
تباہ حال افغانستان میں روز افزوں کشیدگی کے باعث لوگ مر رہے ہیں‘ ان مرنے والوں میں سے زیادہ تر لوگوں کا دہشت گردی یا باغیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ افغان حکومت کی اپنے ہی علاقوں میں گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ ۳۴ صوبوں میں سے درجن بھر کے قریب طالبان کے قبضے میں ہیں۔ منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ ان ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے جو پہلے سے عدم استحکام کا شکار ہیں جن میں وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان بھی شامل ہے۔
۱۱ ؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ آزمائی حکمت عملی کی ناکامی پر منتج ہو رہی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے اور جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ مزید یہ کہ ایسا اور کیا ہو سکتا ہے جو ہمیں مکمل تباہی سے دوچار کر دے۔ حالیہ لندن کانفرنس جہاں مختلف ممالک اور عالمی اداروں کے نمائندگان اکٹھے ہوئے تھے‘ نئی سمت میں پہلا قدم ہے۔
محتاط تیاری کے بعد لندن کانفرنس کے شرکاء ایسے فیصلے کرنے میں کامیاب ہوئے جو صورتحال میں بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ماضی کی تین دہائیوں کے تجربات کا تجزیہ کر کے ان سے کچھ سبق حاصل کیا جاسکے۔
۱۹۷۹ء میں سوویت قیادت نے افغانستان میں فوجیں اتارنے کے جواز میں کہا تھا کہ وہ وہاں اپنے دوستوں کی مدد کرنے اور انتشار کے شکار ملک میں استحکام پیدا کرنے کے لیے آئے ہیں اور یہیں افغانستان جیسے ملک کی پیچیدہ صورتحال کو سمجھنے میں بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی۔ جہاں معاشرہ مختلف نسلی گروہوں‘ ذات برادری اور قبیلوں کے باہمی تعلقات سے تشکیل پانے کی قدیم روایت ہے اور اس سے جہاں ہیئتِ حاکمہ محدود تر ہوتی ہے۔
اسی لیے ہم جو چاہتے تھے نتائج اس کے برعکس برآمد ہوئے۔ عدم استحکام میں اضافہ ہوا اور ایک ایسی جنگ گلے پڑ گئی جس کا نہ صرف ہزاروں شکار ہوئے بلکہ خود ہمارے اپنے ملک کو مہلک نتائج بھگتنا پڑے جس پر مغرب بالخصوص امریکا نے جلتی پر تیل کا کام کیا جو سرد جنگ کے زمانے سے ہر اس ایک کی سرپرستی کرنے پر آمادہ رہا جو سوویت یونین کے خلاف سرگرم عمل ہو‘ صرف یہ سوچ کر کہ اس سے اسے طویل عرصے تک فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
۱۹۸۰ء میں سوویت قیادت اپنے نظامِ معیشت کی تشکیلِ نو کے وقت افغانستان میں درپیش مسائل کا تجزیہ کر کے کچھ نتائج اخذ کر چکی تھی۔ ہم نے دو قطعی فیصلے کیے۔ پہلا افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کا‘ دوسرا تمام ان پارٹیوں سے اشتراک کار کا جو قومی مفاہمت کے ذریعے افغانستان کو بحران سے نکال کر ایک ایسا غیرجانبدار پُرامن ملک بنانے میں مددگار بنیں جو کسی پڑوسی ملک کے لیے دردِ سری کا باعث نہ ہو۔
آج جب میں پلٹ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اطمینان ہوتا ہے کہ یہ ایک مناسب اور ذمہ دارانہ فیصلہ دوہرے مقاصد کاحامل تھا۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر ہم قطعی کامیاب ہو جاتے تو بہت سی مشکلات اور تباہی سے محفوظ رہا جاسکتا تھا۔ ہماری نئی پالیسی محض اعلامیہ نہیں تھی‘ میرے عہد میں‘ ہم نے پوری محنت اور دیانتداری سے اسے نافذ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ ہمیں کامیابی کے لیے ہر طرف سے مخلصانہ اور ذمہ دارانہ تعاون کی ضرورت تھی۔ افغان حکومت ہمارے ساتھ سمجھوتے کے لیے تیار تھی اور مفاہمت کے لیے کافی حد تک پیشرفت بھی ہو چکی تھی۔ بہت سارے اضلاع میں حالات بہتری کی جانب گامزن تھے مگر پاکستان اور امریکا نے آگے بڑھنے کی ساری راہیں مسدود کر دیں۔ وہ صرف ایک ہی نکتے پر اڑ گئے یعنی سوویت یونین افواج کی واپسی۔ ان کا گمان تھا کہ اس کے بعد وہ وہاں مکمل اختیار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ وہ افغان صدر نجیب اﷲ کی محدود عملداری والی حکومت کو بھی تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ جوں ہی بورس یلسن اقتدار میں آئے‘ وہ مکمل طور پر ان کے ہاتھوں میں کھیل گئے۔
۱۹۹۰ء میں دنیا نے افغانستان کو ایک نئے روپ میں دیکھا‘ اس دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت سامنے آئی جس نے افغانستان کو اسلامی قدامت پسندوں کے لیے جنت اور اسے دہشت گردی کا گہوارہ بنا دیا۔
نائن الیون مغربی قائدین کے خوابِ غفلت سے ہڑبڑا کر بیدار ہونے کا ہولناک لمحہ تھا۔ تب بھی اور جیسے بھی مغرب کے فیصلہ سازوں نے جو فیصلے کیے وہ گہری سوچ بچار سے عاری تھے اور بعد ازاں غلط ثابت ہوئے۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکا اس غلط فہمی میں رہا کہ اس کی عسکری کامیابی‘ جس کے لیے اسے کچھ زیادہ خرچ نہ کرنا پڑا‘ حتمی ہے اور اب لمبے عرصے کے لیے اسے مسائل سے نجات مل گئی ہے۔ ابتدائی کامیابی کی ایک ممکنہ وجہ عراق پر امریکا کا آسانی سے غلبہ حاصل کرنا بھی تھا جس کے بعد اس نے فوجی حکمت عملی کا تباہ کن اقدام کرنے کی حماقت بھی کی۔ اس دوران امریکا افغانستان میں ایک نام نہاد جمہوری عمل کی داغ بیل ڈال کر اقوامِ عالم کی سیکورٹی فورسز کی مدد لینے میں کامیاب رہا۔ خاص طور پر نیٹو افواج‘ کہ جسے گلوبل پولیس مین کا کردار سونپ دیا گیا۔
باقی سب تو تاریخ ہے‘ افغانستان میں فوج کی گرفت روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ جس کا خود امریکی سفیر حال ہی میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعتراف کر چکے ہیں۔ میں نے بھی گزشتہ چند ماہ میں بارہا پوچھے جانے والے سوالوں کے جواب میں ایک ہی بات دہرائی ہے اور وہی میں صدر اوباما سے کہنا چاہوں گا کہ جنہیں یہ مصیبت ان کے پیشرو سے ورثے میں ملی ہے‘ اور وہ یہ کہ اس مصیبت کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے سیاسی حل‘ افغانستان سے بیرونی افواج کا مکمل انخلا جو قومی مفاہمت کا متقاضی ہے۔
آخرکار اب آپ کو بھی وہی کچھ کرنا ہو گا جو ہم نے آج سے دو دہائی پہلے کیا تھا اور جو تجویز ہمارے لوگ لندن کانفرنس میں پیش کر چکے ہیں۔ تعمیرِ نو میں شامل تمام یا زیادہ تر گروہوں کے درمیان مفاہمت اور سیاسی حل پر زور‘ نہ کہ عسکری حل۔
افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے مندوب نے بھی حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں اسی چیز پر زور دیا ہے کہ پورے افغانستان سے بیرونی فوجوں کا مکمل انخلا۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ ایسا پہلے کہا اور کیا کیوں نہیں گیا؟
عسکری فتح سے قطع نظر‘ کامیابی کی امکانات نصف ہیں۔ طالبان میں موجود کچھ عناصر سے رابطوں کے باوجود ضرورت ہے کہ ایران کو بھی امن بحالی مشن میں شریک کیا جائے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ حالات معمول پر لانے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں بحالی امن میں روس بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مغربی لیڈروں کو روس کے اس مؤقف کی تحسین کرنا چاہیے جو اس نے حالیہ لندن کانفرنس میں اختیار کیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ہمیں بہت پہلے مغرب کی وجہ سے کس قدر نقصان اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ روس‘ افغانستان میں حالات معمول پر لانے کے لیے مکمل تعاون پر آمادہ ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مستقبل میں افغانستان کی جانب سے کسی قسم کے ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے ایسا کرنا اس کے اپنے مفاد میں ہے۔
روس یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان میں اتنے طویل قیام کے عرصے میں منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کیا کیا ہے؟ جس کی زیادہ تر مقدار پڑوسی ملکوں کے توسط سے روس میں کھپائی جارہی ہے۔ روس یہ مطالبہ کرنے میں بھی حق بجانب ہے کہ اسے بھی افغانستان میں معاشی بحالی کے کام میں شریک کیا جائے۔ کیونکہ ہماری مدد سے وہاں درجنوں ایسے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے تھے جنہیں بعد ازاں ۱۹۹۰ء میں تباہ کر دیا گیا تھا۔
روس افغانستان کا پڑوسی ملک ہے جس کے مفادات کا خیال کیا جانا از بس ضروری ہے۔ اگرچہ زمینی حقائق بھی اس کے گواہ ہیں مگر بعض اوقات یاددہانی کرانا ہی پڑتی ہے۔
میں اُمید کرتا ہوں کہ ایک دن گرداب میں پھنسے افغانستان پر امن کی صبح ضرور طلوع ہو گی۔ لاکھوں افراد کو امید کی کرن دکھائی دینے لگی ہے۔ کامیابی کے امکانات سو فیصد بھی ہو سکتے ہیں بشرطیکہ خواب کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی کر لیے جائیں مثلاً سچائی کا ادراک‘ ثابت قدمی اور سب سے بڑھ کر ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی دیانتدارانہ کوشش کر کے ان کی تلافی کے لیے مثبت اور ٹھوس اقدام کیے جائیں۔
مضمون نگار ۱۹۸۵ء سے دسمبر ۱۹۹۱ء تک سوویت یونین کے صدر رہے۔
(بشکریہ: ’’خلیج ٹائمز‘‘)
Leave a Reply