چوبیس گھنٹے مسلسل غزہ اور لبنان پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری نے یورپی دنیا میں مسلم ریاستوں کے لیے ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے کہ آیا انہیں سڑکوں پر نکل آنے والوں کے ساتھ ہونا چاہیے یا اُس طبقہ اشراف کے مفادات کی حفاظت کرنی چاہیے جو اُن پر حکمران ہے؟ ان ممالک کے ردعمل نے جنہیں مغرب معتدل مسلم ممالک قرار دیتا ہے مشاہدین کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ان ممالک کے قائدین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کی کارروائی حماس و حزب اللہ کی اشتعال انگیز مہم جوئی کا ردعمل ہے۔ ٹھیک ہے کہ ان دونوں تنظیموں کی طرف سے اشتعال انگیزی تھی لیکن انہوں نے یہ اقدام اپنی انتہائی مایوسی کے سبب کیا ہے۔ کچھ نہ کرنے کا مطلب موجودہ صورتحال کو قبول کرلینا تھا یعنی غزہ کی ناکہ بندی کی صورتحال کو جو کہ حما س کا گلا گھونٹ رہی تھی۔ بہت بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ حماس کو اقتدار اس جمہوری عمل کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا جس عمل کا فلسطینیوں نے اس لیے تعاقب کیا تھا کہ اس کے لیے واشنگٹن کا ان پر بہت زیادہ دبائو تھا۔ نتیجہ بہت واضح تھا۔ امریکا جمہوریت کو صرف اُسی وقت قبول کرنے کے لیے تیار تھا جب وہ ایسے نتائج پیدا کرے جو اس کے لیے باعث اطمینان ہوں اور جو اس کے کلیدی مفادات کی تکمیل میں معاون ہوں۔ مسلم دنیا کو پہلے بھی اس صورتحال سے سابقہ پیش آتا رہا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں الجزائر کی اسلامی پارٹی جو Islamic Salvation Fiotnt Fis کے نام مشہور تھی نے انتخابات کے پہلے روانڈ میں برتری حاصل کرلی تو الجزائر کی فوج نے فرانس کی خواہش پر دوسرے دور کرکے انتخاب کو منسوخ کردیا جس پر امریکا نے بھی خوب واہ ! واہ! کی۔ FIS کے ہزاروں کارکنان نے پھر پہاڑوں کی راہ لی اور اپنی پُرتشدد بغاوت شروع کردی جس کا سلسلہ برسوں جاری رہا اور ہزارہا لوگ مارے گئے۔ مصر اور اُردن حزب اللہ اور اسرائیل کی اس تازہ جنگ میں کنارے کھڑے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں تو سعودی عرب فوراً کھل کر اس لبنانی جماعت اور ایران کے خلاف سامنے آگیا اس کا موقف سرکاری خبر رساں ایجنسی کے ذریعہ سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ قانونی مزاحمت اور غلط اندازوں پر مبنی مہم جوئی میں فرق ضرور کیا جانا چاہیے جس کا آغاز لبنان کے بعض اندرونی عناصر اور اُن کے پشت پناہوں نے کیا ہے۔ یہ وہی موقف ہے جسے جلسے واشنگٹن نے اختیار کر رکھا ہے۔ لبنان کے اندرونی غدار سے مراد یقیناً حزب اللہ کے لوگ ہیں اور اس کے پشت پناہوں سے مراد ایران اور شام ہیں۔ مسلم دنیا کی بعض سنی ریاستیںایران کا بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی خاطر جس کا دائرہ صرف شیعہ برادری تک محدود نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کے عوام میں خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقہ سے ہو پھیلتا جارہا ہے‘ امریکا اور اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں۔ لہٰذا مسلم دنیا میں جمہوریت قائم کرنے کی امریکی مہم کے ساتھ عجیب و غریب معاملہ پیش آیا ۔ امریکی صدر نے ۲۰۰۵ء میں اپنے دوسرے دور کی صدارت کی افتتاحی تقریب کے ساتھ اس مہم کا آغاز بڑے زور و شور سے کیا تھا۔ اُن کی اس مہم کا اعلان تالیوں کی زبردست گونج میں سنا گیا تھا۔بعد میں کئی دنوں تک کئی تو قدامت پرست مبصرین اور تجزیہ نگار صدر بُش کے اس جملے کی تعریف میں رطب السان رہے کہ ’’آزادی دُنیا کو امریکا کا تحفہ نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں یہ خداوند تعالیٰ کا تحفہ ہے ‘‘ اس خوبصورت جملے میں بہت ہی حسین جذبہ پنہاں ہے لیکن مسلم دنیا میں جہاں تک امریکا کے کلیدی مفادات کا تعلق ہے اس تناظر میں یہ پالیسی بہت ہی تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ یہ کس طرح ایک تباہ کن پالیسی ہے؟ امریکا کے کہنے پر مصر نے حسنی مبارک کے مخالفین کو بھی انتخاب میں حصہ لینے کی تھوڑی اجازت دی۔ صدر حسنی مبارک کوئی ایک ربع صدی سے مصر کے نظام سیاست پر صدر کی حیثیت سے مختار کل بنے بیٹھے ہیں۔اس کا نتیجہ اخوان المسلمون جیسی بھیانک تنظیم کے احیاء کی صورت میں سامنے آیا۔ محمود عباس جوالفتح کے چیئرمین کی حیثیت سے یاسرعرفات کے جانشین ہیں اور فلسطینی انتظامیہ کے صدر ہیں کو آزاد اور شفاف انتخاب کرانے پر اُبھارا گیا جس کا نتیجہ‘ غیر متوقع طور پر حماس کی فتح کی صورت میں سامنے آیا۔ موخر الذکر کو دو مختلف تناظر سے دیکھا گیا۔ امریکا‘ اسرائیل اور بیشتر مغربی ممالک کی نظر میں حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور یہ پیہم برسرجنگ ہے اس چیز کے خلاف جسے یہ ظلم تصور کرتی ہے۔ اس نے خودکش حملہ آوروں کو اسلحہ کے طور پر پروان چڑھایا جنہوں نے نقصان تو تھوڑا ہی پہنچا یا لیکن اسرائیل اور اس کے شہریوں کو شدید قسم کے عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کردیا۔ حماس کے طرفدار اسے ایک محسن تنظیم تصور کرتے ہیں جو غاصب افواج کے خلاف برسرِ جنگ ہے۔ لبنانی تنظیم حزب اللہ کی بھی یہی پوزشن ہے۔ مغرب نے اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے لیکن لبنان کے غریب عوام میں اس کا بڑا احترام ہے۔ اس میں کم ہی کسی کو شک ہے کہ اگر ملک کا سیاسی ’’نظام ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کے اصول پر استوار ہو تو حزب اللہ کی انتخاب میں واضح فتح ہوگی اور لبنان کی حکومت اس کے کنٹرول میں آجائے گی۔ اس وقت کا سیاسی ڈھانچہ خیعوں کے سیاسی حقوق کی قیمت پر جو کہ ملک کی سب سے بڑی اور غریب ترین آبادی ہے کیونکہ یہ عیسائیوں کو غیر مساویانہ نمائندگی کی اجازت دیتا ہے۔ صدر بش اور حکومت میں ان کے ساتھی اپنے آپ کو عجیب و غریب صورتحال میں گرفتار پاتے ہیں۔ یہ جب مسلم ممالک میں جمہوریت کو فروغ دیتے ہیں تو حماس اور حزب اللہ جیسے گروہ کامیاب ہوتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے سماجی فلاح و بہبود کے ذریعہ عوام میں بہت ہوشیاری سے اپنی ساکھ بنائی ہے ان کے خلوص و قربانی نے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنالیا ہے۔ ان تنظیموں کے اعلیٰ عہدوں پر جو لوگ فائز ہیں اُن کا کردار صاف و ستھرا بھی ہے اور وہ نیک جذبوں سے معمور اور پرعزم بھی ہیں ۔ لہٰذا بدعنوانی اور نااہلی جو علم ممالک کی حکومتوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے سے نجات پانے کے لیے لوگوں کی نگاہیں ان کی جانب اٹھتی ہیں۔ لیکن حماس کی انتخابی فتح اور حزب اللہ کی مقبولیت کا ایک پریشان کن پہلو بھی ہے یہ مسلم دنیا کی ناقص سیاسی نشوونما کی پیداوار ہیں ناقص سیاسی شعور کی حامل سیاسی پارٹیوں کی موجودگی میں ووٹروں کے پاس انتخاب کے لیے امکانات محدود رہ جاتے ہیں۔اور پھر ان کی نگاہیں اُن لوگوں پر جاکر اٹک جاتی ہیں جو مذہبی نظریات یا مذہبی فرقوں یامذہبی مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں۔اس کا واضح اظہار عراق کے انتخابی نتائج میں ہوتا ہے۔ انتخابات میں درجنوں پارٹیوں نے حصہ لیا اور یہ سب کی سب کسی نہ کسی فرقہ‘ نظریہ اور مذہب کی نمائندگی کررہی تھیں۔ کوئی بھی سیاسی گروہ ایسا نہیں تھا جو اپنے اندر وسیع المذہب اور وسیع المنطقہ کشش رکھتا ہو جس کی بناء پر اُسے زیادہ سے زیادہ ووٹروں کی حمایت حاصل ہو۔ دوسرے الفاظ میں جمہوریت کے پہلے مرحلے کے طو رپر انتخابی سیاست پر نقطہ ارتکاز الٹے نتائج کا حامل تھا۔ اس نے ان ممالک اور معاشروں میں جہاں انتخابات منعقد ہوئے تقسیم کے عنصر کو نمایاں کردیا بجائے اس کے کہ وہاں سیاسی نشوونما کو جلا ملتی۔ یہ پہلو صدر بش اور ان کے نوقدامت پرست ساتھیوں کے ذہن میں نہیں آیاتھا جب وہ اپنا یہ ایجنڈا لے کر چلے تھے کہ انہیں مسلم دنیا میں سیاسی اصلاحات کو بروئے کار لانا ہے۔ مسلم دنیا کا تجربہ بتاتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ آزادی ہر ایک مرد اور عورت کے لیے خدا کا تحفہ ہو جیسا کہ بش کا دعویٰ ہے۔ اسے حاصل کیا جانا ہے۔ یہ کاوش کا نتیجہ ہے نہ کہ الٰہی عطیہ۔ لفظ اب باہر آچکا ہے‘ جن بھی بوتل سے باہر آچکا ہے۔ جمہوریت مسلم دنیا میں عوام کا ترجیحی انتخاب ہے۔ عالمگیریت کی نمود کا مطلب یہ ہے کہ اس پیغام کو عوام تک پہنچنے سے مطلق العنان حکومتیں اب نہیں روک سکتیں۔ انٹرنیٹ‘ کیبل ٹیلی ویژن‘ موبائل فون اور ان میں نصب شدہ کیمرے اس امر کی ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ دنیا سے متعلق خبریں دنیا کے تمام گوشوں میں عموماً لمحوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ لہٰذا ریاست کو گلی کوچوںکی فکر کرنی چاہیے اور مسلم دنیا میں سڑکیں اور گلیاں رو زبروز شورس زدہ ہوتی جارہی ہیں۔ کس طرح مغرب جو مسلم دنیا کے مختلف حصوں سے اقتصادی اور کلیدی ہمت کی حامل وجوہات کی وجہ سے جڑا ہوا ہے حکمرانوں اور محکوموں کے مابین بڑھتے تصادم پر ردعمل دیکھائے گا؟ اگر آپ کے پاس صرف ہتھوڑا ہے تو آپ کو ہر مسئلہ کیل نظر آئے گا۔ امریکا نے یہی روش افغانستان اور عراق میں اپنا رکھی ہے اور اسی وجہ سے اسرائیل نے لبنان پر اپنے تازہ حملوں کا آغاز کیا ہے۔ امریکا کے تجربے کے باوجود نوقدامت پرستوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مشرق وسطیٰ میں تازہ بحران کی ایک بہت سی طاقتور تعبیر ہے جو واشنگٹن کے اطراف میں گردش کررہی ہے۔ جیسا کہ ایک مبصر Gideon Rachman Financial Times میں اسے یوں لکھتا ہے ’’یہ دلیل دی جاتی ہے کہ دُنیا کے اطراف میں امریکا کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ متعین طورسے بش انتظامیہ کی اپنے حلیفوں کے ساتھ ازسرنو کام کرنے کی خواہش کا نتیجہ ہے۔ اس خیال کے مطابق کمزور گھٹنوں کے حامل یورپی امریکا کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ ایران‘ شمالی کوریا اور مشرق وسطیٰ کے معاملے میں خوش کرنے والی پالیسی پر گامزن ہو۔‘‘
William Kristol جس نے Paulwolfowitz‘Richard Perle اور Douglas Feith کے ساتھ مل کر صدر بش کو عراق میں حکومت کی تبدیلی کے لیے طاقت کے استعمال پر آمادہ کیا اور یہی William Kristol طاقت کے استعمال کی دوبارہ وکالت کررہا ہے۔ یعنی مسلمانوں کے وجود پر آہنی ہتھوڑے کی ضرب کا مطالبہ کررہا ہے۔ نوقدامت پرستوں کے ترجمان Weekly Standard میں کرسٹول لکھتا ہے کہ ’’مشرقِ وسطیٰ میں لڑائی لبرل جمہوری تہذیب پر وسیع البنیاد حملے کا حصہ ہے۔ کمزوری اشتعال انگیز ہے۔ صحیح جواب تازہ دم قوت ہے جس کے سہارے افغانستان اور عراق کی حکومتوں کا ساتھ دیا جائے اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہا جائے اور ایران و شام میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش کی جائے۔‘‘ وہ صدر بش کو تاکید کرتا ہے کہ ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے کے لیے وہ فوراً حکمنامہ جاری کریں۔ متعین طور سے یہ قیاس کرنا بہت مشکل ہے کہ مشرق وسطیٰ کی یہ حالیہ جنگ کس طرح ختم ہوگی۔ قطع نظر اس سے کہ اس کا کیا رخ ہے یہ پاکستان پر بھی سنگین طریقے سے اثر انداز ہوگی۔ میں نے پہلے بھی ان کالموں میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان عالم اسلام میں منفرد مقام کا حامل ہے۔ یہ عرب اور غیرعرب مسلم ممالک دونوں کے قریب ہے۔ اس کے ہمسایوں میں ایران ہے جو عظیم ترین شیعہ آبادی کا ملک ہے اس کے علاوہ افغانستان ہے اور چینی صوبہ زنجیانگ ہے۔ موذالذکر دونوں ممالک اسلامی عقیدے کی سنی تعبیر پر یقین رکھتے ہیں۔ اکثر اس بات کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا ہے کہ ساڑھے تین کروڑ شیعہ بھی ان کے شہری ہیں۔ پاکستان میں ایران کے بعد شیعوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ پاکستان میں ابھی حال تک اسلام کے ان دونوں فرقوں کے مابین ایک معقول انداز کی ہم آہنگی کی فضا رہی ہے‘ پاکستان نے سعودی عربیہ اور خلیجی ممالک کے ساتھ اقتصادی روابط استوار کیے ہیں۔ یہ قدرتی گیس کی پائپ لائن کی تعمیر پر بات چیت کررہا ہے جس کے ذریعہ پاکستان میں ایرانی گیس آئے گی۔ ان ممالک کے سرمایہ کارپاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں محض نجی اثاثے خریدنے پر نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ ECO کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اور شنگھائی گروپ میں شمولیت کا متمنی ہوتے ہوئے یہ وسط ایشیا کے ممالک سے مضبوط اقتصادی روابط استوار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اگر مشرق وسطیٰ کی اس جنگ کا دائرہ اس طرح وسیع ہوتا ہے کہ اس سے شیعہ و سنی کے مابین خلیج بڑھتی ہے تو پاکستان اس سے بہت زیادہ متاثر ہوگا۔ اگر اسرائیل کے حماس اور حزب اللہ پر غیرمساوی حملوں سے سڑکوں پر لوگوں کے نکل آنے کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا بھی اثر پاکستان پر پڑے گا۔ اس جنگ کی وجہ سے پبلک پالیسی کے بھی نتائج سامنے آئیں گے اگر امریکا کے بارے میں پاکستانی عوام کا تاثر مزید خراب ہوتا ہے جو کہ پہلے ہی سے بہت زیادہ خراب ہے۔آخری بات یہ ہے کہ اس جنگ کے شدید ہونے کی صورت میں بھارت کو حوصلہ ملے گا کہ اپنے فرقہ وارانہ مسائل کو اسلامی انتہا پسندی کے برش سے Paint کرے۔ مشرقِ وسطیٰ کی اس جنگ سے جنم لینے والے چیلنجز سے پاکستان کس طرح نبردآزما ہو؟ سیاسی نظام کو مزید گسنے کے لیے اس جنگ کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ عین ممکن ہے کہ امریکا اس حساس جغرافیائی علاقے‘ جس کا ایک حصہ پاکستان ہے میں سیکورٹی کی تلاش کی غرض سے اس طرح کے اپروچ کی حوصلہ افزائی کرے۔ لیکن اس روش پر چلنا انتہائی خطرناک ہوگا اور یہ وہ چیز ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر ملک کو ہرگز اس طرف جانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۲۵ جولائی ۲۰۰۶)
Leave a Reply