کسی بھی سپر پاور کا ایک بنیادی وصف یا خصوصیت اپنے علاقائی یا عالمی عزائم و مقاصد کا حصول یقینی بنانے کی خاطر اقوام یا کسی خاص قوم کی طرزِ فکر و عمل کو تبدیل کرنے کی اہلیت ہے۔ نائن الیون کے بعد جب افغانستان کے حکمران طالبان کے سربراہ ملا عمر نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے سے کرنے سے انکار کیا تو امریکا نے ’’آپریشن اینڈیورنگ فریڈم‘‘ کے زیر عنوان ایک بڑی عسکری مہم شروع کی، جسے عرفِ عام میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کہا جاتا ہے اور امریکا اپنی عسکری قوت کی بنیاد پر طالبان کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کرنے میں کامیاب رہا۔ امریکا نے دو عشروں کے دوران اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کی جمہوری دکھائی دینے والی حکومت کو برقرار رکھنے کی خاطر اور جنگجوؤں سے نبرد آزما ہونے کے لیے افغان آرمی جدید ترین جنگی ساز و سامان سے لیس کرنے اور تربیت کرنے پر غیر معمولی سرمایہ کاری کی۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں قومی فوج معمولی سی بھی مزاحمت کیے بغیر پگھل گئی اور صدر اشرف غنی کے فرار ہو جانے سے حکومت کی بساط بھی لپٹ گئی۔ طالبان کو دیہی علاقوں میں بھی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
متعدد ممالک میں امریکا کی (عسکری) مداخلت کامیابی سے زیادہ ناکامیوں کے لیے یاد رکھی جاتی ہے۔ اپریل ۱۹۷۵ء میں ویتنام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے مناظر آج بھی تاریخ کے ایک المیے کے طور پر یادوں کا حصہ ہیں۔ ویتنام میں عسکری مہم جوئی کے نام پر بڑے پیمانے کی قتل و غارت بھی امریکی فوج کے خلاف مزاحمت کرنے والے ویت کانگز کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہی۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے دوران کیوبا نے بھی فیڈل کاسترو اور دیگر قائدین کی راہ نمائی میں بھاری قیمت ادا کرنے کے باوجود امریکی برتری کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ المیہ یہ ہے کہ امریکا نے ایران اور وینیزوئیلا جیسے ممالک میں عسکری مداخلت کی یا اقتصادی پابندیوں کے ذریعے انہیں دبانا اور الگ تھلگ کرنا چاہا تو وہ اندرونی طور پر مزید مستحکم ہوگئے اور ان ممالک کی قیادت کی گرفت اپنے لوگوں پر مزید مضبوط ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی مداخلت اور جبر سے کسی بھی ملک کی قیادت یا نظامِ حکومت کو کچھ زیادہ برداشت نہیں کرنا پڑتا اور ساری تباہی اور مشکلات عوام کے لیے ہوتی ہیں۔ پاکستان پر بھی امریکا نے کئی بار پابندیاں عائد کیں مگر حتمی تجزیے میں حکمراں طبقے کے بجائے عوام ہی کو سارا بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ عسکری مہم جوئی یا مداخلت کے نتیجے میں سپر پاور کے خلاف جذبات پنپتے ہیں اور اُس کی طاقت کو چیلنج کرنے والے کو تقویت بہم پہنچتی ہے اور آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے، اب چاہے وہ چین ہو یا روس۔ افغانستان میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ابھرتا دکھائی دے رہا ہے اور چین بظاہر قائدانہ حیثیت کا حامل ہے۔ روس، ایران اور پاکستان کے بارے میں پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ افغانستان میں نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے بعد اُسے زیاددہ سے زیادہ قابلِ قبول بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔ اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو (بی آر آئی) کی کامیابی کے لیے چین کا افغانستان سے بہتر تعلقات کا حامل ہونا لازم ہے۔ علاوہ ازیں چین کو بظاہر افغانستان میں جمہوریت کے فروغ سے کچھ خاص غرض نہیں کیونکہ اِسے وہ افغانستان کا اندرونی معاملہ تصور کرتے ہیں۔
اس کا ایک عملی نمونہ حال ہی میں دکھائی دیا، جب مغربی ممالک نے میانمار (برما) میں منتخب حکومت کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے سخت پابندیاں عائد کیں تو چین مدد کے لیے آگے بڑھا۔
امریکا اور یورپ دنیا بھر میں جمہوریت کے فروغ کا راگ الاپتے رہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اس حوالے سے خصوصی دباؤ ڈالنے کے معاملے میں بہت محتاط رہتے ہیں۔ پاکستان نے اس کیفیت کا مشاہدہ اپنے قیام کے بعد سے اب تک کیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق افغانستان پر سوویت لشکر کشی تک مغرب کی نظر میں ناپسندیدہ اور غاصب تھے۔ کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ نائن الیون کے رونما ہونے تک جنرل پرویز مشرف کا بھی تھا۔ جب پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا تب جنرل پرویز مشرف کے لیے قبولیت کا سامان ہوا۔ وہ لمحات کبھی بھلائے نہیں جاسکتے جب امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن نے ہمارے ٹیلی وژن نیٹ ورک پر پاکستانی قوم کو خطاب کرتے ہوئے بیشتر وقت محض پند و نصائح سے کام لیا اور اس بات کا پورا خیال رکھا کہ جنرل پرویز مشرف فریم سے باہر رہیں۔ نائن الیون کے بعد جب علاقے کا منظر نامہ بدلا تو جنرل پرویز مشرف کا مقدر بھی بدلا۔ یہ ہیں تاریخ کے وہ چند موڑ اور گھماؤ جو ہماری یادوں کا حصہ ہیں اور جن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔ ان مثالوں سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ جب بھی کوئی قوم وسیع پیمانے پر بہتری کے لیے راستہ بدلنا چاہتی ہے تو کوئی اور ملک اس کے لیے یہ نہیں کرسکتا خواہ سپر پاور ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی بیرونی طاقت نے مداخلت کی ہے تب کسی بھی قوم میں مثبت تبدیلیوں کا عمل محض موخر نہیں ہوا بلکہ مسخ بھی ہوا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کیوبا اور ایران جیسے ممالک کے معاملات میں بیرونی مداخلت سے قیادت کا زیادہ زور اندرونی معاملات کی طرف مڑگیا، جس کے نتیجے میں سیاسی اور معاشی ترقی کی رفتار رک گئی، معاملات مسخ ہوکر رہ گئے۔ شام میں صدر بشارالاسد نے اس خوف سے کہ امریکا اور یورپ مل کر ان کے اقتدار کا تختہ نہ پلٹ دیں، عوام پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرلی، جس کے نتیجے میں اُن کے خلاف مظالم بڑھ گئے۔ پابندیوں کے ستائے ہوئے لوگ امریکا کے خلاف بھی شدید نفرت پر مبنی جذبات رکھتے ہیں۔ میں نے اپنے ہاں کسی کو بھی اقتصادی پابندیوں کے لیے حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے نہیں دیکھا۔ سبھی امریکا اور یورپ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
یقینا یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا نہیں کہ پابندیوں نے کبھی کبھی کام بھی کیا ہے اور متعلقہ ملک میں عوام کے مفاد میں حکمرانی بہتر بنانا ممکن ہوا ہے۔ دی فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے گوکہ پاکستان کو یک طرفہ طور پر گرے لسٹ میں رکھا ہے مگر خیر اس کے نتیجے میں حکومت کو منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کرنا پڑے ہیں اور ان اقدامات کے نتیجے میں دہشت گردی کے لیے کی جانے والی فائنانسنگ کے خلاف تحقیقات اور اس عمل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی راہ بھی ہموار ہوئی۔
تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جو جمہوریت پسند اقوام اپنے عوام کی بہبود کی ذمہ داری محسوس کرتی رہی ہیں، وہی آج معاشی اور معاشرتی ترقی کے حوالے سے دنیا کی قیادت کر رہی ہیں۔ فطری علوم و فنون یعنی ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی یہی اقوام باقی دنیا کی قیادت کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ان اقوام نے اپنے لوگوں کی تعلیم اور صحت کو ہمیشہ بلند ترین ترجیح کا درجہ دیا۔ چین میں گوکہ جمہوریت نہیں مگر اس نے بھی اپنے لوگوں کی تعلیم اور صحت کو غیر معمولی اہمیت دی ہے اور اسی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ آج وہ ہر شعبے میں مثالی نوعیت کی پیشرفت کے حامل ہیں۔ اپنے بوقلموں ماضی اور دوسروں کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ہم بھی ترقی و خوش حالی کے لیے انہماک و ارتکازِ نظر کو اپنی ترجیح بناسکتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کو ماحول کے اعتبار سے معیاری ملک بنانے پر زور دے رہے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وہ تعلیم یافتہ اور صحت مند پاکستان بنانے پر بھی زور دیں۔ ماحول دوست پاکستان ممکن نہیں ہوسکتا اگر لوگوں کو اتنی تعلیم نہ دی جائے کہ وہ یہ سوچیں کہ عالمگیر حدت سے پیدا شدہ مسائل حل نہ کیے جانے سے ان کی اپنی زندگی بھی خطرے میں پڑسکتی ہے اور یہ کہ حکومتیں بھی اس افلاس کو دور کرنے پر توجہ نہ دیں جو لوگوں کو کھانا پکانے کے لیے درخت کاٹنے پر مجبور کرتی ہے۔
ہماری نوجوان سیاسی قیادت جدوجہد کے بجائے محض موروثیت کی بنیاد پر آگے آئی ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ قابلِ اعتبار و اعتماد بنانا چاہتے ہیں تو کروڑوں پاکستانیوں کی ناخواندگی اور افلاس دور کرنے پر متوجہ ہونا ہی پڑے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Learning from history and own experience: US interventions in different countries are well remembered more for their failures than successes”. (“The Express Tribune”. August 25, 2021)
Leave a Reply