معاشی نمو ہی سب کچھ نہیں ہے۔ یقین نہیں آتا تو جاپانیوں سے پوچھ لیجیے۔
دنیا بھر میں معیشت کے حوالے سے خاصی قنوطیت پائی جاتی ہے۔ دنیا کی ہر بڑی اسٹاک مارکیٹ میں اس وقت مندی کا غلغلہ ہے، غلبہ ہے۔ اعداد و شمار بہت کچھ بتا رہے ہوتے ہیں مگر درحقیقت کچھ بھی نہیں ہو رہا ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی معیشت ۲۰۰۸ء کے دوران رونما ہونے والی کساد بازاری کے چنگل سے نکل آئی ہے مگر اب بھی اس کے حوالے سے پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ عالمی معیشت کو اب بھی بہت نازک اور غیر مستحکم قرار دیا جارہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کوئی ایک بھی ایسا ویسا واقعہ رونما ہوگیا تو عالمی معیشت گڑھے میں جا گرے گی۔
اکتوبر میں عالمی مالیاتی فنڈ نے خبردار کیا تھا کہ عالمی معیشت کا بھرپور استحکام ابھی بہت دور کی منزل ہے۔ پیداواری صلاحیت کو بہتر انداز سے بروئے کار لانا بھی اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ عالمی معیشت پر غیر یقینی کے سائے ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا بھی بہت دشوار ہے کہ عالمی معیشت بھرپور قوت کے ساتھ دوبارہ کام کرنے کے قابل کب تک ہوسکے گی۔ بہت سے ماہرین کی رائے پر مایوسی کا غلبہ ہے۔ امریکا کے سابق وزیر خزانہ لیری سمرز کہتے ہیں کہ: معاشی نمو کا معاملہ ہو یا نئے قرضوں کا۔ یا پھر سود کی شرح کا، ہر معاملے میں جمود غیر معمولی حد تک نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں معیشتیں کمزوری سے عبارت ہوتی جارہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں افراطِ زر کی شرح گرتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں کمزوری کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں اشیاء و خدمات کی قیمتیں گر رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ان سے متعلق سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ بینکوں سے جاری کیے جانے والے قرضوں کا گراف گر رہا ہے کیونکہ سود کی شرح گرنے سے منافع کی شرح بھی گری ہے۔ چینی معیشت کی کیفیت بھی تبدیل ہو رہی ہے کیونکہ کل تک جو معاشرہ پیداواری نوعیت کا تھا، وہ اب صارف ہوتا جارہا ہے۔ چین میں کروڑوں افراد نے دو عشروں کے دوران بڑے پیمانے پر دولت کمائی ہے۔ اب وہ خرچ کرنے کے موڈ میں ہیں۔ چین میں صَرف کا بڑھتا ہوا رجحان معیشت کی نوعیت کو تبدیل کر رہا ہے۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں آمدنی کا غیر معمولی فرق سامنے آرہا ہے۔ امریکا میں متوسط طبقے کی تنخواہیں کم و بیش تین عشروں سے جمود کا شکار ہیں، اور دوسری طرف انتہائی دولت مند طبقے کی تجوریاں بھرتی ہی جارہی ہیں۔ یہ صورت حال شدید بے چینی کو جنم دے رہی ہے۔
کیا یہ سب کچھ آپ کو بہت مایوس کن محسوس ہو رہا ہے؟ یقیناً۔ اور ہونا ہی چاہیے۔ بات یہ ہے کہ معاشی نمو کی پیمائش کے چند پرانے طریقے اب کسی کام کے نہیں رہے۔ مثلاً کسی معاشرے کے تمام معاشی پہلوؤں کو محض خام مجموعی قومی پیداوار کے ذریعے جانچا نہیں جاسکتا۔ عالمی معیشت کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا اور کہا جارہا ہے، اُس کا بڑا حصہ مایوسی پیدا کرنے والا ہے۔ مگر ایسا ہے نہیں۔ جن حالات سے ڈرایا جارہا ہے، ان میں بہت کچھ اچھا بھی ہے۔ مثلاً اگر دنیا بھر میں شرحِ سود گری ہے اور قرضے لینے کا رجحان کمزور پڑا ہے، تو ساتھ ہی یہ حقیقت بھی تو نمایاں ہوئی ہے کہ بہتر زندگی بسر کرنے کی لاگت میں کمی آئی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اشیاء و خدمات کی قیمتیں اگر گری ہیں تو اس کے نتیجے میں کم لاگت سے اچھی زندگی بسر کرنا ممکن بھی تو ہوا ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ معاشی نمو زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیے۔ ان کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اگر کسی ملک کے پاس دولت زیادہ ہوگی تو خوش حالی بھی زیادہ ہوگی۔ ایسا نہیں ہے۔ ماہرین کی آراء اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی معاشرے یا معیشت میں معاشی نمو کی شرح کم بھی ہو تو انفرادی سطح پر اس کا منفی اثر مرتب ہونا لازم نہیں۔ اگر کسی معیشت میں زندگی بسر کرنے کی لاگت میں کمی واقع ہوتی رہے یعنی اشیاء و خدمات کی قیمتوں میں کمی آتی رہے تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس میں عام آدمی کے لیے پنپنے کی زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا ہوتی رہے گی۔
سوال تناظر کا ہے۔ سوچنے کا ڈھنگ ہی اس بات کو طے کرتا ہے کہ کوئی معیشت کس طرف جارہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ قومی پیداوار یقینی بنانے کے لیے حکومتیں ایسے اقدامات کرتی ہیں، جن کی مدد سے معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنا ممکن ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے مگر اس کا نتیجہ بہت برا بھی نکل سکتا ہے۔ حکومتیں ٹیکسوں میں کمی کرکے اور سرمایہ کاری بڑھاکر معاشی سرگرمیوں کو تیز کرتی ہیں تو سود کی شرح بھی بلند ہوتی جاتی ہے۔ افراطِ زر کی کیفیت منافع کی شرح بڑھاتی ہے، تو لوگ بڑے پیمانے پر قرضے لے کر کام کرنے لگتے ہیں۔ یہ عمل بہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر اس امر پر کوئی بھی غور نہیں کرتا کہ اس کے نتیجے میں بہت سے ایسے اقدامات کے مثبت نتائج ختم ہوجاتے ہیں، جو معیشت کے استحکام کے لیے لازم ہیں۔ مثلاً ایک طرف تو کم اختیارات والی، جھکی ہوئی بیورو کریسی باقی نہیں رہ پاتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی ایک طے شدہ، کم از کم معیارِ زندگی اپنانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ اگر کوئی معاشرہ کم شرح سود کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور عوام کے لیے کم از کم معیارِ زندگی طے کرتا ہے تو آگے جاکر اس کے لیے بہتر نتائج زیادہ آسانی سے پیدا ہوسکیں گے۔
امریکا میں ۱۹۳۰ء کے معاشی بحران کے بعد سے مجموعی قومی پیداوار کو ہر معاملے میں معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ ہر معاشرہ زیادہ سے زیادہ معاشی نمو کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اگر کسی ملک کی مجموعی قومی پیداوار زیادہ ہوگی تو عمومی خوش حالی کا معیار بھی بلند ہوگا اور لوگ بہتر زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے۔ بہت سی حکومتیں پیداوار اور آمدن میں اضافے سے متعلق اقدامات کی بنیاد پر بنتی اور بگڑتی رہی ہیں۔
آمدن انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرے کو بہتر بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ جب کسی شخص کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے، تب وہ بہتر زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ یہی حال معاشروں کا ہے۔ اگر کسی معاشرے (یعنی معیشت) کی آمدن کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے تو عمومی معیارِ زندگی بھی بلند ہوتا جاتا ہے۔ جب آمدن میں اضافہ ہوتا ہے تو فرد بہتر کھاتا ہے، اچھے ملبوسات پہنتا ہے، بہتر رہائش اختیار کرتا ہے۔ اِسی طور صحت، تعلیم اور دیگر امور کا معیار بھی بلند ہوتا جاتا ہے۔ گزشتہ برس معاشیات میں نوبیل انعام پانے والے ایگنس ڈیٹن نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ آمدن کا بلند ہوتا ہوا گراف زندگی کے گراف کو بھی بلند کرتا جاتا ہے۔ بلند ہوتی ہوئی آمدن معاشرے میں تشدد کا گراف نیچے لاتی ہے، لوگ زیادہ اور اچھا جیتے ہیں۔ ساتھ ہی زندگی سے کچھ پانے کا احساس توانا تر ہوتا جاتا ہے۔
کئی ممالک میں یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ لوگ اپنی انفرادی آمدن سے ہٹ کر بھی بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ جن ممالک میں اشتراکیت نافذ کی گئی، ان میں لوگ ریاستی آمدن کی مدد سے بہت اچھی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکے۔ درست ہے کہ اشتراکیت کا نظریہ ریاستی سطح پر ناکام ثابت ہوا، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اشتراکی ریاستوں نے عوام کو بہتر معیارِ زندگی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور یوں یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کسی بھی ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا عمومی معیارِ زندگی کو بلند کرنے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ اشتراکی ریاستیں عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوسکی تھیں یا انہیں ایسا کرنے نہیں دیا گیا تھا مگر اس کے باوجود اشتراکی ریاستوں کے شہری بہتر زندگی بسر کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ انفرادی آمدن کا گراف بلند نہ ہونے پر بھی وہ اپنی انفرادی خوش حالی کا گراف بلند کرنے کی پوزیشن میں تھے۔
ایک عمومی معاشی تصور یہ ہے کہ افراطِ زر بڑھنے سے معاشی سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں اور زیادہ لوگوں کو روزگار ملتا ہے یعنی معاشرے میں مجموعی طور پر زیادہ لوگ پنپ رہے ہوتے ہیں۔ حقیقت بہت حد تک اس کے برعکس ہے۔ جب اشیاء و خدمات مہنگی ہوتی جاتی ہیں، تب معاشرے میں مجموعی طور پر لوگ زندگی کا معیار برقرار رکھنے کی زیادہ قیمت چکا رہے ہوتے ہیں۔ یہ تصور بھی عام ہے کہ جب آمدن میں اضافہ ہوتا ہے، تب ہی خوش حالی کا گراف بلند ہوتا ہے۔ یہ تصور بھی غلط ہے۔ اگر آمدن میں اضافہ نہ ہو رہا ہو، تب بھی گرتی ہوئی قیمتیں معیارِ زندگی بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
حقائق اگرچہ بہت کچھ کہتے ہیں مگر اس کے باوجود جدید معاشیات کے بنیادی اصولوں کی عمارت بڑھتی ہوئی آمدن پر کھڑی ہے۔ زیادہ سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے اور معاشی نمو کی شرح زیادہ سے زیادہ بلند ہو۔ معاشی امور کے ماہرین اس بات پر ذرا بھی زور نہیں دیتے کہ اشیاء و خدمات کی لاگت اور قیمت کم ہونے پر بھی خوش حالی میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔
سرکاری اور غیر سرکاری ماہرین معاشیات انفرادی آمدن زندگی کی بنیادی لاگت اور زَر کی قوتِ خرید کی بات ضرور کرتے ہیں مگر زیادہ اہمیت وہ جی ڈی پی، آمدن اور افراطِ زر کو دیتے ہیں۔ ایگنس اور امرتیہ سین جیسے انسان دوست ماہرین معاشیات بھی کسی معاشرے کی عمومی بلندی کے لیے جی ڈی پی، افراطِ زر اور آمدن کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔
بیسویں صدی کے دوران اشیاء و خدمات کی قیمتوں میں اضافہ کم و بیش اُسی رفتار سے ہوتا رہا، جس رفتار سے اجرت میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ اور کبھی کبھی اشیاء و خدمات کی قیمت میں اضافے کی رفتار زیادہ رہی۔ مگر اب بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران دنیا بھر میں اشیاء و خدمات کی قیمت میں اضافے کی رفتار خاصی کم رہی ہے۔ مہنگائی کی شرح ساڑھے تین فیصد سالانہ تک آگئی ہے۔ ۲۰۱۰ء سے پہلے کے دو عشروں کے دوران دنیا بھر میں معاشی نمو کی عمومی شرح ساڑھے پانچ فیصد تک رہی۔ ترقی یافتہ ممالک میں مہنگائی میں اضافے کی رفتار ۲ فیصد سالانہ کی سطح تک گرچکی ہے۔ یعنی ان معاشروں میں اگر اُجرتیں نہیں بڑھ رہیں اور آمدن میں اضافہ نہیں کیا جارہا، تب بھی معیارِ زندگی برقرار رکھنا بہت حد تک ممکن ہے کیونکہ مہنگائی میں بھی اضافہ نہیں ہو رہا۔
یہ غیر معمولی تبدیلی بہت حد تک ٹیکنالوجی کی دَین ہے۔ اجرتوں میں اضافے کو کنٹرول کرنا اس لیے ممکن ہو پایا ہے کہ دنیا بھر میں اور بالخصوصی صنعتی و ترقی یافتہ معاشروں میں مشینوں پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں روبوٹس پر انحصار ۴۵ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ ایسے میں اجرتوں کو ایک خاص سطح پر روکنا بہت حد تک ممکن ہوگیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اشیاء و خدمات کی قیمتیں بھی منجمد رکھنا ممکن ہوا ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں روبوٹس جو خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کی مدد سے اجرتوں میں کم و بیش دو ہزار ارب ڈالر کی بچت ہو پائی ہے۔ ٹیکنالوجی نے بہت سی اشیاء و خدمات کی لاگت میں بھی غیر معمولی کمی کی راہ ہموار کی ہے۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی پر قابو پانا بھی ممکن ہوگیا ہے۔ بہت سے شعبوں میں لاگت تیزی سے کم ہوئی ہے اور لوگ اپنی کم آمدن سے بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ تعلیم ہی کی مثال لیجیے۔ اعلیٰ تعلیم کی لاگت میں چند عشروں کے دوران غیر معمولی شرح سے اضافہ ہوا تھا مگر اب آن لائن تعلیم نے بہت کچھ آسان کردیا ہے۔ بڑے آن لائن کورسز کی لاگت انتہائی کم بلکہ کہیں کہیں تو صفر کے مساوی ہے۔
جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار کا مدار لاگت یا قیمت پر ہوتا ہے۔ اگر لاگت میں اضافہ ہو رہا ہو تو جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہوگا۔ اشیاء و خدمات کی بلند قیمتیں جی ڈی پی میں اضافہ ظاہر کرتی ہیں اور کم ہوتی ہوئی قیمتیں جی ڈی پی میں کمی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ سب کچھ اِسی ایک عامل کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے۔ جب بھی لاگت اور قیمت میں اضافے کا عمل رکتا ہے، سرکاری اور غیر سرکاری ہر دو سطح کے ماہرین معاشیات تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بہت سے سرکاری ماہرین معاشیات کی ملازمت کا مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی جی ڈی پی میں اضافے کی راہ ہموار کریں۔ سوال عمومی خوش حالی کا نہیں، جی ڈی پی کی شرح بلند کرنے کا ہے۔
جی ڈی پی کے ذریعے عمومی خوش حالی کا اندازہ لگانا کسی بھی طور درست نہیں۔ آج کا انسان بہت سے ایسے معاملات سے مسرت کشید کر رہا ہے جن کا جی ڈی پی سے کوئی تعلق نہیں۔ یو ٹیوب، گوگل اور دوسری بہت سی ویب گاہوں پر ایسا بہت کچھ ہے جسے دیکھ، سن اور پڑھ کر لوگ بے مثال مسرت کشید کرتے ہیں مگر ان کا جی ڈی پی سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ان اشیاء کی قیمت تقریباً صفر ہے۔ عام آدمی کی خوش حالی میں اضافہ کرنے والی ایسی بہت سی اشیاء و خدمات ہیں جن کے باعث جی ڈی پی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ خوش حالی کا تعلق لاگت اور قیمت میں کمی سے ہے۔ اور قیمت میں کمی جی ڈی پی میں کمی کی طرف لے جاتی ہے۔ سولر پینلوں کی فروخت میں اضافے سے لوگ کم قیمت میں زیادہ بجلی آسانی سے حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، مگر اس کے نتیجے میں تیل اور گیس کے شعبے میں گراوٹ آتی ہے۔
ماہرین کے لیے گرتی ہوئی قیمتیں زیادہ خطرناک ہیں۔ وہ جب لاگت اور قیمت میں کمی واقع ہوتی ہوئی دیکھتے ہیں تو زیادہ پریشان ہو اٹھتے ہیں۔ افراطِ زر اگر بڑھتا ہی رہے تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہی حال گرتی ہوئی قیمتوں کا ہے۔ اگر قیمتیں گرتی ہی رہیں تو محض خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ماہرین افراطِ زر سے جتنا ڈرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ وہ گرتی ہوئی قیمتوں سے ڈرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ افراطِ زر کی حالت میں لوگ خریداری کرتے رہتے ہیں۔ جب قیمتیں گرتی جاتی ہیں تب لوگ خریداری کم کردیتے ہیں کیونکہ وہ قیمتوں میں مزید گراوٹ کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں کا دائرہ محدود تر ہوتا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں معیشت شدید جمود کو شکار ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب معاشی سرگرمیاں تقریباً تھم جاتی ہیں، ہر چیز تعطل کی نذر ہوجاتی ہے۔ تفریط زر کے نتیجے میں قرضوں کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اخراجات بھی رک جاتے ہیں۔ تفریط زر والی معیشت میں سب سے بڑی الجھن یہ ہوتی ہے کہ اشیا و خدمات کی طلب گھٹتی جاتی ہے جو اس بات کی واضح علامت ہوتی ہے کہ صَرف کے حوالے سے عمومی اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔
مگر خیر، ان میں سے چند خدشات بے بنیاد ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تفریط زر سے انہیں کم راحت ملتی ہے جو قرضے کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہوں۔ آمدن اسی وقت بڑھتی ہے جب لوگ خوش حالی کی طرف مائل ہوں اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔ ٹھیک ہے کہ تفریط زر اور گِری ہوئی طلب سے معاشی نمو کی شرح متاثر ہوسکتی ہے۔ مگر خیر اس سے خوش حالی مجموعی طور پر خطرے میں نہیں پڑتی۔ یہ بات جاپان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔
جاپان تین عشروں سے ایک ایسی صورت حال کا شکار ہے جس سے ماہرین معاشیات ڈراتے آئے ہیں۔ قرضوں کا دباؤ غیر معمولی ہے کیونکہ سود کی شرح تشویشناک حد تک گرچکی ہے۔ افراطِ زر میں اضافے کی شرح تقریباً صفر ہے۔ معاشی نمو میں اضافے کی رفتار بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انٹرنیٹ پر تلاش کیجیے تو جاپان سنڈروم کے عنوان سے بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا۔ ماہرین جاپان کی مثال دے کر ڈراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی معیشت غیر معمولی خوش حالی پانے کے بعد بھی جمود سے بچنا چاہتی ہے تو جاپان سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
کیا واقعی جاپان کا کیس اتنا ہی خطرناک ہے؟ معاشی امور کے ماہرین بہت سے خدشے کسی جواز کے بغیر بیان کررہے ہیں۔ جاپان کے ساتھ مجموعی طور پر کچھ بھی برا نہیں ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاپان میں سود کی شرح صفر کو چھو رہی ہے۔ جاپان کی کرنسی انڈر ویلیوڈ ہے۔ قرضوں اور جی ڈی پی کے درمیان تناسب ۲۵۰ فیصد کو چھو رہا ہے۔ ایک عشرے کے دوران معاشی نمو کی سالانہ شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔ اس کے باوجود جاپان اب تک دنیا کی امیر ترین اور مستحکم ترین ریاستوں میں سے ہے۔
خوشحالی جانچنے کے جتنے بھی پیمانے دنیا بھر میں بروئے کار لائے جاتے ہیں ان کے مطابق دیکھیے تو جاپان بلندی پر دکھائی دیتا ہے۔ اوسط عمر غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ جاپان میں لوگ صحت اور تعلیم سے متعلق بہترین سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے عمومی صحت اور خوش حالی جانچنے کا جو معیار مقرر کر رکھا ہے، اس کے مطابق جاپانی بہت اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان اداروں کی طرف سے جاپان کو ہر بار زیادہ مارکس ملتے ہیں۔ جاپان میں ایک عشرے کے دوران آمدن کا فرق بڑھا ہے یعنی ایک طرف زیادہ تنخواہ والے لوگ ہیں اور دوسری طرف کم تنخواہ والے۔ مگر اس کے باوجود عمومی معیارِ زندگی زیادہ متاثر نہیں ہوا ہے۔ عام جاپانی اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جاپان میں بھی سرکاری قرضے غیر معمولی حد تک ہیں مگر ان کے ہاتھوں معیشت کی زبوں حالی کی راہ ہموار نہیں ہوئی۔
شرح نمو بہت کم ہے مگر پھر بھی جاپان میں اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ عام جاپانی اب بھی قابل رشک حد تک معیاری زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی معیشت میں اگر شرح نمو کم یا بہت کم ہو، تب بھی عوام کے لیے لازمی طور پر شدید منفی اثرات پیدا نہیں ہوتے۔ جاپان میں اس صورت حال نے ایک نئی سوچ کو جنم دیا ہے۔ اب لوگ مجموعی قومی آمدن کے بجائے انفرادی خوش حالی اور سکون کے حوالے سے سوچنے لگے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ اگر معیشت تیزی سے فروغ پارہی ہو، تب بھی اہمیت اس بات کی ہے کہ عام آدمی کے حصے میں کیا آتا ہے۔ کئی ممالک ہیں کہ جن کی آمدن بڑھتی جارہی ہے مگر اس کے باوجود عوام کا معیارِ زندگی متاثر نہیں ہو رہا۔ پالیسی ساز رات دن برآمدات بڑھانے اور ترسیلاتِ زر کا گراف بلند کرنے پر توجہ دیتے ہیں مگر اس بات کو ذرا بھی اہمیت نہیں دیتے کہ عام آدمی کو بنیادی سہولتیں میسر ہونی چاہئیں۔ جاپان میں ایسی کتابیں بھی شائع ہو رہی ہیں جن میں لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ گھر میں بہت سی فضول اشیاء کا ڈھیر لگانے کے بجائے صرف کام کی اشیاء و خدمات حاصل کریں۔ اگر گھر میں بہت سی اشیاء ہوں مگر ان سے مستفید ہونا ممکن نہ رہا ہو تو زندگی کا عمومی معیار بلند نہیں ہوتا۔ گھر میں صرف وہی کچھ ہونا چاہیے جس سے مستفید ہونا ممکن ہو اور معیارِ زندگی بلند کرنے کی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہو۔
امریکی ماڈل بھی ہمارے سامنے ہے۔ امریکا بھر میں انفرادی سطح پر آمدن کا فرق بہت نمایاں ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کمانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ زندگی کس طور بسر کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ سکون میسر ہو، اس نکتے پر کوئی بھی توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ زیادہ سے زیادہ کمانے کو زندگی کا مقصد سمجھ لیا گیا ہے۔ انتخابات میں بھی یہی بات بنیادی کردار ادا کرنے لگی ہے۔ عام آدمی چاہتا ہے کہ اس کے پاس زیادہ سے زیادہ اشیاء ہوں اور وہ زیادہ سے زیادہ خدمات حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہو۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ بہت سی اشیاء و خدمات حاصل کرنے سے زندگی کا عمومی معیار بلند ہوتا ہے یا نہیں۔ جیمز گلبریتھ، پال کروگمین، برانکو میلانووچ، ٹامس پکیٹی اور جوزف اسٹگلٹز جیسے ماہرینِ معاشیات اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ آمدن کا فرق جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ متوسط طبقے کی تنخواہوں میں اضافہ کم و بیش تین عشرے قبل رک چکا تھا مگر مالیاتی بحران خطرناک حد کو پہنچا، تب ہی اس حوالے سے تشویش میں مبتلا ہونے کی ابتدا ہوئی۔ جب تک معاشی اور بالخصوص مالیاتی بحران رونما نہیں ہوا تھا، تب تک لوگ بہتر زندگی بسر کر رہے تھے۔ اشیاء و خدمات کی قیمتیں کم تھیں۔ سود کی شرح بھی قابو میں تھی۔ ایسے میں تنخواہوں میں اضافے کا نہ ہونا بھی کسی کو برا نہ لگتا تھا۔ لوگ اچھی طرح یہ بات سمجھتے تھے کہ اگر تنخواہوں میں اضافہ نہ ہو تب بھی اشیاء و خدمات کی کم قیمت بلند معیارِ زندگی کی ضمانت بنتی ہے۔ اگر تنخواہیں کم ہو اور لاگت بھی کم ہو تو عمومی خوش حالی برقرار رہتی ہے۔ لوگ کم آمدن کے ساتھ بھی بہت اچھی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ بازار میں ان کے لیے سستی اشیاء و خدمات بھی موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بے روزگاری اور مہنگائی سے لاکھوں گھرانے متاثر ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں مگر ان کا ذکر ذرائع ابلاغ پر کم ہی ہوتا ہے۔ ملک کی مجموعی صورت حال کو ذہن نشین رکھ کر بات کی جاتی ہے اور اس حوالے سے صورت حال بہت زیادہ مایوس کن نہیں رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ کم ہوتی ہوئی لاگتوں نے عوام کے لیے کم قیمت پر بہتر اشیاء و خدمات کا حصول ممکن بنایا ہے۔ وہ آج بھی کم تنخواہ کے ساتھ بہتر زندگی بسر کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
عام امریکی گھرانہ بنیادی اشیاء و خدمات پر جو کچھ خرچ کرتا آیا ہے اب اس سے بہت کم خرچ کر رہا ہے۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں عام امریکی گھرانے کی ماہانہ آمدن کا تیس فیصد صرف کھانے پر صرف ہو جاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ خوراک، توانائی، رہائش اور دیگر امور پر اب آمدن کا نصف تک خرچ ہوتا ہے۔ باقی رقم سے زندگی کی دوسری بنیادی اشیاء و خدمات کا حصول ممکن ہوچکا ہے۔ امریکا کے چھوٹے بڑے تمام شہروں میں اب کسی بھی گھرانے کو ہر ماہ خوراک پر اپنی آمدن کا صرف دس فیصد حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس سے معیارِ زندگی کی بلندی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
حاصل بحث یہ ہے کہ کسی بھی معیشت میں شرح نمو اگر بہت کم رہ جائے تب بھی خوراک، توانائی، رہائش اور دیگر بنیادی سہولتوں کے حصول پر اگر زیادہ رقم خرچ نہ کرنا پڑ رہی ہو تو بہتر زندگی بسر کرنا دشوار نہیں ہوتا۔ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں میں لوگوں کو تمام بنیادی سہولتیں بخوبی فراہم کی جارہی ہیں۔ خوراک، پانی، بجلی، ایندھن، رہائش، تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کے حوالے سے امریکی شہری اس وقت قابل رشک حالت میں ہیں۔ ان کا عمومی معیارِ زندگی بلند ہے۔ معیشت کی مجموعی کیفیت اگر قابل رشک نہ ہو تب بھی اگر عوام کو بنیادی سہولتیں عمدگی سے فراہم کی جارہی ہوں تو حکومتیں ناکامی سے بچ جاتی ہیں، کیونکہ عوام کا معیارِ زندگی بلند رہے تو بہت سے دوسرے معاملات خود بخود درست ہوتے جاتے ہیں۔
امریکا اور دوسرے بہت سے ترقی یافتہ معاشروں میں تعلیم اور صحت جیسی انتہائی بنیادی ضرورتیں حکومت کی مدد سے فراہم کی جارہی ہیں، جس کے نتیجے میں عوام کی الجھن کم ہوتی جارہی ہے۔ وہ ان دونوں بنیادی سہولتوں کے حصول کی صورت میں اپنے دوسرے بہت سے مسائل سے خود ہی بآسانی نمٹ لیتے ہیں۔ اگر حکومت توانائی، ایندھن، تعلیم اور صحت جیسے معاملات میں اپنا کردار پوری دیانت سے ادا کر رہی ہو، تو بہت سے پیچیدہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں پالیسی ساز انتشار کو پیدا ہونے سے روکنے کے لیے اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ عوام کو بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر رہیں۔ پانی، بجلی، گیس، رہائش، تعلیم اور صحت سے متعلق سہولتوں کا حصول ان کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
دنیا بھر میں یہ تصور پروان چڑھ رہا ہے کہ حقیقی خوش حالی یہ نہیں ہے کہ ہر گھر بہت سی چیزوں سے بھرا ہو بلکہ خوش حالی اُس وقت رونما ہوتی ہے، جب لوگ دستیاب اشیاء و خدمات سے بخوبی استفادہ کر پارہے ہوں۔ عوام کو بھی بتایا جارہا ہے کہ جو کچھ میسر ہے، اس سے بخوبی مستفید ہوں اور زیادہ سے زیادہ اشیاء و خدمات کا حصول یقینی بنانے سے زیادہ توجہ اس بات پر دیں کہ دستیاب اشیا و خدمات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے۔ چین، جاپان اور دوسرے بہت سے معاشروں میں آج بھی لوگ دستیاب اشیاء و خدمات سے بھرپور استفادہ کرکے اپنا معیارِ زندگی بلند کر رہے ہیں۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں عام طور پر صَرف کا رجحان تیزی سے پنپتا ہے، مگر اب ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی اس رجحان پر قابو پارہی ہیں تاکہ لوگ اندھا دھند خرچ کرکے پریشان رہنے کے بجائے عقل مندی سے خرچ کرکے بہتر زندگی بسر کرنے کی طرف مائل ہوں۔ اس معاملے میں بھارت، برازیل اور چین کو عمدہ مثال کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ صرف کے رجحان کو کنٹرول کرنے سے کئی ممالک کے لیے پریشانیاں بھی پیدا ہوئی ہیں مگر مجموعی طور پر معاملات قابو میں ہیں۔ امریکا اور جاپان میں متوسط طبقہ جس طور مستحکم زندگی بسر کر رہا ہے، وہ کئی ممالک کے لیے ایک اچھی مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
دنیا بھر میں سود کی شرح کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں انفرادی سطح پر اور حکومتی و کاروباری طبقے کے لیے بڑے قرضوں کا کم بوجھ کے ساتھ حصول ممکن ہوتا جارہا ہے۔ کم شرح سود کے نتیجے میں لاگت بھی کم آتی ہے اور قیمت بھی کم رہتی ہے، جس کے نتیجے میں لوگ اپنی کم آمدن میں بھی زیادہ اشیاء و خدمات حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
اب دنیا بھر میں یہ تصور تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ شرح نمو کم بھی ہو تو عمومی معیارِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اشیاء و خدمات کی لاگت کم کی جاسکتی ہے۔ اور کم لاگت سے تیار ہونے والی اشیاء و خدمات کی قیمت بھی کم ہوتی ہے۔ یوں عوام کم آمدن میں بھی زیادہ سے زیادہ اشیاء و خدمات حاصل کرکے اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Learning to love stagnation: Growth isn’t everything—Just Ask Japan”.
(“Foreign Affairs”. March-April 2016)
Leave a Reply