
موسم سرما کے آخری دنوں میں ایک دوپہر ۵۵ سالہ جنگجوباسم قاسم بغداد شہر کی سرحد پر واقع چوکی سے گاڑی گزارتا ہے، یہاں سے سڑک کا منظر تبدیل ہوتا ہے اور شہر کے بے تحاشا ٹریفک اور مصروف سڑکوں کی جگہ گھاس چرتی بھیڑیں اور کھیتوں میں کام کرتے کسان لے لیتے ہیں۔ مزیدکچھ میل چلنے کے بعد اُس نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں گاڑی روکی تاکہ ہمیں دکھا سکے کہ داعش نامی تنظیم کس حد تک عراقی دارالحکومت کے نزدیک آگئی تھی۔ اُس نے درختوں کے ایک جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ـــ’’داعش کے جنگجو وہاں تک آگئے تھے‘‘۔
یہ خطہ اب کسی جنگی محاذکا منظر تو پیش نہیں کرتا، لیکن کئی سالوں کی لڑائی نے یہاں کے لوگوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔تاہم اب عراق داعش کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والی جیت کو ملک میں دیرپا امن کی صورت میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔اگر یہ کوشش کامیاب رہی تو ملک میں۲۰۰۳ ء کے امریکی حملے کے بعد پہلی مرتبہ مستقل امن قائم ہو سکے گا۔
۱۵ سال بعد ہمارے نمائندے ایک بار پھر بغداد گئے اور عام شہریوں سے لے کر وزیر اعظم حیدر العبادی تک بہت سے افراد سے بات کی۔ تمام ہی اس بارے میں سوچ بچارکر رہے تھے کہ کس طرح وہ اپنے ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر لے جاسکتے ہیں اور کیا موجودہ امن مستقل اور دیرپا ثابت ہو سکتا ہے؟۱۲ مئی کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے تناظر میں یہ سوال بھی لوگوں کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ کیا ان کا ملک ایک فعا ل جمہوریت کے طور پر ابھر سکتا ہے؟ جس میں اِس کی شیعہ، سُنّی اور کرد آبادی متحد ہو؟ اور کیا ایسا امریکی عمل دخل کے بغیر ممکن ہے؟ اگر ایسا ہوجائے اور یہ بہت بڑا ’’سوال ‘‘ہے، تو یہ اُس آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جس کا آج سے ۱۵ سال قبل امریکا نے وعدہ کیا تھا۔
عراق میں موجود اعلیٰ ترین امریکی فوجی عہدے دار لیفٹیننٹ جنرل پال فَنک نے عراق کی جنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے عراق کے مستقبل کے لیے بہت سی جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں‘‘۔ اُن کا ماننا ہے کہ عراق خطے کے دو حریف ممالک ، شیعہ اکثریتی ایران اور سنّی اکثریتی سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کم کرنے کا سبب بنے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ’’ مجھے عراق میں مشرقِ وسطیٰ کا مستقبل نظر آتا ہے‘‘۔
تاہم اگر عراق مستقل امن کے حصول میں ناکام رہا اور دوبارہ کشیدگی اور لڑائیوں کی زد میں آگیاتو یہ ملک نہ صرف پراکسی جنگوں کا شکار ہوجائے گا ،بلکہ یہ امریکا کو بھی ایک اور طویل جنگ میں الجھا دے گا۔داعش کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں بچ جانے والے جنگجو دوبارہ منظم ہو کر اپنی کارروائیاں شروع کر چکے ہیں۔ عراقی وزیراعظم نے ہمیں بتایا کہ ’’کوئی ملک اس قسم کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا، ہماری پالیسی ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان کو روکنا ہے‘‘۔
بغداد کے انتہائی سیکورٹی والے علاقے گرین زون میں ایک وسیع و عریض عمارت موجود ہے ،جو کبھی صدام حسین کا صدارتی محل تھی۔ جہاں صدام حسین کے ۱۳ فٹ اونچے چار مجسمے نسب تھے۔ اُن مجسموں کو ہٹے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے اور اب اس محل کی راہداریوں کے درمیان وزیر اعظم حیدر العبادی کا دفتر موجود ہے ،جن کے کاندھوں پر جنگ زدہ عراق کو ترقی و خوشحالی کی راہ پہ لے جانے کی ذمے داری ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ۶۵ سالہ حیدر العبادی اس کام کے لیے موزوں شخص نہیں ہیں۔وہ اپنے پست قد اور نرم مزاج کی وجہ سے کسی جنگی ہیرو کی طرح نہیں دکھتے، جیسا کہ ان کی انتخابی مہم میں انھیں دکھایا گیا۔ بغداد اور اس کے اردگرد موجود اشتہاری بورڈ وزیراعظم کو فوج کے سربراہ کے طورپر پیش کرتے ہیں۔ حیدر العبادی کی پرورش بغداد میں ہی ہوئی ،وہ ایک الیکٹریکل انجینئر ہیں۔ صدام حسین کی حکومت کے دوران انھوں نے ۲۰ سال لندن میں جلاوطنی کی صورت میں گزارے اور ۲۰۰۳ ء میں امریکی حملے کے وقت عراق واپس آئے۔ پہلی انتظامی کونسل کے رکن کی حیثیت سے وہ ۲۰۰۳ء کے بعد شروع ہونے والے فسادات کے عینی شاہد ہیں۔ جن میں ۴۵۰۰ امریکی مارے گئے اور ۴ لاکھ ۶۰ ہزار عراقی جاں بحق ہوئے۔ عراق پر امریکی حملے سے نہ صرف صدام حسین کے کٹر سنّی اتحادیوں نے امریکی فوج اور اُس کے عراقی اتحادیوں کے خلاف خونی بغاوت شروع کردی، بلکہ شیعہ گروہوں نے بھی امریکی فوج اور سنّیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا۔ اب امریکی صدر ٹرمپ کے مطابق عراق میں امریکی مداخلت ایک’’غلطی‘‘ تھی۔
۲۰۰۳ ء کے بعد شروع ہونے والی لڑائی نے عراق میں القاعدہ کی بنیاد ڈالی جو بعد میں داعش میں تبدیل ہوگئی۔ ۲۰۱۴ء میں داعش کے جنگجوؤں نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرلیا۔ زیادہ تر امریکی دستوں کی واپسی کی وجہ سے عراقی فوج کو داعش کا مقابلہ کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ حیدرالعبادی اُس ہی سال ملک کے وزیراعظم بنے، تب تک عراقی فوج کے ۴ ڈویژن داعش کے ہاتھوں تباہ ہو چکے تھے۔ کئی عراقی اس صورتحال کا ذمے دار حیدرالعبادی کے پیشرو اور کٹّر شیعہ سیاست دان نوری المالکی کو قرار دیتے ہیں کہ اُنھوں نے پہلے سے بددل سنّیوں کو داعش کے پروپیگنڈے کی نذر ہونے دیا۔
امریکی فوجی امداد کے باوجود داعش کو شکست دینے میں ۳ سال سے زائدکا وقت لگا، امریکی فوج کے ایک کمانڈر کے مطابق داعش سے موصل واپس لینے کے لیے کی گئی کارروائی جنگ عظیم دوم کے بعد خطرناک ترین شہری لڑائی تھی۔ آخرکار دسمبر ۲۰۱۷ء میں عراقی وزیراعظم نے داعش کے خلاف جنگ میں فتح کا اعلان کیا۔ اپنے دفتر میں ہم سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ مت بھولیں کہ وہ خطے میں ایک اور ریاست قائم کرنا چاہتے تھے اور وہ اپنے مقصد کے حصول سے زیادہ دور نہیں تھے‘‘۔
وزیراعظم کے ذمے داعش کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع نہ دیتے ہوئے ملک پر حکومت کرنے کا مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ اُنھیں نہ صرف داعش کے خلاف جنگ میں اپنے اتحادیوں جیسے امریکا، ترکی، سعودی عرب، ایران اور اردن کے مفادات کو سامنے رکھنا ہے۔ بلکہ انھیں شیعہ، سنّی اور کردوں کے آپس میں متصادم مفادات کا بھی خیال رکھنا ہے۔ برطانوی تھنک ٹینک Chatam House کے ریناڈ منصور کے مطابق ’’حیدرالعبادی اپنے کچھ اتحادیوں کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’’وہ ایک مشکل راستے پہ چل رہے ہیں‘‘۔
حیدر العبادی کو وزیراعظم بنے چار سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اُن کے مطابق اِس عرصے میں اُنھوں نے کچھ مشکل سبق سیکھے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ مستقبل میں داعش جیسے خطرے سے بچنے کے لیے عراقی شہریوں میں قومیت کا تصور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ خود کو ملک کا حصہ سمجھیں۔ لیکن ایسا کر نے کے لیے انھیں ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی بدعنوانی پر قابو پانا ہوگا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ ۲۰۱۵ء کی رپورٹ کے مطابق عراقی حکومت تمام شعبوں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا شکار ہے۔ ۲۰۱۴ء میں حیدرالعبادی کے وزیراعظم بننے کے بعد عراقی فوج میں ۵۰ ہزار ــ گھوسٹ فوجیوں کا انکشاف ہوا، جس پر کارروائی کرتے ہوئے کچھ اعلیٰ عہدے داروں کو نوکری سے فارغ کردیا گیا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود وزیراعظم بدعنوانی کے خلاف خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ اگر وہ بڑی مچھلیوں کے خلاف کارروائی کریں گے، تو اُس کی زَد میں کئی ایسے لوگ بھی آئیں گے جن کی عدم موجودگی وزیر اعظم کو سیاسی طور پہ کمزور کر سکتی ہے۔
عراق کی ۳۷ ملین آبادی میں سے ۴۰ فیصد لوگ امریکی حملے کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، اِس وجہ سے وہ آج بھی خود کو آزاد تصور نہیں کرتے۔ عراق کے نوجوان اپنے بہتر مستقبل کے امکانات دیکھنا چاہتے ہیں۔ ۲۵ سالہ مصطفی جاسم فنونِ لطیفہ کے ایک قابل استاد ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’میں عراق سے باہر جانا چاہتا ہوں کیوں کہ یہاں مجھے اچھے مستقبل کے امکانات نظر نہیں آتے‘‘۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ بے روزگاری کے مسئلے کو ہنگامی طورپہ حل کرنا چاہتے ہیں۔بے روزگاری کو ختم کرنے کا ایک آسان حل یہ ہے کہ جنگ زدہ عراق کی تعمیرنو کے لیے بڑے پیمانے پہ لوگوں کو نوکریاں دی جائیں۔ فروری میں عراق کی تعمیر نو اور بحالی کے حوالے سے کویت میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں کئی ممالک اور کمپنیوں کے نمائندگان نے شرکت کی۔اگر ایسے اقدامات کامیاب رہے تو یہ عراق کے لیے فائدہ مند ہوگا۔عراق میں موجود امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ حیدر العبادی عوام کو یہ امید دلانا چاہتے ہیں کہ آنے والا کل اُن کے گزشتہ کل سے بہتر ہوگا۔
وزیراعظم حیدرالعبادی نے جنوری کے مہینے میں امریکا، برطانیہ، جاپان، اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک کے سفیروں کے ساتھ ملاقات میں اُنھیں خبردار کیا کہ عراق کی ازسرنو تعمیر نہ صرف دہشت گردی کے خطرات کو روکنے کے لیے ضروری ہے، بلکہ عوام کی روزمرہ زندگی میں بہتری لانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ مستقبل میں داعش جیسے خطرے سے نمٹنے کے لیے عراق کی تعمیرنو ضروری ہے،جس کے لیے ۹۰؍ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ تاہم اب تک صرف ۳۰؍ارب ڈالرکی امداد جمع ہو سکی ہے، جس کی وجہ مئی میں ہونے والے انتخابات ہیں۔ بیرونی حکومتیں اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ آیا ان انتخابات میں حیدرالعبادی دوبارہ منتخب ہوتے ہیں یا نہیں۔ امریکا مغربی تعلیم یافتہ حیدر العبادی کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن عراق میں موجود ان کے طاقتور مخالفین، جن میں سے کئی کو ایران کی حمایت حاصل ہے، حیدر العبادی کو صرف مراعات حاصل کرنے کی حد تک محدود کر سکتے ہیں۔
داعش کے خلاف جنگ نے عراق کو متحد کر دیا تھا لیکن اب، جب داعش کو شکست دی جا چکی ہے یہاں کی آبادی میں پرانے نسلی اور فرقہ وارانہ اختلافات سر اُٹھانے لگے ہیں۔ عراقی کردستان نے بھی گزشتہ سال ایک ریفرنڈم کے ذریعے عراق سے آزادی کا اعلان کر دیا۔ ’’انسٹیٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار‘‘ واشنگٹن نے فروری میں امریکی حکام کو خبردار کیا کہ وہ عراق میں ایک ایرا ن دوست حکومت کے لیے تیار رہیں۔ شیعہ ملیشیا فورسز داعش کے خلاف جنگ میں کافی شہرت اور اثرورسوخ حاصل کر چکے ہیں۔ ایسے درجن بھر سے زائد گروہوں نے جنھیں ایران کی حمایت حاصل ہے Popular Mobilization Forces(PMF) کے نام سے عراق کی فوج کے ساتھ داعش کے خلاف لڑائی میں حصہ لیااور اب وہ امید کرتے ہیں کہ انھیں سیاسی طور پہ تسلیم کیا جائے۔
قاسم، جو ہمیں بغداد کے مضافات میں لایا تھا ،بدر نامی تنظیم کا حصہ ہے ۔یہ PMFمیں سب سے بڑی سیاسی اور عسکری تنظیم ہے، جس کے ایران سے رابطے ہیں۔قاسم کا کہنا ہے کہ’’جیت حیدر العبادی کے نام سے موسوم ہے لیکن عراق کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ داعش کو شکست کس نے دی‘‘۔وہ اپنے نکلے ہوئے پیٹ اور دیگر خدوخال سے کسی سخت جان جنگجو کی طرح تو نہیں دِکھتا، لیکن پھر بھی جون ۲۰۱۴ء میں ٹی وی پر آیت اللہ سیستانی سے متاثر ہو کر وہ داعش کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیااور سالوں تک لڑتا رہا۔
اگر حیدر العبادی دوسری مرتبہ وزیرِاعظم منتخب ہوگئے تو انھیں قاسم جیسے ہزاروں لوگوں کی قربانیوں کو تسلیم کرنا ہوگا، جن کی بہادری کو عراق کے عوام سراہتے ہیں۔امریکی فوج کی عراق میں موجودگی کے حوالے سے عوام میں دورائے پائی جاتی ہیں ۔عراق کے فوجی حکام کہتے ہیں کہ وہ اب بھی امریکی امداد پرانحصار کرتے ہیں، دوسری جانب کچھ سیاست دان چاہتے ہیں کہ امریکا جلد از جلد عراق سے نکل جائے۔
تیل کے ذخائر کے حوالے سے عراق دنیا میں پانچویں نمبر پر آتا ہے،یہاں وافر مقدار میں قدرتی گیس بھی پائی جاتی ہے اور زراعت کے لیے زرخیز زمینیں بھی موجود ہیں۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے عراق کا مستقبل روشن ہونا چاہیے۔ جنوری کی ایک شام ہم نے ایک ایسی جگہ کھانا کھایا جہاں قطار میں کئی ہوٹل موجود تھے اور وہاں بڑی تعدادمیں نوجوان اور ان کے خاندان موجود تھے جو اسکول کی چھٹیوں کے آغاز پر خوشی منا رہے تھے۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جو آج سے پندرہ سال قبل ناقابل تصور تھا۔
بہرحال جنگ نے عراق کو گہرے زخم پہنچائے ہیں، جو کہ عوام میں موجود مایوسی اور ناامیدی کی وجہ سے دوبارہ تازہ ہوسکتے ہیں اور یہ بات تب مزید واضح ہوجاتی ہے جب آپ فلوجہ شہر جاتے ہیں۔ یہ شہر امریکیوں کے لیے خوف کی علامت ہے۔ ۲۰۰۴ء میں یہاں بلیک واٹر کے اہلکاروں پر گھات لگا کے حملہ کیا گیا، جس میں ۴ ؍اہلکار ہلاک ہوئے۔ ان کی مسخ شدہ لاشوں کو عوام نے فلوجہ کی گلیوں میں گھسیٹا اور بعد میں دو لاشوں کودریائے فرات پر بنے لوہے کے پل پر لٹکا دیا گیا۔ ان اہلکاروں کی موت کے بعد امریکی فوج کی جانب سے پر تشدد جوابی کارروائی شروع ہوئی، جن میں کئی غیر مسلح مظاہرین بھی ہلاک ہوئے اور یہ ہی عراق میں القاعدہ کا نقطہ آغاز تھا، جس نے فلوجہ کی تنگ و تاریک گلیوں میں جڑ پکڑلی۔ ۱۵ سال بعد بھی فلوجہ کے عوام میں امریکی فوج کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔ جنوری ۲۰۱۴ء میں داعش نے اس شہر پر قبضہ کرلیا جو دو سال سے زیادہ عرصے تک رہا۔ جون ۲۰۱۴ء میں جس وقت عراق کی فوج شہر کا قبضہ واپس لینے کے لیے لڑ رہی تھی تب ۵۲ سالہ سفیان محسن نے اپنی بیوی اور پانچ بچوں سمیت شہر سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن شہر سے باہر نکلتے وقت ایک میزائل ان کی گاڑی کے قریب آپھٹا جس سے سفیان کی بیوی اور تین بچے ہلاک ہوگئے اور وہ خود بھی شدید زخمی ہوا۔ وہ اپنی زندگی کو ایک سخت نفسیاتی کشمکش سے تعبیر کرتا ہے۔ سفیان محسن نے اپنے موبائل میں محفوظ اپنی بیوی کی نیلے اور سنہری اسکارف میں، جبکہ ۱۷ سالہ بیٹے کی اسٹریچر پر مردہ حالت میں تصاویر کو دیکھتے ہوئے کہا کہ چند ماہ پہلے میں نے حکومت سے اپنے خاندان کے شہید ہو جانے والے افراد کے معاوضے کی اپیل کی تھی۔ حکومت کی جانب سے مجھے معاوضہ تو ادا کردیا گیا، لیکن یہ معاوضہ میرے ’’اس‘‘ نقصان کی تلافی نہیں کر سکتا۔
جب عراق ایک اور جنگ کے دھندلکے سے ابھرتا ہے تو یہاں پرجو نقصان ہوا ہے وہ نہ صرف یہاں کی عمارتوں اور زندگی کے لیے ناگزیر سہولیات کی فراہمی کے نظام تک محدود ہے بلکہ یہ ایک ایسا ناقابل تلافی نقصان ہے جس کی تلافی خطیر رقم بھی نہیں کر سکتی۔ نفرت کا تسلسل اور مجروح نفسیات سے چھٹکارا حاصل کرنا کہیں زیادہ مشکل اور طویل ہو سکتا ہے۔
اب عراق کے افراد امن کو حاصل کرنے کی شدید تمنا رکھتے ہیں اور تنازعات کا سامنا کرتے کرتے اکتاہٹ کا شکار ہیں۔وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا ہے کہ ’’ہم نے دہشت گردوں کو یہاں سے باہر نکالنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں‘‘۔ داعش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’داعش کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر اور بہت سے لوگ جاں بحق ہوئے‘‘۔ دراصل یہ سب کچھ واقعات کا ایک ایسا تسلسل ہے جسے ان غیر متوقع نتائج کا حامل کہا جاسکتا ہے، جو ۱۵ سال پہلے بغداد میں رات کے وقت گرنے والے پہلے امریکی بم کے بعد سامنے آئے۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“LIfe after war time”. (“Time”. March 19, 2018)
Leave a Reply