صدر اوباما نے لبنان میں ایرانی صدر احمدی نژاد کو شکست دے دی۔ جی! ایسا ہی کہتے ہیں مغربی تجزیہ نگار، جب وہ لبنان میں گزشتہ دنوں منعقدہ انتخابات کا تجزیہ کرتے ہیں اور خوش بھی بہت ہوتے ہیں۔ وہ حزب اللہ اور اس کے مسیحی اتحادی مائیکل عون کو ایران کی اور سعد حریری کو جنہیں مغرب کی پشت پناہی حاصل ہے امریکا کی علامت قرار دیتے ہیں۔ ان انتخابات میں لبنان کے سابق مقتول وزیراعظم رفیق الحریری کے صاحبزادے سعد حریری نے پارلیمان کی ۱۲۸ میں سے ۷۱ نشستیں حاصل کیں جب کہ حزب اللہ کے ہاتھ ۵۷ نشستیں رہیں۔ اس لحاظ سے سعد حریری اتحاد کو حکومت تشکیل دینے کا حق حاصل ہو گیا ہے۔ حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں نے کھلے دل سے اپنی شکست کو قبول کر لیا ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ اتوار کے انتخابات کے دوران یا بعد، خدشہ تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان تصادم ہو گا۔ حفظِ ماتقدم کے لیے فوج اور پولیس کی بھاری نفری مخدوش مقامات پر تعینات کی گئی تاہم لبنان بھر کے کسی بھی مقام سے کسی ناخوش گواریت کی کوئی اطلاع نہیں ملی، جس کا مطلب ہے کہ حزب اللہ نے اپنی مقبولیت کے گراف میں گرائو کو کشادہ دلی سے تسلیم کر لیا ہے تاہم ان انتخابات کے نتائج نہ صرف حزب اللہ کے حسن نصراللہ اور عیسائی رہنما مائیکل عون کے لیے حیرت افزا ہیں بلکہ خود مغربی حلقوں کے لیے بھی خوشگوار حیرت کا باعث رہے ہیں۔ ایک اور فریق جس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ہو گا وہ ہے اسرائیل، کیونکہ حزب اللہ لبنان میں اسرائیل کا سب سے بڑا مزاحمت کار ہے۔
حزب اللہ کی شکست پر حیرت کا ایک باعث اس کا وہ کردار ہے جو اس نے ۲۰۰۶ء میں لبنان اسرائیل جنگ کے دوران ادا کیا۔ اسرائیل کی جارحیت کا انتہائی بے جگری سے حزب اللہ نے مقابلہ کیا۔ اس نے اسرائیل کو اس کی جدید عسکری تاریخ میں جس طرح لوہے کے چنے چبوائے، اس پر اسرائیل کو بری طرح خفیف ہونا پڑا۔ اسرائیل کی حکومت کو اپنے عوام کے سخت سوالات کے جوابات دینے کے لیے کوئی مناسب استدلال نہیں مل رہا تھا اور اسے سارا غصہ اپنے وزراء اور جنگ کی کمزور حکمت عملی تیار کرنے والے اداروں پر اتارنا پڑا۔ یہ سارا منظر نامہ لبنانی عوام کے لیے تفاخر کا باعث بنا رہا اور وہ اس کا سہرا حزب اللہ کے سر باندھتی رہی۔ اس کارنامے کے باعث حزب اللہ کی مقبولیت کا گراف جو پہلے ہی بہتر تھا ایک دَم بلندی کی آخری حدوں کو چھونے لگا تھا، تو پھر یک بہ یک ایسا کیا ہو گیا کہ وہ انتخابات میں ایک ایسے گروپ کے سامنے ہار گئی جو امریکا کی سربراہی میں معرض وجود میں لایا گیا۔ لبنانی عوام کیا اچانک بھول گئے کہ اسرائیل کون ہے اور امریکا اس کا کیا لگتا ہے۔ عوام کا حافظہ یقینا بہتر نہیں ہوا کرتا لیکن اتنی ناممکن حد تک بھی نہیں۔ لبنان ایک کثیر المذاہب ملک ہے اس کے مسلمان، اس کے عیسائی، اس کے دروز اپنے ملک سے عشق کرنے والے لوگ ہیں۔ وہ قدیم سے ساتھ رہتے چلے آتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب لبنان، عربستان کا پرامن ترین خطہ تھا۔ ایشیا اور افریقہ سے لوگ طالع آزمائی کے لیے بیروت کو لندن، پیرس، واشنگٹن اور نیویارک پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ پھر اسرائیل نے فلسطینیوں کے تعاقب میں بیروت کو کھنڈرات کا ڈھیر بنا ڈالا اور اس سارے دورانیے میں لبنان میں اس کا سب سے بڑا مزاحم حزب اللہ رہا۔ حزب اللہ کے جانبازوں نے اسرائیل کی گولیاں اور اس کے بم اپنے سینوں پر کھائے۔
