
لفظ ’’لبرل ازم‘‘کا استعمال سب سے پہلے ۱۸۱۸ء میں فرانسیسی فلسفی مین دی بیران Maine de Biran نے کیا تھا۔ اس نے اس لفظ کا تعارف ’’ایک ایسے عقیدے کے طو ر پر کرایا تھا جو حریت وآزادی کا علم بردار‘‘ ہے۔ اس دن سے آج تک اس مفہوم کی تعریف و تشریح کے سلسلے میں اختلافات کا سلسلہ تھما نہیں ہے اور نہ یہ اختلاف ختم ہو سکا ہے کہ اس لفظ کے استعمال کو نظریاتی وسیاسی میدان تک وسعت دے دی جائے یا صرف اقتصادیات تک اس لفظ کے استعمال کو محدود رکھا جائے۔
اس طرح ’’لبرل ازم‘‘ مصر کے دانشوروں اور سیاست دانوں کے نزدیک تقریباً جمہوریت کا مترادف لفظ بن گیا، جب کہ امریکی نوجوان اسے تقریباً اس مفہوم میں لیتے ہیں جسے اسکینڈے نیوین ممالک میں اشتراکی جمہوریت کہا جاتا ہے، حالاں کہ دائیں بازو کے لوگ اس لفظ کو گالی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے۔ ہمارے نزدیک تولبرل ازم سے مراد ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، یعنی:
٭ وہ نظریہ جو یہ کہتا ہے کہ بہترین اقتصادیات کی تعمیر اس راہ سے ہو کر گزرتی ہے، جہاں حقِ ملکیت اور آزاد اقتصادی اقدامات دونوں کو تقدس کا مقام حاصل ہو۔ اقتصادی تعمیر کا عمل مقابلہ آرائی اور مارکیٹ کے وسائل (مارکیٹ میکانزم) کے زیرسایہ چلتا ہو اور حکومت کا دخل کم سے کم رہتا ہو۔
٭ سرمایہ دارانہ نظام ان تمام ’’مسلمات‘‘ کو بے شمار و لاتعداد پرائیویٹ کمپنیوں کے توسط سے زیرعمل لاتا ہے اور پانچ سو کمپنیوں کے اس پیرامڈ کی چوٹی پر وہ کمپنی براجمان ہے جس کی حکمرانی عالمی اقتصادیات پر ہے۔ جہاں تک اس نظام کے بنیادی ہدف کا تعلق ہے، تو وہ یہ ہے کہ صنعت کے کسی میدان میں اور صنعت سے متعلق کیسے بھی حالات میں انسانی اور ماحولیاتی قیمت کی ادنیٰ سی پروا کیے بغیر زیادہ سے زیادہ ممکنہ منافع حاصل ہو جائے۔ اس کے بعد اس منافع کے ایک حصے کو واپس استعمال میں لا کر مزید صنعت اور مزید منافع کے مواقع حاصل کیے جائیں اور یہ سلسلہ بلا انقطاع چلتا رہے۔
لبرل ازم کے بارے میں ہر طرح کی باتیں کہی گئی ہیں۔ اس نے کروڑوں لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنا دیا ہے، اس پر اس کی ستائش بھی کی گئی ہے اور اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے، اس پر اس کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک لاحاصل موضوع ہے، اس لیے ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے۔ ہمارے لیے تو وہ واحد سوال اہمیت کا حامل ہے جسے کسی بھی سیاسی یا اقتصادی نظام کا جائزہ لیتے وقت اٹھانا ضروری ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ اس سسٹم کا موجودہ حالات کے اندر اپنی موجودہ حالت میں برقرار رہنا ممکن ہے یا دیر سویر اسے زوال کا شکار ہونا ہے؟
سویڈن کے سیاسی نظام میں پارلیمانی جمہوریت کے جو بھی عیوب ہیں ان کے ساتھ اس پر نظر ڈالیے، لیکن تبدیلی کے جو وسائل اس کے پاس ہیں ان پر بھی نظر ڈالیے اور اقتدار کی منتقلی کے طریقے پر باہمی مفاہمت کے نتیجے میں جو استقرار اس نظام کو حاصل ہوا ہے اسے بھی سامنے رکھیے۔ عوام کی طرف سے جو قبول عام اسے حاصل ہوا ہے اسے بھی نظر انداز نہ کیجیے تو آپ یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ یہ نظام اس قابل ہے کہ طویل عرصے تک جاری رہ سکے۔
اب آپ مصر کے موجودہ نظام کو اس کے اندر پوشیدہ تمام ٹائم بموں کے ساتھ لیں۔ اس کے اندر داخلی اصلاح و تدارک کا جو فقدان ہے اسے بھی دیکھیں۔ اس کی معمولی سے بھی کم کارکردگی پر نظر ڈالنا آپ کے لیے کافی ہے۔ اس کو بھی نگاہ میں رکھیں کہ مصرکے سماجی طبقات کی جانب سے بڑے پیمانے پر اس نظام کو مسترد کیا جا رہا ہے اور اس کا دائرہ روز بروز وسیع ہو تا رہا ہے۔ آپ کو پیشگوئی کے لیے کسی منتر کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ تاریخ آپ کے اس دعوے کو جھٹلائے گی کہ مذکورہ نظام کے تعلق سے سوال یہ نہیں ہے کہ آیا یہ نظام زمین بوس ہوجائے گا؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ کب تک زمین بوس ہو جائے گا؟
آپ جب سرمایہ دارانہ نظام کا جائزہ لیں گے اور اِس وبا (کووڈ ۱۹) کی روشنی میں جائزہ لیں گے، جس نے اس پر ویسی ہی مار لگائی ہے جس طرح زلزلہ کسی پرشوکت عمارت کو برباد کر دیتا ہے تو آپ کے ذہن میں چند سوالات ابھر کر آئیں گے:
کیا لبرل ازم کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے پیداوار (Production) کے اس سلسلے کو جاری رکھ سکے، جس کے حلقے ٹوٹے ہوئے ہیں اور جسے انتہائی سَستی مزدوری پر پوری دنیا میں پھیلا دیا گیا ہے؟ چنانچہ جب دنیا پر ایک وبا (کورونا) نازل ہوئی تو پروڈکشن کا سلسلہ معطل ہو گیا اور لاکھوں مزدور بے روزگاری کے منہ میں ڈال دیے گئے؟
کیا لبرل ازم کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے وجود کو جاری رکھ سکے، جب کہ تمباکو، سوڈا (سافٹ) ڈرنک اور ڈبہ بند کھانوں کے میدان میں کام کرنے والی بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں پر صحت عامہ کے ماہرین کی جانب سے یہ الزام لگا ہوا ہے کہ یہ کمپنیاں کینسر، شوگر (ذیابیطس) اور امراضِ قلب پھیلا کر پیسہ کما رہی ہیں اور ان کے یہ پروڈکٹ لاکھوں انسانوں کی موت کا سبب بن رہے ہیں۔ آپ دوائیں اور اسلحے بنانے والی کمپنیوں کے سلسلے میں بھی یہی بات بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں۔
لبرل ازم کی علم بردار کمپنیوں نے زمین، آسمان اور سمندر کو زہر آلود کردینے والا جو کیمیاوی مواد تیار کیا ہے، اس کے ذریعے ماحولیات کو تباہ کر دینے کے باوجود بھی کیا لبرل ازم کے لیے یہ ممکن ہے کہ خود کو برقرار رکھ سکے؟
بین الممالک اور ہر ملک کے اندر طبقاتی خلیج کو اس طرح وسیع کر دینے کے بعد کہ دنیا کی ایک فی صد آبادی پچاس فی صد دولت پر قابض ہے، کیا لبرل ازم کے لیے اپنے وجود کو جاری رکھ پانا ممکن ہے؟ جب کہ اس تقسیم کو اس اعتبارسے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ نہ جانے کتنی ایسی جنگوں اور انقلابات کا بیج بو دیا گیا ہے جو کہیں بھی برپا ہو سکتے ہیں؟
کیا صنعت میں لگائے جانے والے سرمایے، اور اسٹاک ایکسچینج میں لگائے جانے والے سرمایے کے درمیان تفریق کردینے کے بعد بھی لبرل ازم کے لیے زندہ رہ پانا ممکن ہے؟ خیالی رفتار سے فائدے حاصل کرنے کے لیے سٹے بازی کرنے والے مٹھی بھر لوگوں کے لیے — جن میں اکثریت چوروں اور فریب سازوں پر مشتمل ہے— ایسی کون سی اقتصادی تدبیر ہے، جو کروڑوں انسانوں کے مصالح ومفادات سے اوپر ہوسکتی ہے کہ پلک جھپکتے ہی وہ اپنی جمع پونجی سے محروم ہوجائیں؟
کیا چین اور امریکا کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے ماحول اور کسٹم بارڈر کی واپسی کے خوف تلے لبرل ازم کے لیے جاری رہ پانا ممکن ہے؟ یہ کسٹم حدود بین الاقوامی کمپنیوں کے سامنے پابندیوں اور رکاوٹوں کا انبار لگانے والے ہیں جو واحد اوپن مارکیٹ کے لیے رکاوٹ پیدا کردیں گے۔
دنیا کی موجودہ صورت حال اور لبرل ازم کی معلوم تاریخ کے تناظر میں ان تمام سوالات کا ایک ممکنہ معروضی جواب یہ ہو سکتا ہے کہ کیوں نہیں؟ اس لیے کہ اگر اس کے زوال کے لیے وہ جرائم کافی ہوتے جو ماحولیات کے تعلق سے اس نے انجام دیے ہیں تو یہ نظریہ انیسویں صدی ہی میں اپنی آخری سانس لے چکا ہوتا۔ مغرب کے بڑے بڑے شہروں میں جدید صنعتوں سے پیدا ہونے والی آلودگی اس حد تک خطرناک ہوچکی تھی کہ طب (میڈیکل سائنس ) کی ایک نئی شاخ ’’پیشہ ورانہ طب‘‘ (occupational health) کو جنم لینا پڑا۔ حالانکہ یہ پیشے کے اثراتِ بد کی طب ہے، جس نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں تباہ کیں اور کررہی ہے۔
دوسری طرف اگر انسانیت کے تئیں اس کے جرائم ہی اس کے زوال و خاتمے کے لیے کافی ہوتے تو انتہائی اندازے کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں یہ لبرل ازم کا نظریہ دم توڑ چکا ہوتا۔ آج ہم ظلم کی اس انتہا کا اندازہ نہیں کر سکتے جو انیسویں صدی میں ان کروڑوں کسانوں پر روا رکھا گیا تھا جن سے ان کی زمینیں چھین لی گئی تھیں، جیسا کہ اسکاٹ لینڈ میں کیا گیا تھا، یا فرانس اور جرمنی کی مثالوں میں فقر وغربت نے ان کسانوں کو بارہ بارہ گھنٹوں سے زیادہ فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کر دیا تھا، جس کے عوض انھیں اتنی اجرت ملتی تھی کہ وہ اجرت زندگی کی رمق کو بمشکل باقی رکھ پاتی تھی۔
اسی لیے ۱۹۳۳ میں جب برطانیہ نے اپنی نوآبادیوں میں غلامی کو کالعدم قرار دیا تو یہ آواز بلند ہوئی کہ حکومت سفید فام غلاموں، یعنی برطانوی عوام کو بھی غلامی کے طوق سے آزادی دلانے کا آغاز کرے۔ اس مطالبے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں تھی، اس لیے کہ لبرل ازم مقامی مزدور طبقے کا اسی انداز سے استحصال کرتا تھا جس طرح کالونیوں کے غلاموں کا کرتا تھا اور جب سفید فام غلاموں کا یہ طبقہ کوئلے کی کانوں میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو کام پر لگانے کے خلاف آواز اٹھاتا تھا تو حکومت اس کے خلاف پُر امن مظاہرین کا قتلِ عام کرنے کے لیے خاص طور سے گھڑ سوار فوج روانہ کرتی تھی۔ اس قسم کا ایک واقعہ ۷۱۸۱ میں مانچسٹر کے سان پیٹرز فیلڈ میں پیش آیا تھا۔
اس صورت حال کے ساتھ اور انسانیت وماحول کے حق میں اپنے تمام تر جرائم کے باوجود بھی لبرل ازم حکومتوں کے خلاف بغاوت کی لہر کو عام کرنے اور گزشتہ دو صدیوں کے دوران مزدور طبقے کی قوت تدبیر وحکمت کے اظہار کے ذریعے باقی رہا۔ اس سلسلے میں خاص طور سے اس نے سیاسی وتہذیبی فیصلہ سازی کے مراکز سے مقابلہ آرائی میں مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اور مزدور طبقے کے قانونی وغیر قانونی مفادات کی حمایت میں ان مراکز پر اپنے اثرات کونمایاں کیا ہے۔
کیا لبرل ازم ۲۰۰۸ء کے بحران اور اس سے پہلے ۱۹۲۹ء کے بحران کے بعد صحیح وسالم بچ کر نہیں نکل آیا؟ لیکن اب ایسی کون سی بات ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ ’کورونا‘ وبا کے بعد جو محض وباؤں میں سے ایک وبا ہے، خواہ سب سے سنگین ہی سہی— لبرل ازم کا انجام مختلف ہوجائے گا؟
رسمی طور پر سوویت یونین کا خاتمہ ۲۶ دسمبر ۱۹۹۱ کو ہوا جب پہلی بار کریملین کی عمارت سے سوویتی جھنڈا اتار کر وہاں روسی جھنڈا لہرا دیا گیا۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اب بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ لبرل ازم کے شدید ترین دشمن کا یہ زوال لبرل ازم کے لیے ایک شاہی تحفہ تھا۔ لیکن عنقریب یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ ایک زہر آلود تحفہ تھا، اس لیے کہ توازن کو برقرار رکھنے والی کسی مزاحم قوت کے بغیر کوئی بھی نظام اس سبزی خور جانور کی طرح ہے جس کے آس پاس کے جانور غائب ہوچکے ہوں اور وہ اس تمام گھاس کو کھا جائے جو دوبارہ نہ اگتی ہو، اور آخر میں وہ جانور بھوک سے مرجائے۔
یہی معاملہ سیاسی واقتصادی نظاموں کا ہوتا ہے کہ جب کوئی ایسی قوت موجود نہ ہو جو انھیں توازن برقرار رکھنے پر مجبور کرے تو ان کے اندر غلو آجاتا ہے اور وہ نظام خود اپنی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں۔ کیا آج ہم بھی اسی صورت حال سے دوچار ہیں؟ ظاہر ہے نہیں، لیکن کافی سارے مسائل ایسے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ گھمنڈ اور خود پسندی کا زمانہ لد چکا ہے۔ اب تو مندر کے ذہین ترین پجاریوں نے زمین کو اپنے قدموں تلے محسوس کرنا شروع کردیا ہے۔
گزشتہ اگست کے مہینے میں امریکا کی ۱۸۱ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کا ایک ایسے عریضے پر دستخط کرنا کیا معنی رکھتا ہے جس میں انھوں نے یہ عہد کیا کہ وہ نہ صرف بانڈز کے مالکوں کے مفادات بلکہ مزدوروں اور سماج کے مفادات کو بھی اہمیت کی نگاہ سے دیکھیں گے؟ آج ہمیں امریکی رسالوں میں اس قسم کے مضامین پڑھنے کو کیوں مل رہے ہیں، جن میں مختلف انداز سے وہی سوال پیش کیا جا رہا جو ایک سال پہلے کیا جا رہا تھا کہ ہم سرمایہ داری کو مختلف انداز سے کیسے برتیں؟
