لیبیا میں اخوان کے مضبوط ہوتے قدم

ایک لیبیائی افسر بڑے فخر سے موبائل فون پر اپنی تِڑواں بیٹیوں کی تصویر دکھاتا ہے۔ تینوں کے چہرے پر بہت باریک سا، جھلی نما کپڑا پڑا ہوا ہے۔ یہ افسر اخوان المسلمون سے وابستگی رکھنے والی جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ اخوان المسلمون نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں دو سال قبل اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر سے بہت کچھ پایا ہے، مگر لیبیا میں اس کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ گزشتہ جولائی میں منعقدہ انتخابات میں اخوان المسلمون سے وابستہ پارٹی بمشکل بیس فیصد نشستیں حاصل کرسکی۔ تیونس اور مصر میں اخوان المسلمون کو عام انتخابات میں تقریباً نصف نشستیں ملی ہیں۔ مگر خیر، لیبیا میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بہت کچھ تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ مارچ میں تشکیل پانے والی جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی نے ٹاپ تک پہنچنے کی بھرپور تیاری کرلی ہے۔ لیبیا کی بیشتر جماعتیں اندرونی سطح پر لڑنے میں مصروف ہیں۔ یہ جھگڑے ختم ہوں تو کچھ کرنے کی راہ ہموار ہو۔ اخوان المسلمون سے وابستہ جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی نے مصر اور تیونس کے برعکس لیبیا میں خاصی کمزور شروعات کیں مگر خیر وہ اپنے آپ کو منوانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ ملک بھر میں دفاتر کھولے گئے ہیں اور لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی میں اس پارٹی نے ایک سات منزلہ عمارت میں اپنا مرکزی دفتر قائم کیا ہے۔ رکن سازی مہم تیزی سے جاری ہے۔ دوسری جماعتوں کو نئے رکن نہیں مل رہے مگر جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی نے بن غازی میں بھی نئے رکن بنائے ہیں۔ شہر کے وسطی علاقے میں ایک ہفتے کے دوران ڈیڑھ ہزار سے زائد نئے ارکان سامنے آئے ہیں جو بڑی کامیابی ہے۔

گزشتہ برس منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی نے جماعتی شناخت کے تحت مختص ۸۰ میں سے ۱۷؍نشستیں حاصل کی تھیں۔ آزاد امیدواروں کے لیے مختص ۱۲۰؍نشستوں میں سے ۶۰؍ ایسی ہیں جن کے کامیاب امیدواروں نے اب اخوان سے وابستہ جماعتوں سے تعلق استوار کرلیا ہے۔ یہ تمام ارکان باقاعدگی سے اجلاس کرتے ہیں اور انہوں نے اپنا ایک لیڈر بھی منتخب کرلیا ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب میں یہ لوگ بادشاہ گر کے طور پر سامنے آئے اور اپنے مفادات سے متصادم امیدوار کو وزیر اعظم منتخب نہیں ہونے دیا۔ یہ تمام ارکان مل کر اسلام نواز عناصر کے لیے بہتر قانون سازی کے حوالے سے خاصے پرامید ہیں۔

لیبیا کے دارالحکومت ٹریپولی (طرابلس) سے باہر بلدیاتی سطح پر بھی اخوان المسلمون نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کئی بلدیاتی کونسلیں ملک کے بہتر منتخب اداروں کا درجہ رکھتی ہیں۔ بن غازی سے تعلق رکھنے والے کونسلر اور اخوان کے دیرینہ رفیق کہتے ہیں کہ پارٹی رفتہ رفتہ ابھر رہی ہے اور مختلف حوالوں سے اس کی پیش رفت ایسی نہیں کہ اطمینان کا سانس نہ لیا جائے۔ انہیں یقین ہے کہ مرکز میں مضبوط حکومت بنانے کے قابل ہونے میں پارٹی کو زیادہ وقت نہیں لگے گا مگر اس کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

لیبیا میں اخوان کے بیشتر قائدین پڑھے لکھے اور تجارت سے وابستہ ہیں۔ وہ بنیادی طور پر اعتدال پسند ہیں اور ہر معاملے میں جمہوری روایات کو مقدم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ بنیادی حقوق اور اختیارات کی بہتر تقسیم و تفویض پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ بن غازی میں پارٹی کی نمایاں شخصیت رمضان الدرسی کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون کے حوالے سے اسلام ازم سے متعلق خدشات پائے جاتے ہیں مگر ہم یہ تمام خدشات دور کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ہم لیبیا کو ایک حقیقی اعتدال پسند ریاست میں تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ہم لوگوں کو کوئی بھی نئی چیز اپنانے پر مجبور نہیں کریں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اخوان کے لوگ اعتدال پسندی کی بات کر رہے ہیں اور اس حوالے سے کام بھی کرنا چاہتے ہیں مگر بعض معاملات میں اب بھی وہ سخت اسلامی قوانین اور اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ جب اس نمائندے کے لیے میزبان کی اہلیہ نے چائے پہنچانے کی کوشش کی تو میزبان نے تقریباً چیخ کر اس سے کہا کہ دروازہ بند رکھے۔ خواتین کو اب بھی بیشتر شعبوں میں زیادہ آسانی سے کچھ کرنے کی اجازت نہیں۔ کھیل کے میدان میں بھی وہ آزادانہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرسکتیں۔ چار ماہ قبل بن غازی میں امریکی سفیر کرس اسٹیونز کو قتل کرنے والے گروپ انصار الشریعہ کے بارے میں رمضان الدرسی کہتے ہیں کہ اس سے بات چیت کی جانی چاہیے۔ اس نوع کی باتیں لیبیا کے عام باشندوں کے ذہنوں میں اخوان المسلمون کے حوالے سے شکوک و شبہات کو جنم دے سکتی ہیں۔ لیبیا کی سیاست میں بہت کچھ الجھا ہوا ہے۔ قبائلی اختلافات اور مناقشے بھی برقرار ہیں۔ ایسے میں قومی سطح پر کسی قیادت کا پروان چڑھانا انتہائی دشوار ہے۔ لیبیا کے سیاسی کلچر میں جماعتیں اب بھی خاصی نئی چیز ہیں۔ لوگ مجموعی طور پر غیر جماعتی انداز سے کام کرنے کے عادی ہیں۔ انتخابات کے نام پر وہ قبائلی اور برادری کی بنیاد پر ووٹ لیتے اور اسی حوالے سے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ۱۹۵۲ء میں شاہ ادریس نے سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی تھی۔ کرنل معمر قذافی نے سیاسی جماعتوں کو کینسر سے تشبیہ دی تھی۔

ترکی، مصر اور تیونس میں اخوان المسلمون کی عمدہ کارکردگی اور تیزی سے مضبوط ہوتی ہوئی پوزیشن دیکھ کر لیبیا میں بھی اخوان المسلمون سے وابستہ افراد پرامید ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ بہت جلد وہ ملک کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی کے رہنما محمد سوان کہتے ہیں: ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ارکان سیاست کے بہتر طور طریقے سیکھیں، اس لیے ہم حکمراں جماعتوں سے تعاون کرتے ہیں‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لیبیا میں بھی اخوان کا مستقبل تابناک ہے کیونکہ اس کے ارکان اور رہنماؤں میں کچھ کرنے کا عزم اور حوصلہ ہے۔

(“Libya’s Mulim Brothers The Knack of Organisation”… “Economist”. Jan. 12th, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*