
گزشتہ ماہ ایو و مورالیز نے لگاتار تیسری مرتبہ بولیویا کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ بولیویا میں حیران کن طور پرمورالیز کے انتخاب پر کسی تبصرے کو جگہ نہیں ملی ۔ دنیا کے چند انتہائی ترقی پذیر اور جمہوری ملکوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے اس انتخاب پرضرور تبصرہ ہونا چاہیے تھا۔
سوشلسٹ تحریک (ماس) مورالیز کی قیادت میں انسانی ترقی کا ایک غیر معمولی دور دیکھ چکی ہے۔ ۲۰۰۶ء میں ملک کی ایک تہائی آبادی انتہائی غربت کی حالت میں زندگی بسر کر رہی تھی۔جبکہ غربت کا یہ تناسب اب صرف ۲۰ فیصد ہے۔ یونیسکو نے ۲۰۰۹ء میں بولیویا کو جہالت سے پاک قرار دے دیا تھا جبکہ گزشتہ دہائی میں یہاں صحت کے شعبے میں بھی حیرت انگیز حد تک مثبت تبدیلی دیکھی گئی۔
بظاہر بولیویا کی ترقی کی وجہ عام طور پر قدرتی گیس کے وافر ذخائر کو بیان کیا جاتا ہے۔خطہ میں بولیویا وینزویلا کے بعد ہائیڈرو کاربن کا دوسرا بڑا بر آمد کنندہ ہے اور ۲۰۰۱ء سے بین الاقوامی منڈی میں اس کا سالا نہ حصہ ۱۲؍ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
بولیویا دنیا کے سب سے زیادہ ترقی کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے ۔یہ بات مشکل ہی سے کہی جاسکتی ہے کہ ایک اصولی سوشلسٹ پالیسی ملک کو عالمی سرمایہ داری نظام سے دور رکھ سکے گی۔
بھاری قدرتی ذخائر کی بر آمدگی پر انحصار کرنے والے معاشی ماڈل کو ماحولیاتی آلودگی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔لہٰذا بولیویا اور اُس کے اطراف سے اُبھرتی ہوئی رائے عامہ مورالیز حکومت کی پالیسیوں کے قدرتی ماحول پر پڑنے والے اثرات پر توجہ دلارہی ہے۔
درحقیقت بائیں بازو پر تنقید کرنے والے سوشلسٹوں کو متنبہ کررہے ہیں کہ سوویت یونین اور چین سے متاثرہ ماضی کے تلخ تجربات سے سیکھنا چاہیے اور سوشلسٹ تحریک کو درست سمت میں رکھنے کے لیے یہ تنقید درست ہے۔ یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ بولیویا کی معیشت ایک طویل عرصے تک گیس کی برآمد پر انحصار کرتی رہی ہے اور مورالیز حکومت گیس برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی بولیویا کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے پر صَرف کرتی رہی ہے۔
کئی معاملات میں بولیویا مورالیز کی قیادت میں ہوگوشاویز کے وینزویلا کی پیروی کررہا ہے، جہاں اس سے پہلے امریکی حمایت یافتہ اشرافیہ نے تیل کی بڑی آمدنی کو انسانی ترقی پر صرف کرنے کے بجائے اُس پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔
شاویز کے آخری دور کی طرح مورالیز نے بھی شعوری طور پر گیس برآمدات پر طویل مدتی انحصارکم کرتے ہوئے قدرتی ذرائع اورماحولیاتی نظام کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے اور بولیویا کی معیشت کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تسلط سے نجات دلائی۔ یہی وجہ ہے کہ بولیویا، ایکواڈور، وینزویلا اور کیوبا نے علاقائی تجارتی بلاک بنایا اور مشترکہ فنڈ سے ایک ترقیاتی بینک بھی تشکیل دیا۔ اسی طرح ایک غیر کاروباری علاقائی میڈیا نیٹ ورک کو ترقی دے کر میڈیا کی اجارہ داری ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ اقدامات لاطینی امریکا میں دوسو سالہ امریکی سامراجی مداخلت کو فوری طور پرتو ختم نہیں کرسکتے لیکن یہ اُس جانب درست ابتدائی اقدامات ہیں۔
یہ کوئی معمولی کام نہیں کہ آزاد خیالی اور اُس کے نتیجے میں آنے والے جمہوری نظام کا متبادل تعمیر کیا جائے۔ سب سے اہم سبق جو مورالیز او ر بولیویا سے سیکھا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ کسی بھی ایسے متبادل اقدامات کے لیے عوامی شعور اور تحرک سب سے اہم ہے۔
تین صدارتی انتخابات میں مورالیز نے بالترتیب ۵۴، ۶۴ اور ۶۱ فیصد ووٹ حاصل کیے۔ یہ نتائج متاثرکن ضرور ہیں لیکن کہانی کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ۔ مورالیزاور سوشلسٹ تحریک نہ صر ف اپنے حامیوں کو ہر پانچ سال بعد ووٹ دینے کے لیے باہرنکالنے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ انہوں نے پچھلی پوری دہائی میں اپنے حامیوں کو متحرک رکھا۔ مختصراً وہ یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ اکیسویں صدی کا سوشلزم صرف عام آدمی کی فعال شرکت کے نتیجے میں ہی تعمیر ہوسکتا ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ لاطینی امریکا میں نئے جمہوری تجربات کی بنیاد قدامت پسند ریاستی عناصر اور متحرک مقبول طاقتوں کے نازک توازن پر ہے۔ پہلے عناصر باضابطہ دوسرے کو جواب دہ ہیں لیکن سماجی اصلاحات کے منصوبوں کے لیے اُن کے عزم کومعمولی سمجھنا غلطی ہوگا۔
بیسویں صدی کے سوشلسٹ رہنماؤں نے غیرمنتخب نمائندوں کے علاوہ ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں میں بھی بے انتہا طاقت دے دی تھی۔ کام کرنے والے لوگ غیر متحرک اور ویلفیئر حاصل کرنے والے بنتے چلے گئے اور سوشلسٹ ریاست کے سیاسی اداروں اور عوام کے درمیان رابطہ کمزور ہوتا چلاگیا، حتیٰ کہ بہت حد تک نئی آزاد جمہوریت اور بھی بدتر تھی کہ اس کی بنیاد آزادی کے سراب پر تھی ۔ اس میں بامقصد پالیسی سازی کی گنجائش کم ہی تھی، چنا نچہ عوام میں بے اختیار ہونے کا احساس پیدا ہوا اور بالآخراس کا نتیجہ سیاست سے عدم دلچسپی کی صورت میں سامنے آیا۔ اس میدان میں قابل ذکر اجتماعی ترقی کے بجائے معمولی کامیابیاں ہی حاصل ہو سکیں۔
مورالیز، شاویز اور دوسرے لاطینی امریکی قائدین نے یہ راستہ دکھایا ہے کہ سماجی اصلاحات کے لیے کسی حد تک ریاستی قوت ضروری ہے، لیکن ریاست کی اصلاح کا عمل عوامی حمایت ہی سے ممکن ہے۔ یہ بظاہرمعمولی بات نظر آتی ہے، لیکن بہرحال یہ بہت بنیادی بات ہے۔ نہ صرف ان کے لیے جو سوویت بلاک کے ملبے سے سوشلزم کی تعمیر چاہتے ہیں، بلکہ اُن کے لیے بھی جو ریاست کے ہر کام کو’’عظیم قومی مفاد‘‘ میں دیکھتے ہیں۔
(مترجم: رفیع اللہ خان)
“Left lessons”. (Daily “Dawn”. Oct. 31, 2014)
I like.