
قوموں پر جنگ کے اثرات ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہوتے ہیں‘ زمانۂ جاہلیت کی وحشی قوم بھی جنگ کی اس حیثیت سے واقف تھی‘ اس زمانہ کے ادب و شاعری میں اس کا تذکرہ ملتا ہے‘ ترقی یافتہ زمانہ میں پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی اس کی بہترین مثالیں ہیں‘ پہلی عالمی جنگ کے بعد سے عالم اسلام کے نقشہ کا بدلنا اور دوسری عالمی جنگ میں بہت سی قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوجانا‘ یہ سب آشکار ہے‘اس لیے اسرائیل۔لبنانی جنگ بندی کے بعد اصل مرحلہ یہ ہے کہ اس جنگ کے مشرق وسطی پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔
اس جنگ سے برآمد شدہ نتائج اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات کا دائرہ کافی وسیع ہے‘ یہ صحیح ہے کہ جنگ کا اصل مرکز لبنان اور اسرائیل کی سرزمین تھا‘ لیکن اس کے اچھے یا برے نتائج سے بشمول اسرائیل‘ امریکا‘ ایران‘ فلسطین اور پورا عالم عرب کا مستقبل وابستہ ہے۔
اسرائیل و امریکا پر اس جنگ کے اثرات:
۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے اسرائیل کا جھنڈابلند ‘ اگر کبھی عالم عرب اور اسرائیل آمنے سامنے آئے تو نہ صرف یہ کہ اسرائیل فاتح رہا بلکہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ لے کر لوٹا‘ اس میں اسرائیل کی برتری سے زیادہ عربوں کی نااہلی اور اس سے زیادہ ان کی بے شعوری کو دخل تھا‘ فلسطین میں اسرائیل ظلم و ستم کے ذریعہ یہ ثابت کرتا رہا ہے کہ وہ ایسی طاقت ہے جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں‘ یہ سچ ہے کہ حماس اور انتفاضہ کی جوابی کارروائیوں نے اسرائیل کی بے لگامی پر قدغن لگانے کا کام ضرور کیا لیکن اس کے بعد اسرائیل نے ہمیشہ آگے بڑھ کر ایسی کارروائی کی جس سے فلسطینیوں کے دلوں میں اس کی ہیبت بیٹھ جائے اور اس کو ناقابل شکست تسلیم کرلیا جائے‘ شیخ یٰسین اور عبدالعزیز رنتیسی کی شہادت بھی اس کا ایک جزو ہے‘اس کو اسرائیل کی جنونی کیفیت کا بھی نام دیا جاسکتا ہے۔
اس خطہ میں اسرائیل واحد ایٹمی طاقت بن کر ابھرا‘ رپورٹ کے مطابق اسرائیل ابھی تک ۲۰۰ سے زائد ایٹم بم تیار کرچکا ہے‘ ایٹم کی یہ وہ طاقت تھی جو اسرائیل کو ناقابل شکست بنانے کے لیے کافی تھی‘ اب اسرائیل کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ خطہ میں کوئی اور ایٹم کی طاقت حاصل نہ کرسکے‘ ۱۹۷۸ء تک جب ایران میں شاہ رضا پہلوی کی حکومت تھی اور جس کی امریکا و اسرائیل نوازی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی‘ اس وقت تک اسرائیل کو ایران سے کوئی خطرہ نہیں تھا‘ لیکن ۱۹۷۸ء کے انقلاب کے بعد ایران اسرائیلی تعلقات میں بھی انقلاب آیا‘ ایران نے اسرائیل کے وجود کو غیر قانونی قرار دیا‘ مسئلہ فلسطین کو اپنے خارجہ مسائل میں اولیت بخشی‘ یہ وہ اسباب تھے جس نے اسرائیل کو ایران کے حوالے سے اپنے رویہ بدلنے پر مجبور کردیا۔
۱۹۹۸ء میں پاکستان نے ایٹمی تجربات سے دنیا کو چونکا دیا‘ لیکن اسرائیل نے اس پر نوٹس نہیں لیا‘ جبکہ اسی صدی کے آٹھویں دہائی میں پاکستان کے ایٹمی تجربہ سے قبل اسرائیل پاکستان کے ایٹمی پلانٹ‘ اسی طرح عراق کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرچکا تھا۔ لیکن اس مرتبہ اسرائیل نے اپنی خاموشی کی یہ دلیل پیش کی کہ پاکستان کا ایٹمی تجربہ ہندوستان کے جواب میں اور طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے پیش نظر ہے اور اس سے اسرائیل کو خطرہ نہیں ہے‘ اسرائیل کی یہ دلیل خود اس کے خلاف حجت ہے کہ پھر ایران کا بھی ایٹمی تجربہ ضروری ہے تاکہ اسرائیل کے مقابلہ میں طاقت کا توازن برقرار رہے لیکن یہاں پر اسرائیل کی ساری منطقیت ایران کی مخالفت میں گم ہوجاتی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اسرائیل کا (ایٹمی پروگرام) میں موقف قومی مسائل میں پاکستان کی خارجہ سیاست پر ایک سوالیہ نشان ہے‘ بہرحال یہ بات پرانی ہوچکی ہے۔
۱۹۹۵ء میں ایٹمی تجربات کے حوالے سے ایران روس معاہدہ عمل میں آیا‘ یہ معاہدہ امریکا اور اسرائیل کے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا تھا‘ اس معاہدہ کی رو سے روس نے ایران کے جنوبی خطہ میں دو ایٹمی پلانٹ کی تیاری کا وعدہ کیا تھا‘ آبدوز ٹینک کے تبادلہ کا بھی معاہدہ ہوا‘ اس پر اسرائیل نے دہائی دی‘ اور پھر امریکا میدان میں آیا۔ اس نے روسی حکام سے ہر ملاقات میں یہی معاملہ اٹھایا اور آخر کار اس نے روس کو اس بات پر تیار کرلیا کہ وہ ایران کے ساتھ جو معاہدہ کرچکا ہے اس کی تکمیل ۱۹۹۹ء تک کرلے اور اس کے بعد اس سے ہر طرح کے تعلقات منقطع کرے اور اس کو کسی قسم کا ہتھیار فراہم نہ کرے۔ لیکن ۲۰۰۰ء میں روس نے اعلان کیا کہ وہ امریکا کے کسی معاہدہ کو نافذ کرنے کا پابند نہیں ہے‘ اس کے بعد اسرائیل اور امریکا کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا کہ وہ ایران سے خود نپٹے چنانچہ تازہ اطلاعات کے مطابق ایک طرف دوسرے ممالک اورعالمی ایجنسیوں کے ذریعہ ایران پر دبائو ڈالا جارہا ہے تو دوسری طرف موثوقہ ذرائع سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ اسرائیل نے مو ساد کو یہ حکم بھی دے دیا تھا کہ وہ ایران کے ان مقاما ت کی نشاندہی کرکے پلان تیار کرے جن کو نشانہ بنانا ہے ‘ اس سے پہلے اسرائیل نے ان حکام اور ایکسپرٹ کی میٹنگ بلائی تھی جو ایرانی انقلاب سے پہلے ایران میں اپنی خدمات پیش کرچکے تھے اور ان سے ایران کی صورتحال اور خفیہ معلومات اور خفیہ مقامات کی رپورٹ بھی طلب کی‘ اسرائیل کی فضائیہ بھی حرکت میں آچکی تھی اور ان کی مشقیں جاری تھیں ‘ ایران کی سرکوبی کے لیے اسرائیل نے امریکا سے ۱۹۹۷ء میں جدید ترین ہتھیار بھی حاصل کیے‘ جن میں ۳۵ دور مار (IF-16) طیارے‘۱۰۲ (IF.17) طیارے جو پہلی قسم کے مقابلہ میں زیادہ خطرناک ہیں‘ شامل ہیں۔ یہ ہتھیار ایران سے جنگ کے لیے مخصوص کیے گئے تھے یہاں تک کہ اسرائیل میں ان کا نام ہی ایرانی طیارہ رکھ دیا گیا تھا‘ اسرائیل نے اسی کے ساتھ اپنی راکٹ کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا اور ایسے راکٹس تیار کیے جو ۲۰۰۰ کلو میٹر تک مارنے کی صلاحیت رکھتی ہو‘ اپنے بحری بیڑے کو ۳ جدید جرمن آبدوز کشتیاں بھی فراہم کی جن میں ایسی تکنیک استعمال کی گئی تھی جس کی وجہ سے ان میں ایٹم سے لیس راکٹس کو بھی اٹھانے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی‘ یہ سب تیاریاں ایرانی کی سرکوبی کے لیے تھیں‘ اس میں تیزی اس لیے آئی تھی کہ اسرائیل کے خفیہ ادارہ موساد کی رپورٹ کے مطابق ایران آئندہ ایک دوسالوں میں ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرلے گا اور ہر سال وہ ایک ایٹم بم تیار کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔
اسرائیل جو خطہ میں بے ضابطگی کا عنوان بن چکا ہے وہ سفارتی کوششوں پر انحصار نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے اس نے آمنے سامنے ہونے کی ٹکر کی ٹھان لی‘ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے پہلوئوں کو مضبوط کرے‘ شام ‘ عراق اور مصر سے اس کو کوئی خطرہ نہیں تھا‘ سوائے لبنان کے جہاں اس کے کبرو غرور کا قبرستان کئی بار تیار ہوچکا تھا‘ لبنا ن میں اس کو سب سے زیادہ خطرہ’’حزب اللہ‘‘ سے تھا‘ اس لیے کہ ’’حزب اللہ‘‘ مسلکی اور فکری لحاظ سے ایران کا ایک جزو ہے اور جیسا کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ ’’حزب اللہ‘‘ کو ہتھیار ایران ہی نے فراہم کیے تھے‘ تو اس صورتحال میں بالکل ممکن تھا کہ جب اسرائیل ایران پر حملہ کرتا تو پشت پر حزب اللہ شبخون مارتا جو اسرائیل ایران پر حملہ کرتا تو پشت پر حزب اللہ سے دو دو ہاتھ کرکے اپنے عقب کو محفوظ کرلیا جائے‘یہی وجہ تھی کہ ذرائع کے مطابق اسرائیل ہر حال میں لبنان پر حملہ کرتا۔ چاہے اس کے فوجی قید ہوتے یا نہ ہوتے‘ لیکن اسرائیل کی ساری تدبیر نہ صرف یہ کے ناکام ہوگئی بلکہ اب حزب اللہ اس کے لیے پہلے سے زیادہ خطرناک ہوگئی‘ جس کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:
۱۔ حزب اللہ کو عالمی برادری میں ہمدردی کا مقام حاصل ہوگیا۔
۲۔ دنیا بھر کی جہادی تنظیموں کے لیے حزب اللہ مرکز توجہ بن گئی۔
۳۔ لبنانی عوام کی نگاہوں میں حزب اللہ کے وقار میں اضافہ ہوا۔
۴۔ عالم عرب کا تعاون‘ توجہ اور اعتماد اسے حاصل ہوا ۔
۵۔ حزب اللہ کے فوجیوں کے مورال میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔
۶۔ اسرائیل کے سلسلہ میں خطہ میں وہی تصور قائم ہورہا تھا جو کبھی تاتاریوں کے لیے تھا یعنی اگر کوئی یہ خبر دے کہ تاتاریوں کو شکست ہوگئی تو کبھی اس پر یقین مت کرنا‘ لیکن اسرائیل کی اس شکست نے اسرائیل کے اس بھرم اور بت کو پاش پاش کردیا۔
یہ جنگ اسرائیل کے لیے اس لحاظ سے بھی سود مند ثابت نہیں ہوئی کہ عالمی برادری جو فلسطین میں اسرائیلی ظلم و ستم پر خاموش تھی وہ بھی برملا اسرائیل پر تنقید کرنے لگی۔
مثال کے طو رپریہودیوں کے واضح طرف دار اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ کے ادارتی بورڈ کے ممبر بریٹ اسٹیفن لکھتے ہیں کہ ’’یہ جنگ سراسر اسرائیل نے لبنان پر مسلط کی ہے اور لبنانی حکومت اس سلسلے میں مکمل طور پر بے قصور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل فوجی اور سیاسی اعتبار سے حزب اللہ کے خلاف جنگ ہارچکا ہے کیونکہ اس نے حملوں کے آغاز پر جو بلند و بانگ دعوے کیے تھے ان میں وہ ناکام رہا ہے۔‘‘
برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کے معروف مضمون نگار ارون بین ڈور جو کہ یونیورسٹی آف سائوتھ تھمپٹن میں پولیٹیکل فلاسفی اور فلاسفی آف لاء کے پروفیسر ہیں نے اپنے ایک مضمون میں اسرائیل کی حقیقی منصوبہ بندی اور یہودی نفسیات کا ذکر کرتے ہوئے اس کی کھل کر مذمت کی ہے وہ لکھتے ہیں ’’چونکہ اسرائیل کا بحیثیت ریاست وجود ہی ناجائز ہے اور اس کا بنیادی نظریہ ہی ان سارے انسانوں کے لیے خطرناک ہے جو غیر یہودی ہیں تو اسرائیل اپنی اس غیر اخلاقی بنیاد سے لوگوں کی توجہ ہٹائے رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کرتا رہتا ہے جن سے تشدد کو فروغ ملے اور اس کی مظلومیت کا بھیس قائم رہے۔ وہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیاں کرتا ہے لیکن تاثر دیتا ہے گویا یہ سب کچھ وہ اپنی بقا کے لیے کررہا ہے۔ ایسی ہی حرکتوں کی وجہ سے اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے اور کوئی بھی ملک ایسی حرکتوں میں ملوث نہیں جیسی کہ اسرائیل عام طور پر کرتا ہے۔‘‘
اورن بین ڈور کا کہنا ہے کہ غزہ ہو یا لبنان ‘ پر تشدد کارروائیوں کا مقصد اسرائیلی شہریوں کا تحفظ نہیں بلکہ اسرائیلی ریاست کے ناجائز وجود کا جواز برقرار رکھنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ’’ اسرائیل کی تخلیق کے لیے دہشت گردی کی گئی۔ ۱۹۴۸ء میں ارضِ فلسطین سے تمام غیر یہودیوں کو زبردستی نکال باہر کیا گیا خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں‘ یہ سب کچھ ایک سازش کے ذریعہ کیاگیا جس کے بغیر اسرائیل قائم کرنا ممکن نہ ہوتا۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ غیریہودیوں کا ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔۔۔ ہولوکاسٹ کے نتیجہ میں ملنے والی ہمدردیوں کو برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل ایسے اقدامات کرتا ہے جن سے فریق ثانی بھی تشدد پر اترے اوریوں اسرائیل مظلوم بنارہے ۔ اسی وجہ سے مغربی طاقتوں نے اسرائیل کے وجود کو مقدس گائے تسلیم کر رکھا ہے۔ چونکہ اسرائیل دہشت گردی کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ اس لیے وہ اپنی بقاء کے لیے بھی دہشت گردی ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔‘‘
مغربی صحافت کا یہ تلخ اسلوب پہلی بار سامنے آیا ہے جو مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل و امریکی پالیسی پر طمانچہ ہے۔
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور امریکی مفادات الگ الگ نہیں ہیں‘ مفادات کے تحفظ کے سلسلہ میں اسرائیل کو جس قدر امریکا کی ضرورت ہے اتنا ہی امریکاکو اسرائیل کی ضرورت ہے‘ امریکا ایسا مشرق وسطیٰ تخلیق کرنا چاہتا ہے جو ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اس کا حلیف ہویا کم از کم اس کا دشمن نہ ہو‘ ایسا مشرق وسطیٰ جس کے قدرتی ذخائر سے صرف وہی فائدہ اٹھاسکے‘ ایسا مشرق وسطیٰ جس میں جہادی روح یا جہادی عنصر نہ ہو‘ اس کا پلان یہ ہے کہ اس مشق وسطیٰ کی جغرافیائی تقسیم وہ اس طرح کرے گا جو موجودہ تقسیم سے بالکل مختلف ہو اور اس تقسیم کی بنیاد قبائلی‘ وطنی و قومی اور مذہبی بنیادوں پر ہو جس کا لازمی نتیجہ باہمی انتشار و انارکی ہوگا‘ اور پھر امریکا چین کی بانسری بجائے گا‘ حال ہی میں ایک ا مریکی فوجی میگزین نے ’’جدید مشرقی وسطیٰ‘‘ کا نقشہ شائع کیا ہے‘ اس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں فوجی‘ مادی‘ ابلاغی‘ امریکی جمہوری وسائل کے ساتھ حلیف ممالک کا بھی تعاون لیا جائے گا‘ جدید مشرق وسطیٰ کا نقطہ آغاز عراق کو بنایا گیا‘ ایسی صورتحال میں ایران کا ایٹم کی صلاحیت حاصل کرنے کا مطلب ہے امریکاکے تمامتر خوابوں کو سبوتاژ کرناہے‘ اسی لیے امریکا نے عراق‘ ایران اور شمالی کوریا کو شیطانی تکون قرار دیا تھا‘ عراق کو اپنی دانست میں ختم کرچکا ہے‘ اب ایران کی باری تھی جس کی سرکوبی کے لیے اس نے اسرائیل کو تیار کیا تھا لیکن اسرائیل کی ناکامی نے اس کے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں‘ اب دو ہی صورت سامنے ہے یا تو امریکا و اسرائیل اپنی موجودہ پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ کی طرح کسی قانون کی پرواہ کیے بغیر ایران پر حملہ کردیں‘ اس کا بظاہر امکان کم ہے یا پھر باریک بینی سے حالات کا جائزہ لے اور پھر کسی اورطرح کا اقدام کرے۔
(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ لکھنؤ۔ شمارہ: ۲۵ ستمبر ۲۰۰۶)
حالیہ جنگ میں اسرائیل نے لبنان پر جو بم برسائے تھے‘ اُن میں سے دس فیصد پھٹنے سے رہ گئے ہیں‘ جن کی تعداد نوہزار بتائی جاتی ہے۔
(بحوالہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ ۲۸ اگست ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply