ترکی کے لیے دین کے بغیر زندگی ناممکن ہے!

ترکی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اِلکر باشبوغ نے اپنے سالانہ خطاب میں فوج کی طرف سے دین کے احترام پر زور دیتے ہوئے کہا ’’دین کے بغیر ترکی کے لیے زندگی ممکن نہیں ہے‘‘۔ نیز انہوں نے جمہوریت اور شہری اقتدار کے احترام کا بھی ذکر کیا، اس بیان پر ترکی کے صحافیوں کا تبصرہ تھا کہ یہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے تحت پیدا شدہ تبدیلیوں سے سازگاری کی کوشش ہے۔ جنرل نے مزید کہا ’’فوجی ادارہ دین سے دشمنی نہیں رکھتا، اس لیے سیکولر ترکی کے مؤسس مصطفی کمال اتاترک نے کہا ہے کہ دین کے بغیر امت کا استمرار ناممکن ہے، لہٰذا فوج کے لیے ہماری مسلم اکثریت والی قوم کی اقدار کا عدم احترام ناممکن ہے۔ اس طرح جنرل نے ۱۹۲۴ء میں سیکولر ترکی جمہوریہ کے قیام کے وقت سے قائم سوالوں خاص طور سے فوج اور شہریوں کے درمیان تعلق اور فوجی ادارہ کے دین، سیکولرازم اور اقلیات سے متعلق مؤقف پر کھل کر بات کی۔ اس خطاب کے موقع پر یہ بات بھی قابلِ توجہ تھی کہ اس میں ان صحافیوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی جو سیاسی زندگی میں فوج کی مداخلت اور اتاترک سیکولرازم کی سخت مخالفت کے لیے معروف ہیں جب کہ اس خطاب سے پہلے ان کو شرکت کی دعوت نہیں دی جاتی تھی اس لیے کہ فوج اس مخالفت کو ’’ملک کے امن و استحکام اور فوج کی ہیبت (رعب داب) کے لیے خطرہ سمجھتی تھی۔

ترکی کے اخبار ’’زمان‘‘ میں صحافی مومتازیر ترکونی کے شائع شدہ خیال کے مطابق جنرل کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فوج میں اس بات کی خواہش ہے کہ اندرونی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں اور خاص طور سے جمہوریت اور عدالت و انصاف کی روشنی میں جو مستقبل بن رہا ہے اس میں ان کو پیر جمانے کی ضمانت حاصل ہو، اس لیے کہ اردوغان کی قیادت میں حکمراں پارٹی پبلک زندگی میں سیکولرازم کی حدت میں تخفیف اور سیاسی زندگی میں فوج کا قبضہ ڈھیلا کرنے کی کوشش کے اشارے دیتی رہی ہے۔ ترکونی کی دلیل میں جنرل کی اس گفتگو کے لیے وقت کا انتخاب بھی اہم بتایا ہے اس لیے کہ آخری زمانہ میں اور جینیکون تنظیم سے تعلق کے شبہ میں بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں ہوئی ہیں جس پر پبلک زندگی میں دین کی گرفت میں اضافہ کے بہانے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے خلاف فوج کے ریٹائرڈ افسران کی معاونت سے بغاوت کا الزام ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا: دین صرف افراد کی پرائیویٹ زندگی کا معاملہ نہیں بلکہ وہ سوسائٹی کے تمام عناصر کے ساتھ اپنی زندگی مستحکم طور پر مربوط کرنے کا نام ہے جن کو ان کی دینی اقدار کے ساتھ منظم و مرتب ہونا چاہیے اور ان کو مدارس اور شہری سوسائٹی کی تنظیموں میں بھی ظاہر ہونا چاہیے، نیز فوج کو اہلِ وطن کی اجتماعی زندگی میں دین پر انگلی نہیں اٹھانا چاہیے کہ وہ جمہوریت کے خلاف دھمکی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ جمہوریت کی علامتوں میں سے اس کی ایک نشانی ہے۔

حریت ڈیلی نیوز کے محمد علی برنارڈ نے مذکورہ تبصرہ کے برعکس جنرل کے خطاب کی اہمیت کم کرتے ہوئے لکھا کہ لوگوں کو امید تھی کہ ’’وہ فوج اور شہریوں کے مابین نئے صفحہ کے کھولنے کا اشارہ دیں گے، مگر ان کی توقعات پوری نہیں ہوئیں، اس لیے کہ جنرل نے کوئی وعدہ کیا نہ کوئی ایسا اشارہ دیا کہ وہ دین اور شہری اقتدار کی عزت و احترام کرتے ہیں، ان کا مقصد تو صرف پبلک زندگی میں فوج کے مقام و مرتبہ کی حفاظت اور اس کے خلاف الزامات کا ازالہ تھا، اسی لیے انہوں نے ترک فوج کے مقام کی انفرادیت اور سوسائٹی میں استقرار و استحکام کی حفاظت میں اس کے رہنمایانہ کردار پر بہت زیادہ تفصیل سے بات کی تھی، مثبت پہلو بس یہی ہے کہ انہوں نے عادت کے مطابق سوسائٹی کے خلاف فوج کا ڈنڈا نہیں لہرایا بلکہ انہوں نے فوجی ادارہ کو اس کے نئے حجم میں ہی رکھا جو جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی حکومت کے بعد کی سیاسی تبدیلیوں میں اس کو ملا ہے۔

(ہفت روزہ ’’الامان‘‘ بیروت۔۲۴ اپریل ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: مسعود الرحمن ندوی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*