
ملک توڑنے کی سازش کا بیج ڈالنے سے ۱۹۷۱ء میں اِس فصل کے ’’بار آور‘‘ ہونے تک یکے بعد دیگر رونما ہونے والے تمام واقعات کی بنیاد بنگالی قوم پرستی تھی۔ دانشوروں اور طلبہ نے اس پرفریب ’’نظریے‘‘ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم ظاہر کرکے اس کے ساتھ مکمل وفاداری کا حلف اٹھایا۔ بعض نے اپنے آپ کو اس یقین کے ساتھ بنگالی قوم پرستی کے لیے وقف کردیا کہ اُن کی نسل کی بقاء اِسی میں ہے! پھر یہ بھی ہوا کہ آدھے سچ اور آدھے جھوٹ کو ’’نظریہ‘‘ بنا کر اپنا لیا گیا۔ اس ضمن میں منطقی تجزیے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور نہ ہی جذبات کی سطح سے بلند ہوکر معاملات کا جائزہ لینے کے بارے میں سوچا گیا۔ قوم پرستی پروان چڑھتی گئی اور اس پر فدا ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ جنون کا یہ عالم تھا کہ اسے عملاً مذہبی عقیدے کی حیثیت حاصل ہو گئی! جن لوگوں نے بنگالی قوم پرستی کی مخالفت کی وہ بھی اس میں چھپی ہوئی طاقت کو نہیں سمجھ سکے اور انہوں نے بہت سے بنیادی نکات کو نظر انداز کیا جن کے باعث اس لعنت کو راتوں رات پنپنے کا موقع مل گیا۔ نوجوانوں میں قوم پرستی کے جذبات تیزی سے پروان چڑھے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے بارود کے ڈھیرمیں تبدیل ہوگئے۔ مجھے تسلیم ہے کہ میں بنگالی قوم پرستی کے سراسر خلاف تھا لیکن نوجوانوں میں اس نظریے کی مقبولیت کا میں بھی اندازہ نہیں لگا سکا اور جب یہ بم پھٹا تو پتہ چلا کہ مجھ سمیت کسی نے بھی بچنے کی تیاری نہیں کی تھی۔
شیکسپیئر نے ایک جگہ کہا ہے کہ فطرت کو میرے معصوم لوگوں کی پرورش کی خاطر وہ سبھی کچھ لانا چاہیے جو وہ چاہتے ہیں، خواہ زہر ہی کیوں نہ ہو!
پاکستان کے خلاف عوامی لیگ نے جس بنگالی قوم پرستی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اسے ایک فریب اور سراب کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ زبان کی بنیاد پر ابھاری جانے والی قوم پرستی لوگوں کو ہیرو ازم کی طرف لے جاسکتی ہے، انہیں نئے آدرش پروان چڑھانے کی تحریک دے سکتی ہے، انہیں جنگوں پر اکسا سکتی ہے، فرقہ وارانہ خانہ جنگی کو راہ دے سکتی ہے اور معاشرے میں شدید بے چینی بھی پیدا کرسکتی ہے۔ مگر کیا بنگالی قوم پرستی کو معروف معنوں میں قوم پرستی قرار دیا جاسکتا ہے؟
بر صغیر کی تاریخ کی پیچیدہ نوعیت کی وجہ سے یہ بات بِلاخوف و تردد کہی جاسکتی ہے کہ اس خطے میں لوگوں کو متحد رکھنے میں مذہب اور تاریخ نے زبان سے زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ زبان کی بنیاد پر تنازعات بنگالیوں اور آسامیوں میں اور شمالی بھارت میں ہندی بولنے والوں اور ہندی نہ بولنے والوں کے درمیان سر اٹھاتے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب بیسویں صدی میں ہوا ہے۔ انیسویں صدی میں زبان کی بنیاد پر فساد برائے نام تھا۔ علاقائیت ضرور فروغ پاتی تھی تاہم وہ جغرافیائی اور مذہبی بنیاد پر تھی، زبان کی بنیاد پر نہیں۔ بھارت میں قوموں اور زبانوں کا تنوع رہا ہے۔ ان متنوع زبانوں اور مختلف ثقافتی پس منظر کے حامل لوگوں پر حکمران اپنے انتظامی نظریات تھوپتے رہے ہیں۔ اگر مغل اور برطانوی سلطنت زبان کی بنیاد پر قائم نہیں تھی تو قدیم ہند میں موریہ خاندان کی حکومت کی بنیاد بھی زبان نہیں تھی۔ جب بھی مرکزی حکومت کمزور پڑتی تھی اور سلطنت چھوٹے چھوٹے راجواڑوں میں تقسیم ہو جاتی تھی اُس وقت بھی ہر یونٹ زبان یا اسی طرح کی کسی اور بنیاد پر کام نہیں کرتا تھا بلکہ اس کے معاملات مرکز سے بغاوت کرنے والے قائدین کے ہاتھ میں ہوا کرتے تھے۔ مسلمانوں کی حکمرانی سے قبل جنوبی بھارت میں چولا اور چیرا کی بادشاہت، مسلم بادشاہت میں ضم ہو جانے والی وجے نگر کی ریاست، مرہٹوں اور سکھوں کی حکومت یا پھر بنگال کی بادشاہت، یہ سب زبان کی بنیاد پر قائم ہونے والی جغرافیائی اکائیاں نہیں تھیں بلکہ یہ سب رجواڑے تھے جن کی قیادت کسی انتہائی با اثر سردار کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور ان کی حدود کا تعین اس کی فوجی طاقت کا مرہون منت تھا۔
سلطنتِ بنگال کو یہ نام زبان اور جغرافیہ دونوں کی بنیاد پر ملا۔ اس کی حدود میں بہار کے ہندی/اردو بولنے والے اور شمال مشرقی بھارت میں اڑیسہ کے علاقے بھی شامل تھے۔ مشرق میں بنگال کی سلطنت آسام کی حدود تک پھیلی ہوئی تھی۔ نام کے سوا بنگال کی سلطنت میں مغلوں سے قبل کے زمانے کی ریاستوں کے مقابلے میں کوئی فرق نہ تھا۔ کسی بھی ہندوستانی یا برطانوی مؤرخ نے ان ریاستوں کے عروج و زوال میں زبان کے کسی کردار کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ مرہٹے مغربی ہندوستان کے جنونی ہندو تھے۔ سکھ بھی بڑی حد تک مذہبی جنونی تھے کیونکہ وہ ہندوؤں سے چند صدیاں پہلے ہی الگ ہوئے ہیں۔ نسلی طور پر سکھ اور پنجابی مسلمان ایک ہی ہیں۔
ہندوستان کے ہر دور میں زبانوں اور نسلوں کا تنوع رہا ہے۔ بہار کی مغربی سرحدوں سے پنجاب کی مشرقی سرحدوں تک پھیلے ہوئے زرخیز علاقے میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ بستے آئے ہیں۔ اگر ان علاقوںمیں بولی جانے والی زبانوں کو بنیادی ہندوستانی بولی کی مختلف شکلیں اختیار کر جانے والی بولی کی حیثیت سے شناخت کیا جائے تو پھر ان نسلوں کو کیا کہا جائے گا؟ راجپوتوں کی رگوں میں خالص آریہ نسل کے لوگوں کا خون دوڑتا ہے۔ دارالحکومت دہلی، لکھنؤ، الٰہ آباد اور آگرہ کے اردگرد پورے خطے میں مختلف النسل لوگ ملیں گے۔ آریوں کی اولادیں ترک، مغل، ایرانی اور پٹھان نسلوں میں گھل مل گئی ہیں۔
