
کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں ’’لیو طاہور‘‘ (قلبِ مَطہّر) فرقے کے یہودی اپنے بچوں کو طویل مدت سے سیکولر اسکولوں میں نہیں بھیج رہے تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ اسکول بچوں کے قلب، ذہن اور روح میں خرابی پیدا کر رہے تھے۔ یہ بچے اسکول کی رسمی تعلیم تو نہیں پا رہے تھے تاہم والدین یا تو خود پڑھا رہے تھے یا پھر ان کے لیے گھروں ہی میں اساتذہ، ٹیوٹرز اور اخلاقی تعلیم دینے والوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔
کیوبیک کے یہودی کوئی انوکھا کام نہیں کر رہے تھے۔ امریکا میں تیس لاکھ سے زائد افراد اپنے بچوں کو نارمل اسکولوں میں نہیں پڑھاتے۔ وہ جانتے ہیں کہ سیکولر اسکولنگ سسٹم ان کے بچوں کے ذہنوں میں بہت سی ایسی باتیں بھر دیتا ہے جو کسی بھی اعتبار سے ان کے مذہبی نظریات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
کیوبیک کی حکومت نے حال ہی میں حکم دیا ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کو گھر ہی میں تعلیم دے رہے ہیں، وہ انہیں سیکولر نظریات بھی پڑھائیں، تاکہ وہ ان نظریات سے مکمل طور پر بے بہرہ نہ رہیں۔ اس صوبے میں آباد یہودیوں کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ کیوبیک سے ہجرت کرجائیں۔
۱۸؍نومبر کو رات ایک بجے ۲۰۰ نفوس پر مشتمل ۴۰ یہودی گھرانے کیوبیک سے جنوب مغربی اونٹاریو کے قصبے چیتھم کینٹ روانہ ہوئے۔ گروپ لیڈر اور مذہبی پیشوا (ربی) شلومو ہلبرینز کے بیٹے نیچم ہلبرینز نے ٹورونٹو اسٹار کو بتایا کہ وہ صوبائی حکومت کی طرف سے سیکولر نصاب گھروں میں بھی پڑھانے کی پابندی کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے انتباہ کیا تھا کہ گھروں میں تعلیم کے دوران سیکولر نصاب نہ پڑھائے جانے کی صورت میں اِن یہودی بچوں کو حکومتی تحویل میں لے کر تعلیم دی جائے گی۔ اس کا نتیجہ بہت خطرناک نکلتا، اس لیے ان یہودی گھرانوں نے ہجرت کو ترجیح دی۔ دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق مسائل اُس وقت پیدا ہوئے جب شلومو ہلبرینز کے ایک بیٹے نیتھن کے بچوں کو انتظامیہ نے اُس سے الگ کرکے بعض گھرانوں کی تحویل میں دے دیا تاکہ وہ نارمل تعلیم حاصل کرسکیں۔ نیتھن نے کمیونٹی سے الگ ہونے میں عافیت جانی۔ اس نے اس سلسلے میں صوبے کی چائلڈ پروٹیکشن سروس سے بھی رابطہ کیا۔
نیچم ہلبرینز کا کہنا ہے کہ اپنی ہی بیوی اور بچوں کے خلاف ڈائریکٹر آف یوتھ پروٹیکشن سے شکایت کرنا اور وہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کہ آپ طاقتور ہیں، کمیونٹی میں پسندیدہ نہیں۔
کیوبیک میں آباد یہودیوں نے کینیڈا کے مختلف علاقوں میں آباد ہونے کے بارے میں سوچا اور بہت غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مذہبی گروپوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینے کے معاملے میں اونٹاریو کے قوانین میں خاصی لچک ہے۔ وہاں گھروں میں اسکولنگ کی بھی گنجائش ہے اور سیکولر نصابِ تعلیم سے بچنے کی گنجائش بھی۔ کیوبیک میں آباد یہودی برادریاں (بشمول مینونائٹس) اب اونٹاریو میں آباد ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں مینونائٹس ڈیکن کمیونٹی ایک سال تک کیوبیک کی وزارتِ تعلیم سے اس سوال پر لڑتی رہی کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے عقائد کے مطابق تعلیم دینا چاہتے تھے۔ تب سے اس کمیونٹی کی تیس خواتین اور بچوں نے کیوبیک اونٹاریو سرحد کے نزدیک الیگزینڈریا قصبے میں سکونت اختیار کر رکھی ہے تاکہ بچوں کی مذہبی عقائد کے مطابق تعلیم کی جاسکے۔
لیو طاہور فرقے کی ابتدا ۱۹۸۰ء کے عشرے کے اوائل میں اسرائیل میں ہوئی تھی، جب شلومو ہلبرینز نے نازی نظریات کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ ۱۹۹۱ء میں خلیج کی جنگ کے بعد شلومو ہلبرینز نے نیو یارک میں رہائش اختیار کی جہاں ایک نوجوان معتقد کے گھر سے بھاگ جانے پر شلومو ہلبرینز کے خلاف اغوا کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔ جیل سے واپسی کے بعد شلومو ہلبرینز نے اپنی کمیونٹی کو کینیڈا میں آباد کیا۔
لیو طاہور سے تعلق رکھنے والے مرد اور بچے تو خیر عام یہودیوں جیسے ہی حلیے کے ہوتے ہیں مگر اس فرقے کی خواتین کو دیگر یہودی خواتین سے واضح طور پر الگ دیکھا جاسکتا ہے۔ تین سال کی عمر ہی سے اس فرقے کی بچیاں سر سے پیر تک سیاہ پردے میں ہوتی ہیں۔ صرف چہرہ کھلا رکھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اس کمیونٹی کو طنز سے ’’یہودی طالبان‘‘ بھی کہتے ہیں مگر وہ لوگ اس کا برا نہیں مانتے۔ نیچم ہلبرینز کا کہنا ہے کہ اب جو لوگ اپنے مذہب کے راستے پر زیادہ سختی سے چلتے ہیں، انہیں آرتھوڈوکس کہا جاتا ہے جبکہ یہ اصطلاح یہودیوں کے لیے مختص تھی۔ اسی طرح اب طالبان کی ٹیگ بھی استعمال ہونے لگی ہے۔
مگر خیر، میں جب اونٹاریو کے مسلمانوں کو دیکھتا ہوں تو شرم آتی ہے کہ وہ مذہب پر پوری نیک نیتی کے ساتھ عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اب تک صوبائی حکومت کے بل نمبر ۱۳ (لازمی سیکولر تعلیم) کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اس نکتے پر بحث میں لگے ہوئے ہیں کہ عام اسکول سے ہٹ کر یعنی گھر میں تعلیم دینے کے کیا نقصانات ہوسکتے ہیں۔ بہت سے ائمہ اور کمیونٹی لیڈران نے سرکاری (سیکولر) اسکولوں کے حق میں بات کی ہے اور کنڈر گارٹن کی سطح سے بچوں کی برین واشنگ کے لبرل ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ سیاسی جماعتوں کے اجرت یافتہ کارکن اور اسلامی تنظیموں کے لبرل دربان ہیں۔
یہی وہ صورت حال ہے جسے دیکھتے ہوئے علامہ اقبالؔ نے کہا تھا:
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اونٹاریو کے سرکاری اسکول اب بچوں کے دل اور دماغ ہی نہیں، ان کی جنس تبدیل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اونٹاریو کے لیو طاہور یہودیوں نے مسلمانوں کو بہر حال طہارت کا راستہ دکھایا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سوں کے لیے یہ حیرت انگیز ہو مگر بہر حال حقیقت یہی ہے۔
(“Religious Jews’ migration from Quebec: A lesson for Ontario Muslims”… “dailymuslims.com”. Dec. 30, 2013)
Leave a Reply