
فرانس، مصر اور ترکی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو مسترد کرکے لیبیا کے مندوبین نے ماضی کی سیاست کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ حال ہی میں جنیوا میں بعض عجیب باتیں ہوئیں۔ جنیوا کا شمار اُن شہروں میں نہیں ہوتا جو آج کل مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اہم فیصلوں کے مراکز میں سے ہیں۔ لیبیا میں عبوری حکومت کے قیام کے لیے عالمی برادری کے حمایت یافتہ امیدوار اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والے حالیہ مذاکرات میں لیبیا کے مندوبین کی منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بجائے نسبتاً غیرمعروف سیاست دانوں کے ایک گروپ کو لیبیا میں سالِ رواں کے آخر میں ہونے والے انتخابات تک کے لیے عبوری حکومت کے قیام کے لیے منتخب کیا گیا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ عبوری حکومت کے قیام کے لیے جنہیں چُنا گیا ہے وہ لیبیا کی سیاست میں بہت حد تک زمینی حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے انتخابات کے امیدواروں کی تمام فہرستوں نے لیبیا کے مشرقی، مغربی اور شمالی علاقوں میں تقسیم گہری کی ہے مگر خیر، اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ سب یہ سمجھ رہے تھے کہ ملک کے مشرقی حصے سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹ کے اسپیکر اغیلا صالح (Aguila Saleh) صدارتی کونسل کے سربراہ منتخب ہوں گے مگر ایسا نہ ہوا۔
لیبیا کو امن اور اتحاد کی طرف لے جانے کی کوشش سے قبل اغیلا صالح کو اپنے دامن سے چند دھبے دھونے ہیں۔ انہوں نے طرابلس پر حملے کی ناکام کوشش میں ایسٹرن کمانڈر خلیفہ ہفتار کی مدد کی تھی۔ وہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے ملک کے وسط میں سرطے لے جانا چاہتے تھے۔ خلیفہ ہفتار کی افواج آج کل اسی علاقے میں قیام پذیر ہیں اور انہیں روس کی حمایت بھی حاصل ہے۔
اغیلا صالح ہی نے لیبیا کے قبائلی رہنماؤں کو جمع کیا تھا، جنہیں مصر کے صدر جنرل عبدالفتاح السیسی نے لیبیا پر حملے کی دھمکی بھی دی۔ اغیلا صالح نے مصر کے صدر کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اگر قومی مصالحت کی حمایت یافتہ فوج سرطے پر حملہ کرے تو وہ مداخلت کریں۔ گزشتہ جون میں طرابلس پر حملے کی ناکام کوشش کے بعد خلیفہ ہفتار کے حامی فوجیوں نے پسپا ہوتے ہوتے سرطے ہی میں قدم جمائے تھے۔ صالح مصر نواز ہیں اور وہ اس بات کے لیے کوشاں رہے ہیں کہ لیبیا میں ایک ایسا کٹھ پتلی سربراہِ مملکت و حکومت لایا جائے جو مصر کے کہنے پر چلے۔ جنیوا میں جب صالح کو منظوری نہ مل سکی تو قاہرہ میں ردِعمل خاصا اشتعال آمیز تھا۔
مصر کے معروف ٹی وی اینکر اور صدر السیسی کے غیرعلانیہ ترجمان مصفیٰ بَکَری نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ اقوام متحدہ کی وساطت سے کیے جانے والے فیصلے کی بساط الٹ دی جائے گی۔ اپنے ٹوئیٹ میں انہوں نے کہا کہ اخلاقی جواز نہ رکھنے والے کو انتخابات کے ذریعے ملک کی حکمراں کونسل کا سربراہ منتخب کرنا ملک کے خلاف سازش کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون کو ایک بار پھر سامنے لایا جارہا ہے۔ کوشش کی جارہی تھی کہ اغیلا صالح کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی تیاری کی جائے۔ ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔
اخوان المسلمون نے بھی ملی جلی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ ایک طرف تو اُس نے اغیلا صالح کے حمایت یافتہ امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا اور دوسری طرف جیتنے والے امیدواروں کی حمایت بھی کی۔ یہ کام الگ الگ پلیٹ فارم سے ہوئے۔
اب قاہرہ نے بھی ذہن تبدیل کیا ہے اور لیبیا میں نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے ابھرنے والے نئے چہروں کو بھی اپنانے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ مصر کے صدر جنرل عبدالفتاح السیسی نے خلیفہ ہفتار کی افواج کی حمایت کی تھی مگر جب طرابلس پر حملے کی کوشش ترک افواج کی مدد سے ناکام بنادی گئی تب السیسی نے خلیفہ ہفتار کی حمایت سے بھی ہاتھ اٹھالیا۔ جب ترکی کی بالادستی واضح ہوگئی تب مصر کی انٹیلی جنس نے ترک انٹیلی جنس سے گفت و شنید کی اور اس معاملے میں خلیفہ ہفتار کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
اغیلا صالح اس بات چیت کا حصہ تھے جس میں ترکی اور فرانس کے حمایت یافتہ وزیر داخلہ فتحی بغاشہ بھی شامل تھے۔ جب یہ لوگ ناکام ہوگئے تب اغیلا صالح سمیت تمام فریقین نے نئی صدارتی کونسل کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔
غیرمتوقع فاتحین
تمام غیرمتوقع فاتحین نے بدلتی ہوئی صورتِ حال میں پیچھے رہنا گوارا کیا ہے۔ یہ حقیقت انہوں نے بھلائی ہے نہ نظر انداز کی ہے کہ حالات کی تبدیلی نے انہیں عارضی طور پر اقتدار کے ایوان تک پہنچایا تھا۔
نئے وزیر اعظم عبدالحامد دبیبہ خود کو کاروباری اور ٹیکنو کریٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کا تعلق مسراطہ کے علاقے کے ایک انتہائی مالدار خاندان سے ہے اور انہوں نے تعمیرات کی صنعت میں نام کمایا ہے۔ ان کا مرکزی کاروباری علاقہ قذافی ہے۔ عبدالحامد دبیبہ کے کزن علی دبیبہ سابق آمر کرنل معمر قذافی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ آرگنائزیشن فار ڈیویلپمنٹ آف ایڈمنسٹریٹو سینٹر کے سربراہ تھے۔ جیسے ہی انقلاب رونما اور برپا ہوا، عبدالحامد دبیبہ نے انقلابیوں کی فنڈنگ شروع کردی۔ ۲۰۱۷ء میں وہ مسراطہ کے اُس وفد کے رکن تھے جس نے ماسکو اور گروزنی کا دورہ کیا۔
لیبیا میں ہر کیمپ منقسم ہے۔ عبدالحامد دبیبہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا۔ مسراطہ سے تعلق رکھنے والے دو امیدواروں بشاغہ اور احمد امیطق کے درمیان سمجھوتے کے نتیجے میں عبدالحامد دبیبہ کی پوزیشن محفوظ رہ سکی۔ عبوری حکومت کے کامیاب امیدواروں کی فہرست کے سربراہ محمد المنفی ہیں، جن کا تعلق تبروک کے علاقے سے ہے۔ وہ بن غازی کی جنگ اور طرابلس پر حملے کے مخالف تھے۔ وہ خلیفہ ہفتار کے سخت ترین ناقدین میں سے ہیں۔
جی این اے نے محمد المنفی کو یونان میں لیبیا کا سفیر مقرر کیا تھا مگر جب انہوں نے ترکی اور لیبیا کے درمیان طے پانے والے بحری معاہدے کی حمایت کی تو یونان نے انہیں نکال باہر کیا۔ ان کے دو نائبین کی سیاست میں برائے نام دلچسپی ہے۔ ان میں موسیٰ الکونی بھی شامل ہے جو عالمی شہرت یافتہ ناول نگار ابراہیم الکونی کا بھائی ہے۔ کونی قبیلے کے لوگ جنوبی لیبیا میں زیادہ تعداد میں اور اقتدار کے حوالے سے مضبوط ہیں۔
سوال یہ ہے کہ انہی کو آگے آنے کا موقع کیوں دیا گیا اور انہیں کیوں نہیں دیا گیا جنہوں نے طویل مدت تک جنگ لڑی؟ اغیلا صالح اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اپنی ہی تاریخ دوبارہ نہیں لکھ سکتے۔ لیبیا کے مندوبین کم سے کم متنازع افراد کو سامنے لانا چاہتے تھے۔ دونوں فہرستوں میں زیادہ الجھاؤ ان دشمنوں کے باعث رونما ہوا جو تبروک میں اغیلا صالح نے بنائے تھے۔
مشرق میں سابق اتحادی بھی دارالحکومت کی تبدیلی کے حوالے سے اغیلا صالح کے منصوبے سے تشویش میں مبتلا تھے۔ نیا دارالحکومت خلیفہ ہفتار کے کنٹرول میں ہوتا۔
بُرے ہارنے والے
ماہ رواں میں ہونے والے ووٹ نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ جب انتخابی نتائج واضح ہوگئے تب ترک صدر رجب طیب ایردوان نے عبوری وزیراعظم اور صدارتی کونسل کے سربراہ کو فون کرکے مبارک باد دینے میں دیر نہیں لگائی۔ اس ڈیل میں جو لوگ ناکام رہے تھے انہوں نے بھی ڈوبتے جہاز سے کودنے میں خاصی تیزی دکھائی۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکراں نے بھی محمد المنفی اور عبدالحامد دبیبہ سے بات کی۔ واضح رہے کہ محمد المنفی کو یونانی حکومت نے بھی مبارک باد دی جبکہ یہ محمد المنفی ہی تھے جنہیں یونانی حکومت نے نکال دیا تھا۔ معاملات کتنی تیزی سے اور کس حد تک بدلتے ہیں۔
مگر خیر، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لیبیا میں اقتدار کی جنگ ختم ہوچکی ہے۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ مصر نے بھی اب خلیفہ ہفتار سے کنارا کش رہنے کو ترجیح دینا شروع کردیا ہے تاہم اس کے سب سے بڑے حامی متحدہ عرب امارات نے اب تک اپنی لائن تبدیل نہیں کی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے بھی خلیفہ ہفتار کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ روس کی مشنری فورسز سرطے اور الجفرا ایئر بیس کی حفاظت پر مامور ہیں۔
اس ڈیل کے ہارنے والوں میں متحدہ عرب امارات، روس اور فرانس شامل ہیں جنہوں نے اب تک شمالی افریقا میں جمہوریت اور حقیقی عوامی نمائندوں کے ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لیے برائے نام احترام کا بھی اظہار نہیں کیا۔ اور سمجھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اب تک لیبیا کے حوالے سے اپنے منصوبے بھی ترک نہیں کیے ہیں۔ گزشتہ اپریل میں خلیفہ ہفتار نے خود کو لیبیا کا اصل حکمراں قرار دیا تھا۔ اس وقت وہ کسی بھی سیاسی عمل کا حصہ نہیں۔ ایسے میں یہ تو بہت دور کی بات ہے کہ کسی بین الاقوامی معاہدے کے تحت انہیں احترام کی نظر سے دیکھا گیا ہو۔ اگر سیاسی عمل ایک بار پھر ناکامی سے دوچار ہو تو سوچا جاسکتا ہے کہ خلیفہ ہفتار ایک بار پھر اقتدار کے ایوان تک رسائی کی تھوڑی بہت کوشش کرسکتا ہے یا کم از کم انتخابات کی طرف جانے والے معاملات کی راہ میں تو دیوار بن ہی سکتا ہے۔
عبدالحامد دبیبہ کے پاس پارلیمان سے منظوری کے لیے اپنی کابینہ منظر عام پر لانے کے لیے تین ماہ ہیں۔ عبدالحامد دبیبہ نے ترک خبر رساں ادارے انادولو سے انٹرویو کے دوران پارلیمان کے اُس جز کو قبول کرنے سے واضح انکار کیا ہے، جو تبروک میں ہے۔ عبدالحامد دبیبہ کہتے ہیں کہ اصل فیصلہ اب عوام کو کرنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ لیبیا کے عوام کس طرح کی پارلیمان چاہتے ہیں۔
ملک کے مشرق میں خلیفہ ہفتار کی حمایت سے عبداللہ الثانی کی قیادت میں قائم حکومت نے عبوری حکمراں کونسل کو اقتدار کی منتقلی پارلیمان کی منظوری سے مشروط کردی ہے۔
پارلیمان کے متعدد ارکان تبروک جاچکے تھے مگر اب وہ طرابلس لوٹ آئے ہیں جو اس امر پر احتجاج کے لیے ہے کہ اغیلا صالح نے انہیں اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لانے کی کوشش کی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں دارالحکومت سرطے منتقل کرنے کا خیال بھی زیادہ پُرکشش دکھائی نہیں دیا ہے۔
اب اس کا امکان ہے کہ پارلیمان، جو بہت حد تک نمائندہ ہے، عبدالحامد دبیبہ کو عبوری حکومت قائم کرنے کے لیے گرین سگنل دینے میں دیر نہیں لگائے گی۔ اگر پارلیمان ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو فیصلہ گھوم کر اُن ۷۵ مندوبین تک جائے گا جنہوں نے اس معاہدے کی منظوری دی تھی۔ ویسے ملک بھر میں عمومی سطح پر یہ تاثر اور اعتماد پایا جاتا ہے کہ عبوری حکومت قائم ہوگی اور ٹیک آف میں بھی کامیابی حاصل کرے گی۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ عبوری حکومت کا حصہ بننے والوں کو سالِ رواں کے آخر میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی سطح پر جو کچھ بھی ہوا ہے وہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ بہت سی خرابیاں اب بھی برقرار ہیں مگر پھر بھی امید کی جانی چاہیے کہ لیبیا میں خانہ جنگی ختم کرنے کی راہ اب ضرور ہموار ہوگی۔ یہاں یہ نکتہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر خلیفہ ہفتار نے طرابلس پر قبضہ کرلیا ہوتا تو معاملات بہت مختلف ہوتے۔ خلیفہ ہفتار کے جنگجو طرابلس کے قلب سے محض سات کلو میٹر دور رہ گئے تھے۔ ان کی کامیابی کی صورت میں لیبیا کو بھی اپنے حصے کا السیسی مل گیا ہوتا۔ ایسا ہوا ہوتا تو فرانس اور روس بڑھ کر خلیفہ ہفتار کا خیرمقدم کرتے، جس کے نتیجے میں تیل اور ہتھیاروں کے بڑے معاہدے روسی اور فرانسیسی کمپنیوں کو ملے ہوتے۔ لیبیائی ملیشیا کے علاوہ خلیفہ ہفتار کے جنگجوؤں کو روکنے والی قوت ترکی کے ڈرون تھے۔ فرانس کی طاقت کو طاقت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ سب سیاسی اسلام پسندوں اور امن پسند سیکیولر انقلابیوں کے اس تصور کے خلاف ہے کہ طاقت کو طاقت سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ کہ آمروں کا سامنا کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی صورت میں ہم دراصل ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اخلاقی سطح پر ان کی بات درست ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر صرف پند و نصائح سے کام لینے کی کوشش کی گئی ہوتی تو طرابلس کو خلیفہ ہفتار کے جنگجوؤں کے پنجوں سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوا جاسکتا تھا۔
لیبیا کے بہت سے علاقوں میں خلیفہ ہفتار کے جنگجوؤں نے انسانیت سوز مظالم ڈھائے اور بنیادی حقوق پامال کیے۔ اگر طرابلس بھی ان کے کنٹرول میں آگیا ہوتا تو یہاں بھی انسانیت سوز مظالم ہی ڈھائے جاتے۔
امریکی انقلاب میں فرانس کی طاقت کے ذریعے ہی انقلابیوں نے برطانوی سامراجیوں کو نکال باہر کیا تھا۔ لیبیا کے معاملے میں بھی طاقت کا استعمال ہی آمروں کو پیچھے ہٹانے اور ان کے نوآبادیاتی دوستوں کو کمزور کرنے میں کلیدی کردار کا حامل رہا ہے۔
اگر لیبیا میں سیاسی تبدیلیاں کامیاب رہیں تو مصر اور تیونس پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ان دونوں پڑوسیوں کی معیشت کا مدار بہت حد تک لیبیا کے استحکام پر ہے۔ لیبیا میں لڑائی ختم ہو اس میں لیبیا کے علاوہ مصر اور تیونس کا بھی فائدہ ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اب معاملات حقیقی امن اور استحکام کی طرف جائیں گے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Libya’s surprise election is bad news for meddling powers”.(“middleeasteye.net”. February 8, 2021)
Leave a Reply