زبانوں اور نسلوں کا یہی تنوع ہمیں جنوب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ جنوبی ہند میں تامل، تیلگو، ملیالم اور کنڑ بڑی نمایاں زبانیں ہیں۔ ان زبانوں کا تعلق نسل سے نہیں۔ جنوبی ہند میں سب سے بڑا نسلی گروپ دراوڑ ہے اور اس خطے کی نمایاں زبانیں بھی دراوڑ ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود برصغیر کی تاریخ نسلی ہے نہ لسانی۔ شمال اور جنوب تعصب کی بنیاد پر تقسیم رہا ہے اور ان میں کشیدگی بھی رہی ہے تاہم اسے زبان یا نسل کا تنازع قرار نہیں دیا جاسکتا۔ برطانوی راج کے دوران جنوبی ہند میں حیدر آباد کی خود مختار ریاست میں مغل، ترک اور افغان نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان بڑی تعداد میں آباد تھے اور یہ لوگ اردو بولا کرتے تھے۔ اس کے باوجود وہ شمال کی طرف اسی طرح شک بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے جس طرح ہندو یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے دراوڑ۔ بیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے کے دوران جب بہار سے آبادکار بلاکر بنگال میں آبادی کا عدم توازن دور کرنے کی بات کی گئی تو مسلمانوں نے اس تجویز کی بھرپور مخالفت کی۔
برصغیر پاک و ہند آج اُسی مقام پر کھڑا ہے جہاں قرونِ وسطیٰ میں رومن ایمپائر کی شکست و ریخت کے بعد یورپ تھا۔ انگلینڈ کے چاسر، اٹلی کے دانتے، فرانس کے زابلیز، لاطینی کے مقابلے میں اپنی اپنی زبانوں کا جھنڈا بلند کرنے کے باوجود اپنے آپ کو سب سے پہلے یورپین ہی گردانتے تھے۔ چاسر کو انگلینڈ کی اس جداگانہ حیثیت کا احساس تھا کہ یہ یورپ سے علیحدہ ایک جزیرہ ہے۔ اسی طرح بیسویں صدی کا اٹلی دانتے کے دور کے اٹلی سے یکسر مختلف ہے اور پھر دانتے کی کُل حب الوطنی اپنے شہر فلورنس کے گرد گھومتی تھی۔ ان یورپی دانشوروں نے سمجھ لیا تھا کہ مختلف علاقائی اور لسانی مظاہر سے بڑھ کر یورپی ثقافت تھی جو ان میں مشترک تھی۔ یہ دانشور بھونچکے رہ جاتے اگر کوئی ان کو بتلاتا کہ فرانس اور انگلینڈ کی یا اٹلی اور فرانس کی ثقافت کوئی الگ چیزیں ہیں۔ اس وقت کی یورپی ثقافت کی بنیاد عیسائیت اور روم و یونان کا تہذیبی ورثہ تھا۔ ان ثقافتی بنیادوں پر اگلی چار صدیوں میں یورپ میں قومی ریاستوں کا تانا بانا بُنا گیا، جن میں نسل اور زبان کا عنصر نمایاں تھا۔ تاہم زبان اور قومیت مکمل طور پر برتری حاصل نہیں کر سکے۔ سوئٹزرلینڈ اس کی زندہ مثال ہے۔ اسی طرح ہالینڈ ہے جو یورپی سیاست میں نمایاں ہے مگر جس کا وجود زبان یا قوم کا مرہونِ منت نہیں ہے یا پھر جرمن زبان بولنے والا ملک آسٹریا ہے جس کی علیحدگی کی تحریک کو ہٹلر بھی نہیں کچل سکا۔ آخر ایک ہی زبان بولنے والے دو ملکوں یعنی آسٹریا اور جرمنی کا کیا جواز بنتا ہے۔ اسی طرح مشرقی اور مغربی جرمنی کو ہم کیا کہیں جو مسلمہ طور پر ایک ہی زبان بولنے والے دو ملک تھے۔
لسانی بنیاد پر قوم پرستی کی بات کرنے والوں کو ہنگری، ہالینڈ یا سوئٹزر لینڈ کی مثال پسند نہیں آئے گی۔ مگر کیا ریاستوں کی تشکیل میں ہم زبان اور ثقافت کے کردار کو تاریخی حقائق کے معاملے میں زیادہ اہمیت دیں گے؟ رومن سلطنت کے ٹوٹ کر بکھرنے پر یورپ نے جو کچھ کیا وہی سب کچھ برصغیر میں بھی ہوا۔ مغل سلطنت کے بکھرنے پر مختلف علاقوں میں با اثر قائدین کے زیر اثر چھوٹی چھوٹی ریاستیں نمودار ہوگئیں۔ مقامی سیاست کے الٹ پھیر نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ بہار، اڑیسہ اور بنگال پر مشتمل علی وردی خان کی بادشاہت، اودھ اور آگرہ میں نوابوں کی حکمرانی، پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت، مغرب میں مرہٹوں کی، حیدر آباد اور میسور میں مسلمانوں کی فرماں روائی مجموعی طور پر الگ الگ ریاستوں کی شکل میں باقی رہ سکتی تھی مگر بر صغیر میں برطانیہ اور فرانس کی کشمش نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
میں اپنی بات منوانے کے لیے ماضی کو نہیں کھنگال رہا بلکہ جو کچھ میں بیان کر رہا ہوں اس کا بنیادی مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ لسانی قوم پرستی ایک بالکل نئی چیز ہے۔ جو کچھ حکمرانوں نے لوگوں پر مسلط کیا اس سے ہٹ کر بر صغیر میں اتحاد اور یکجہتی کی بنیاد ہمیشہ مذہبی ثقافت پر رہی ہے۔ مغرب کے مرہٹے، مشرق کے بنگالی اور دوسرے بہت سے علاقوں کے ہندوؤں کی مذہبی روایات ایک تھیں۔ ان کے دیوتا مشترک تھے، گیتا اور اپنشد پر ان کا کامل یقین تھا۔ مہا بھارت اور رامائن ان کے لیے محض نظمیں نہیں تھیں بلکہ ان میں وہ مذہبی احکام بھی تلاش کرتے تھے۔ البتہ یہ اتحاد بِلا استثناء نہیں تھا، جزوی تھا۔ کروڑوں مسلمان تھے جو کسی بھی اعتبار سے ہندوؤں کی مذہبی روایات کو قبول نہیں کرسکتے تھے۔ اگر ہم تھوڑے بہت عیسائیوں اور پارسیوں کو نہ گنیں تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ بر صغیر کے باشندوں کو ایک لڑی میں پرونے والی چیز ہندو ازم تھا یا پھر اسلام۔ زبان یا نسل نے کبھی اتحاد کی بنیاد کا کردار ادا نہیں کیا۔ اگر ہندو ازم اور اسلام کو نکال دیا جائے تو اس خطے میں صرف نسلی اور قبائلی روایات اور ان کے باہمی تصادم سے پیدا ہونے والی بدحواسی ہی رہ جائے گی۔
کانگریس نے ہندوستان میں قوم پرستی کا جو تصور پیش کیا اس نے مسلمانوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس تصور کو مسترد کردیا کہ وہ ایک علیٰحدہ قوم ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی کتاب دی ڈسکوری آف انڈیا میں بھارتی یکجہتی اور یگانگت پر زور دیا ہے اور اس سے انکار کرنے والوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ انہوں نے بھارتی یکجہتی کے جواز کے طور پر ہندو کلچر کے سوا کیا پیش کیا ہے؟َ اور دوسروں کی طرح خود نہرو بھی اس خیال کے حامل تھے کہ ہندو کوئی مذہب نہیں، روایات کا مجموعہ ہے! وہ ہندو کلچر کو خالص مذہبی نہیں بلکہ سیکولر کلچر قرار دیا کرتے تھے۔ مشکلات اسی مقام سے شروع ہوئیں۔ گیتا، اپنشد اور ویدوں کے کلچر میں مذہب کو اپنانے کا تصور نہیں تھا تاہم قرآن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ قرآن کو زندگی بسر کرنے کے مکمل ضابطے کی حیثیت سے اپنانے کا واضح مطلب مذہب کو گلے لگانا ہی تھا۔ اب ہوا یہ کہ جس نے ہندو کلچر کو اپنایا اور اس کے مطابق زندگی بسر کرتا رہا وہ تو مرکزی دھارے میں شامل کہلایا اور اس سے کسی کو کوئی اختلاف نہ رہا مگر جس نے اس کلچر سے ہٹ کر کچھ اور اپنایا اسے قبول کرنے سے انکار کا رویہ پروان چڑھا اور اسے فرقہ پرست قرار دیا گیا۔ ہندو واضح اکثریت میں تھے اور یہ دعویٰ کرسکتے تھے کہ بر صغیر کے اجتماعی کلچر ہی یہاں کا مذہب ہے۔ مسلمانوں کے لیے ہندوؤں کی عددی برتری کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔
مسلمانوں نے اپنے لیے بر صغیر میں الگ وطن کا مطالبہ طویل مدت تک بحث و تمحیص کے بعد کیا۔ کانگریس نے ایسے حالات پیدا کیے کہ مسلمانوں کے لیے اس مطالبے کے سوا چارہ نہ رہا۔ مسلمانوں کے جذبات کو یکسر نظر انداز کرنے اور تضحیک کا نشانہ بنانے کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔ مسلمانوں کے لیے کانگریس کی تنگ نظری ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ کانگریس نے ہندوستان کے لیے یگانگت کی بنیاد ہندو مذہب اور کلچر کو بنایا اور اس حوالے سے مسلمانوں کے کسی بھی دعوے یا دلیل کو سننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ جب مسلمانوں نے یہ سوال کیا کہ کیا ہندوستانی کلچر ہندو مذہب سے ہٹ کر کوئی چیز ہے تو جواہر لعل نہرو نے دی ڈسکوری آف انڈیا میں اس کا جواب یہ دیا کہ کشمیر میں ان کی اپنی نسل کے لوگ مسلمانوں کی طرح گوشت کھاتے ہیں! اس مثال کو پیش کرنے کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اس دعوے کو غلط قرار دینا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی کھانے پینے کی عادات بھی مختلف ہیں۔ نہرو نے گوشت کے لیے beef کے بجائے meat کا لفظ استعمال کیا۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ان کے نزدیک بعض ہندو بکرے یا مرغی کا گوشت کھاتے ہیں، گائے کا نہیں! کشمیر یا بھارت میں کہیں ہندوؤں کا کوئی ایسا گروپ نہیں جو گائے کا گوشت کھانے کا عادی ہو۔ مغربی طرزِ فکر رکھنے والے چند ایک ہندو کھاتے ہوں تو کھاتے ہوں، مجموعی طور پر ہندوؤں کی کوئی آبادی ایسی نہیں جو گائے کے گوشت کو خوراک کا باضابطہ حصہ بناکر زندگی بسر کر رہی ہو۔ جواہر لعل نہرو نے کشمیر میں بسنے والے ہندوؤں کو گوشت خور قرار دے کر سفید جھوٹ بولا تھا۔ نہرو جیسے پڑھے لکھے اور جدید اطوار کے حامل شخص نے بھی اس جھوٹ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
نہرو کی کتاب میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے کلچر میں تفاوت کے حوالے سے ایک اور مضحکہ خیز مثال موجود ہے۔ نہرو نے مسلمانوں کی جانب سے ہندوؤں سے ثقافتی طور پر الگ ہونے کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں ایک بڑا فرق بس یہی دکھائی دیا ہے کہ مسلمان ایسے لوٹے استعمال کرتے ہیں جن میں سے پانی نکالنے کے لیے ٹونٹی الگ سے بنی ہوتی ہے جبکہ ہندو گول بدنے کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ کلچر کے فرق کو واضح کرنے کے لیے اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کیا ہوسکتی ہے!
ہندوستان میں کلچر، زبان، نسل اور مذہب کا تنوع غیر معمولی رہا ہے۔ اس بنیاد پر ہندوستان کے پاس آپشن بھی اچھے خاصے تھے۔ جو لوگ برطانوی سامراج کی جانب سے انتظامی مقاصد کے لیے قائم کی جانے والی مصنوعی وحدت کو برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے وہ ایک ایسا وفاقی ڈھانچا تیار کرسکتے تھے جس میں تمام اکائیاں رنگ، نسل، کلچر یا مذہب کی بنیاد پر آزاد حیثیت کی حامل ہوتیں تاہم ویسے مل کر رہتیں۔ اس صورت میں ان کی انفرادیت اور خود مختاری داؤ پر لگنے سے محفوظ رہتی۔ کانگریس کے قائدین نے ابتدا ہی سے یہ راگ الاپا کہ ہندوستان ایک قومی ریاست ہے اور ہندوستان کی حدود میں رہنے والے ہندوستانی قوم ہیں۔ مسلمان اور دیگر اقوام نے اس تصور کی جس قدر مخالفت کی، کانگریس اسی قدر کثیر القومی ہندوستان کے تصور سے دور ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے یہ مشکل گھڑی تھی۔ ہندوستان کو ایک قوم قرار دینے میں انتہا پسند ہندو مثلاً مالویہ اور سیکولر ہندو مثلاً جواہر لعل نہرو اس حد تک چلے گئے کہ واپسی مشکل ہوگئی۔ مالویہ اور مونجے جیسے لیڈر کھل کر کہتے تھے کہ ہندوستان ہندو ریاست ہوگا جبکہ پنڈٹ موتی لعل نہرو اور پنڈت جواہر لعل نہرو ہندوستان کو سیکولر بنیاد پر قومی ریاست بنانے کے حق میں تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود ہندو قائدین کے ذہنوں میں واضح نہ تھا کہ ہندو ازم اور سیکولر ازم میں فرق کیا ہے۔ قدیم ویدانت کے فلسفے کو قبول کرلینا تو (مذہب نہ ہونے کے باوجود) درست تھا تاہم اسلام کو قبول کرنے میں قباحت تھی۔ برطانوی سلطنت کے ختم ہونے کی صورت میں لسانی بنیاد پر ریاستیں بھی معرض وجود میں آ سکتی تھیں۔ اس صورت میں جنوب میں تو ایک دراوڑ ریاست بن جاتی، آسام میں زبان اور کلچر کے فرق کی بنیاد پر کئی ریاستیں معرض وجود میں آتیں، پنجاب میں پنجابی راج کرتے اور مغربی ہند میں مرہٹے اور گجرات والے۔ وسطی اور مشرقی ہندوستان میں بھی زبان کی بنیاد پر ریاستیں بنائی جاسکتی تھیں۔ وسطی اور مشرقی ہندوستان میں ایک ہی نسل بولنے والوں میں مختلف زبانیں بولنے والے گروپ تھے جو مختلف علاقوں میں رہتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لسانی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل کوئی اچھا یا قابل عمل حل نہیں تھا۔
اگر ریاستوں کی تشکیل میں نسل سے زیادہ زبان اہم ہے تو پھر بر صغیر میں جتنی بھی زبانیں ہیں اتنی ریاستیں ہونی چاہیے تھیں۔ کانگریس نے زبان کی بنیاد پر ہندوستان کو ایک انتظامی اکائی کی حیثیت سے برقرار رکھنے کی کوشش کی تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ ہر زبان کی بنیاد پر الگ ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کانگریس نے ابتدا ہی سے اس بات پر زور دیا کہ برطانیہ نے ہندوستان کو جس شکل میں چلایا اسی شکل میں اسے برقرار رکھتے ہوئے قومی ریاست میں تبدیل کرنا چاہیے۔ انتظامی طور پر وفاق کے برقرار رکھنے کے باوجود اس کے انتظامی یونٹ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تو قومی ریاستیں ہی ہوتے۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ۱۹۳۵ء کی آئینی اصلاحات کے تحت ہندوستان سے برما کی علیٰحدگی کی کانگریس نے مخالفت کی تھی۔ واضح رہے کہ برما ثقافتی یا لسانی اعتبار سے کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہا۔ کانگریس کے لیڈر عظیم تر ہندوستان چاہتے تھے جس پر وہ برطانوی سامراج کے ختم ہونے پر حکومت کریں۔ مسلمانوں کی جانب سے علیحدہ ریاست کے قیام کے مطالبے کی مخالفت بھی اسی بنیاد پر کی گئی۔ ہندو چاہتے تھے کہ برطانوی حکمرانوں کے جانے کے بعد پورا ہندوستان انہیں ملے اور وہ اس پر بِلاشرکت غیرے حکومت کریں۔
☼☼☼
Leave a Reply