
امریکا کے معروف اینوجلسٹ یعنی جہادی پادری’’پیٹ رابرٹسن‘‘ نے ایک بیان میں کہا تھا ’’ونزویلا کے صدر ہوگوشیواز کو قتل کروادینا چاہیے تاکہ امریکا کو بیس ارب ڈالر کی ایک اورمہنگی جنگ نہ لڑنی پڑے۔‘‘’’پیٹ رابرٹسن‘‘ اورپادری ’’جیرل فارل ویل ‘‘ صلیبی جہادیوں کے سرغنہ ہیں۔ درپردہ ان کا بش انتظامیہ پر ویسا ہی اثر و رسوخ ہے جیسا کہ اسامہ بن لادن کا طالبان پر تھا۔ بات یہ ہے کہ امریکا کی پرپیچ سیاست میں یہ تعلق افغانستان کی قبائلی سادگی کی طرح عیاں نہیں ہے لیکن بش جیتے ان ہی کی مدد سے ہیں اور اسی لیے ان کے صلیبی جہادی بیانات کی تردید نہیں کرتے۔ ’’پیٹ رابرٹسن‘‘ کے اس بیان سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ امریکا کے جہادی اپنے معاشی اور نظریاتی مفادات کے لئے اپنے عیسائی پڑوسیوں پر بھی عراق کی طرح حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی مداخلت کی بدترین مثالیں کیتھولک مذہب کے ماننے والے لاطینی امریکا میں ہی ملتی ہے۔ اب بھی بش انتظامیہ شوروغوغا اسلامی دہشت گردی کے بارے میں مچارہی ہے لیکن اصل انقلابی ابال اس کے پچھواڑے لاطینی امریکا میں اٹھ رہا ہے ۔ وہاں نہ صرف ونز ویلا جیسے تیل سے مالا مال ملک کے صدر ’’ہوگوشیواز‘‘ کیوبان کے’’فیڈرل کاسترو‘‘ کے ساتھ دوستی بڑھا رہے ہیںبلکہ اس براعظم کے سب سے بڑے ممالک برازیل اور ارجنٹینامیں بھی بائیں بازو کی طرف جھکائو والی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔
امریکا کے پڑوسی ملک میکسیکو کے اگلے انتخابات میں بھی بائیں بازو کے صدر کے جتنے کے امکانات واضح ہیں۔ بولیویا ‘ ایکوڈور‘ پیرو اور کولمبیا جیسے چھوٹے ملکوں میں بھی عوامی ابھار عوام دوست حکومتوں کے قیام کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔ امریکا کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نہ صرف اس کے مذہبی رہنما لاطینی امریکا کے رہنمائوں کو قتل کرنے کا پرچار کررہے ہیں بلکہ امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمیز فیلڈ بھی تھوڑے عرصے میں اس علاقے کے کئی چکر لگا چکے ہیں۔
لاطینی امریکا میں سیاسی تبدیلی کے روح رواں ونزویلا کے صدر ہوگوشیواز ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عظیم ناول نگار ’’گارشیاماکیز‘‘ کے افسانوی کرداروں کی طرح عوامی ہیں۔ صدر ہوگوشیوازاپنے عوامی انداز اور عوام دوست پروگراموں کی وجہ سے اتنے مقبول ہیں کہ ونزویلا کے حکمران طبقہ اور امریکا مل کر بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکا۔ ان کے خلاف مظاہرے بھی ناکام ہوئے اور ان کو نکالنے کی آئینی سازشیں بھی کسی کام نہ آسکیں۔
