
اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو کے علاقے ڈینسٹون کی ایک دکان پر ’ہاں‘ کا بورڈ لٹکا ہوا تھا۔ جولائی سے یہ دکان برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے چلائی جانے والی مہم کا مقامی مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس دکان کے بالکل برابر والی دکان میں تزئین و آرائش کا کام ہو رہا ہے اور سارا کا سارا شٹر ’نہیں‘ مہم کے پوسٹروں سے بھرا ہوا ہے۔ یس مہم شروع ہوتے ہی پوسٹرز راتوں رات چسپاں کر دیے گئے ہیں۔ برطانیہ سے آزادی کے سوال پر ۱۸؍ستمبر کو اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم منعقد ہورہا ہے جسے جدید برطانیہ کی تاریخ کی انتہائی پرجوش رائے شماری قرار دیا جارہا ہے۔ برطانیہ سے آزادی کے حق میں چلائی جانے والی مہم کو ’یس‘ جب کہ مخالف مہم کو ’نو‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسکاٹ قوم ہمیشہ سے ایک جھگڑالو قوم رہی ہے، اس نے اپنے لیے کھڑے ہونے اور عالمی اسٹیج پر استطاعت سے زیادہ بڑا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن جیسے جیسے ۱۸؍ستمبر کی تاریخ نزدیک آتی جارہی ہے، اس قوم کی جھگڑالو صلاحیتوں کا رُخ اپنوں کی طرف ہی ہوگیا ہے اور اسکاٹ اب اسکاٹ کے مقابل آکھڑا ہوا ہے۔ ۶۹ سالہ ریٹائرڈ ہیلتھ ورکر کین ٹیلر ڈینسٹون میں ’یس‘ مہم کے کارکن ہیں۔ وہ ۵۰ سال سے اسکاٹ لینڈ کی قومی تحریک کے حامی رہے ہیں۔ کین ٹیلر کہتے ہیں کہ برادریاں تقسیم ہوچکی ہیں اور خاندان ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں۔ ’یس‘ مہم کو اب بھی مشکلات کا ایک پہاڑ عبور کرنا ہے لیکن اب میری عمر میں پہاڑ اتنے برے نہیں لگ رہے۔
ٹیلر اور ان کے دوست روزانہ نکلتے ہیں اور لوگوں کو آزادی کے حق میں ہاں کا ووٹ ڈالنے کے حق میں قائل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ رائے عامہ کے کئی جائزوں کے مطابق آزادی مخالف تنظیم ’بیٹر ٹو گَیدر‘ (ساتھ رہنے میں بہتری ہے) کو اب بھی سبقت حاصل ہے۔ کچھ جائزوں کے مطابق یہ سبقت ۱۴؍پوائنٹس سے ہے جب کہ ایک حالیہ سروے میں اسے محض ۴ پوائنٹس کی سبقت بتایا گیا ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ آزادی کی حمایت مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ سبقت مسلسل گھٹتی جارہی ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے ۴۲ لاکھ ووٹرز میں سے زیادہ تر یا تو فیصلہ نہیں کرسکے ہیں کہ انہوں نے کس کو ووٹ دینا ہے یا پھر وہ اپنے ارادوں کا اظہار نہیں کر رہے۔ امکان ہے کہ فتح جس کسی کی ہو، ووٹوں کا فرق بہت کم ہوگا۔ چرچز نے تلخیوں کو ختم کرنے کے لیے ریفرنڈم کے نتائج کے اعلان کے بعد مصالحتی سروسز کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔
ریفرنڈم میں بیلٹ پیپر پر صرف ایک ہی سوال درج ہوگا: کیا اسکاٹ لینڈ کو ایک آزاد ملک ہونا چاہیے؟ باالفاظِ دیگر، کیا اسکاٹ باشندے برطانیہ عظمیٰ کے قیام کا سبب بننے والے ۳۰۷ سالہ اتحاد سے علیحدہ ہوجائیں؟
اسکاٹ قوم پرستی نے اکثر اوقات تاریخ کے ’’بریو ہارٹ ورژن‘‘ کو اپنے مقصد سے جوڑا ہے۔ ۱۹۹۵ء کی میل گبسن کی فلم اغلاط سے بھری ہوئی ہے، جس میں اسکاٹ مردوں کے لباس کلٹ کی کثرت دکھائی گئی ہے جو درحقیقت فلم میں دکھائے جانے والے دور سے چار صدیوں بعد جاکر مقبول ہوا تھا، نیز یہ نعرہ کہ غدار انگریز اشرافیہ نے اسکاٹ لینڈ کو مغلوب کیا، بھی غلط ہے۔ کیونکہ اتحاد کے وقت اگرچہ انگلینڈ زیادہ مضبوط تھا لیکن ۱۷۰۷ء میں ہونے والا اتحاد تاجِ برطانیہ اور تاج اسکاٹ لینڈ کا متفقہ فیصلہ تھا جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچا اور مواقع پیدا ہوئے۔
نہ صرف کنزر ویٹوز اور لبرل ڈیموکریٹس کی موجودہ برطانوی اتحادی حکومت بلکہ اپوزیشن کی لیبر پارٹی بھی دونوں ممالک کے اتحاد کی حامی ہے۔ لیبر پارٹی نے ۱۹۹۷ء کا الیکشن جیتا تھا جس کے اگلے سال قانون سازی کرکے اس امید پر علاقائی اسکاٹش پارلیمنٹ بنائی کہ شاید اس سے آزادی کی اگر کوئی بچی کھچی امید ہوئی تو وہ بھی ختم ہوجائے گی۔
لیکن اسکاٹش پارلیمنٹ کو دیے گئے محدود اختیارات کی وجہ سے کئی اسکاٹ باشندوں کی مکمل خود مختاری کی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ اسکاٹ پارلیمنٹ کو صحت، تعلیم، ہاؤسنگ پالیسی و دیگر امور کے اختیارات دیے گئے جب کہ دفاع اور خارجہ پالیسی جیسے اہم امور برطانوی حکومت کے پاس ہی رہے جنہیں لندن کی ۱۰؍ڈاؤننگ اسٹریٹ سے چلایا جاتا رہا۔ ۲۰۱۱ء میں ایڈن برگ میں واقع اسکاٹش پارلیمنٹ کے الیکشنز میں اسکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) کو انتہائی غیر متوقع طور پر بھاری اکثریت حاصل ہوگئی۔ ایس این پی کی کامیابی کا سہرا پہلے اسکاٹش وزیر الیکس سیلمنڈ کی زیرک قیادت کو جاتا ہے جنہوں نے ہم وطنوں کے غم و غصہ سے بخوبی فائدہ اٹھایا جو سابق کنزرویٹو وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے دور میں اسکاٹ لینڈ کو پیش آنے والی مشکلات اور عراق جنگ میں شمولیت کے لیبر پارٹی کے غیر مقبول ترین فیصلے پر شدید برہم تھے۔ لیکن ایس این پی طویل عرصے سے آزادی کے لیے جدوجہد اور ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے مہم چلا رہی تھی۔ برطانوی حکومت ریفرنڈم کے انعقاد پر یہ سوچ کر آمادہ ہوگئی کہ شاید اسکاٹس کی اکثریت یونین میں شامل رہنے کی حمایت کرے گی اور موجودہ نظام ہی برقرار رہے گا جس سے یہ بحث ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ لیکن اب ایسا لگنے لگا ہے کہ برطانوی حکومت سے اندازے کی سنگین غلطی سرزد ہوئی۔
اس معاملے کے عالمی مضمرات ضرور مرتب ہوں گے۔ اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم نے برطانیہ کی سرحدوں کے پار ابھی سے تھرتھری مچانی شروع کردی ہے۔ جیسے جیسے حریت پسند ’یس‘ مہم آزادی مخالف ’’بیٹر ٹو گَیدر‘‘ پر غلبہ حاصل کرتی جارہی ہے، برطانوی حکومت لیبر پارٹی کے ساتھ مل جل کر کام کرتے ہوئے اسکاٹ لینڈ کو یونین کا حصہ بنانے کے لیے تگ و دو کر رہی ہے اور اسکاٹ عوام سے وعدے کر رہی ہے کہ اگر ان کی اکثریت نے ’نہیں‘ میں ووٹ دیا تو انہیں مزید اختیارات منتقل کیے جائیں گے۔
لیکن برطانوی حکومت کے اسکاٹ لینڈ سے کیے گئے وعدوں، جن میں ٹیکس جمع کرنے اور اسکاٹ لینڈ کے لیے نظام فلاح و بہبود کی شکل وضع کرنے کے وسیع اختیارات شامل ہیں، کی وجہ سے برطانیہ کے دیگر حصوں میں بھی زیادہ خود مختاری کی طلب بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ یہ بے چینی نہ صرف ویلز اور شمالی آئرلینڈ کے شہریوں میں پیدا ہورہی ہے بلکہ خود انگلینڈ کے ان شہروں اور علاقوں میں بھی نظر آنا شروع ہوگئی ہے جہاں کے عوام سمجھتے ہیں کہ برطانوی پارلیمنٹ میں ان کی صحیح طریقے سے نمائندگی نہیں کی جاتی اور لندن کے معاشی و سیاسی اقتدار کے مرکز کی جانب سے انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
انگلینڈ اینڈ ویلز میں ۳۰۰ سے زائد بلدیاتی حکومتوں کی نمائندگی کرنے والے ادارے لوکل گورنمنٹ ایسوی ایشن کے سربراہ ڈیو اسپارکس نے جریدے ’’ٹوٹل پولیٹکس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنڈم کے جو بھی نتائج برآمد ہوں گے، وہ ان ریاستوں میں اختیارات کی زیادہ عدم مرکزیت کی توقعات کے لیے گہرے اثرات کے حامل ہوں گے۔
دریں اثناء دیگر ممالک میں چلنے والی آزادی کی تحریکیں بھی اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کو بہت غور سے دیکھ رہی ہیں۔ مئی میں بلجیم کی علیحدگی پسند جماعت نیو فلیمش الائنس نے ملک کے پارلیمانی انتخابات میں جاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسکاٹ لینڈ کی مثال سے حوصلہ پکڑتے ہوئے اسپین کے طویل عرصے سے شورش زدہ علاقے کیٹالونیا نے بھی نومبر میں آزادی پر ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے، تاہم اسپین کی مرکزی حکومت نے اسے غیر آئینی قرار دیا ہے۔ اسکاٹ لینڈ کا یوم حساب یقیناً بین الاقوامی تبدیلیوں کا ذریعہ بنے گا چاہے اسکاٹ عوام آزادی کے خلاف ہی ووٹ کیوں نہ ڈالیں۔
لیکن آزادی کے حق میں ’ہاں‘ کا ووٹ زیادہ بڑی تبدیلیاں لے کر آئے گا اور ایسے سوالات کو جنم دے گا جن کا ابھی کوئی جواب موجود نہیں۔ اسکاٹ لینڈ کو شاید یورپی یونین کی رکنیت کے لیے دوبارہ درخواست دینی پڑے گی جو اسے اس وقت برطانیہ کا حصہ ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے۔ کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کتنا وقت لگے گا کیونکہ بلجیم، اسپین اور دیگر ممالک آزاد اسکاٹ لینڈ کی رکنیت کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ویٹو کرسکتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہیں گے کہ اسے آزادی کی لڑائی کا فائدہ پہنچے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزاد اسکاٹ لینڈ کونسی کرنسی کو اختیار کرے گا۔ اسکاٹ لینڈ میں اس وقت پاؤنڈ چلتا ہے، لیکن اسے آزاد ملک کی کرنسی کی حیثیت سے برقرار نہیں رکھا جاسکے گا کیونکہ برطانیہ کی تینوں مرکزی سیاسی جماعتیں بعد از آزادی دونوں ممالک کے کرنسی اتحاد کی تجویز کو مسترد کرچکی ہیں اور برطانوی کرنسی کو ہی جاری رکھنا اسکاٹس کے لیے بھی ٹھیک نہ ہوگا کیونکہ اس طرح وہ ایک ایسی کرنسی استعمال کررہے ہوں گے جس پر ان کا کوئی اختیار ہی نہیں ہوگا۔ نیز اگر یورپی یونین ایک آزاد اسکاٹ لینڈ کی رکنیت منظور کرلیتی ہے تو اسے پہلے سے بحران کا شکار یورو کو بطور کرنسی اپنانا ہوگا۔ پھر کسی کو یہ بھی نہیں پتا کہ اس آزاد ملک کو علیحدگی کے بعد کتنا قرضہ ورثے میں ملے گا یا وہ بحر شمالی سے نکلنے والے تیل اور گیس سے کتنا پیسہ کما سکے گا جس پر وہ حقِ ملکیت جتاتا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ کیا ملکہ بدستور سربراہ ریاست رہے گی یا اسکاٹس کی اکثریت انہیں یہ درجہ نہیں دینا چاہے گی۔
اور پھر ایک غیر متحدہ برطانیہ کو مندرجہ ذیل سوالات کا جواب تلاش کرنے میں کتنے سال کا عرصہ لگے گا: اپنے سیاسی نظام، عوامی اخراجات اور قومی نشریاتی ادارے بی بی سی کی کس طرح تنظیم نو کی جائے اور کیا برطانوی پرچم کو بھی دوبارہ ڈیزائن کرنا پڑے گا جس میں اس وقت اسکاٹ لینڈ کا نشان کراس آف سینٹ اینڈریو بنا ہوا ہے۔
پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ولیم ولاس، رابرٹ دا بروس، اور بلیک واچ و اسکاٹ گارڈز جیسی شہرہ آفاق فوجی یونٹوں والی یہ قوم کس طرح اپنا دفاع کرے گی۔ ایک تنہا اسکاٹ لینڈ کے پاس یقیناً اپنی ایک فوج ہوگی اور برطانیہ سے علیحدگی کے بعد بٹوارے میں کچھ فوجی دستے اور اثاثے بھی ضرور ملیں گے، لیکن حریت پسند سختی سے ایسے اقدام کی حمایت کرتے ہیں جو بچی کچھی برطانوی فوج کی پوزیشن کو بھی بالکل الٹ کر رکھ دے۔ یس مہم کا بہت عرصے سے یہ وعدہ ہے کہ وہ برطانیہ کی ٹرائیدنٹ ایٹمی میزائلوں سے لیس چار آبدوزوں کو گلاسگو سے ۶۵ کلومیٹر شمال مغرب میں فاسلین کے گہرے پانی کی بندرگاہ میں واقع ان کے اڈّے سے نکال دے گی کیونکہ وہ اپنی سرزمین کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کر دے گی۔ سیلمنڈ کا کہنا ہے، یہ اقدام اس بات کی ضمانت دے گا کہ اسکاٹ لینڈ آئندہ عراق جیسی غیر قانونی جنگوں میں اپنا بہترین خون ضائع نہیں کرے گا۔ یہ بڑی حد تک ایک علامتی موقف ہے لیکن ایس این پی کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا جوہری دفاعی پروگرام بھی بڑی حد تک علامتی ہی ہے، یعنی ایک ایسی طاقت کا دکھاوا جسے استعمال کرنے کا کوئی ارادہ ہی نہ ہو۔ لہٰذا ایک مناسب متبادل بندرگاہ کی عدم موجودگی کا مطلب ہوگا کہ ایک چھوٹا برطانیہ اپنے پروگرام ٹرائیڈنٹ کو بند کرنے پر مجبور ہوجائے گا کیونکہ اس کے پاس زمین سے چلانے والا کوئی ایٹمی ہتھیار موجود نہیں۔
جارج رابرٹسن ایک اسکاٹ شہری اور لیبر سیاستدان ہیں جو نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور ان دنوں ہاؤس آف لارڈز کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کے نتائج پر بیرونی دنیا کا بھی انحصار ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے بعد برطانیہ اور اس کی رجمنٹس اور بٹالینز کی بین الاقوامی فوجی و سفارتی مداخلتوں میں شامل ہونے کی صلاحیت کم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا ایسی دنیا میں جو بالخصوص ایک ہنگامہ خیز دور سے گزر رہی ہے اس وقت اختلاف و تفریق دکھانے کا وقت نہیں، ہمیں اس وقت روس سے محاذ آرائی کا سامنا ہے جس کی شدت مسلسل بڑھتی جارہی ہے، مشرق وسطیٰ میں الگ انتشار برپا ہے، افغانستان سے ہماری فوجیں واپس آرہی ہیں، جب کہ جنوبی اور مشرقی بحیرہ چین اگلی عالمی جنگ عظیم کا میدان بنتا جارہا ہے۔ پھر اگر ان حالات میں برطانیہ بھی ٹوٹ گیا تو وہاں اگلے دو یا تین سال تک جمود طاری ہوجائے گا اور اس طرح اسکاٹ لینڈ کی آزادی سے عالمی سیکورٹی ڈھانچے کا ایک اہم حصہ ضائع ہوجائے گا۔
اُمید کی گلی
اسکاٹ قوم پرستوں نے آزادی مخالف لوگوں کے اس جیسے ڈراووں کو خود پیدا کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ بلیئر جنکنز سابق ٹی وی ایگزیکٹیو ہیں جو ان دنوں گلاسگو کی ہوم اسٹریٹ میں واقع ’یس اسکاٹ لینڈ‘ کے صدر دفتر سے آزادی مہم کی رہنمائی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’بیٹر ٹو گَیدر‘ شکوک و شبہات کے بیج بونے کی مہم چلا رہی ہے جو کہ شاید برطانیہ کی سیاسی تاریخ کی انتہائی منفی مہم ہے، آزادی مخالف کہتے ہیں کہ اسکاٹ لینڈ میں تیل ختم ہونے والا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسکاٹ لینڈ کے پاس ۵۰ سال کا تیل موجود ہے جو اعلیٰ معیار کا ہے اور ان ۵۰ سال میں ہمیں ایک مختلف معیشت میں بدلنے کی ضرورت ہوگی جس کی بنیادیں بڑی حد تک قابل تجدید توانائی پر استوار ہوں گی۔ انہوں نے تیل پیدا کرنے والے ایک چھوٹے ملک ناروے کی مثال دیتے ہوئے اسے اسکاٹ لینڈ کے لیے نمونہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا تمام اشارے اس بات کے ہیں کہ چھوٹے آزاد ممالک بہت سارے معاملات میں بڑے ممالک سے زیادہ اچھا کام کررہے ہیں نہ صرف اپنی معیشت کی مضبوطی کے حوالے سے بلکہ سماجی ثمرات کے حوالے سے بھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ناروے جس کی آبادی اسکاٹ لینڈ کی آبادی کے تقریباً برابر ہی ہے آج پورے برطانیہ سے دگنی مقدار میں تیل پیدا کررہا ہے۔
۲۰۱۰ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے برطانیہ کی اتحادی حکومت نے بجٹ میں کٹوتی کی پالیسیوں پر عمل درآمد کیا ہے اور ریاست کے عمل دخل کو بھی کم کیا ہے۔ دوسری جانب اسکاٹ حکومت نے اس کے برخلاف زیادہ اخراجات کا رستہ اپنایا۔ اسکاٹ لینڈ کو اختیارات کی منتقلی سے قبل پورے برطانیہ کی یونی ورسٹیوں میں ٹیوشن فیس متعارف کرادی گئی تھی، لیکن اسکاٹ حکومت نے ایسا نہ کیا اور وہاں مقامی اور یورپی یونین کے طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم بالکل مفت ہے، لیکن متنازع طور پر باقی برطانیہ کی ریاستوں سے آنے والے طالب علموں سے فیس لی جاتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں معمر شہریوں کا علاج معالجہ انتہائی کم پیسوں میں کیا جاتا ہے حالانکہ اس سرکاری اسکیم پر بھاری اخراجات آرہے ہیں۔ اس پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس اسکیم کا خرچ کون اٹھا رہا ہے۔ برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ ملکی آمدن میں اسکاٹ لینڈ کا حصہ ۳ء۸ فیصد ہے لیکن قومی مجموعی اخراجات میں اسکاٹ لینڈ ۳ء۹ فیصد حصہ لے جاتا ہے۔ علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے پانیوں سے نکلنے والے تیل و گیس سے اسکاٹس کے خرچ پر پورا برطانیہ فائدہ اٹھارہا ہے۔
کئی اسکاٹس ریفرنڈم کو دو معاشی ماڈلز کے مابین ایک مقابلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ’یس مہم‘ آزاد اسکاٹ لینڈ کا معاشی جمہوریہ اور تیل سے مالا مال مملکت کا تاثر پیش کررہی ہے جب کہ ’بیٹر ٹو گَیدر‘ مہم بالکل الگ ہی تصویر پیش کررہی ہے، ایک ایسے ملک کی تصویر جس کے پاس اپنے اخراجات اٹھانے کے لیے مناسب آمدن نہ ہو، جو برطانیہ کی جانب سے ملنے والی امداد سے بھی محروم ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ برطانوی حکومت نے ۲۰۰۸ء میں رائل بینک آف اسکاٹ لینڈ کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا۔ یس اسکاٹ لینڈ کا کہنا ہے کہ اگر ملک آزاد ہوگیا تو ہر شہری پر سے سالانہ کم از کم ۶۰۰ پائونڈ (۹۹۵ ڈالر) ٹیکس کی مد میں کم ہوجائے گا کیونکہ نہ صرف تیل کی آمدن حاصل ہوگی بلکہ نمو اور پیداوار کو بھی فروغ ملے گا۔ جب کہ دوسری جانب ’بیٹر ٹو گَیدر‘ کا کہنا ہے کہ آزادی کی صورت میں اسکاٹ لینڈ میں ہر ٹیکس دہندہ کو عوامی اخراجات کی مد میں اضافی ایک ہزار پائونڈز (۱۵۸ ڈالر) جیب سے ادا کرنے ہوں گے۔ ’بیٹر ٹو گَیدر‘ کے سربراہ الیسٹر ڈارلنگ کا دفتر ہوپ اسٹریٹ سے کچھ فاصلے پر ہے۔ وہ اپنے الفاظ کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ ایک اسکاٹ ہونے کے ناطے ڈارلنگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے ہم وطنوں کو لیکچر سننا زیادہ پسند نہیں خاص طور پر باہر والوں سے سننا تو بالکل پسند نہیں۔ ڈارلنگ نے ۱۹۸۷ء سے ایڈن برگ کے حلقے کی نمائندگی کی ہے۔ لیکن یہ نمائندگی برطانوی پارلیمنٹ میں کی ہے اسکاٹ پارلیمنٹ میں نہیں۔ انہوں نے ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۰ء میں لیبر حکومت کے خاتمے تک خزانے کے برطانوی چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعض اسکاٹس کے نزدیک یہ باتیں انہیں غیر ملکی بنادیتی ہیں۔ جب انگلش کلچرل ہیروز جے کے رولنگ اور ڈیوڈ بوئی متحدہ برطانیہ کی حمایت کرتے ہیں تو انہیں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے حریت پسندوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جون میں امریکی صدر اوباما نے بھی اسکاٹ ریفرنڈم پر اپنے بیان میں کہا کہ امریکا ایک مضبوط اور متحدہ برطانیہ کی حمایت کرتا ہے لیکن یہ بیان بھی کئی ماہ تک پس پردہ جاری رہنے والی بحث کے بعد دیا گیا تھا کہ کہیں ایسا کرنے سے اسکاٹ ووٹرز میں کوئی ردعمل جنم نہ لے لے۔
ڈارلنگ افسردہ افسردہ سے نظر آئے۔ اپنے احساسات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسکاٹ لینڈ میرا بھی وطن ہے۔ تیل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہیں غصہ آگیا۔ انہوں نے کہا یس مہم آزاد اسکاٹ لینڈ میں شمالی سمندر سے نکلنے والے تیل کی آمدن کے بارے میں مبالغہ آرائی کررہی ہے۔
کالا سونا
۱۹۶۰ء کی دہائی سے جب برطانیہ نے پہلی بار شمالی سمندر میں ڈرلنگ شروع کی، وہاں سے نکلنے والے تیل اور گیس کی آمدن نے اسکاٹ لینڈ کی قسمت بدل کر رکھ دی ہے۔ روپے پیسے کی ریل پیل ہوگئی، ملازمتوں کے وافر مواقع پیدا ہوئے۔ لیکن تیل اور گیس سے ہونے والی یہ آمدن آئندہ سالوں میں کتنی رہے گی یہ بات یس اور نو کے مابین ایک اختلافی نکتہ ہے۔ یس مہم این ۵۶ تنظیم کی جاری کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۴۱ء تک شمالی سمندر سے ۳۶۵ ارب پائونڈز (۶۰۵ ارب ڈالر) کا تیل نکلنے کی توقع ہے جب کہ ’بیٹر ٹو گَیدر‘ برطانوی محکمہ بجٹ کی رپورٹ کا حوالہ دیتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسی عرصے کے دوران ۶ء۶۱؍ارب پائونڈز (۱۰۲؍ارب ڈالر) کا تیل نکلنے کا امکان ہے۔ تمام طرح کے عوامل مثلا جنگ، ماحولیاتی اقدامات وغیرہ تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا سبب بنیں گے۔ نیز ماہرین کا اس پر بھی اختلاف ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے پاس تیل کے کتنے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ۲۵؍اگست کو سیلمنڈ اور ڈارلنگ کے مابین ٹی وی پر نشر ہونے والے مباحثے میں نو مہم کے رہنما نے کہا کہ تیل و گیس کی مارکیٹ بہت تیزی سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتی ہے جس کے جواب میں سیلمنڈز نے کہا کہ ڈارلنگ اور ان کے آزادی مخالف رفقاء اسکاٹ لینڈ کے تیل کو شاید بددعا دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اگر ریفرنڈم میں آزادی کے حق میں فیصلہ آیا تو اس پر بھی دونوں ملکوں میں مذاکرات ہوں گے کہ اسکاٹ لینڈ کا تیل کتنا ہے اور برطانیہ کا کتنا۔
دونوں فریقوں کے درمیان تیل و گیس کے ذخائر کے حجم و قدر و قیمت اور ان ذخائر کی تقسیم پر موجود اختلاف نے کاروباری شخصیات اور تاجروں کو پریشان کردیا ہے۔ کیمپ بیلز پرائم میٹ، جو اسکاٹ لینڈ میں کیٹرنگ انڈسٹری کو گوشت اور مچھلی وغیرہ فراہم کرتی ہے، کے منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹوفر کیمپ بیل کا کہنا ہے کہ آزاد ہونا اسکاٹ لینڈ کے لیے سمندر کے برابر غیریقینی کی صورتحال پیدا کر دے گا۔ کیمپ بیل نے ’نہیں‘ کا ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈوگلس کیمرون برانڈنگ، مارکیٹنگ اور ڈیزائن اسپیشلسٹ کمپنی ایڈن کنسلٹنسی کے مالک ہیں جس کا دفتر فالکرک میں واقع ہے۔ یہ اسکاٹ لینڈ کا وہ حصہ ہے جسے شمالی سمندر سے نکلنے والے تیل سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ کیمرون کا کہنا ہے کہ آزادی کے نتیجے میں اسکاٹ لینڈ کو ترقی کے زیادہ مواقع حاصل ہوں گے جو برطانیہ میں نہیں تھے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اب تک اس فیصلے پر نہیں پہنچ سکے کہ کس کو ووٹ دیں۔
حریت پسند اور آزادی مخالف مہمات کی جانب سے اپنے اپنے موقف کی حمایت میں پیش کردہ دلائل سے قطع نظر اسکاٹ لینڈ کے باسیوں کو موجودہ شناسا نظام یا حریت پسندوں کی جانب سے دکھائی گئی امید کی کرن، دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ کیا عالمی معاشی سیاسی قوتوں کے سامنے ایک چھوٹا سا ملک اپنے مال و متاع کو بچاسکے گا؟ اور انہیں قوتوں کے کنٹرول کو دیکھ کر دنیا بھر میں ووٹرز یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کا اپنی تقدیر پر زیادہ اختیار نہیں۔
اس ریفرنڈم نے اسکاٹ لینڈ کے سارے شہریوں کو اپنے اپنے موقف کے اظہار اور قومی تقدیر کا نقشہ بنانے کا ایک نادر موقعہ فراہم کیا ہے۔ کین ٹیلر کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آبائی ملک میں اتنی تاریخی عوامی دلچسپی اور شمولیت کبھی نہیں دیکھی۔ ۱۸؍ستمبر کو ایک ریکارڈ ٹرن آؤٹ کی توقع ہے جب کہ ووٹوں کی گنتی اگلے روز تک جاری رہ سکتی ہے۔
اسکاٹ لینڈ اپنی تقدیر کا چاہے جو بھی فیصلہ کرے، ریفرنڈم کے بعد تقریباً نصف فیصد ووٹر خود کو طاقتور محسوس کریں گے۔ جب وہ خود کو ایسے ملک میں پائیں گے جس کی بنیادی سیاسی شناخت کے خلاف انہوں نے ووٹ دیا ہوگا اور پھر ایک مصالحتی عمل کا سامنا کریں گے جو شاید کئی سال تک جاری رہے۔ اگر اسکاٹ لینڈ آزادی کی شاہراہ پر گامزن ہوچکا ہے تو ہارس ٹریڈنگ اور نئے سرے سے اسٹرکچر تشکیل دینے کی ضرورت پڑے گی جب تک وہ شناخت پائیدار بنیادوں پر قائم نہیں ہوجاتی۔
“Leap of Faith”. (“Time”. August 28, 2014)
Leave a Reply