
اسلامی شدت پسند گروہوں کے حوالے سے پائے جانے والے خطرے نے بظاہر ہفتار کی اُن کوششوں کو توانائی بخشی ہے، جو وہ اقوام متحدہ کے تحت شرفِ قبولیت سے ہم کنار قومی اتفاق رائے کی حکومت کے قیام کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں ملک بھر میں برپا ہونے والی شورش کے نتیجے میں لیبیا جن خرابیوں سے دوچار ہے اُنہیں اب سات سال ہونے کو آئے ہیں۔ جب کرنل معمر قذافی کا اقتدار ختم ہوا تب بہت سوں کو امید تھی کہ اب لیبیا ایک ایسی ریاست کی حیثیت سے ابھرے گا، جہاں آزادی بھی ہوگی اور سب کو قبول کرنے کا احساس بھی۔ ٹریپولی میں قائم قومی اتفاق رائے کی حکومت، جس کے قائد فیاض السراج ہیں، لیبیا کی سالمیت برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ کئی ایسے سنگین مسائل اور ایشوز ہیں جو لیبیا کو جمہوریت کی طرف جانے سے روک رہے ہیں۔ کئی مسلح انتہا پسند گروپ ملک کے مختلف علاقوں پر قابض ہیں اور کسی بھی طور پسپا یا اپنے زیر تسلط علاقوں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ ان گروہوں کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال ملک کو حقیقی اور دیرپا سیاسی استحکام کی طرف جانے سے روک رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ قومی اتفاق رائے کی حکومت اور اس کی اتحادی ملیشیاؤں نے ملک کے مغربی علاقوں پر اپنا تصرف قائم کر رکھا ہے، جبکہ قذافی دور کے کمانڈر خلیفہ ہفتار نے ملک کے بہت سے مشرقی علاقوں کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ ان کے علاوہ بھی چند اسلامی گروہوں سمیت متعدد گروہ ہیں جو بڑے شہروں اور ملک کے جنوبی علاقوں میں غیر معمولی اثر رکھتے ہیں۔
اس وقت لیبیا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ وہ اسلامی گروہ ہیں، جو ایک مضبوط اور باقاعدہ مرکزی حکومت کے نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پوزیشن تیزی سے مستحکم کر رہے ہیں۔ کرنل معمر قذافی کے دور میں اسلامی گروہوں کو زیادہ ابھرنے کا موقع نہیں ملتا تھا کیونکہ اُنہیں کنٹرول کرنے کے لیے طاقت کا بے محابا استعمال کیا جاتا تھا۔ قومی اتفاق رائے کی حکومت کی کمزوری اور اسلامی گروہوں کے خلاف متحرک ہونے کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ نے خلیفہ ہفتار کو وہ ملیشیا متحرک کرنے کی تحریک دی ہے، جو قومی اتفاق رائے کی حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج کا درجہ رکھتی ہے۔ لیبیا کو کئی مسائل کا سامنا ہے، جن میں سلامتی یقینی بنانا اور ملک کو واضح سیاسی سمت فراہم کرنا نمایاں ہیں مگر اب اِن سمیت تمام مسائل کو ثانوی نوعیت کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ اس وقت ساری توجہ اسلامی شدت پسند گروہوں کو کنٹرول کرنے پر مرکوز رکھی جارہی ہے۔ اسلامی گروہوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ لیبیا ہی کے نہیں بلکہ مصر سمیت پورے خطے، بلکہ یورپ کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلیفہ ہفتار کو تیل کی دولت سے مالامال علاقوں میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کا موقع ملا ہے۔ مصر کو یہ خوف لاحق ہے کہ لیبیا میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتِ حال اور نراجیت اُس کے سینائی کے علاقے میں خرابیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ دوسری طرف صحرائے صحارا کے زیریں خطے میں واقع ممالک میں بھی اسلامی شدت پسندوں کے ابھرنے کا خطرہ برقرار ہے۔ یہ فرانس کی افریقا پالیسی کے لیے انتہائی خطرناک سمجھا جارہا ہے۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری یورپی طاقتوں کے لیے خارجہ پالیسی کے حوالے سے اہم ایشوز ہیں۔ لیبیا میں غیر معمولی دلچسپی لینے والی یورپی طاقتوں میں فرانس اور اٹلی نمایاں ہیں۔
