
دنیا پر عظیم ترین اثرات ڈالنے والے مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے جب اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرنا شروع کیا تو ایک وقت وہ بھی آیا کہ مسلمان مغلوب ہوتے چلے گئے، دنیا کی باگ ڈور ان کے ہاتھ سے لے لی گئی اور وہ تنزل کا شکار ہوئے۔ وجہ یہ کہ وہ اپنے مقصد وجود سے ناواقف ہوچلے تھے۔ اور یہ واقعہ کل کا نہیں آج کا ہے۔ان حالات سے نبٹنے کے لیے لازم ہے کہ مسلمان اسلام سے بخوبی واقف ہو ں۔ نیز کفر و جاہلیت سے بھی مکمل واقفیت لازم ہے۔تاکہ جہالت جس لباس اور جس رنگ میں بھی ظاہر ہو اس کو پہچان لیا جائے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے: ’’مجھے خطرہ ہے کہ وہ شخص اسلام کی کڑیاں بکھیر دے گا جس نے اسلام میں نشو ونمو پایا اور جاہلیت کو وہ نہیں پہچانتا‘‘۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مسلمان زمان و مکاں کے حدود کی پابندیوں سے اوپر اٹھ کرصراط مستقیم پر قائم رہیں۔نیز وہ اتنی ذکاوت و مستعدی اور علم رکھتے ہوں اور محنت کرنے کے لیے تیار ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جو طبعی قوتیں پیدا کی ہیں، اور زمین میں دولت و قوت کے جو چشمے اور دفینے رکھ دیے ہیں، ان سے کام لیتے ہوئے اِن کو اسلام کے مقاصد کے لیے مفید بناسکیں۔
آج دنیا کے مختلف ممالک دو بڑے نظریات کی یلغار سے دوچار ہیں۔ ان میں ایک لبرل ازم ہے تو دوسرا سیکولرازم۔ ضرورت ہے کہ اس فکری یلغار کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے تاکہ زندگی کے تمام ہی شعبہ جا ت؛دین و مذہب، اخلاق، سماج، تعلیم، معاش اور سیاست اس کی خباثت سے نکل کر انسانوں کو حقیقی زندگی پر عمل کرنے میں معاون و مددگار ہوں۔ ساتھ ہی سرمایہ دارانہ استعمار اور ’’انتہا پسندی‘‘ و ’’دہشت گردی‘‘ جیسے مذموم نعروں کی آڑ میں مظلومین کا بڑے پیمانہ پر جوآج استحصال جاری ہے اُس پر قابو پایا جاسکے۔ گرچہ کمیونزم اور سوشلزم کو شکست ہو گئی ہے اس کے باوجودمذکورہ دونوں نظریات اپنی نوع کے اعتبار سے اصل نظریات نہیں ہیں بلکہ لبرل اِزم اور سیکولرازم کے ہی محض فروع ہیں۔ ان حالات میں مسلم ممالک ہوں یا دیگر،دونوں ہی لبرل ازم اور سیکولرازم کی جکڑ بندیوں میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کے بیشتر سیکولر حکمراں ذاتی مفادات کے پیش نظر مغربی طاقتوں کے ہمنوا بلکہ آلۂ کاربنے ہوئے ہیں۔ وہیں دوسری جانب مسلمانوں کی اکثریت لبرل اِزم اور سیکولرازم کو نہ سمجھنے کے باعث اس لڑائی کو ایک گومگو کی حالت میں دیکھ رہی ہے۔ لبرل ازم اور سیکولرازم کے وہ علَم بردار جو مسلمان ممالک کے شہری ہیں عوام الناس کو دھوکے میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ خدا، رسول، قرآن اور اسلام کا نام لیتے ہیں مگر عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے بِدکتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور سیکولر یا لبرل ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ سیاسی، ادبی، صحافتی اور ثقافتی حلقوں میں اثر و نفوذ رکھتے ہیں اور ذرائع ابلاغ اور حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے نہایت آہستگی اور خاموشی کے ساتھ معاشرے کے تمام شعبوں سے خدا اور اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سیکولرازم کی ساخت کے عین مطابق یہ سیکولر حکمراں یا دانش ور مسلمانوں کے عقائد، مراسمِ عبودیت اور رسوم و رواج کی نہ صرف یہ کہ مخالفت نہیں کرتے بلکہ خود بھی ان کو اختیار کر کے عوام کو اپنے متعلق پکے مسلمان ہونے کا تا ثر دیتے ہیں اور مسلمان ہیں کہ ان سے لگاتاردھوکا کھا ئے جا رہے ہیں۔
