
انقلابِ لیبیا کو تین چیلنجوں کا سامنا ہے، جو اس کے انقلاب کے مرحلے سے حکومت کے قیام تک کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور ایسے خطرناک نتائج کے حامل ہیں، جن کے اثرات اس کے آس پاس کے ممالک تک پہنچ سکتے ہیں۔ وہ چیلنج یہ ہیں (۱) سابق نظام کو ختم کرنے میں شریک ہتھیار بندوں کے اسلحے کی واپسی جس کو ابھی تک واپس نہیں کیا گیا۔ (۲) آس پاس کے ممالک کی حدود سے اسلحے کی اسمگلنگ۔ (۳) مغربی وجود اور اس کا سیاسی، اقتصادی اور امن و امان کی صورتحال پر راست اثر۔
جہاں تک پہلے چیلنج میں ہتھیاروں کا معاملہ ہے تو وہ لیبیا کے انقلاب کے لیے سخت خطرہ ہیں، جیسا کہ ان رپورٹوں سے واضح ہے جو وہاں سے موصول ہو رہی ہیں، ان میں نمایاں ترین پہلو انقلابی گروہوں کے پاس موجود اسلحے کی نوعیت کا ہے، چنانچہ لیبیا میں اقوام متحدہ کے خاص نمائندے ایان مارٹن کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ رپورٹ میں مذکور ہے: زمین سے فضا میں داغے جانے والے راکٹ اور ان کا دفاعی نظام جس کو کندھے پر رکھ کر چلایا جاسکتا ہے، کا بیشتر گمشدہ ذخیرہ لیبیا ہی میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی جہازوں کے خلاف چلائے جانے والے راکٹس ہیں، جن کا بیشتر حصہ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے مطابق کندھے پر رکھ کر داغا جاتا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ میں ہے، جس کو اس کے مرتبین نے لیبیا کے دورے میں تیار کیا ہے: ’’ہتھیار بندوں کے پاس راکٹ گولے، اسٹین گنز، آٹومیٹک بندوقیں، دستی گولے، آتشیں ذخیرہ اور ہوائی جہازوں کی ہلکی توپیں ہیں جو موٹر کاروں پر نصب ہیں‘‘۔ اسی رپورٹ میں ہے کہ ان کے پاس زیادہ ترقی یافتہ اسلحہ بھی ہو سکتا ہے، جیسے زمین سے ہوا میں داغے جانے والے راکٹس اور راکٹ دفاعی نظام جس کو کندھے پر رکھ کر چھوڑا جاسکتا ہے۔
ہتھیار بندوں کے ہاتھ سے اس اسلحے کو چھیننے کے لیے اب بین الاقوامی برادری مداخلت کی کوشش کر رہی ہے، چنانچہ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی رپورٹ میں ہے کہ امریکا کی خواہش کے مطابق اس اسلحہ کی ممکن حد تک مقدار کو جمع کرنے کا پروگرام تیار کر لیا گیا ہے تاکہ وہ بلیک مارکیٹ میں نہ بیچا جاسکے۔ نیز ایک خفیہ پروگرام میں ایسے زیادہ فعال طریقے کی تلاش بھی ہے جس کے ذریعے سابق نظامِ حکومت کے ہوائی جہازوں کے خلاف استعمال ہونے والے راکٹس کے ذخیرے کو برباد کیا جائے، جن کی تعداد کا اندازہ بیس ہزار راکٹس کا ہے۔
دوسرا چیلنج سرحدی حالت ہے، جس کو پریشان کن کہا جاسکتا ہے، اس لیے کہ لیبیا کی حدود سے ایک سے زیادہ ملکوں کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ کی شکایت ہے اور یہ ان کے لیے امن و امان کا بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ چنانچہ مصر کے فوجی ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ لیبیا سے بڑی تعداد میں اسلحہ مصری حدود میں اسمگل ہو رہا ہے اور جزیرہ نمائے سینا کی بلیک مارکیٹ کو بھر رہا ہے۔ انہوں نے قذافی کے زوال کے بعد سینا کے راستے اور غزہ کی اسمگلنگ سرنگوں میں ہوائی جہاز مخالف راکٹس پکڑے ہیں، جن میں سے بیشتر کندھے پر رکھ کر داغے جاتے ہیں اور سینا میں اسلحہ کے تاجروں کی زبانی ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے ایک رپورٹ میں نقل کیا ہے: ’’مارکیٹ میں موجود اسلحہ غیر قانونی ہے اور اس میں راکٹس اور ہوائی جہاز مخالف اسلحہ شامل ہے‘‘۔ صحرائے کبریٰ میں لیبیا کے شریک ساحل منطقہ کے ممالک نے جن میں نائیجریا، نیگر، مالی اور چاڈ شامل ہیں، سلامتی کونسل سے لیبیا سے اسمگل ہونے والے اسلحہ پر روک لگانے کے لیے ایک کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ممالک ہتھیار بند عناصر کے ہاتھوں تک بعض ترقی یافتہ اسلحہ پہنچنے سے روکنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ خاص طور سے روسی ساختہ راکٹ سام۔۷ یا استریلا۔۲ راکٹ جو کہ فضائی دفاعی راکٹ ہے، کندھے پر رکھ کر چلایا جاتا ہے، اس کی مار پندرہ سو سے ۳۷ سو میٹر بلندی تک ہے، اس وجہ سے وہ سخت خطرناک ہے۔ نیز الجزائر کے صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ نے فوج کے رہنمائوں سے ایک جاسوسی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ لیبیائی چھائونی سے لوٹے ہوئے اسلحے کے ان کے ملک پر نقصانات کا اندازہ لگائے۔
تیسرا چیلنج انقلاب کے بعد وہاں مغرب کی موجودگی ہے، جس کو فوجی مداخلت کی ابتدا سے برٹش اخبار ’’گارجین‘‘ نے شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ نیٹو بے وجہ وہاں جنگ کی مدت بڑھا رہا ہے، اسی لیے نیٹو کے دَور اور جنگ کی مدت کو بڑھانے پر شکوک و شبہات اٹھتے ہیں۔ لیبیا کے ذمہ داروں نے بتایا کہ مغرب دبائو ڈال رہا ہے اور عارضی کونسل کو تعمیر نو میں شرکت کے ذریعے جنگ کا بل ادا کرنے پر مجبور اور سیاسی کھیل میں کھلی مداخلت کر رہا ہے، نیز مغرب لیبیا میں جاسوسی وسائل پھیلانے کا کام بھی کررہا ہے۔
(بحوالہ ہفت روزہ ’’الامان‘‘، بیروت۔ ترجمہ: مسعود الرحمن خاں ندوی)
Leave a Reply