
اللہ سبحانہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام نوعِ انسانی تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے بھیجا۔ اسلام دنیا کا سب سے سے تیزی سے پھیلتا ہوامذہب ہے یہ دنیا کے تمام گوشوں میں پہنچ چکا ہے حتی کہ لاطینی امریکا میں بھی اگرچہ بض جدید سائنسدانوں اور مورخوں نے اس بات کے مضبوط شواہد پیش کئے ہیں کہ مسلمان امریکا میں اس وقت پہنچ کر برادریاں قائم کیں اور تجارت کو مستحکم کیا جبکہ یورپ کو اس کے وجود کا علم تک نہیں تھا‘ لیکن اس وقت جو مسلمان لاطینی امریکا اور کیریبین میں رہتے ہیں۔ وہ بہرحال شروع کے دریافت کنندگان کی نسل سے نہیں ہیں۔ لاطینی امریکا میں اس وقت بنیادی طور سے مسلمانوں کے تین مختلف گروہ ہیں۔
(۱) برصغیر ہند و پاک سے تعلق رکھنے والے ان مزدوروں کی نسل ہے جو ایک زمانے میں مزدوری کی غرض سے کربین لے جائے گئے تھے۔
(۲) مسلمان ممالک سے آئے تارکین وطن ہیں۔
(۳) نو مسلم حضرات ہیں جو بیشتر پہلے عیسائی تھے اور بعض وہ نو مسلم ہیں جو پہلے ہندو تھے اور بعد میں اسلام قبول کرلیا ہے۔ یورپ کے برعکس جہاں مسلمانوں کی تعداد ترک وطن کے سبب یا شرح پیدائش میں اضافے کے سبب بڑھ رہی ہے لاطینی امریکا میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ زیادہ تر نئے اسلام قبول کرنے والوں کی وجہ سے ہے۔ اسلام کی دعوت کا کام مختلف طریقوں سے یہاں جاری ہے تقریباً تمام لاطینی امریکی ممالک میں ایک یا دو مساجد زیر تعمیر ہیں۔ ان مساجد کی تعمیر کا خرچ یا تو سعودی عربیہ کے امیر ترین افراد برداشت کررہے ہیں یا خود سعودی حکومت برداشت کررہی ہے۔
دعوت کا کام عام طور سے مساجد کے اندر وہ نوجوان کررہے ہیں جنہوں نے مدینہ کی اسلامی یونیورسٹی میں فقہ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس طرح کی ایک مسجد کارکاس کے ٹھیک قلب میں ہے ۔ یہ خلیج فارس کے ممالک میں پائے جانے والے مساجد کے طرز پر ہے جس میں ایک اونچا منارہ ہوتا ہے۔ اس میں ایک اسلامی مرکز کی تمام سہولایت اور ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے۔ آپ اس مسجد کے تہ خانے میں باسک بال بھی کھیل سکتے ہیں‘ بہرحال آپ جب اس شاندار اور حیران کن طو رپر آراستہ مسجد کے نماز ہال میں جائیں گے تو وہاں آپ کو نمازی بہت تھوڑے نظر آئیں گے اور امام صاحب کو صرف عربی بولتے ہوئے پائیں گے۔ ہسپانوی زبان میں آپ وہاں گفتگو نہیں سن سکیں گے۔ بولویا کے دارالحکومت La Paz میں تو مسلموں کی صورتحال وینزویلا کے مسلمانوں کی حالت سے قدرے مختلف ہے۔ یہاں کم از کم ۵۰ نو مسلم ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے ابھی تازہ تازہ اسلام قبول کیا ہے۔ عام طور سے ان کا تعلق غریب گھرانوں سے اور ان کا حلیہ مقامی امریکیوں کی مانند ہے۔ ان میں زیادہ تر لوگ کیتھولک مذہب سے مایو س ہوکر نجات کے لئے دوسرے ایو انجیلیکل مذہب کو آزمایا یہاں تک کہ ان کو اپنے دوستوں کے توسط سے اسلام کے بارے میں علم ہوا۔ عام طور سے انہیں بہت حیرانی ہوئی جب انہوں نے اپنے مسلم دوستوں سے سنا کہ کرسمس پوری دنیا میں نہیں منایا جاتا ہے۔ انہیں اسلام کی سادگی اور صفائی ستھرائی نے بہت زیادہ متاثر کیا۔ بارہا ایسا ہوا کہ بعض لوگ مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت کی غرض سے آئے اور انہوں نے اسی روز اسلام قبول کرلیا جبکہ اس سے پہلے وہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔یہ نومسلم اپنے نئے مذہب کے تئیں بہت زیادہ پرجوش اور وفادار ہیں اور قرآن اور سنت سے متعلق زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کے مشتاق ہیں تاکہ وہ اسلام کو دوسروں تک عام کرسکیں۔ بہرحال بعض دشواریاں بھی ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہورہا ہے۔ انہیں مستقل مالی پریشانیوں کا سامنا ہے ایسی حالت میں کہ وہ کسی بھی حکومت یا ملک کی مالی سرپرستی سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی برا مسئلہ اسلام کے بارے میں ان کی ناقص معلومات ہے اور تنہائی ہے جس سے وہ قبول اسلام کی وجہ سے دوچار ہوئے ہیں۔ کسی ایسے معاشرہ میں زندگی گزانا جو اسلام سے بالکل بیگانہ ہو کوئی آسان کام نہیں ہے۔ La Paz میں مثلاً اگر آپ صبح میں بریڈ خریدنے جائیں گے تو آپ کو پوچھنا پڑے گا کہ آیا یہ بریڈ سور کی چربی سے بنی ہے یا اس کے بغیر ہے۔ اس کے بعد بھی آپ کو یہ اعتماد حاصل نہیں ہوگاکہ دکاندار نے جھوٹ نہیں بولا ہے۔ جو عرب اس شہر میں رہتے ہیں وہ دولت مند تاجر ہیں اور انہیں روپے گننے سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ اسلام کے کاموں میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی وہ بعض نومسلموں کو عربی پڑھانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ رمضان میں باہر آتے ہیں لیکن وہ بولویائی مسلمان سے اپنے آپ کو دور ہی رکھتے ہیں۔ شمالی چیلی میں عقیق یا اقیق نامی ایک شہر ہے۔ حکومت نے یہاں چند سال قبل یہاں آزاد تجارتی زون قائم کیا ہے۔ چنانچہ بہت سارے پاکستانی یہاں بس گئے ہیں اور ایشیا اور چیلی کے درمیان یہ گاڑیوں کی تجارت کررہے ہیں۔ انہوں نے خوب پیسے کمائے ہیں اور پیسوں سے انہوں ے ایک بڑی خوبصورت مسجد بنائی ہے۔ یہ مسجد سادہ ہے اور زینت وآرائش کے اہتمام سے خالی ہے۔ یہاں بیرون ممالک اور چیلی کے مسلمان کثرت اور باقاعدگی سے نماز پڑھنے آتے ہیں۔ ہر جمعہ کو یہاں مسلمان مجتمع ہوتے ہیں اور ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ رمضان میں یہاں روزانہ اجتماعی افطار کا اہتمام ہوتا ہے۔ فی الحال لاطینی امریکا مذہب اور عقیدہ کے معاملے میں دیانتدار ہے۔ علاوہ ازیں دہریت اور شیطنت وہاں اس طرح عام نہیں ہے جس طرح کہ یورپ میں ہے۔ لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں تھوڑا تذبذب کے شکار ہیں کہ اس کی عبادت کس طرح کی جائے؟ عیسائی ایوانجیلیکل گروہ نے مسلمانوں سے بہت پہلے یہ دریافت کرلیا کہ لاطینی امریکا کی زمین مذہب کے لئے بہت زرخیز ہے۔ انہوں نے وہاں عمارتیں تعمیر کرنے‘ چرچ بنانے اور کتابوں کو عام کرنے کے لئے امریکی ڈالروں کے ڈھیر لگادیئے۔ انہیں کیتھولک چرچ سے بہت سارے افراد ملے جو ہر سال کم ہی وعظ سننے چرچ جایا کرتے ہیں۔ پھر بھی نام نہاد “Born Agains” اور Televangelists نے محض جذباتی حل پیش کررہے ہیں اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مسائل کا کوئی عام حل پیش نہیں کرتے جس طرح کہ اسلام پیش کرتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر مسلمانوں کو اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اس میں شک نہیں کہ لاطینی امریکا میں بنیادی طور سے نومسلموں نے دعوتی کام کا آغاز کیا ہے۔ اگر کوئی مکمل طور سے کسی بات پر مطمئن ہوجائے تو وہ اس بات سے دوسروں کو آگاہ کرنے کے لئے پوری ایڑی جوٹی کا زور لگا دیتا ہے۔ لاطینی امریکا میں دعوت کا کام اور بھی زیادہ کامیاب طریقے سے ہوسکتا ہے‘ لیکن مالی ذرائع ناکافی ہیں اور اِسے اور بھی موثر انداز میں منظم کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ دعوت کے کام کے لئے رقوم کی فراہمی کے کام میں سیاسی حالات کو دخیل نہیں ہونے دینا چاہئے۔ وہاں اسلامی علوم سے ناواقفیت بھی اسلام کے فروغ کے کام میں مانع ہے۔ لاطینی امریکا کے پاس قابل لحاظ وسائلِ انسانی ہیں۔ یہاں صرف تین اہم زبانیں ہیں ہسپانوی ‘ انگریزی اور پرتگالی جس کی وجہ سے رابطہ (Communication)بہت آسان ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اسلامی ممالک لاطینی امریکا کے مسلمانوں سے رابطہ رکھنے میں بہت زیادہ دلچپسی نہیں رکھتے ہیں اگرچہ اس کام کو کرنے میں بہت زیادہ محنت درکار نہیں ہوگی۔ یہ کام باقاعدگی کے ساتھ تبادلے کے پروگرام کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔یعنی اسلامی اداروں میں تعلیم کی خاطر آمدورفت ‘ کانفرنسوں کے اہتما اور تجارتی روابط کے ذریعہ دوسری جانب دلچسپی رکھنے والے مسلمان ساری دنیا سے لاطینی امریکا کا سفر کرسکتے ہیں تاکہ وہاں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے حالات اور ان کی ضروریات کے بارے میں علم حاصل کریں۔ اس طریقے سے انہیں مناسب راستہ مل جائے گا ایسے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی مادی و اخلاقی مدد کرنے کا۔
(بشکریہ: تہران ٹائمز)
Leave a Reply