’’پیٹ رابرٹسن‘‘ کے بیان سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ امریکی حکمران لاطینی امریکا کے عوامی ابھار سے خائف ہیں امریکی وزیر دفاع دوسالوں میں چار مرتبہ اس علاقے میں جاچکے ہیں وہ ونزویلا اور کیوبا پر بولیویا کے انقلابیوں کی مدد کا الزام لگاچکے ہیں ۔ یہ وہی بولیویاہے جہاں سترکی دہائی کے مشہورانقلابی’’جے گویرا‘‘کو قتل کیا گیا تھا۔ بولیویا کے علاوہ ایکوڈور ‘ پیرو اور کولمبیا میں بھی وہی انقلاب جنم لے رہے ہیں جن کو دبانے کے لئے امریکا کوستر کی دہائی میں بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ اس وقت امریکا کے لیے سب سے بڑا درد سرونزویلا ہے جہاں کے صدر اپنی طرز کا سوشلسٹ ماڈل اپنانے کی کوشش کررہے ہیں انہوں نے بہت سی زمینیں جاگیرداروں سے لے کر غریب کسانوں میں تقسیم کردی ہیں۔ وہ ونزویلا کی پیٹرول کی کثیر آمدنی کو غریبوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے کیوبا کے ’’فیڈل کاسترو‘‘ کے ساتھ قریبی اتحاد قائم کیا ہوا ہے۔ وہ کیوبا سے عوام کی صحت کا نظام بہتر بنانے کے لیے ڈاکٹرز منگوارہے ہیں اور اس کے بدلے میں کیوبا کو سستے داموں پیٹرول فراہم کررہے ہیں ۔ظاہری بات ہے کہ امریکا کو نہ تو ’’ہوگوشیواز‘‘ کا سوشلسٹ ماڈل پسند ہے اور نہ ہی ’’کاسترو‘‘ کے ساتھ دوستی۔
ونزویلا کی طرح برازیل اور ارجنٹینا جیسے بڑے ممالک میں بھی بائیں بازو کا معاشی پروگرام اپنانے والی پارٹیاں آچکی ہیں ان دونوں ملکوں کی حکومتیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ا یف کے پروگرام رد کرتے ہوئے قومی پالیسیاں بنارہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ملکوں کی حالت پہلے سے بہتر ہورہی ہے۔ یہ ممالک اپنے فوجی ڈکٹیٹروں کو بھی کنٹرول کرچکی ہیں اور ونزویلا اور کیوبا کے ساتھ تجارتی اور دوسرے تعلقات قائم کرنے سے گریزاں نہیں ہیں۔ لاطینی امریکا کے مختلف ممالک میں اپنی اپنی طرز کا انقلابی ابھار ہے او رہر ملک میں اپنی طرز کی نظریاتی سمت ہے۔
صدر ’’ہوگوشیواز‘‘ یسوع مسیح کے اس پیغام کے داعی ہیں جن کے مطابق ایک سوئی کی نوک سے اونٹ تو گزر سکتا ہے لیکن دولت پرست آدمی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔ وہ عیسائیت کے اس دین آزادی کو پھیلارہے ہیں جس کی لاطینی امریکا میں بنیاد پادری ’’گوٹیرز‘‘ نے رکھی تھی۔ اس کے بانیوں کا دعویٰ تھا کہ کیتھولک چرچ کسانوں ر جبر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے پوپ جان پال سے لے کر آج تک کیتھولک چرچ کے رہنما دین آزادی کو تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔
امریکا کی پریشانی یہ ہے کہ اس وقت جب وہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں الجھا ہوا ہے اور ایران اور شمالی کوریا کے جوہری پروگراموں کے مسئلے کا حل نکال نہیں پارہا‘ اس کے گھر کے پچھواڑے میں انقلابی ابھار پنپ رہا ہے۔ وہ نظریات جو ستر کی دہائی میں لاطینی امریکا میں انقلابوں کی بنیاد بن رہے تھے واپس آرہے ہیں۔ امریکا کو خوف ہے کہ ستر کی دہائی کے یہ نظریات دوسرے براعظموں تک پھیل سکتے ہیں اور ’’ہوگوشیواز‘‘ نئے ’’جے گویرا‘‘ ثاب ہوسکتے ہیں اسی لیے امریکا کے جہادی پادری ان کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’منتظرِ سحر‘‘۔ کراچی۔ شمارہ۔ نومبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply