
آج کی دنیا میں جہاں سادہ سے نمونے بہت سی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں، وہیں جرمن چانسلر اینجلا میرکل اور روسی صدر ولادی میر پوٹن قومی قیادت کی دو متضاد جہتوں کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ ماضی کی طرح یہ دو قائدین بھی لوگوں کو دو یکسر مختلف عالمی تصورات فراہم کرتے ہیں۔
سیاسی تناؤ اور معاشی بدحالی کے گزشتہ ادوار میں یہ بات یقیناً بالکل سچ تھی۔ مثلاً پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب جمہوری سیاسی نظاموں کی بساط لپٹ رہی تھی تو ایک دنیا تھی جو مستقبل کے تعین کے لیے یا تو اٹلی کے مسولینی یا پھر روس کے ولادی میر لینن کی طرف دیکھ رہی تھی۔
۱۹۲۰ء کی دہائی میں مسولینی نے بہت سے بیرونی مبصرین کو یہ باور کرادیا تھا کہ اس نے نہایت تیزی کے ساتھ معاشرے کو مربوط کرنے کا طریقہ ایجاد کرلیا ہے، جو آزاد خیالی سے پیدا ہونے والے انتشار اور اندرونی تباہی پر بھی قابو پاچکا ہے۔ مسولینی کا اٹلی جس وقت آجر اور اجیر کے مفادات میں ہم آہنگی کی بات کرتا تھا، تب بھی عالمی معیشت اور سرمایہ دارانہ نظام سے جڑا رہا، جس سے بہتوں کو ایسا لگا کہ مستقبل میں اب طبقاتی کشمکش اور اس سے جُڑی سیاسی لڑائی نہیں ہوگی۔
جرمنی میں دائیں بازو کے سِکّہ بند قوم پرستوں سمیت بہت سے لوگ مسولینی کو پسند کرتے تھے جن میں ہٹلر بھی شامل تھا، جس نے ۱۹۲۲ء میں مسولینی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس سے دستخط شدہ تصویر کی گزارش کی۔ درحقیقت ہٹلر نے ۱۹۲۳ء میں جب اس اُمید کے ساتھ بویریا میں تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی کہ یہ پورے جرمنی پر قبضے کا نکتۂ آغاز ہوگا تو اس وقت اس کے سامنے مسولینی کا March on Rome ماڈل ہی تھا۔
مسولینی کی سوفسطائی بین الاقوامیت نے سوفسطائیوں کی برطانوی یونین کے آس ولڈ موزلے (Oswald Mosley) سے لے کر کورنیلو زلی کوڈرینو (Corneliu Zelea Codreanu) کی رومانیہ کے آہنی محافظ (Iron Guard in Romania) تک دنیا بھر میں لوگوں کو متاثر کیا۔ حتیٰ کہ چین کی ومپوا ملٹری اکیڈمی (Whampoa Military Academy) کے جوانوں نے مسولینی کی سیاہ قمیضوں اور ہٹلر کی نیم عسکری کتھئی قمیضوں سے مشابہت رکھنے والی نیلی قمیضوں کی تحریک چلانے کی بھی کوشش کی۔
اس وقت مسولینی کے سامنے لینن کی مثال تھی، جو بین الاقوامی سطح پر بائیں بازو کا علمبردار تھا۔ دنیا بھر میں بائیں بازو کے لوگ اپنی تشریح اسی پیمانے پر کرتے تھے کہ وہ سوویت رہنما کی سفاکی کے حق میں ہیں یا خلاف۔ مسولینی کی طرح لینن نے بھی (ہر حربہ آزما کر) ایک ایسا طبقات سے بالاتر معاشرہ بنانے کا دعویٰ کیا جہاں سیاسی کشمکش ماضی کا حصہ تھی۔
آج کے رہنما عالمگیریت کی سیاست کے شکنجے میں ہیں اور اسی تناظر میں میرکل اور پوٹن، جو اپنے ہتھکنڈوں میں مسولینی اور لینن کے ہم پلہ تو نہیں لیکن دو مختلف راستوں کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں: یعنی بالترتیب کشادہ ذہنی اور مدافعت۔ یورپ میں سیاستدان خود کو کسی نظریے سے وابستگی کے تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ ہنگری اور ترکی، دونوں روس کے جغرافیائی سیاسی عزائم کے آگے بے بس ہیں لیکن ان کے رہنما یعنی ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان (Viktor Orbán) اور تُرک صدر رجب طیب ایردوان بظاہر پوٹن کے مدح خوانوں میں شامل دکھائی دیتے ہیں۔
اگلے سال فرانس کے صدارتی انتخاب کی ممکنہ امیدوار اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما میرین لی پین میرکل سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ ان کے خیال میں میرکل ایک ملکہ کی طرح یورپی یونین کو استعمال کرتے ہوئے پورے براعظم اور خاص کر بے بس فرانسیسی صدر فرانسو اولاند پر اپنی مرضی مسلط کررہی ہیں۔ دوسری جانب جرمنی کی پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہنے کی پالیسی کو ’’غلام‘‘ درآمد کرنے کا پیش خیمہ سمجھا جارہا ہے۔
برطانیہ میں یوکے انڈی پینڈنس پارٹی کے سابق رہنما نائجل فراج بھی یہی سمجھتے ہیں اور میرکل کو یورپی امن کے لیے پوٹن سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے بظاہر میرکل کو راستہ دیتی نظر آتی ہیں۔ اپنے پہلے پالیسی بیان میں انہوں نے جون میں ہونے والے بریگزٹ ریفرنڈم کو تقریباً نظر انداز کیا جس کے بعد وہ اقتدار میں آئیں، بلکہ کمپنیوں کے بورڈز میں مزدوروں کی شمولیت کا عزم ظاہر کیا، جو جرمن سماجی معاہدے کا لازمی جزو ہے۔
پوٹن اور میرکل پرکار کے دو کونے ہیں اور ایسا صرف یورپ میں ہی نہیں ہے۔ امریکا میں ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے قیادت کے لحاظ سے بہترین پوزیشن پر ہونے کے باعث جہاں پوٹن کو سراہا، وہیں اپنی مخالف ہلیری کلنٹن کو ’’امریکا کی میرکل‘‘ کہہ کر ٹوئٹر پر اس حوالے سے ایک ہیش ٹیگ بھی چلا دیا۔ لی پین اور فراج کی طرح ٹرمپ نے بھی مہاجروں سے متعلق میرکل کی پالیسی کو سیاسی بحث کا مرکز بنانے کی کوشش کی۔
میرکل اور پوٹن کو جانچنے کا ایک زاویہ صنفی ترجیحات سے بھی جڑا ہے: میرکل ’’نسوانی‘‘ سفارت کاری اور کشادہ ظرفی کی طرفدار ہیں جبکہ پوٹن ’’مردانہ‘‘ مسابقت اور محاذ آرائی کے علمبردار۔ ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ پوٹن ماضی پرست اور میرکل امید پسند ہیں: یعنی بہتر سیاست کے ذریعے دنیا کو بہتر بنانے کا تصور۔
یہ واضح ہے کہ پوٹن سماجی قدامت پسندی، سیاسی جبر، اور راسخ العقیدہ مذہب کو ریاست کے بازو کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یوریشیا کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انیسویں صدی کے نظریہ ساز اور زار کے مشیر کونسٹینٹن پوبیدونوستوو (Konstantin Pobedonostsev) کے تین نکاتی نسخے (مذہب، جبر اور قوم پرستی) کو ہی آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں۔
میرکل دو مواقع پر پوٹن کی متبادل اور ایک عالمی رہنما کے طور پر سامنے آئیں: ایک تو اس وقت جب یورو زون کا بحران آیا اور وہ جرمن معاشی مفادات کی قوم پرست محافظ بن کر ابھریں، اور دوسرا ۲۰۱۵ء کے موسمِ گرما میں، جب انہوں نے پناہ گزینوں سے متعلق اپنی پالیسی پر تنقید یہ کہہ کر رَد کی کہ جرمنی ایک ’’مضبوط‘‘ ملک ہے جو سب ’’سنبھال‘‘ لے گا۔
ظاہر ہے کہ یہ ’’نئی‘‘ میرکل اچانک نمودار نہیں ہوئی تھیں۔ ۲۰۰۹ء میں جب پوپ بینڈکٹ نے ہولوکاسٹ کا انکار کرنے والے پادری کے اخراج کا فیصلہ واپس لینے کی ’’مناسب وضاحت‘‘ نہیں دی تھی تو میرکل نے ان پر تنقید کی ؛ اور ۲۰۰۷ء میں انہوں نے چینی تحفظات کے باوجود دلائی لامہ کو خوش آمدید کہا۔
اب جبکہ عالمگیریت ایک دوراہے پر پہنچ چکی ہے تو میرکل اور پوٹن سیاسی علامتیں بن چکے ہیں۔ اب جہاں ٹرمپ عالمگیریت کے متبادل کی تلاش میں پوٹن کو راستہ دیتے ہیں، وہیں میرکل مضبوط قیادت، بہتر حکمت عملی، اور انسانی حقوق اور عالمی اقدار کے ساتھ مربوط رہ کر اسے بچانا چاہتی ہیں۔
۱۹۲۰ء کی دہائی میں سیاسی علامتوں نے متشدد سیاسی تبدیلی کی بات کھل کر کی۔ آج ایسی زبان تو استعمال نہیں کی جاتی لیکن لوگوں کو اپنے اندر سمو کر مربوط کرنے اور انہیں خود سے دور کرکے انتشار پیدا کرنے میں سے کوئی ایک نظریہ ہمیں آج بھی چُننا ہوگا۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“‘Leadership Icons of a Globalized World”. (“project-syndicate.org”. Sept. 6, 2016)
Leave a Reply