
۲ دسمبر ۲۰۱۵ء کو جبلت النصر نے ۱۶؍لبنانی فوجی اور ایک پولیس اہلکار کو شام و لبنان میں قید اپنے ۲۹ ساتھیوں اور بچوں کی رہائی کے بدلے میں رہا کر دیا۔ لبنان اور قطر کے ٹی وی چینلوں پر قیدیوں کا یہ تبادلہ براہ راست دکھایا گیا۔ قیدیوں کی رہائی کو ایک علامتی واقعہ کے طور پر لیا گیا، اس واقعہ کی تزویراتی اہمیت اور اس کے علاقائی اثرات پر شدت سے بحث جاری ہے۔
لبنانی عوام نے واقعہ کے فوراً بعد ہی اس کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ جہاں ایک طرف رہائی پانے والے افراد اپنے والدین سے گلے مل رہے تھے، وہیں دوسری طرف لبنانی مبصرین اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ تمام سیاستدان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرد بھی حیران تھے کہ ان کی حکومت کیسے ایک ’’شیطان‘‘ سے معاہدہ کر سکتی ہے۔
پارلیمان کے اسپیکر نبہی بری، جن کا تعلق حزب اللہ سے ہے، انہوں سے اس معاہدے کو ملکی خود مختاری کے خلاف قرار دیا۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ حزب اللہ نے اس معاہدے کی تکمیل میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ اس معاہدے سے کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اگر اس بات کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو لبنانی عوام کے غصے اور مایوسی کی وجوہات خودبخود سامنے آجاتی ہیں۔
پہلے مثبت پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں:۔
۱۔ لبنانی حکومت نے فوج کو یہ پیغام دیا ہے کہ چاہے اسے کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے، وہ اغوا ہونے والے فوجیوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑے گی۔ باوجود اس کے کہ فوج کی قیادت حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں، کیوں کہ کچھ ہی عرصے پہلے دہشت گردوں کے اسی گروہ نے کچھ افسروں کو ذبح کیا تھا، لیکن یہ معاہدہ ایک ایسی فوج کا مورال بلند کرنے میں معاون ثابت ہوگا جو اپنی حیثیت سے بڑھ کر اور دن رات محنت کر کے ملک کے اندر اور باہر، خاص طور پر شام سے ملحقہ شمالی سرحدوں پر دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے۔
۲۔ اگرچہ حالات و واقعات واضح نہیں، لیکن لبنانی حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے ایسے کسی بھی اسلامی انتہا پسند کو چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے، جس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوں یا اس نے دہشت گردی کی کسی کارروائی میں فعال کردار ادا کیا ہو۔ حساس معلومات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے اس بیان کی صداقت پر یقین کرنا کافی مشکل ہے۔
۳۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ معاہدہ سیاسی حریفوں (حزب اللہ اور مستقبل تحریک) کے درمیان مفاہمت کا آغاز یا پھر مفاہمت کا نتیجہ محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ معاہدہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ اور مستقبل تحریک کے رہنما سعد حریری کے تعاون کے بغیر ممکن نہ تھا۔ مثال کے طور پر حریری نے دوحہ جا کر قطر (جس نے ۱۶؍ماہ کے دورانیہ میں ثالثی کا کردار ادا کیا) کو اس بات پر راضی کیا کہ عباس ابراہیم جو کہ مذاکراتی کمیٹی کے رہنما اور ملک کے جنرل سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ ہیں، ان پر بھروسا کیا جا سکتا ہے، حالانکہ وہ حزب اللہ کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حسن نصر اللہ نے اپنے اتحادی شامی صدر بشارالاسد کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ نصرہ فرنٹ کے مطالبے کی فہرست میں شامل تین خواتین اور ۹ بچوں کو رہا کرے۔ (رہائی پانے والی خواتین میں نصرہ فرنٹ کے علاقہ قلمون کے کمانڈر ابو مالک سلطان التلی کی بہن بھی شامل ہیں۔) حسن نصراللہ اور حریری کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ شاید صدارتی انتخابات کے ذریعے اس سیاسی خلا کو پُر کرنے میں معاون ثابت ہو جو کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے موجود ہے۔
ان سب مثبت پہلوئوں کے باوجود حکومت نے اس معاہدے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ لبنانی سرزمین پر بھرپور استحقاق کے ساتھ دن کی روشنی میں القاعدہ کا سیاہ پرچم لہراتے ہوئے، مکمل فوجی وردی میں موجود افراد، یہ منظر لبنانی عوام کے لیے ذلت آمیز اور تکلیف دہ تھا۔
مزید یہ کہ قیدیوں کا تبادلہ کرکے نہ صرف لبنانی حکومت نے کمزوری کا اظہار کیا بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ معاہدوں کی مخالفت نہیں کرتی۔ اس کے نتیجے میں اغوا کی وارداتیں اور مطالبات کی فہرست میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ داعش کے پاس بھی ۹ فوجی اور پولیس اہلکار یرغمال ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ بیروت مزید کیا مطالبات پورے کرتا ہے۔ داعش نصرہ فرنٹ سے کئی گنا بڑی تنظیم ہے، اگر اس نے لبنانی حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ کر لیا تو یقیناً مطالبات بھی زیادہ ہوں گے۔ عوام میں غصہ کی لہر، اور زیادہ مطالبات کا خوف اور لبنانی سرزمین سے نصرہ فرنٹ کو نکالنے میں ناکامی، یہ سب عوامل حکومتی ناکامی کی گواہی دیتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ لبنانی حکومت ملکی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف نصرہ فرنٹ نے نہ صرف لبنانی علاقے ارسل کو اپنی محفوظ پناہ گاہ ثابت کیا ہے، بلکہ ایک ایسے دہشت گرد گروہ کی حیثیت سے اپنی ساکھ بحال کی ہے جو کہ رحمدلی اور مصالحت کے جذبات بھی رکھتا ہے، جو داعش میں بالکل بھی نہیں۔ اس کی یہ شہرت شام کے سیاسی مستقبل میں اس کی مددگار ثابت ہو گی۔
دوسری طرف نصرہ فرنٹ کو بھی اس معاہدے کے نتیجے میں کچھ سمجھوتے کرنے پڑے ہیں اور مطالبات میں کچھ لچک دکھانا پڑی ہے۔ جیسا کہ اپنے دیگر سیکڑوں ہائی پروفائل ساتھیوں کی رہائی میں ناکامی (جو لبنان کی جیلوں میں قید ہیں) اور حزب اللہ کو شام سے نکلنے کے مطالبہ سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔ لیکن نصرہ فرنٹ کو معلوم ہے کہ اس کا حزب اللہ کے شام سے انخلا والا مطالبہ تو تھا ہی غیر حقیقی اور ساتھیوں کی رہائی سے جو فوائد حاصل ہونے تھے، اس سے کہیں زیادہ انہوں نے اس معاہدے سے حاصل کر لیے ہیں۔
اس معاہدے کی پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک چھوٹی سی ڈیل کے لیے بہت سی مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کی کامیابی میں قطر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ قطر خطے میں اپنے آپ کو ثالث کے طور پر منوانے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود خطے میں ثالثی کا کردار نبھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس واقعہ کی ویڈیو اپنے نشریاتی ادارے ’’الجزیرہ‘‘ سے نشر کر کے اس نے ایک تازہ مثال قائم کی ہے۔ حالانکہ قطر کے پڑوسی ممالک نے اس کے حقیقی ارادوں کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ علاقائی طاقتوں کے خدشات سے قطع نظر مغربی ممالک اور امریکا، قطر کے دہشت گرد گروہوں سے ان تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ کے ذریعے دہشتگردوں کو شکست دینے میں ناکامی پر کوئی کردار ایسا ضرور ہو جو دہشت گردوں سے مذاکرات کروا سکے۔
مذاکرات کے دوران دوحہ نے جو حکمتِ عملی اپنائی، وہ قابلِ ذکر تھی۔ شام کے معاملے میں قطر اور حزب اللہ کے تزویراتی اور داخلی اختلافات ہیں۔ لیکن یہ اختلافات بھی قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمدالثانی کو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سے یرغمالیوں کی رہائی کے معاملے میں تعاون کرنے سے نہ روک پائے۔ قطری انٹیلی جنس نے شیخ کی خاص ہدایات پر نصرہ فرنٹ کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ مطالبات میں اضافہ نہ کرے تاکہ معاہدہ جلد از جلد ممکن ہو۔ معاہدے کی تکمیل میں صرف حزب اللہ اور قطر ہی کا کردار نہیں، بلکہ ترکی نے بھی اس معاہدے کے لیے لاجسٹک مدد فراہم کی۔ مختلف مواقع پر قطر کی زیر نگرانی ہونے والے مذاکرات کے دوران ترکی نے نہ صرف میزبانی کا کردار ادا کیا بلکہ لبنان کی جانب سے رہا کیے جانے والے دہشت گردوں کو بھی ترکی کے حوالے کیا گیا۔ روس اور شام کے انقرہ سے تعلقات میں کشیدگی کے باوجود انہوں نے شمالی سرحدوں پر حزب اللہ اور نصرہ فرنٹ کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ ایران نے بھی روحانی لیڈر کے مشیرِ خاص علی اکبر ولایتی کے حالیہ دورۂ بیروت کے ذریعے اس معاہدے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ سعوی عرب نے براہ راست تو اس معاہدے میں حصہ نہیں لیا لیکن لبنان کے نئے صدر کے لیے حیرت انگیز طور پر سلیمان فرنجیۃ کے نام کی منظوری دی۔ سلیمان فرنجیۃ سعودی مخالف شامی صدر بشارالاسد کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور حزب اللہ کے حامی بھی ہیں (حزب اللہ پر لبنان کے سنی صدر اور سعودی عرب کے قریبی ساتھی رفیق حریری کے قتل کا الزام ہے) سعودی عرب نے ان کے نام پر آمادگی ظاہر کر کے خطے میں مجموعی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دی ہے۔
عام طور پر قیدیوں کے تبادلے کے معاہدوں میں دونوں فریقین کو کچھ لچک دکھانا پڑتی ہے۔ لیکن اس خاص معاہدے میں نصرہ فرنٹ کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ لبنان غلطیوں کو ٹھیک کرنے اور جو کچھ کھویا، اُسے پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لبنانی فوج اس قابل نہیں کہ شمالی علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کرسکے۔ اور حزب اللہ جو سنی انتہا پسندوں سے بہتر حکمتِ عملی کے ساتھ لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں کو محفوظ بنانے اور شام کی سرزمین پر اس کے دشمنوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے۔ صرف شامی تنازع کا مؤثر حل ہی سنی عسکریت پسندوں کے خطرے کو کم کر سکتا ہے اور مستقبل میں قیدیوں کے ایسے تبادلوں سے بچا جاسکتا ہے، جن کی بھاری قیمت چکانا پڑے۔ قیدیوں کے تبادلے کے لیے جس طرح روایتی حریفوں نے اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر حالیہ معاہدہ کیا ہے اس سے امید کی کرن تو پیدا ہوئی ہے لیکن شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اعلیٰ سطح پر مثبت رویے اور موقف میں لچک کی ضرورت ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Lebanon’s Deal with the Devil”.
(“Foreign Affairs”. December 6, 2015)
Leave a Reply