گویا اس وقت لبرل ازم پر حد سے زیادہ یقین رکھنے والے طبقے کے اندر انتہائی تکلیف دہ جائزے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ شاید اس لیے کہ قوم کے سنجیدہ ترین لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کی خطرناکی — جو ہمارے درپے ہے اور جس کے ذمے دار کافی حد تک وہ خود ہیں — شاید زمین کو ہماری آئندہ نسل، بلکہ ہمارے بچوں کے لیے بھی رہنے کے لائق نہ چھوڑے۔
البتہ اس جائزے کے لیے ان کی تیاری کس معیار کی ہے اور اس جائزے کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ میں جو کچھ بین السطور پڑھ رہا ہوں وہ انتہائی تکلیف دہ اور دردناک ہے۔ وہ یہ ہے کہ حکومت کا کچھ نہ کچھ کردار تسلیم کیاجائے۔ یہ وہ ڈھانچہ ہے جس کے بارے میں ان کے مقدس قوانین یہ کہتے ہیں کہ اس ڈھانچے کو اقتصادی امور سے دور رہنا چاہیے۔ شاید اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہ ہو جو لبرل ازم نے پھیلایا ہے۔ اس نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ حکومت سے اس کا جو کچھ بھی مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ مثبت طور پر غیر جانبدار رہے اور اقتصادی اداروں کو اس دولت کی پیداوار کے لیے (آزاد) چھوڑ دے، جس کے ثمرات سماج کو حاصل ہونے والے ہیں۔
چنانچہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران جب آپ (حکومت اور اقتصادی معاملات کے درمیان) حقیقی تعلق کا جائزہ لیں گے تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ لبرل ازم نے حکومت سے ہر چیز طلب کی اور اس سے ہر چیز حاصل کرلی لیکن اس کے مقابل جو کچھ دیا وہ بہت کم ہے۔ حالاں کہ لبرل ازم کی عیش و پرورش، عزت مآب، بازار (مارکیٹ) یا انٹرپرینر شپ کے خفیہ دست شفقت کے طفیل نہیں ہوئی ہے بلکہ اسی حکومت کی حمایت کے طفیل ہوئی ہے جس سے اسے نفرت ہے۔ اسی لیے انیسویں صدی کے پورے دورانیے میں، جب کہ امریکا اور یورپ میں عالمی احتجاجوں کا سلسلہ نہیں رک رہا تھا، کمپنیاں حکومت سے فریاد کررہی تھیں اور حکومت انھیں اس دلدل سے نکالنے کے لیے اپنے سپاہی اور بعض اوقات فوج بھیج رہی تھی۔ بیسویں صدی کے مکمل عرصے میں بھی ہم نے یہ مشاہدہ کیا کہ کس طرح تیسری دنیا میں قائم مغربی کمپنیاں اپنے ممالک سے یہ فریاد کر رہی تھیں کہ غریب ممالک کے وسائل چوری کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔
اس طرح ایران کے اندر ۱۹۵۳ء کا انقلاب آیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ سستے پیٹرول کے خزانوں کو محفوظ رکھ سکیں۔ ۱۹۵۴ء میں گوئٹے مالا انقلاب کا سبب کیلے کی زراعت پر اجارہ داری کو برقرار رکھنا تھا۔ مصر کا ۱۹۵۶ء کا انقلاب اس لیے آیا تھا کہ نہرِ سوئس نام کی دودھیل گائے کو واپس حاصل کر لیا جائے۔ اور آخر میں چلّی کا انقلاب آیا، لیکن یہ آخری انقلاب نہیں ہے۔ وہاں کے منتخب صدر کو اس لیے قتل کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ملک کے وسائل کو بڑی کمپنیوں کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے عوام کے لیے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔
اکیسویں صدی ۲۰۰۸ء میں بھی ہم نے بینک کاری کا حماقت آمیز نظام دیکھا جو مکر وفریب کے ذریعے لوگوں کے مال پر ٹوٹا پڑا رہا اور آخر کارحکومت کے علاوہ اسے دیوالیے سے نجات دینے والا کوئی نہیں ملا۔ کم ازکم چین کے سلسلے میں یہ اعتراف کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس نفاق سے کام نہیں لیتا جو مغرب میں عام ہے۔ کیو ں کہ اس ملک کے اندر، بہت واضح انداز میں نہ سہی، حکومت اور لبرل ازم کے درمیان یہ رشتہ موجود ہے کہ حکومت لبرل ازم کی مکمل طور پر خدمت کرے گی اور لبرل ازم مکمل طور پر حکومت کا تابع دار رہے گا۔
لہٰذا حکومت کی ’’واپسی‘‘ پر گفتگو کا کوئی مطلب نہیں ہے، اس لیے کہ حکومت اس کھیل سے ایک دن کے لیے بھی غائب نہیں رہی ہے، بلکہ زیادہ تر ممالک میں— ان ممالک میں جو لبرل ازم کے پیروکار ہیں — حکومت کی حیثیت رکھوالی کرنے والے کتے کی سی ہے کہ جیسے ہی سیٹی بجائی خطرہ بننے والے کے خلاف حملے اور (مالک کے) دفاع کے لیے حاضر ہوجاتا ہے، یا اس کی مثال ایسی ہے جیسے آنتوں سے چپکے ہوئے کیڑوں کے لیے جسم کی ہوتی ہے کہ وہ کیڑے آنتوں کی طاقت کو چوستے رہتے ہیں لیکن بدلے میں کسی قوت و طاقت کا اضافہ نہیں کرتے۔
گفتگو کو مزید جاری رکھنے سے پہلے بطور یاددہانی یہ بتا دوں کہ حکومت — اپنے خاص تکنیکی مفہوم کے اعتبار سے — چند ڈھانچوں (اسٹرکچرز) اور اداروں کا نام ہے۔اس کے پاس انسانی، مادی اور معلوماتی وسائل ہوتے ہیں۔ اس کا محرک سیاسی نظام ہوتا ہے اور بنیادی ہدف مفاد عامہ کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف لبرل ازم ان کمپنیوں کا مجموعہ ہے جن کے پاس انسانی، مادی اور معلوماتی وسائل ہوتے ہیں۔ ان کی باگ چند اشخاص اور مجالس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ان کا بنیادی ہدف مخصوص مفادات کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ شاید یہ کہنا ناانصافی ہوگی کہ ان دونوں مفادات کے درمیان ہمیشہ تصادم رہا ہے، لیکن میں اس نعرے کو ہر گز نہیں جھٹلاؤں گا کہ ’’جو جنرل موٹرز کے مفاد میں ہے وہ امریکا کے مفاد میں ہے‘‘۔
جو چیز دنیا اور انسانیت کے مفاد میں ہے اس سے آج ہر شخص واقف ہے: کوئلے اور گیس کی کانوں کو بند کر دیا جائے، تباہ کن کیمیاوی مادوں کو ممنوع کر دیا جائے، دوا ساز کمپنیوں کو قومی تحویل میں دے دیا (قومیا دیا) جائے تاکہ وہ وہی دوائیں بنائیں جن کی دنیا کو ضرورت ہے نہ کہ وہ دوائیں جو بینکوں کے حساب سے بنائی جاتی ہیں، بانڈز سے متعلق معاملات پر سخت قیود اور پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ ۲۰۰۸ء کا مالی بحران نئے سرے سے جنم نہ لے سکے، سوڈا مشروبات (سافٹ ڈرنک)، ڈبہ بند کھانوں اور تمباکو کو ممنوع کیا جائے یا ان پر کمر توڑ ٹیکس عائد کردیا جائے، گلوبل وارمنگ کو کم کرنے میں برازیل، کونگو اور انڈونیشیا کے جنگلات کی اہمیت کے پیش نظر انھیں بین الاقوامی حفاظت میں دے دیا جائے، اوراس سے ان ممالک ومقامی باشندوں کو لکڑی کی صنعت میں ہونے والے خسارے کا معاوضہ دیا جائے۔