لفظ ’لبرل‘، قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ ’لائیبر‘ (Liber) اور پھر ’لائبرالس‘ (Liberalis) سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے”آزاد، جو غلام نہ ہو”۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کے معنی ایک آزاد آدمی ہی تھا۔بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔اٹھارہویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس کے معنوں میں خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی، یعنی اب لبرل سے مراد ایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو، اور لبرل اِزم سے مراد اسی آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ و نظام اوراخلاق و سیاست ہوا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے۔ یہ تبدیلی اٹلی سے چودھویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والی تحریکِ احیاے علوم (یعنیRebirth of Renaissance) کے اثرات یورپ میں پھیلنے سے آئی۔برطانوی فلسفی جان لاک (۱۶۲۰۔۱۷۰۴ء) پہلا شخص ہے جس نے لبرل اِزم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرزِ فکر کی شکل دی۔یہ شخص عیسائیت کے مروّجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ بنی نوعِ انسان کو آدم کے اس گناہ کی سزا ایک منصف خدا کیوں کر دے سکتا ہے جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔عیسائیت کے ایسے عقائد سے اس کی آزادی اس کی ساری فکر پر غالب آگئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔ انقلابِ فرانس کے فکری رہنما والٹئیر (۱۶۹۴۔۱۷۷۸ء) اور روسو (۱۷۱۲۔۱۷۷۸ء) اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھے مگر فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے۔ انھی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلابِ فرانس کے بعدفرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفّظ دیا گیا اور اسے ریاستی اْمور کی صورت گری کے لیے بنیاد بنا دیا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا، وکی پیڈیا اور اوکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق امریکا کے اعلانِ آزادی میں بھی شخصی آزادی کی ضمانت جان لاک کی فکر سے متاثر ہو کر دی گئی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں خدا، حیات بعد الموت اور دین اسلام کی دنیاوی امور سے متعلق تعلیمات کے بارے میں آج جو بے اطمینانی پائی جاتی ہے، اس کا سرچشمہ یہی یورپ کی خدا سے برگشتہ فکر ہے جس کی ذرا سخت قسم لبرل اِزم اور کچھ نرم سیکولر اِزم ہے۔ یہ لبرل ازم اور سیکولرازم ہی ہے جس نے موجودہ دور کے عصری تعلیمی اداروں میں ’’تصور وحی کی نہی‘‘ جیسے تعلیمی نظام کو فروغ دینے پر مجبور کیا ہے۔ نتیجتاً ہر خاص و عام، مادیت اور نفسانی خواہشات میں مبتلا ہوگیا۔
آج امت کو درپیش مسائل کا واحد راستہ یہی ہے کہ حقائق اور واقعات کا جرات و دور اندیشی اور صحیح دینی روح وبصیرت کے ساتھ سامنا کیا جائے۔ دین کی صحیح تعلیم کے مطابق ہمہ گیر، صالح اور ضروری تبدلی کے لیے صدقِ دل اور اخلاص نیت کے ساتھ کوشش کی جائے۔ جن چیزوں کا ازالہ اور سدّ باب ضروری ہو ان کا سدباب کیا جائے اور جن اصلاحات کا نفاذ اور جن اسکیموں کا آغاز ضروری ہو، ان کے آغاز میں دیر نہ کی جائے۔ اسلام، قرآن اور سنت رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی روشنی میں اسلامی حدود کے مطابق معاشرہ میں مساوات اور انصاف قائم کیا جائے۔ نئی نسل میں ایک طرف ایمان و یقین، اخلاقی قوت، استقامت، خود اعتمادی و خودداری،اپنے دین پر غیر متزلزل یقین اور اس کے لیے جذبۂ قربانی ہو۔ تو وہیں دوسری طرف قوتِ ایجاد، فکری استقلال، بلند ہمتی اور اولوالعزمی پیدا کرنے اور جرأت و ذہانت کے ساتھ مغرب کا مقابلہ کرنے کا جوہر اور اوصاف پیداکیے جائیں۔اس کے لیے لاز م ہے کہ ہر باشعور مسلمان ایک پھر تجدید شہادت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے منظم سعی و جہد کا آغاز کرے۔
اچھی کاوش ہے