تیونس جاگ اٹھا ہے!

کسی عرب ملک کا آمریت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا حیرت انگیز امر ہے کیونکہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ مفرور صدر زین العابدین بن علی کی تمام کرپشن کے باوجود تیونس نے معاشرے میں کھلے پن کو اپنانے اور معیشت کو بہتر بنانے کے حوالے سے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تعلیم کا معیار بلند ہوا ہے، خواتین کو قدرے آزادی ملی ہے اور انفرادی سطح پر معاشی استحکام کے اثرات دکھائی دیئے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اپوزیشن کا روایتی کردار ادا کرنے والے مذہبی عناصر حالیہ ہنگامہ آرائی اور تبدیلی کے دوران منظر سے غائب رہے ہیں۔ اگر ایک کروڑ چھ لاکھ نفوس پر مشتمل یہ ملک چند ماہ کے دوران صورت حال کو معمول پر لاکر انتخابات کے انعقاد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو عرب دنیا کے لیے ایک اچھی مثال قائم ہو جائے گی اور خطے میں جمہوریت کی راہ مزید ہموار ہوسکے گی۔

عرب لیگ کے ۲۲ ارکان میں سے صرف تین کے ہاں جمہوریت ہے اور وہ بھی ایسی نہیں جسے مثالی قرار دیا جاسکے۔ عراق میں جمہوریت تو ہے مگر سیاسی عدم استحکام کا یہ حال ہے کہ مارچ کے انتخابات کے بعد حکومت اب تشکیل دی جاسکی ہے۔ اور خود کش حملوں کا سلسلہ اب تک تھم نہیں سکا ہے۔ فلسطین میں جمہوریت دکھائی دیتی ہے مگر ملک دنیا کے نقشے پر دکھائی نہیں دیتا۔ لبنان میں جمہوریت ہے مگر ملک نظریات اور بصیرت کے اعتبار سے منقسم ہے۔ پندرہ دن قبل وہاں بھی حکومت کی بساط لپیٹی جاچکی ہے۔ ان کے سوا تمام ممالک میں یا تو سخت گیر آمریت ہے جیسا کہ لیبیا میں ہے یا پھر عوام کی بہبود پر توجہ دینے والی شخصی حکومتیں ہیں جیسا کہ قطر میں ہے۔ دیگر ممالک میں آمریت مختلف انداز سے کارفرما ہے۔ عرب دنیا کی آبادی ۳۵ کروڑ ہے۔ قدرتی وسائل کی بدولت دولت کی فراوانی ہے مگر عوام کو اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرنے کا حق حاصل نہیں۔

یہ بات پورے یقین سے کہی نہیں جاسکتی کہ عرب نسل کے لوگ جمہوریت کو اپنا ہی نہیں سکتے یا ان کے مزاج میں جمہوریت پائی ہی نہیں جاتی۔ یہ بات بھی کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ اسلام میں جمہوریت کی گنجائش ہی نہیں ہے یا یہ کہ جمہوری نظام حکومت اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ترکی کی مثال واضح ہے جہاں اسلامی طریق سیاست و معیشت پر یقین رکھنے والی جمہوریت تمام ضروری چیک اینڈ بیلنسز کے ساتھ حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک بھی اسلامی دنیا میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کے حوالے سے کسی حد تک مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر گزشتہ اٹھارہ ماہ کی صورت حال سے ہٹ کر سوچیں تو ایران نے مذہبی عناصر کی واضح گرفت کے باوجود اپنے عرب پڑوسیوں کے مقابلے میں زیادہ سیاسی آزادی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایران میں عوام حکومت کو منتخب ہی نہیں کرتے بلکہ سیاسی بحث میں حصہ بھی لے سکتے ہیں۔

تیونس میں جو کچھ ہوا ہے وہ ابھی خام شکل میں ہے۔ ’’جیسمین ریوولیوشن‘‘ کو حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار کرنے کے قابل ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔ زین العابدین بن علی کا زوال اور ملک سے فرار غیر معمولی حد تک خوں ریزی پر مشتمل نہیں تھا۔ ہاں، یہ سب کچھ اچانک ہوا جس پر مبصرین حیران ہیں۔ جن لوگوں نے زین العابدین بن علی کا تختہ الٹا ہے یا ان کے رخصت ہونے پر ملک کا نظم و نسق سنبھالا ہے ان کا وعدہ ہے کہ تمام سیاسی قیدی رہا کردیئے جائیںگے، میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی، سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا اور غیر جانبدار مبصرین کی نگرانی میں آزاد انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ مستقبل قریب میں تیونس میں معاملات کس کے ہاتھ میں ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ انتشار برقرار رہے۔ زین العابدین بن علی کے دور حکومت کی بہت سی شخصیات اب تک اقتدار میں ہیں اور عوام اس بات پر سخت نالاں ہیں۔ مفرور صدر کے دور کا سیکریٹ سروس سیٹ اپ، جس سے عوام بجا طور پر نفرت کرتے ہیں، شاید اب تک فوج کے خلاف ڈٹا ہوا ہے۔ فوج کے لیے عوام کی نظر میں خاصا احترام ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاملات درست کرنے کے لیے فوج میدان میں آ جائے۔ اپوزیشن اگرچہ میدان میںہے مگر اس کے پاس قیادت نہیں اور کوئی واضح پروگرام بھی نہیں کہ جو کچھ بھی ہوچکا ہے اب اس سے کیا حاصل کرنا ہے۔

عرب دنیا کے حکمران خاصے خوفزدہ ہیں۔ اور یہ خوف حیرت انگیز نہیں۔ انٹرنیٹ، موبائل فون اور ٹی وی چینل اب عوام کو حقائق سے زیادہ دیر دور نہیں رکھ سکتے۔ خطے پر طویل مدت سے راج کرنے والوں کو اب اپنے سنگھاسن ڈولتے محسوس ہو رہے ہیں۔ تیونس کی مثال سے آمروں کو اندازہ ہے کہ عوام میں سرگوشیوں کی شکل میں پیدا ہونے والی مزاحمت کس طرح راتوں رات عوامی انقلاب میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ مراکش، لیبیا، الجزائر، مصر۔۔ کون سا ملک ہے جہاں تیونس کے عوامی انقلاب کی گونج سنائی نہیں دے رہی۔ پورا خطہ تبدیلی کی بات کرنے لگا ہے۔ آٹھ کروڑ ۴۰ لاکھ کی آبادی کے ساتھ مصر شاید تبدیلی کی طرف زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہاں حالات نے وہ رخ اختیار کرلیا ہے جو انقلاب کی طرف لے جاتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کو حل کرنے اور اعتدال پسندی کو فروغ دینے کے حوالے سے مغرب کے لیے مصر بہت اہم رہا ہے۔ اگر مصر میں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو بہت کچھ تبدیل ہو جائے گا۔

مگر ابھی سے یہ اندازہ مت لگائیے کہ یاسمین کے پھولوں کی خوشبو سے پورا خطہ مہک اٹھے گا۔ عرب دنیا کے آمروں نے طویل مدت سے اپنے اندرونی سیکورٹی سسٹم پر انحصار کی روش اپنائی ہوئی ہے۔ دو عشرے قبل مشرقی یورپ میں جو کچھ ہوا تھا اس کی توقع عرب دنیا میں اس لیے نہیں کی جاسکتی کہ مشرقی یورپ غیر معمولی معاشی مشکلات سے دوچار تھا۔ سابق سوویت یونین کی تحلیل سے جو خلاء پیدا ہوا تھا اُسے پُر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا تھا۔ عرب دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ عرب حکمران آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالتے۔ انہیں اندازہ ہے کہ جمہوریت کو مکمل طور پر پنپنے کی گنجائش دینے کی صورت میں راتوں رات سب کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے۔

اسلام ازم کے حوالے سے بھی اب تک خاصا ابہام پایا جاتا ہے۔ تیونس میں رونما ہونے والی تبدیلی اب تک مجموعی طور پر سیکولر رہی ہے۔ اگر خطے میں اسلامی تحریک توانا ہوگئی اور بیلٹ بکس کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو کیا ہوگا؟ کیا اسلامی جماعتیں لوگوں کو حقیقی جمہوری حقوق دیں گی؟ اسی خوف نے مغرب کو اب تک عرب دنیا کے ان آمروں کی طرف دیکھتے رہنے پر مجبور کیا ہے جو خود بھی عوام کو جمہوری حقوق دینے سے گریزاں رہے ہیں!

اسلام سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اسلامی عناصر اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ، پارٹی اور جمہوریت۔۔ ہر چیز پر اللہ کی مرضی اور قرآن کی تعلیمات برتری رکھتی ہیں۔ عوام کو بھی اندازہ ہے کہ زین العابدین بن علی کی طرز حکومت کے مقابلے میں اسلامی عناصر کی حکومت زیادہ سخت گیر ہوگی۔ مصر میں اخوان المسلمون حقیقی اپوزیشن جماعت ہے اور اس نے مختلف تصورات کو اپنایا ہے، لچک دکھائی ہے۔ عرب دنیا میں لوگ دیکھ چکے ہیں کہ غیر اسلامی یا سیکولر عناصر نے بھی ان کے حالات بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا، ایسے میں انہیں اسلامی عناصر کے حق میں ووٹ ڈالنے کی آزادی ملنی چاہیے۔ دنیا کو یہ بہت خطرناک دکھائی دیتا ہے کہ اسلامی عناصر کو حکومت دی جائے مگر عرب دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ عوام کی رائے کو کچلنے سے متعلق اقدامات کے نتیجے میں اس سے کہیں زیادہ خراب صورت حال بھی جنم لے سکتی ہے۔

تیونس میں ہلچل ابھی صرف شروع ہوئی ہے۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ یہ کہاں ختم ہوگی۔ اس نے ابھی سے عرب دنیا میں پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ابھی بہت سی بھیانک تبدیلیاں رونما ہوں۔ مگر خیر کچھ بھی سہی، اس صورت حال کا خیر مقدم ہی کرنا چاہیے۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۲۲ جنوری ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*