حزب اللہ پر الزام عائد ہوتا ہے کہ اسے اس کی تگ و ناز میں ایران اور شام کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن یہ کوئی ایسا الزام نہیں جو صرف اور صرف حزب اللہ پر عائد ہوتا ہو یہ الزام تو لبنان پر جارحیت کرنے والے اسرائیل پر بھی عائد ہوتا ہے بلکہ یہ محض الزام نہیں یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل خطے میں امریکی بغل بچہ ہے اور باقاعدہ ایک ملک ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حزب اللہ، مزاحمت کاروں کا محض ایک گروہ ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق سعد حریری کی سربراہی میں ۱۴ مارچ کو ایک سیاسی انتخابی اتحاد تیار کرایا گیا۔ اس اتحاد کی تیاری میں بین الاقوامی سطح پر یورپ اور امریکا نے سرگرمی دکھائی اور مقامی طور پر اسے سعودی عرب کی آشیرباد حاصل ہے۔ یہ اتحاد سنی العقیدہ اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے۔ انتخابات کے نتائج میں حزب اللہ کی شکست پر ایک مقبول مقامی اخبار الشرق الاوسط نے جو سرخی لگائی وہ کچھ یوں تھی۔
“They Were Broken….Lebanon Wins” اس سرخی کے باطن میں ’’دل کے بلیّوں اچھلنے‘‘ کی سی جو کیفیت ہے وہ اس امر کی غماز ہے کہ لبنان آنے والے دنوں میں بیرونی جارحیت سے آزاد ہو جائے گا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ لیلائے امن سے بھی ہمکنار ہو پائے گا۔ وہ مرض جو جسم پر اپنا ظہور کرتا ہے اس کی تشخیص بہت مشکل نہیں ہوتی مگر جسم کے نہاں خانوں میں پلنے والے ناسور کو دریافت کرنا کاردارد ہوتا ہے۔ سو اب خدشہ یہ ہے کہ لبنان کی رگوں میں کوئی ایسا ہی زہر اتارا جائے گا۔ حزب اللہ کی شکست میں لبنان کے رائے عامہ استوار کرنے والے اداروں نے اس مقصد کے لیے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اور اس کے لیے تمام تر فنڈنگ باہر سے ہوتی رہی۔ حزب اللہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کا غالب مزاج عسکریت پر اپنی بنیاد رکھتی ہے اس حوالے سے اس کا سیاسی پہلو اپنے رقیبوں کے مقابلے میں نسبتاً کمزور ہے۔ اس کی اس کمزوری کا فائدہ لبنان کے میڈیا اور اس نوع کے دیگر اداروں نے خوب اٹھایا۔ مقامی میڈیا کے علاوہ امریکا اور یورپ کے ذرائع ابلاغ بھی اس سلسلے میں نمایاں اور نہاں کردار شدو مد سے ادا کرتے رہے۔ نفسیاتی حربے بھی استعمال کیے گئے۔ کیونکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ حزب اللہ کو نہ صرف لبنانیوں کی ہمدردیاں حاصل تھیں بلکہ سارے عالم اسلام میں ۲۰۰۶ء کی اسرائیل، لبنان جنگ کے دوران اس تنظیم کا کردار عوامی سطح پر متاثر کن اور پسندیدہ رہا ہے۔ اس ابلاغی جنگ میں ایسے بظاہر نظر نہ آنے والے حربے بھی استعمال کیے گئے جن سے مستقبل میں فرقہ واریت پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اب اس عفریت کو کب کھلا چھوڑنا ہے اس کے لیے عالمی ایکٹرز کسی مناسب وقت کا انتظار کریں گے۔ بہرحال یہ شیعہ تنظیم مار کھا گئی۔ جب حزب اللہ کو شیعہ تنظیم کہا جاتا ہے تو اس سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ اس میں سنی العقیدہ عنصر شامل نہیں۔ حزب اللہ ایک مزاحمت کار تنظیم ہے اور اس میں محب وطن سنی مزاحمت کار بھی شامل ہیں البتہ اس میں شیعہ عنصر غالب ہے۔
تنظیم پر ایران اور شام سے پشت پناہی حاصل کرنے کا الزام بھی ہے۔ شام کا سلوک لبنان کے ساتھ ماضی میں کچھ ایسا رہا ہے جس سے اس کا تاثر مقامی اور عالمی سطح پر منفی ہو گیا ہے۔ لبنانی، شام کو ملکی سیاست میں ایک خارجی مداخلت کار کے طور پر لیتے ہیں اس تاثر کو مزید مضبوط کرنے میں بھی بیرونی اور داخلی ذرائع نے بھرپور سرگرمی دکھائی جس سے حزب اللہ پر سے لبنانیوں کا اعتماد کچھ متزلزل ہو گیا تاہم اس تمام تر مغربی تنگ و تاز کے باوجود حزب اللہ کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بری طرح ہاری ہے۔ ۷۱ کے مقابل ۵۷ نشستیں حاصل کرنا ان نامساعد حالات میں اپنی جگہ ایک کارنامہ ہی ہے۔
حزب اللہ کی ہار میں ان دو عوامل کے علاوہ ایک اور بڑا مضبوط عامل امریکی صدر بارک حسین اوباما کی شخصیت بھی ہے۔ انہوں نے ان انتخابات کے قریب تر، عرب ملکوں کا دورہ کیا اور اپنی شہرہ آفاق تقریر میں کچھ ایسی باتیں کیں جو مسلمانانِ عالم کے دلوں میں اتر گئیں۔ وہ زہر جو سابق امریکی صدر بش نے پھیلایا تھا موجودہ صدر نے ایک طرح سے ان کا تریاق پیش کیا ہے۔ لبنان کی مسلم اکثریت نے بھی اس تقریر کا مثبت اثر لیا ہے۔ اس سے ان کے دلوں میں امریکا کے خلاف پرانی کدورت گو سراسر تو نہ دھلی ہو گی البتہ اس میں معتدبہ کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ اس صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر اوباما کا حالیہ دورہ غالباً سوچا سمجھا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ صدر اوباما خود بھی اس حقیقت سے آگاہ نہ ہوں لیکن اسرائیلی لابیوں کی کامیاب کارکردگی کے اسیر امریکی کار پردازوں نے ان کے دورے کی تاریخیں دانستہ لبنانی انتخابات کی تاریخ کے قریب تر رکھیں۔
حالیہ انتخابات میں ووٹروں نے بڑے جوش و جذبے سے حصہ لیا۔ ایک اور بات جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لبنان کے انتخابات میں بیرون ملک سے حصہ نہیں لیا جا سکتا۔ ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹر کا خود پولنگ اسٹیشن پر آنا ضروری ہے حالیہ انتخابات میں بیرون ملک مقیم لبنانیوں نے ہزاروں کی تعداد میں وطن واپس آکر اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے ایک اندازے کے مطابق ایسے لبنانیوں نے ہوائی جہازوں کے ذریعہ اپنی آمد پرمجموعی طور پر ۳۰ ملین ڈالر صرف کیے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی رقم ہے۔ بیرون ملک ملازمت کرنے والا کوئی لبنانی محض ووٹ ڈالنے کی غرض سے لبنان آنے کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدنے کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اخراجات انہیں کہیں اور سے عطا کیے گئے۔
لبنان پارلیمانی جمہوری ملک ہے جس کا فریم ورک اعترافیت (Confessionalism) پر مبنی ہے۔ کنفیشنل ازم میں سیاسی اور ادارتی اختیارات کی تقسیم ملک کی بڑی مذہبی آبادیوں کے تناسب سے ہوتی ہے تاکہ مذہبی رواداری قائم رہے۔ لبنان میں اس حوالے سے ایک غیر تحریری معاہدہ موجود ہے جسے عربی زبان میں میثاق الوطنی اور انگریزی میں National Pact کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ ملک کی سنی، شیعہ موارنہ (Maronite) عیسائیوں کے درمیان ۱۹۴۳ء میں لبنان کی آزادی کے موقع پر طے پایا تھا۔ موارنہ عیسائیوں کا تعلق لبنانی یا شامی کیتھولک کلیسا سے ہے۔ لبنان میں ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق کل آبادی کا ۳۰ فیصد یا یوں کہیے ۱۳ سے ۱۵ لاکھ تک ہے۔ میثاق الوطنی کے تحت عیسائی ملک میں کسی بھی خارجی مداخلت کار کو قبول نہیں کریں گے اور ملک کا عربستان سے منسلک رہنا قبول کریں گے۔ اس کے علاوہ اس معاہدے کے تحت ملک کا صدر ہمیشہ موارنی عیسائی اور وزیراعظم سنی مسلمان رہے گا۔ جبکہ قومی اسمبلی کا صدر (اسپیکر) ہمیشہ کوئی شیعہ رہنما اور ڈپٹی اسپیکر کا تعلق قدامت پسند یونانی کلیسا سے منسلک عیسائی مسلک سے ہو گا۔ لبنان کی تیسری بڑی آبادی کو جو عیسائیوں سے تقریباً نصف ہے دروزی کہا جاتا ہے تاہم اس مسلک کے لوگ خود کو اہل التوحید کہتے ہیں۔ یہ فرقہ مسلمانوں سے ہی نکلا ہے تاہم ’’نو افلاطونی فلسفے‘‘ کا قائل ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ بے شک سعد جیت گئے ہیں تاہم یہ ایسی واضح اکثریت نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ با آسانی اپنی حکومت کھڑی کر سکیں۔ دوسری طرف رابرٹ فسک جیسے مغربی اہلِ دانش لبنان کی سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ یہاں کا غیر تحریری آئین، جسے میثاق الوطنی کہا جاتا ہے اب ختم ہونا چاہیے اور صدر، وزیراعظم یا اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر وغیرہ کا چنائو اہلیت (Merit) کی بنیاد پر ہونا چاہیے نہ کہ مذہبی بنیاد پر۔ رابرٹ فسک کا کہنا ہے لبنان کو ایک اعتدال پسند ملک بننے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے سیاسی نظام کو مذہب کی بجائے میرٹ کی بنیاد پر استوار کیا جائے تاہم اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہو جائے تو پھر لبنان، لبنان نہیں رہے گا کیونکہ یہ ایک کثیر المذہبی ملک ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس چھوٹے سے ملک میں مسلمانوں کی ۶۰ فیصد آبادی کے علاوہ ۱۷ دیگر مذہب و مسالک کے لوگ آباد ہیں اور رابرٹ فسک کے مطابق یہ ہی لبنان کی پہچان ہے۔ مغربی اہل دانش جب یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کو ایک اعتدال پسند ملک ہونا چاہیے اور اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کا میثاق الوطنی ختم کر دیا جائے اور ساتھ ہی یاد بھی دلاتے ہیں کہ اس طرح لبنان لبنان نہیں رہے گا۔ جب لبنان، لبنان نہیں رہے گا تو کیا رہے گا؟ یہ سوال کیا ایک خطرناک جواب نہیں رکھتا؟
(بشکریہ: ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کراچی۔ ۲۱ جون ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply