
مجھے ان لوگوں پر ترس آتا ہے جنہوں نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے اعلان پر خوشیاں منائیں یا سکھ کا سانس لیا تھا۔ یہ بات نہیں کہ اصلی بن لادن کئی سال پہلے مر گیا تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسامہ کبھی دہشت گرد تھا ہی نہیں۔ نائن الیون کی دس سال کی تحقیقات میں اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کا شائبہ تک نہیں مل سکا۔ اس کے بجائے نائن الیون کمیشن نے صاف طور پر ثابت کیا ہے کہ حقیقت کی ’’پردہ پوشی‘‘ کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ فاکس نیوز ٹی وی چینل نے بھی کسی لگی لپٹی کے بغیر کہہ دیا تھا کہ تمام ثبوت صدر بش کے وائٹ ہاؤس اور اسرائیلی انٹیلی جنس سروس کی نشان دہی کرتے ہیں۔
غیرمتنازعہ ثبوت ’’بلڈنگ ۷‘‘ سے پتا چلتا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نیچے بہت بڑی تعداد میں دھماکا خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔ کسی اخبار نے بھی یہ خبر نہ دی، حتیٰ کہ فاکس نیٹ ورک نے بھی اپنی خبروں میں اس کا ذکر نہ کیا۔ واقعہ کے بعد پورے ایک ماہ تک کسی نے بھی یہ بات نہ چھیڑی۔
آسٹریلیا کے اخبار ’’ہیرالڈسن‘‘ کے ایک پول میں آسٹریلیا کے ۷۷ فی صد شہریوں نے یقین ظاہر کیا کہ نائن الیون کا واقعہ امریکی حکومت کا ’’اندرونی کام‘‘ ہے۔ اتنی ہی تعداد میں امریکیوں کا بھی یہ خیال ہے۔
ان میں سے کسی بھی بات کا ذکر اب کیوں نہیں کیا جاتا؟ صدر اوباما کو بے سروپا باتیں کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ شاید سب سے زیادہ شرمناک کردار فاکس نیوز کے صحافی Gerraldo Rivera کا ہے جس نے خبر دی تھی کہ بن لادن کسی طور پر بھی نائن الیون میں ملوث نہیں تھا۔ اب وہ بھی اسامہ کے متعلق بڑے ڈرامائی انداز میں باتیں کرتا ہے اور اپنے بیمار ذہن کے ساتھ اسے نائن الیون کے ’’قتلِ عام‘‘ کا ذمہ دار کہتا ہے جب کہ اس نے خود ثابت کیا تھا کہ اسامہ کا واقعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اب اس جیسے لوگ اور کہاں ملیں گے؟
مشرقی وسطیٰ کے ایک چھوٹے سے غیراسلامی ملک کے اہم ادارے اور ’’مفاد پرست گروپس‘‘ کا جب امریکا کے ۹۵ فی صد سے زائد میڈیا پر کنٹرول ہو اور وہ نہ صرف ’’نیوز‘‘ اور ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ بلکہ ’’حقیقت‘‘ اور ’’خیال آرائی‘‘ کے درمیان فرق کو تباہ کر رہے ہوں تو پھر امریکا میں جمہوریت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ جمہوریت کی بنیاد رائے عامہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص عوام کی سوچ اور عوام کے کسی واقعہ پر، یقین پر قدعن لگا دے، اگر عوام پر مسلسل جھوٹ کی بمباری کی جاتی رہے تو پھر جمہوریت کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی۔ جو میڈیا کنٹرول میں رکھا جائے جس میں بیشتر انٹرنیٹ میڈیا بھی شامل ہے، تو یہ ایک جرائم پیشہ تنظیم کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس کا مقصد امریکی حکومت کو کمزور کرنا ہے۔
۲۰۰۰ء میں صدراتی انتخاب میں جب دھاندلی کی حقیقی سازش کی گئی اور صدر کا تقرر امریکا کی سپریم کورٹ کو کرنا پڑا (حالانکہ یہ اقدام اس کے آئینی اختیار میں نہیں آتا تھا) تو ہم اسی وقت اس ’’پھسلواں، ڈھلوان‘‘ پر لڑھکنا شروع ہوگئے تھے جو حقیقی آمریت کی طرف جاتی تھی۔ نائن الیون کے واقعہ اور اس کے بعد لڑی جانے والی دو بے مقصد جنگوں سے ذرا پہلے اسامہ بن لادن کو پُراسرار حیثیت دے کر الزامات کا نشانہ بنایا۔ اس وقت بھی مسلسل اسے دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا مجرم ماسٹر مائنڈ کہا جاتا تھا جب کہ اب بھی مسلسل یہی کہا جارہا ہے لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس کی باتیں سنی ہیں اور اس کے پس منظر سے واقف ہیں، اس کے متعلق بہتر جانتے ہیں۔ بن لادن امریکا کے قریبی ساتھی کی حیثیت سے کام کرتا رہا تھا مگر بعد میں امریکا کی پالیسیوں پر نرم لہجے میں اعتراض کرنے لگا۔
’’نرم لہجے میں اعتراض؟‘‘ جی ہاں! میں یہی کہنا چاہتا ہوں۔ امریکی پالیسیوں پر یہ نرم لہجے میں اعتراضات تھے، جن کی وجہ سے بن لادن کو دہشت گردی کی طرف رجحان رکھنے والا کہا جانے لگا۔ باقی رہی دھمکیوں اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلق کی بات تو یہ سب ہماری اپنی اختراع ہے۔ اس مہم میں میڈیا نے متبادل کے طور پر بھرپور کام کیا اور اس میں وہی لوگ شامل تھے جنہوں نے ۲۰۰۰ء میں امریکی ساکھ کو نقصان پہنچایا تھا اور اپنی انٹرٹینمنٹ ایمپائر (ہالی ووڈ)، واشنگٹن کی قانونی فرموں اور پبلک ریلیشنز ایجنسیوں اور طاقتور یہودی لابی کی طرف سے بے شمار سرمایہ فراہم کیا تھا۔
بظاہر معصوم نظر آنے والے لوگوں کے ناموں کے باوجود اس فہرست میں امریکی سوسائٹی میں امریکا مخالف عناصر شامل ہیں۔ امریکا میں ایسے تقریباً ۲۰ گروپ ہیں جو کسی بھی ’’بن لادن‘‘ سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں اور امریکا کو تباہ کرنے میں کسی بھی ’’القاعدہ‘‘ سے زیادہ تلے ہوئے ہیں۔ ’’معصوم‘‘ اور ’’نفیس‘‘ لوگوں کی اس فہرست میں وہ گروپ بھی ہیں جو امریکا کو ایک فیوڈل غلام ملک بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انتخابات میں دھاندلی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدنام زمانہ محب وطن قوانین (Patriot Acts) بنائے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اسٹاک ایکسچینج مارکیٹوں کو کریش (Crash) کرنے اور ہماری عدالتوں میں دھاندلیوں کے ذمہ دار ہیں اور جنہوں نے خبروں اور اطلاعات کو اپنے قابو میں کیا ہوا ہے۔
جو لین اسانج کے ان طاقتور سرمایہ دار گروپوں کے ساتھ تعلقات تھے، جن کا میڈیا تنظیموں پر کنٹرول ہے۔ اب وہ ان انکشافات پر پچھتا رہا ہے جو وہ منظر عام پر لایا تھا اور اب اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خبروں کے ایک ذریعے کے طور پر وکی لیکس پر بھی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ دہشت گردی اور نائن الیون کے ضمن میں جولین اسانج ہمیشہ ’’بڑے دھارے کے پریس‘‘ میں شمار ہوتا رہا ہے۔ اسرائیل (جسے اکثر نائن الیون کے خود ساختہ سانحہ کی سازش میں ملوث قرار دیا جاتا ہے) کے ساتھ اسانج کے قریبی تعلقات نے اسے نہایت متعصب بنا دیا ہے اور اس کے اس رویے نے وکی لیکس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ وکی لیکس جب تک بڑی خبررساں تنظیموں اور اسرئیلی لابی کے ساتھ منسلک اور عصبیت پر کاربند رہے گا، اسے کبھی ایک دیانت دار اور آزاد ادارہ نہیں سمجھا جائے گا۔
مزید برآں وکی لیکس ہمیشہ پراگندہ ذہنیت کا شکار رہا ہے اور امریکا کی خامیوں کو منظر عام پر لاتا رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان انتہا پسند پالیسیوں کی حمایت کرتا رہا ہے جو امریکا نے افغانستان اور عراق میں فوجی مہم جوئیوں کے ضمن میں اختیار کی ہوئی ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسانج امریکا کے فوجی طاقت کے استعمال کو پسند کرتا ہے۔ وہ ایران کے ساتھ جنگ کی کھلے عام حمایت کرتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بے تکی دستاویزات کے انکشاف کی آڑ میں تنازع سے بچتا بھی رہتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسانج جس قدر بدنام ہوتا رہا ہے، اتنا ہی زیادہ کچھ گروپ اس کی مالی امداد کرتے رہے ہیں۔
حالیہ اسامہ ڈرامہ اپنی نوعیت میں نائن الیون کی دیانت دارانہ تحقیقات کے مطالبے سے مختلف ہے۔ جس لمحے اسامہ کی منجمد نعش کو بحر ہند کے سپرد کیا گیا، اسی لمحے آزاد میڈیا یا متبادل میڈیا کے ایکٹروں نے کام شروع کردیا اور بن لادن فیملی، جعلی ویڈیوز اور متنازعہ خبروں کی سچائی کا پرچار کرنا شروع کردیا۔ ان خبروں کو مقبولیت ملی، جو حقائق پر مبنی تھیں اور جن میں تفصیلات تھیں۔ ’’بن لادن‘‘ کی تازہ ترین موت، یقینا ایک آسان ہدف تھا اور کہانی اتنی مضحکہ خیز بیان کی گئی تھی کہ عوام نے سچائی معلوم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
بن لادن کے قصے سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، یہ ہے کہ انٹرنیٹ کو ایسی معلومات دی گئی ہیں جن سے حقائق کا انکشاف ہوجاتا ہے۔ آزاد میڈیا کو اعتماد والی معلومات ملی ہیں۔ امریکیوں کا نائن الیون بھول گیا ہے اور یہ وہ امریکی ہیں، جو دلکش اور دلچسپ جھوٹ کے اتنے زیادہ بھوکے ہیں کہ وہ خیال آرائی پر جھپٹ پڑتے ہیں۔
(بشکریہ ’’ویٹرنز ٹوڈے‘‘۔ ۱۰؍مئی ۲۰۱۱ء۔ ترجمہ: ریحان قیوم)
Leave a Reply