اسی طرح پورے قطب شمالی کو ان بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائے، جو اس علاقے میں گیس یا پیٹرول سے متعلق کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کو ممنوع قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ جب وہاں گلوبل وارمنگ آلودگی کے راستے کھول دے تو جہازرانی کو بھی ممنوع قرار دیا جائے اور ان اقدامات سے پیدا ہونے والی بے روزگاری کو مالی تعاون فراہم کیا جائے، ایسا مستحکم اقتصادی نظام قائم کیا جائے جو صاف ستھری توانائی پر مرکوز ہو، یعنی ایک حد سے بڑھ جانے والی دولت پر ٹیکس عائد ہو، بڑی بڑی کمپنیوں مثلاً گوگل، امازون، فیس بْک اور ایپل پر ٹیکس عائد کیا جائے اور دنیا بھر میں ٹیکس سے بچنے والی ان پناہ گاہوں کو بند کر دیا جائے، جو چوری کیے ہوئے ٹیکس کا سب سے بڑا خزانہ ہیں اور بڑے بڑے ممالک تک جس کا شکار ہیں۔
آپ جب اس فہرست پر نظر ڈالیں گے تو اس کے نفاذ کا عدمِ امکان آپ پر واضح ہو جائے گا، کیو ں کہ لبرل ازم اس قسم کے اقدامات اور کارروائیوں کے ذریعے اپنے خاتمے کے مقابلے میں دنیا کے خاتمے کو پسند کرے گا۔ لیکن کم از کم کیا یہ ممکن ہے کہ اس میں بعض بہتریاں لے آئی جائیں؟ اس لیے کہ اگر کسی چیز کا کوئی ایک جز قابل اخذ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پورے حکم کو ہی چھوڑ دیا جائے۔
بلکہ لبرل ازم کی اس جونک کا مقابلہ کرنے کے لیے وسیع بین الاقوامی اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے کسی بھی کام سے کس چیز نے روکا ہے جب کہ ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ یورپی اتحاد خود اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے۔ آج کون سی حکومت ہے جو — مقامی سطح پر ہی سہی — اپنے باشندوں کی صحت اور وسائل صحت کی حفاظت کے سلسلے میں اقدامات کرنے کی ہمت رکھتی ہے؟ اس کا یہ اقدام اسے فوراً ان بڑی کمپنیوں کے بالمقابل لاکھڑا کرے گا، جو ماحولیات اور انسان کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔
فطری طور پر اسی طرح کی ایک وطن پرست اور جمہوری حکومت کا ہونا ضروری ہے، جو مفاد عامہ کو ہر چیز پر فوقیت دے، لیکن آج جمہوریت کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اسی لبرل ازم کا مقابلہ کرے جسے اکثر مواقع وحالات میں خود اسی نے گھڑا اور اسے اپنے تابع وفرماں بردار بنا کررکھا ہے؟ دراصل یہ وہ تکلیف دہ جائزے ہیں جن کا سامنا عنقریب جمہوریت کو کرنا ہوگا اگر وہ یہ نہیں چاہتی کہ اسی طرح غرق ہو جائے جس طرح ایک دن لبرل ازم کوغرق ہونا ہے اور، خدا نہ کرے، اسی کے ساتھ ہم سب بھی غرق ہوجائیں۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ اکتوبر ۲۰۲۰ء)
Leave a Reply