لیبیا میں قومی اتفاق رائے کی حکومت اور خلیفہ ہفتار کی قیادت میں قائم سیاسی سیٹ اپ کے درمیان کشمکش جاری ہے اور بہت سی بیرونی قوتیں اسلامی گروہوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت اور دیگر معاملات میں خلیفہ ہفتار کی ملیشیا پر زیادہ انحصار پذیر دکھائی دے رہی ہیں۔ خلیفہ ہفتار کو قومی اتفاق رائے کی حکومت سے لڑنے کے حوالے سے مصر، متحدہ عرب امارات اور فرانس سے اسلحہ، عسکری تربیت اور انٹیلی جنس سے متعلق معاملات میں غیر معمولی مدد ملی ہے۔ مصر، متحدہ عرب امارات اور فرانس کی طرف سے غیر معمولی معاونت ملنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لیبیا میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قومی اتفاق رائے کی حکومت کے مقابل اُس کی بہت سی قابلِ اعتراض سرگرمیوں پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکی ہے اور اس کے برعکس حقیقت تو یہ ہے کہ قومی اتفاق رائے کی حکومت نے جب بھی خلیفہ ہفتار کی قیادت میں کام کرنے والی ملیشیا کے خلاف کچھ کرنا چاہا ہے تو اُس پر بیرونی طاقتوں نے تنقید کی ہے۔ خلیفہ ہفتار کی ملیشیا کے ہاتھوں انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں سے بھی صرفِ نظر کیا جانا عام ہے۔ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خلیفہ ہفتار کی ملیشیا کو سلافیوں کی بھی حمایت حاصل ہے جبکہ بیشتر بیرونی قوتیں لیبیا کے معاملات میں ایسے گروہوں کی مداخلت پسند نہیں کرتیں۔
لیبیا کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کوئی راستہ متعین کرنے میں بیرونی قوتیں بھی کلیدی کردار اداکرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، مگر اس کردار کو زیادہ تسلیم کیا گیا ہے نہ سراہا گیا ہے۔ بیرونی قوتوں نے کرنل معمر قذافی کا اقتدار ختم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا اور اُس کے بعد سیاسی استحکام پیدا کرنے کی کوششیں بھی بہت کی ہیں۔ خلیج، عرب اور شمالی افریقا پر مشتمل خطے میں سیاسی محاذ آرائی چند عشروں سے عروج پر ہے۔ خلیجی مجلس تعاون اور سعودی عرب وغیرہ ایک طرف ہیں جبکہ دوسری طرف ایران ہے جبکہ اِن دونوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ترکی بھی خلیج اور شمالی افریقا کے خطے میں اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ مزید وسیع کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ لیبیا جیسے عرب اسلامی نیچر کے حامل افریقی ممالک میں خطے کے بڑے اور طاقتور ممالک اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُن کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان لڑائی نے اِن ممالک کو تباہی سے دوچار کر رکھا ہے اور یہ سلسلہ مستقبل قریب میں ختم ہوتا یا رکتا دکھائی نہیں دیتا۔
لیبیا میں بھی بیرونی قوتیں اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان میں ترکی اور قطر نمایاں ہیں، جو قومی اتفاق رائے کی حکومت کی بھرپور حمایت و مدد کر رہی ہیں۔ سعودی عرب نے خلیفہ ہفتار کی مدد کرنے کو ترجیح دی ہے۔ امریکا، فرانس اور دیگر طاقتیں غیر معمولی طور پر محتاط ہیں اور قومی اتفاق رائے کی حکومت یا خلیفہ ہفتار کی ملیشیا میں سے کسی کی کھل کر حمایت اور مدد نہیں کر رہیں۔ روس نے بھی اب تک واضح نہیں کیا کہ لیبیا میں وہ کس کے ساتھ ہے۔ خلیفہ ہفتار نے لیبیا کے معاملات میں ترکی کی مداخلت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ’’جوابی کارروائی‘‘ تک کی دھمکی دینے سے گریز نہیں کیا ہے۔
بیرونی قوتیں لیبیا میں اپنے مفادات کے تحت کسی بھی گروہ کی مدد کرتی ہیں مگر سیاسی استحکام کی تلاش کے حوالے سے وہ اپنی ترجیحات کے تعین میں اب تک مجموعی طور پر ناکام رہی ہیں اور اس حوالے سے مصر جیسی علاقائی طاقت اپنے آپ کو بہتر پوزیشن میں رکھنے میں خاصی کامیاب رہی ہے۔ لیبیا ایک واضح مثال ہے کہ کس طور بڑی طاقتیں کسی کمزور یا تباہ حال ملک میں اپنے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر طرح طرح کے کھیل کھیلتی ہیں۔ خلیفہ ہفتار کی ملیشیا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرتی رہی ہے، مگر اس کے باوجود کوئی بھی اُسے روکنے اور ٹوکنے والا نہیں۔ اگر عام حالات میں یہی سب کچھ ہو رہا ہوتا تو ہنگامہ برپا ہو جاتا۔ بہرکیف، بیرونی قوتوں نے لیبیا میں اپنے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر خلیفہ ہفتار کی پیدا کردہ خرابیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اب اسلامی گروہ ابھر رہے ہیں تو دیگر معاملات سائیڈ پکڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Libya In Turmoil: Khalifa Haftar And Foreign Powers”. (“Observer Research Foundation”. July 10, 2019)
Leave a Reply