
لشکر گاہ جنوبی افغانستان میں صوبہ ہلمند کا دارالحکومت ہے‘ یہ تاریخی شہر بوست کے نام سے بھی مشہور ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے افغانستان کے اہم مقام پر واقع اور ملک کے دو بڑے اور اہم دریائوں دریائے ہلمند اور دریائے ارگنداب کے سنگم پر ہے۔ یہ شہر اہم اور بڑی شاہراہوں کے ذریعے مشرق کی جانب قندھار، مغرب کی جانب زرنج اور شمال مغرب کی جانب ہرات سے منسلک ہے۔ یہاں پر زیادہ تر زمین بنجر اور خشک ہے۔ مؤرخین کے مطابق غزنوی دَور میں اس شہر کو سردیوں کے موسم میں دارالحکومت کی حیثیت حاصل تھی جہاں فوج کے لیے بیرکیں تعمیر کی گئیں‘ اسی نسبت سے اسے لشکر گاہ کہا جانے لگا۔ دریائے ہلمند کے ساتھ آج بھی غزنوی دور کی فوجی بیرکوں کے کھنڈرات موجود ہیں۔ اس شہر پر کئی نامور خاندانوں کی حکومت رہی اور کئی مشہور سپہ سالاروں نے اس شہر پر حملے کر کے اس کو تاراج بھی کیا جن میں چنگیز خان اور امیر تیمور کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ لشکر گاہ سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر ایک مشہور اور تاریخی قلعہ واقع ہے جسے قلعہ بوست کہتے ہیں۔ یہ وہی قلعہ ہے جس کی تصویر ۱۰۰ روپے مالیت کے افغانی نوٹ پر موجود ہے۔ اس قلعے کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں ۲۰۰ فٹ گہرا بال ہے جس میں پہنچنے کے لیے چکردار سیڑھیوں کا انتہائی پُر رعب راستہ ہے۔ اب حکومت شہر سے اس قلعے تک پہنچنے کے لیے ایک پختہ سڑک بھی تعمیر کر رہی ہے۔
شہر کے قریب سے گزرنے والے مشہور ہلمند دریا کی لمبائی ۱۱۵۰ کلومیٹر ہے جو افغانستان کا سب سے طویل دریا ہے۔ اس دریا کا ماخذ ہندوکش کی پہاڑیاں ہیں جب کہ یہ ایران کے صوبے سیستان میں جا کر گم ہو جاتا ہے۔ لشکر گاہ کے سنگم سے گزرنے والی جگہ پر عوام کے لیے ایک تفریح گاہ بھی بنا دی گئی ہے جہاں تیراکی اور کشتی رانی کی سہولیات بھی موجود ہیں۔ دریا کے کنارے پر ایک مشہور پارک میر واعظ نیکا پارک بھی ہے۔ دریا کے دوسرے کنارے پر گھنے جنگلات بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ شہر کے وسط میں محمد رسول اخوندزادہ پارک ہے۔ شہر سے تھوڑا باہر کی جانب دریائے ہلمند ہی کے کنارے ایک اور بہت بڑا پارک ہے جسے بابائے ملت پارک کہا جاتا ہے۔
ملک اس وقت چونکہ خانہ جنگی کی کیفیت سے گزر رہا ہے اس کی وجہ سے تعلیمی، معاشی، تجارتی اور ثقافتی سرگرمیاں متاثر ہیں ورنہ روس کے افغانستان پر ۱۹۷۰ء میں حملے سے قبل یہ افغانستان کے خواندہ ترین شہروں میں سے تھا۔ اس وقت بھی یہاں ۲۷ اسکول، ایک ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، ایک ایگری کلچر اسکول اور مشہور و معروف بوست یونیورسٹی ہے۔ فٹ بال یہاں کا پسندیدہ ترین اور مقبول کھیل ہے جس کے مقابلے صوبائی اور ملکی سطح پر کروائے جاتے ہیں۔ یہاں کی ٹیم نے کھیلوں بالخصوص فٹ بال کے مقابلوں میں کافی اعزازات حاصل کیے ہیں۔ فٹ بال کے علاوہ والی بال اور کرکٹ کو بھی عوام الناس میں خاص مقبولیت حاصل ہے۔ یہاں پر بوست ایئرپورٹ کے نام سے ایک ہوائی اڈہ موجود ہے جہاں سے ملک بھر کے لیے پروازیں چلتی ہیں۔ یہاں پر ریلوے کا نظام موجود نہیں ہے اس لیے سڑکوں سے سفر کیا جاتا ہے یا پھر ہوائی سفر کا ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں کی اکثریت پشتون قوم پر مشتمل ہے جب کہ بلوچ، ہزارہ، بروہی اور تاجک نسل کے لوگ بھی اقلیتوں کی شکل میں موجود ہیں۔ ۲۰۰۶ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی آبادی ۲ لاکھ ایک ہزار ۵۴۶ ہے۔
(بحوالہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۹ اگست ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply