
پاکستان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر خاصے کمزور پڑچکے ہیں تاہم ان کے عزائم کی نوعیت تبدیل نہیں ہوئی۔ کمزوری کے باوجود وہ آج بھی مسائل کا حل تجویز کرنے میں ’’بخل‘‘ سے کام نہیں لیتے!
۳ مارچ کو اپنے ایک مضمون میں محمد علی صدیقی صاحب نے بائیں بازو کے گروپوں کے اس اتحاد کے بارے میں خوش گمانی کا اظہار کیا ہے جسے ورکر پارٹی پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔ انہوں نے بائیں بازو کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امریکا مخالف لہر میں بہنے سے گریز کرے اور سرد جنگ کے بعد کی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی کو دشمن سمجھتے ہوئے اس کے خلاف برسر پیکار ہو۔ انہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے سے متعلق اقدامات کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔
جہاں تک امریکی مخالف لہر میں نہ بہنے کا تعلق ہے، میں محمد علی صدیقی سے اتفاق کروں گی۔ پاکستان میں بائیں بازو کے نئے اتحاد کو کھوکھلے نعروں سے گریز کرتے ہوئے معاشرے کے تضادات سامنے رکھ کر کوئی جامع حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ انہیں ایسا سیاسی پروگرام دینا چاہیے جو حالات سے مطابقت رکھتا ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دائیں بازو کے عناصر امریکا کی مخالفت میں حد سے گزرتے ہوئے (کفر کے خلاف) جنگ چھیڑنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ بائیں بازو کے امریکا مخالف رویے پر تنقید کرنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو کے گروپ امریکا مخالف کم اور استعمار مخالف زیادہ ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بائیں بازو کی لڑائی کسی خاص ثقافت کے ساتھ نہیں بلکہ ہر اس ملک کے ساتھ ہے جو طاقت کے اندھا دھند استعمال کے ذریعے دوسروں کو پنپنے کے حق سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا دنیا بھر میں مداخلت کرتا پھر رہا ہے اور اس کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ بائیں بازو کے گروپ امریکا کی اس پالیسی کے خلاف ہیں اور اس کے مقابلے میں ایسا نظام پیش کرنا چاہتے ہیں جس میں کوئی کسی کے حقوق غصب نہ کرتا ہو اور نہ انہیں پنپنے کا موقع دیتا ہو۔ نئے عالمگیر نظام کو زیادہ سے زیادہ جمہوری بنانا ہی بائیں بازو کی منزل ہے۔ اگر ملکوں کی حدود میں جمہوری کلچر کو فروغ دینا ہے تو پہلے بین الاقوامی سطح پر اس کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔
بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے طویل مدت سے پاکستان کو امداد اور قرضے دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس عمل کی پشت پر یہ دعویٰ موجود ہے کہ معاشی حالات بہتر ہوں گے مگر اب تک تو ایسا نہیں ہوا۔ پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے پورے دور میں بڑے پیمانے پر سرمایہ بھی ملک میں آیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی۔ اس کے نتیجے میں ایسی معاشی نمو پیدا ہوئی جو غبارے کی طرح تھی۔ جیسے ہی یہ غبارہ پھٹا، شدید معاشی ناہمواریاں نمایاں ہوکر سامنے آگئیں۔ صاف ظاہر ہوگیا کہ معیشت دیمک زدہ ہے۔ اس کے فوری بعد معاشی بحران رونما ہوا اور اس نے فری مارکیٹ اکانومی کے عوام دوست ہونے کے دعووں کی قلعی کھول دی۔ پاکستان میں کروڑوں افراد بیروزگار ہیں یا پھر ان سے ان کی صلاحیت اور سکت کے مطابق کام نہیں لیا جارہا۔ مگر یہ کیس تو تیسری دنیا کے تمام ممالک کا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے بائیں بازو کو لاطینی امریکا کی طرز پر معاشی تجربوں کی حمایت کیوں نہیں کرنی چاہیے جہاں لبرل معیشت کو مسترد کرکے ایسی معیشت کو پروان چڑھایا جارہا ہے جس میں عوام اور ماحول کو اولیت دی گئی ہے۔ ان تجربات کی حمایت بالکل منطقی ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مذہبی انتہا پسندی نہیں بلکہ لسانی تفریق ہے۔ بلوچستان اب بھی جل رہا ہے اور وہاں علیٰحدگی پسند رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں۔ سندھ میں قوم پرست جذبات اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باعث خاموش ہیں تاہم اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے۔ صوبہ سرحد کے پختون‘ صوبے میں ابھرنے والی خانہ جنگی کی سی کیفیت کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وفاق انہیں محض شطرنج کے مہروں کی سی حیثیت دیتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے بائیں بازو اور لسانی و ثقافتی قوتیں مل کر جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پنجاب کے لبرل عناصر نئے عمرانی معاہدے کے لیے کام کریں جس کے تحت پاکستان کی حدود میں تمام اقوام اور نسلوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق دیئے گئے ہوں۔ مذہبی انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں نفرت اور کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں ترقی پسند قوتیں جو کچھ دیکھنا چاہتی ہیں اس کی نفی ہو رہی ہے۔ لبرل عناصر پاکستان کے آئین کی اسلامی حیثیت پر معترض ہیں اور وہ اسے ملک کے وجود کے لیے خطرہ گردانتے ہیں مگر اب انہیں اس معاملے کو آگے بڑھ کر دیکھنا چاہیے۔ فوجی حکومتوں کی جانب سے اسلام ازم کی حمایت جاری رکھے جانے کے باعث ملک میں مذہبی انتہا پسندی پروان چڑھی ہے۔ اب اسے ریاست کے ساتھ ساتھ خطے میں غیر ملکی افواج کی موجودگی سے بھی فروغ مل رہا ہے۔ ملک کے سیاسی اور سماجی دھارے سے الگ ہو جانے والے عناصر کے خلاف کریک ڈائون سے مذہبی انتہا پسندی کو قابو کرنے میں کچھ مدد نہیں ملے گی۔ ایسے اقدامات سے اسلام کے انقلابی نظریات کی اپیل کم نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں علامات کے بجائے اسباب کو ختم کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔ محمد علی صدیقی نے بتایا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ مذہبی انتہا پسندی نہیں بلکہ عسکریت پسندی ہے جسے اسلامی نظریہ مل گیا ہے۔ طالبان اس کا بہترین نمونہ ہیں۔ امید ہے کہ پاکستان میں ’’نیو لیفٹ‘‘ تمام ترقی پسند قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ چند ایک امور میں اختلافی نکات موجود ہیں جن کے باعث اتفاق رائے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ جو لوگ لفظ ’’لیفٹ‘‘ کے بارے میں کوئی واضح تصور نہیں رکھتے وہ استعمار اور نیو لبرل پروگرام کے خلاف جدوجہد کا کھل کر ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ مگر خیر معنی خیز تبدیلی لانے کے لیے ہمیں کوئی شارٹ کے بجائے اسی راستے پر گامزن رہنا پڑے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۹ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply