
مصر میں ۵۲۹؍افراد کو سزائے موت سنائے جانے کا معاملہ اس قدر عجیب و غریب تھا کہ لگتا تھا یہ فیصلہ کسی اور زمانے یا کسی اور دنیا سے آیا تھا۔ اِخوان المسلمون کے ارکان کے خلاف مقدمہ درست ڈھنگ سے چلایا بھی نہیں گیا اور سزا سنا دی گئی۔ قاہرہ کی خصوصی عدالت کے جج سعید الگاذر نے جس ڈھنگ سے سزا سنائی اسے محتاط ترین الفاظ میں بھی سفاک ہی کہا جائے گا۔ عالمی برادری کا ردعمل وہی ہے، جو ہونا چاہیے تھا۔ قانون کے تمام تقاضوں کو نظرانداز کیا گیا۔ وکلاے صفائی کو اپنے موکلوں سے ملاقات اور مشاورت کی اجازت نہیں دی گئی۔ بہت سے وکلاے صفائی کو عدالتی حکم پر عدالت کے احاطے سے باہر نکال دیا گیا۔
اِخوان المسلمون کے جن ارکان کو سزا سنائی گئی ہے، اُن پر گزشتہ اگست میں مصر کے شہر منیا میں ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کرکے ایک پولیس افسر کو قتل اور متعدد کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔ اس حوالے سے شواہد بھی موجود نہیں اور نہ کوئی ثبوت ملا۔ ٹی وی چینلز نے ایک فوٹیج جاری کی تھی جس میں ایک پولیس افسر کو طبی امداد حاصل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس پولیس افسر کو لوگوں نے گھیر رکھا تھا۔ وکلاے صفائی نے بتایا کہ یہ فوٹیج شواہد کی مد میں عدالت کے سامنے نہیں لائی گئی۔
مصر میں بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ عدالت کے اس فیصلے پر عمل نہیں ہوسکے گا۔ صدر یا مفتیٔ اعظم اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر سب کو معافی دے دیں گے۔ مگر اس فیصلے کے سنائے جانے سے یہ اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں کہ مصر میں اس وقت نظامِ انصاف کس سطح پر ہے۔ مصر میں اپوزیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ اپوزیشن کو جس طریقے سے کچلا جارہا ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے اور قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ پولیس فورس جن لوگوں کو کچلنے کے لیے انتہائی سفاکی سے استعمال کی جارہی ہے، وہی لوگ ریاست کے لیے غیرمعمولی خطرے میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔
گزشتہ جولائی میں مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کے اقتدار کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے اب تک جو کچھ ہوتا رہا ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں۔ اِخوان المسلمون کے ۱۶؍ہزار ارکان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ جیلوں میں اُن پر تشدد کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ مقدمات تیزی سے چلائے اور نمٹائے جارہے ہیں۔ قانون کے تقاضوں کو بالاے طاق رکھ کر ملزمان کو دفاع کا حق بھی نہیں دیا جارہا۔ اِخوان المسلمون سے جو سلوک روا رکھا جارہا ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ جس پر اطمینان کا اظہار کیا جاسکے۔ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام کی بنیاد پر کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ریاستی مشینری کے اقدامات سے اخوان کے عام سے حامیوں اور ہم خیال لوگوں کے دلوں میں بھی تنظیم کے لیے نرم گوشہ پنپتا جارہا ہے۔
بہت سے مقدمات ایسے بھی ہیں جن کے چلائے جانے کا بظاہر کوئی جواز نہیں۔ میں نے ’’الجزیرہ‘‘ انگلش سے تعلق رکھنے والے تین صحافیوں کے مقدمے کی کارروائی بھی دیکھی ہے۔ ان پر اِخوان سے ہمدردی رکھنے کا الزام ہے۔ انہیں سزاے موت تو نہیں دی جاسکتی مگر ہاں قید کی سزا ضرور سنائی جاسکتی ہے۔ میرے سامنے وہ عدالت کے روبرو آئے اور کٹہرے میں کھڑے ہوئے۔ جو سکیولر مصری، فوجی حکومت کے جابرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، اُن سے بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا جاتا ہے، انہیں بھی گرفتار کرکے مقدمات چلائے جاتے ہیں۔
اب یہ الزام بھی کھل کر لگایا جارہا ہے کہ مصر کی عدلیہ اوپر سے آنے والے احکام کے مطابق فیصلے دیتی ہے۔ منیا میں پولیس افسر کے قتل کے مقدمے میں ۵۲۹؍افراد کو سزاے موت سنائے جانے کا معاملہ بھی کچھ اِسی نوعیت کا ہے۔ جج نے مقدمے کو باضابطہ انداز سے چلائے جانے سے قبل ہی اوپر سے آنے والی فون کال کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا۔ مصر میں فوجی حکومت، عدلیہ اور سکیورٹی کے ادارے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہوئے مخالفین کو زیادہ سے زیادہ شدت سے کچل رہے ہیں۔ حکومت کے کسی بھی فیصلے کے خلاف سڑکوں پر آنے کی اجازت نہیں۔ کیونکہ تمام مظاہرے اور ریلیاں غیرقانونی قرار دی جاچکی ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کے لیے جیلیں ہیں اور مقدمات ہیں۔
مصر کی ریاستی مشینری استحکام پیدا کرنے کے نام پر جو کچھ کر رہی ہے، اس کے بالکل برعکس نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ گزشتہ اگست میں قاہرہ اور دیگر مقامات پر کریک ڈاؤن کے دوران دو دن میں ۱۵۰۰ سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کئی شہروں میں پولیس کی اندھا دھند فائرنگ سے سیکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے۔ ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ استحکام پیدا کرنے کی اِن جابرانہ کوششوں سے ملک میں عدم استحکام بڑھا ہے۔ ریاستی مشینری کے خلاف لوگوں کے دلوں میں مزید نفرت پیدا ہوئی ہے اور وہ زیادہ عزم کے ساتھ دوبارہ میدان میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مصر میں اِخوان المسلمون کے ارکان کے خلاف جو کچھ کیا جاتا رہا ہے، اس پر عالمی برادری نے بالکل سرد مہری نہیں دکھائی۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے تحفظ کے دیگر علمبردار اداروں اور تنظیموں نے صداے احتجاج بلند کی ہے۔ قاہرہ انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن رائٹس اسٹڈیز کے محمد زری نے اِخوان المسلمون کے کارکنوں کو سنائی جانے والی سزاے موت کو قانون اور انصاف کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔
اِخوان المسلمون پر الزام ہے کہ اس نے ملک بھر میں سکیورٹی کے اداروں پر حملے کیے ہیں۔ کئی تنصیبات اور اہلکاروں پر حملوں کے لیے اِخوان کے کارکنوں کو براہِ راست موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے شواہد برائے نام ملے ہیں۔ اب تک بیشتر حملوں کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی ہے۔
مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ واضح طور پر اِخوان کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مصر کی ریاستی مشینری چاہتی ہے کہ مصر میں اِخوان کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہو۔ ایک ٹی وی اینکر نے اِخوان سے مخاطب ہوتے ہوئے کھل کر کہا کہ ہم تمہارے تشدد سے عاجز آچکے ہیں۔ اس نوعیت کی باتوں سے اِخوان کو یک طرفہ طور پر نشانہ بنائے جانے کا ثبوت ملتا ہے۔ کسی اور تنظیم یا جماعت پر اس نوعیت کا الزام اس طریقے سے عائد نہیں کیا جاتا۔ صرف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اِخوان کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ منیا میں مارے جانے والے پولیس افسر کی بیوہ سے انٹرویو کے دوران ’’تحریر‘‘ ٹی وی چینل نے اِخوان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ’’تمہاری جنگ کے باوجود ہم ملک کی تعمیرِ نو کریں گے‘‘۔
عوام کو کسی بھی معاملے میں احتجاج کے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ اِخوان کے کارکنوں کو سنائی جانے والی سزاے موت کے خلاف جن لوگوں نے سڑکوں پر آنے کی کوشش کی انہیں بھی بے دردی سے کچلا گیا۔ قاہرہ میں مظاہرے کے شرکا کو کچلنے کے لیے پولیس نے گولی چلادی جس سے ایک شخص جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ مصر کی فوجی حکومت کی طرف سے واضح اشارے ملے ہیں کہ وہ عوام کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کرکے مرضی کے مطابق ریاستی امور چلانا چاہتی ہے۔
حکومت عام شہریوں کو بھی ریاست کے دشمن کے طور پر برت رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام میں ریاستی مشینری کے خلاف اجنبیت اور نفرت بڑھے گی۔ جس معاشرے میں انصاف ممکن نہ ہو اور احتساب کا نظام بھی نہ پایا جاتا ہو، وہاں محض طاقت کے ذریعے کسی بھی طرح کی مزاحمت کو کچلنا ممکن نہیں ہوتا۔ مصر میں اس وقت ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے، جس میں ایک مضبوط مرکز موجود ہو، جو ریاست کی تمام اکائیوں کو عمدگی سے چلانے کی بھرپور صلاحیت اور سکت رکھتا ہو۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہر معاملے میں انتہا پسند سوچ رکھنے والے عناصر اپنی بات منوانے کے لیے زیادہ سے زیادہ تشدد پر مائل ہوتے رہیں گے۔
(لوزیا لو لگ مصر کے لیے ’’کرسچین سائنس مانیٹر‘‘ کی نمائندہ ہیں۔)
(“Legal massacre in Egypt by court verdict”… “Christian Science Monitor”. March 27, 2014)
Leave a Reply