لیبیا اور اُس کے ’’انتہا پسند‘‘

Libya and its Extremists Passing the Buck

لیبیا میں صورت حال اب تک معمول پر نہیں آسکی ہے۔ نیا حکومتی ڈھانچا قائم کیا جارہا ہے مگر سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی بہتری سے زیادہ یہ ہے کہ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں پر کس طرح قابو پایا جائے۔ لیبیا کا دارالحکومت ٹریپولی بھی، دوسرے بڑے شہر بن غازی کی طرح خاصا جوشیلا اور غیر متوقع ہے۔ کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ کب کیا ہو جائے۔ بن غازی میں ۱۱؍ ستمبر کو گستاخانہ امریکی فلم کے خلاف احتجاج کے دوران امریکی سفیر اور تین دیگر امریکیوں کو امریکی قونصلیٹ میں قتل کردیا گیا تھا۔ اس واقعے کے ایک دن بعد وزیراعظم کے منصب پر منتخب ہونے والے مصطفی ابوشغور (Mustafa Abushagur) نے اب تک کابینہ تشکیل نہیں دی ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ امریکی سفیر اور تین دیگر امریکیوں کے قاتلوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے کے حوالے سے کوئی حکم جاری نہیں کر پائے ہیں۔ امریکی سفیر اور دیگر امریکیوں کے قتل کی بیشتر لیبیائی باشندوں نے مذمت کی ہے مگر اب تک واضح نہیں کہ قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے تک لایا جاسکے گا یا نہیں۔ لیبیا کی آنے والی حکومت پر اس حوالے سے خاصا شدید دباؤ ہوگا۔

عبوری وزیر داخلہ اور ان کے نائب، جو اب تک نگراں سیٹ اپ کے مرکزی کرداروں میں سے ہیں اور طاقت بھی رکھتے ہیں، اب تک طے نہیں کر پائے کہ امریکی سفیر کو کس نے قتل کیا اور کیا قاتلوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے یا گرفتار کیا جانا چاہیے۔ وزارتِ داخلہ، بن غازی پولیس اور سپریم سکیورٹی کونسل سبھی اپنے سر سے یہ بلا ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری قبول کرنے اور انصاف کی فراہمی کی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔ پارلیمان کے اسپیکر اور ملک کے عبوری سربراہ محمد مغاریف نے امریکی سفیر کے قتل کی مذمت کے حوالے سے بہت واضح موقف اختیار کیا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ الانصار الشریعہ کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ بیشتر لیبیائیوں کا خیال ہے کہ اس گروپ نے امریکی سفیر کو قتل کیا ہے۔

لیبیا میں حالت یہ ہے کہ اب تک سکیورٹی فورسز اور جہادیوں کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ الانصار الشریعہ کا کہنا ہے کہ وہ ہر سطح پر لڑنے کے لیے تیار ہے۔ بن غازی کے الجالہ ہسپتال پر اس گروپ نے قبضہ کر رکھا ہے۔ وہاں اس کے دو سرکردہ ارکان کا علاج ہو رہا ہے۔ فوج اب تک ان زخمیوں کو گرفتار نہیں کرسکی۔ اسے الانصار الشریعہ کی طرف سے غیر معمولی مزاحمت کا سامنا ہے۔

محمد مغاریف کا کہنا ہے کہ الانصار الشریعہ اور القاعدہ کے درمیان گفت و شنید سنی جاچکی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الانصار الشریعہ کی قیادت القاعدہ کی مدد سے ’’مغرب‘‘ میں شرعی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ الانصار الشریعہ کی سرکوبی کے لیے بچے کھچے فوجی دستوں کو تعینات کردیا جائے۔

آرمی چیف آف اسٹاف یوسف مدغوش (Yousef Mangoush) جن کا سبھی احترام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ جو لوگ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ طویل مدت سے فوج میں خدمات انجام دینے والے کمانڈر جنرل حامد بالخیر نے، جو بن غازی میں آخری فوجی گیریژن کے سربراہ بھی ہیں، کہا ہے کہ وہ کسی بھی ملیشیا کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہیں۔ جہادیوں کے مخالفین نے، جن میں شہری حقوق کے کارکن اور طلبہ سر فہرست ہیں، کہا ہے کہ وہ بہت جلد الانصار الشریعہ کے خلاف اس کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے مظاہرہ کریں گے تاکہ حکومت و ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے باز رہنے کے لیے دباؤ بڑھایا جاسکے۔

اگر نئی حکومت اپنی اتھارٹی کو منوانا چاہتی ہے تو لازم ہے کہ جہادیوں پر قابو پاکر دکھائے۔ فوج اور نیشنل شیلڈ (کرنل معمر قذافی کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے یونٹ) چاہتے ہیں کہ بن غازی کی تین میں سے ہر ملیشیا کو ختم کردیا جائے۔ دو ملیشیا کا خاتمہ تو خاموشی سے ہوگا مگر الانصار الشریعہ کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ واضح نہیں کہ اس کے ارکان کو عام معافی ملے گی یا ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ یہ بھی طے نہیں کہ پولیس اس ملیشیا کے ارکان کو گرفتار کرنے کی کوشش کرے گی یا نہیں۔ محمد مغاریف کا کہنا ہے کہ الانصار الشریعہ کے بارے میں حکومت جو رویہ اختیار کرے گی وہی حقیقی تبدیلی کے حوالے سے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا۔ اگر جہادیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی ہوئی تو لیبیا میں کمزور جمہوریت کے لیے زندہ رہنا انتہائی دشوار ہوگا۔

“Libya and its Extremists Passing the Buck”… “The Economist”. Sep. 22nd, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*