کثیر تعداد میں چینی راہب آیا کرتے تھے۔ انہوں نے مذہب کو پھیلایا تو ساتھ ہی چینی زبان بھی جاپان میں پھیلی اور اس نے جاپانی زبان کو متاثر کیا۔ اسی طرح جو راہب جاپان سے دوسرے ممالک یا براعظم ایشیا کے کسی حصہ میں گئے، وہاں انہوں نے جاپانی کو متعارف کرایا۔
۴۔ تجارت
تجارت سے زبانوں کو باہم میل جول کا بہترین موقع ملتا ہے، کیونکہ تجارتی روابط میں مختلف اقوام کو ایک دوسرے سے بات چیت اور معاملات طے کرنے کے لیے لازماً ایک دوسرے کی زبان جاننی پڑتی ہے۔ بعض مصنوعات ایک قوم خود تیار نہیں کرتی، بلکہ وہ کسی دوسری قوم سے لیتی ہے، یا کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کسی علاقہ میں پیدا ہوتی ہیں اور کسی میں نہیں تو جس علاقہ میں جس چیز کی پیداوار نہیں ہوتی، وہ اسے دوسری جگہ سے لیتی ہے اور اس کا نام بھی لیتی ہے۔ پس دنیا کی متعدد زبانوں میں تکنیکی، عسکری اور تجارتی اصطلاحات، جانوروں، اشیائے خور و نوش اور پودوں کے نام وغیرہ مستعار لیے جانے کے واضح ثبوت ملتے ہیں۔ مثلاً قدیم عہد میں یونانیوں نے تجارت کے ذریعے اپنی تہذیب و ثقافت اور مذہب کے ساتھ زبان کو بھی اس حد تک پھیلا دیا کہ تمام مشرق وسطیٰ میں یونانی ہی بولی جانے لگی۔
بین الاقوامی تجارت ایک ایسا عمل ہے جس کے سبب مضبوط معیشت کے حامل ملکوں کے لوگ بھی دنیا کی دیگر زبانوں پر عبور حاصل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، تاکہ اپنے معاملات طے کرسکیں۔ اس طرح دوسری زبانیں، جن سے ان کو واسطہ پڑتا ہے، کسی نہ کسی حد تک ان کی زبان پر اثرانداز ہونے لگتی ہیں۔ مثلاً جاپان جیسے ملک کے تاجر بھی اقوام عالم سے تجارتی معاملات کے لیے ان کی زبانیں: عربی، ہسپانوی، انگریزی اور دیگر زبانیں سیکھتے ہیں۔
فینقی، جو تاجر تھے، دنیا کے ہر ملک سے ان کی تجارت ہوتی تھی، انہی کے ایجاد کردہ حروف ابجد کو اہل یونان نے پھر رفتہ رفتہ ساری دنیا نے اپنایا، یہ جہاں بھی تجارت کے لیے جاتے، وہاں کی زبان سیکھتے اور وہاں کے لوگوں میں گھل مل جاتے۔ یوں انہوں نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک کو باہم متعارف کرایا اور ان کی زبانوں کو خلط ملط کردیا۔ اسی طرح جزیرۂ عرب، جو بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک پُل تھا اور خود اہل عرب بھی تجار تھے، ان کی زبان میں فارسی، چینی، ترکی، ہندی، حبشی، یونانی، رومی، عبرانی، افریقی، مصری، غرض دنیا کی ہر زبان کے الفاظ موجود ہیں۔ بُصریٰ جو عرب کا معروف بازار تھا اور دنیا کے مختلف ممالک کے تجار کی ملاقات کا مرکز تھا، یہاں کی زبان دنیا کی تمام زبانوں کا ایک ملغوبہ بن چکی تھی۔ اسی طرح عکاظ کا بازار عرب کے تمام لہجوں کا ایک مرکز تھا۔
۵۔ حکومتی اثر و رسوخ
کسی علاقے میں کسی بیرونی طاقت یا حکومت کی اجارہ داری اور اثر و رسوخ بھی زبان پر اثرانداز ہوتا ہے۔ مثلاً جزیرۂ عرب میں حیرہ نامی شہر فارسی حکومت سے منسلک اور ان کے زیر اثر تھا۔ لہٰذا وہاں کے عرب فارسی زبان کو عرب میں متعارف کروانے اور اسے رائج کرنے کا اہم سبب بنے۔ اسی طرح بنوغسان روم سے منسلک تھے، لہٰذا وہ لاطینی زبان کو عرب میں رائج کرنے کا ذریعہ بنے۔ تدمر میں یونانی زبان کا استعمال بھی روم کے ذریعے ہوا۔ مصر میں اسکندریہ کی بنیاد سکندر نے رکھی، اس کے بعد یہاں یونانی زبان اس حد تک رائج ہوئی کہ مقامی یہود نے عبرانی چھوڑ کر یونانی کو مکمل طور پر اپنا لیا اور اپنا سارا مذہبی لٹریچر یونانی میں ترجمہ کرنے لگے، حتیٰ کہ ان کی اگلی نسل تک تالمود اور تمام مذہبی معلومات عبرانی کے بجائے یونانی کے ذریعے پہنچیں۔
۶۔ جغرافیائی قرب
کوئی بھی دو زبانیں جو ایک دوسرے کے پڑوس میں بولی جاتی ہوں، وہ ایک دوسرے کو لازماً متاثر کرتی ہیں۔ دونوں میں اخذ و استفادہ کا عمل انجام پاتا ہے۔ جیسے عربی زبان، فارسی، لاطینی اور حبشی زبانوں سے ہمسائیگی کے تعلقات رکھتی تھی۔ عرب کے شعرا رومی و فارسی درباروں سے وابستہ تھے، اس کے علاوہ عوام کے درمیان بھی باہم آزادانہ میل جول تھا۔ اس کے نتیجے میں عربی زبان نے ان تینوں زبانوں کے بہت سے الفاظ اپنے اندر شامل کیے ہیں۔
گویا کسی بھی سبب سے جب کوئی زبان کسی دوسری زبان سے ملتی ہے تو دونوں پر اس میل جول کے گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو الفاظ دیتی اور اس سے لیتی ہیں اور یہ تعلقات جتنے قدیم ہوتے جائیں، اتنے ہی دونوں زبانوں پر ایک دوسرے کے اثرات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
اخذ و استفادہ کے طریقے
اخذ و استفادہ کا یہ عمل دو انداز میں انجام پاتا ہے:
۱۔ کسی بھی قسم کے رابطے کے نتیجے میں ایک زبان دوسری پر غالب آجاتی ہے۔ مثلاً جب کسی زبان کے بولنے والے زیادہ ہوں، لیکن ایسا غلبہ صدیوں میں ہوپاتا ہے، اور اس طویل عرصہ کے بعد بھی اس زبان میں بہت سے الفاظ و اصطلاحات مغلوب زبان سے شامل ہو جاتی ہیں۔ مثلاً بلغاریوں کو سلادیوں سے واسطہ پڑا تو ان کی زبان زوال پذیر ہوگئی۔ بعض اوقات کوئی زبان حضارت و ثقافت اور ذخیرۂ الفاظ کے حوالے سے زیادہ بھرپور اور وسیع ہوتی ہے، لہٰذا اس کی فتح ہو جاتی ہے، جیسے لاطینی پر یونانی کا غلبہ اور عربی زبان کا دیگر تمام سامی زبانوں پر غلبہ اور بعض اوقات ایک زبان اپنی تراکیب، ذخیرۂ الفاظ اور اسلوب و آہنگ میں بہت عمدہ اور فصیح ہونے کے سبب دوسری زبان پر غالب آجاتی ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی حضارت اور تمدنی پس منظر بھی اس کے غلبہ میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یونانی زبان کو پیش کیا جاسکتا ہے۔
۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ زبانوں میں باہمی میل جول کے نتیجے میں اخذ و استفادہ کا عمل تو ہوتا ہے، لیکن کوئی زبان غالب نہیں آتی، بلکہ دو یا دو سے زائد زبانیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اس صورتحال کو ذولسانی (Bilingualism) یا کثیر لسانی (Multilingualism) کہا جاتا ہے، یعنی دو زبانوں یا کئی زبانوں کا بیک وقت استعمال مثلاً یونانی لاطینی پر غالب تو آگئی، لیکن اسے بالکل ختم نہیں کرسکی، جرمن لاطینی کے ساتھ ساتھ چلتی رہی، عربی زبان نے ایران میں اہم مقام تو حاصل کرلیا، لیکن فارسی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ اندلس کی اپنی زبان عربی کے آنے اور رائج ہونے کے بعد بھی باقی رہی۔ ہندوستان میں انگریزی وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی رہی، لیکن ہندی زبانوں پر غالب نہیں آسکی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس صورت میں بھی زبانیں ایک دوسرے سے مفردات، اسلوب، آداب، کلمات، الفاظ سب کچھ لیتی ہیں اور ایک دوسرے پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں۔ چنانچہ عربی و فارسی زبانوں نے کثیر تعداد میں ایک دوسرے سے الفاظ مستعار لیے ہیں۔ اسی طرح ترکی زبان میں کثیر تعداد میں عربی کے الفاظ پائے جاتے ہیں، حالانکہ ترک حکومت نے ترکی کو ہی رائج کیا، لیکن عربی کا اثر بہرحال بہت قوی رہا ہے۔
عربی زبان کا جائزہ
گزشتہ صفحات میں زبانوں کے میل جول اور اقتراض الفاظ کے جتنے بھی محرکات و عوامل بیان کیے گئے، ان سب کا سامنا عربی زبان کو بھی تھا۔ عسکری حملوں کی صورت اگرچہ براہ راست نہ تھی، مگر رومیوں اور فارسیوں کا عرب میں قیام ان کی طاقت کے سبب ہی تھا، انہوں نے یہاں مستقل ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ پھر فارس کے تعلقات عربوں کے پڑوس میں ہونے کے سبب بھی تھے۔ لخم و جذام کے قبائل اہل مصر و اقباط کے پڑوسی تھے۔ عرب کے ساحلی علاقوں میں ہندو بستیاں بھی تھیں، جن سے اہل یمن کے قریبی تعلقات تھے۔ پھر اہل حبشہ سے بھی ان کے قریبی روابط تھے۔ سب سے بڑا ذریعہ تجارت تھی، جس نے عربوں کو ساری دنیا سے جوڑ رکھا تھا۔ ان عوامل کے پیش نظر عربی زبان میں ان سب زمانوں کے الفاظ آگئے۔ سریانی، عبرانی، یونانی، رومی، نبطی، حبشی، ہندی، فارسی، قبطی ہر زبان کے الفاظ معاجم عربیہ کا حصہ ہیں۔ چنانچہ ملبوسات اور اشیائے خورونوش کے نام فارسی سے، مذہبی مصطلحات حبشی اور عبرانی و سریانی سے، خوشبوئوں اور مسالا جات کے نام اور تجارتی اصطلاحات ہندی (ہندوستان کی متعدد زبانوں) سے اور اسی طرح قبطی اور بعض دیگر زبانوں سے الفاظ مستعار لے کر عربی میں شامل کیے گئے۔ ظہورِ اسلام سے بہت پہلے عربی زبان تمام ہمسایہ ممالک، جن سے اہل عرب کے تجارتی تعلقات تھے، ان کی زبانوں سے متاثر ہوچکی تھی۔ اس نے اپنے ارتقا کے طویل دور میں ہر اُس زبان سے اخذ و استفادہ کیا جس سے اس کے تعلقات رہے۔ یوں عربی وسیع تر اور اس کا معجم زرخیز ہوتا چلا گیا۔ آج بھی تعریب کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور نئی نئی مصطلحات اور اسماء و اعلام عربی میں اپنا راستہ اور مقام پا رہے ہیں۔
دنیا کی ہر زندہ زبان کی مانند عربی زبان میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے اچھے الفاظ کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اس میں تمام زندہ زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ اخذ و استفادہ کا یہ سلسلہ جو کم ازکم بعرب بن قحطان کے زمانہ سے شروع ہوا، آج بھی جاری و ساری ہے۔ عربی میں یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ وہ متاثر بھی ہوتی ہے اور متاثر بھی کرتی ہے۔ عربی زبان نے دنیا کی زندہ جاوید اور ایک طویل تاریخ کی حامل زبان ہونے کے حوالے سے افادہ اور استفادہ دونوں سے کام لیا، یعنی اس نے دوسری زبانوں کو اَن گنت الفاظ و کلمات اور تراکیب دیں اور خود اپنا دامن بھی دوسری زبانوں کے الفاظ کے لیے کھلا رکھا۔ سن عیسوی کے آغاز سے آٹھ سو سال قبل بھی ہمیں اس امر کے ٹھوس ثبوت ملتے ہیں کہ عرب نہ صرف خود تاجر تھے جو پوری دنیا میں تجارت کے سلسلے میں آتے جاتے تھے، بلکہ عالمی تجارت میں ان کا کردار بڑا اہم رہا ہے۔ انہیں دنیا کی تقریباً ہر قوم سے ملاقات کا موقع ملتا رہا ہے۔ ان کے قرب و جوار میں غیر عربی اقوام آباد تھیں، جن سے ان کے کثیر الانواع تعلقات تھے۔ باہمی معاملات طے کرنے اور گفتگو وغیرہ کے لیے ایک دوسرے کی زبان سے واقفیت ضروری تھی۔ اس کے نتیجے میں عربی زبان میں بہت سے غیر عربی الفاظ شامل ہوتے چلے گئے۔ خاص طور پر تجارت کے پہلو سے دیکھا جائے تو بہت سی اشیا ایسی تھیں جو ایک جگہ ہوتی تھیں اور دوسری جگہ نہیں ہوتی
تھیں، ان کے نام بھی فطری طور پر چیز کے ساتھ ہی مستعار لے لیے جاتے تھے۔ اسی طرح اعلام، اجناس، شہروں وغیرہ کے نام بھی مستعار لیے جاتے تھے۔ ان سب عوامل نے عربی زبان پر گہرے اثرات مرتب کیے اور بہت سے غیر عربی الفاظ جن میں سے بیشتر کا تعلق اسماء سے تھا، عربی میں آگئے۔ عموماً اس قسم کے الفاظ کو دخیل یا معرب کہا جاتا ہے۔
ایک طرف تو تجارت اور جغرافیائی قربت کے سبب معاجم عربیہ میں اضافہ ہوتا رہا، دوسری طرف عربی میں غیر عربی الفاظ کی شمولیت کا ایک اہم سبب عربوں کو اپنی زبان کو پھیلانے اور اس میں خوب صورت اور عمدہ الفاظ کے اضافے کی خواہش رہی ہے۔ اس کے پیش نظر انہوں نے ہر زبان سے، جس سے ان کے تعلقات رہے، عمدہ الفاظ لیے اور ان کو اپنی زبان کے اسالیب و قوامیس میں ڈھال کر اپنی زبان کا حصہ بنالیا۔
جن عرب شعرا کے روابط رومی و ایرانی درباروں سے تھے، انہوں نے بھی عربی زبان میں غیر عربی الفاظ شامل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بہت سے الفاظ، جن کا تعلق خاص طور پر مادّی چیزوں سے تھا جیسے ملبوسات، کھانے پینے کی چیزیں، نباتات، حیوانات کے اسماء اور معاشی اصطلاحات وغیرہ، روم و ایران اور بعض دیگر اقوام کی زبانوں سے لے کر اپنی شاعری میں استعمال کیے۔ یوں یہ معرب الفاظ فصیح عربی زبان کا حصہ بن گئے۔
شعر کو دیوان عرب کہا جاتا ہے۔ اسی نے عربوں کی تاریخ، ان کے آثار، طرزِ حیات، طریقہ بود و باش غرض یہ کہ ان کی زندگی کے ہر پہلو کو محفوظ رکھا اور یہی شاعری عربی زبان و ادب کی تحقیقات میں نحوبین و لغوبین کے لیے رہنمائی اور مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: جب تم قرآن میں کوئی ایسا لفظ پائو جس سے تم واقف نہ ہو تو جاہلی شاعری کی طرف رجوع کرو، اسی سے عربی سیکھی جاتی ہے، کتاب اللہ کے غریب الفاظ و مفاہیم کے اشکالات دور کیے جاتے ہیں اور احادیثِ رسولؐ، آثار صحابہ و تابعین کے غریب الفاظ کے مفہوم سمجھے جاسکتے ہیں۔ البتہ یہ صرف عربی زبان ہی کا خاصہ ہے کہ وہ الفاظ کو اپنے قالب میں یوں ڈال لیتی ہے کہ اُن کی عجمیت محسوس نہیں ہوتی۔ دنیا کی اور زبانیں اس خوبی سے محروم ہیں اور وہ اس خوبصورتی سے الفاظ کو اپنے اندر نہیں سمو سکتیں۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’تحقیقات اسلامی‘‘ علی گڑھ۔ اپریل۔جون ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply