موجودہ مسلم دنیا کا جائزہ لیا جائے تو دل ناامیدی سے بھر جاتا ہے جس امت کا آغاز اقراء کے ولولہ انگیز حکم سے ہوا تھا آج اس کی کثیر تعداد ناخواندہ ہے۔ ادھر اکیسویں صدی میں زندگی نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ پڑھنے لکھنے کی بنیادی اہلیت کے بغیر مہذب زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ جدول میں چند مسلم ممالک میں بالغ شرح خواندگی کے اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں:
چند مسلم ممالک کی ’’بالغوں میں شرح خواندگی‘‘ (۲۰۰۰ء)۔ ماخوذ از ’’ورلڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ ۲۰۰۳‘‘۔ صفحہ۲۴۲:
ملک شرح خواندگی (بالغ)۔%
افغانستان معلوم نہیں
بحرین ۱۲
برونئی ۸
گیمبیا ۶۳
عراق ۴۴
متحدہ عرب امارات ۲۴
لیبیا ۳۰
مالدیپ ۳
قطر ۱۹
صومالیہ معلوم نہیں
سوڈان ۴۲
بالغ شرح خواندگی کا مفہوم یہ ہے کہ متعلقہ ملک کی آبادی میں ۱۵ سال سے زائد عمر کے افراد میں خواندہ افراد کا فیصد تناسب۔ جدول (۱) میں دیے گئے اعداد شمار کی روشنی میں ذرا خیال فرمائیے کہ بحرین‘ برونئی اور قطر جیسے دولت مند ممالک میں یہ شرح بالترتیب ۱۲‘ ۱۸ اور ۱۹ فیصد ہے۔ متحدہ عرب امارات میں بھی یہ شرح ۲۴ فیصدی سے زائد نہیں ہے۔ یعنی ملک کی تقریباً تین چوتھائی آبادی ناخواندہ ہے۔ ان سے اچھے تو بعض غریب مسلم ممالک جیسے گامبیا اور سوڈان ہیں جہاں شرح خواندگی بالترتیب ۶۳ اور ۴۲ فیصدی ہے۔ اس صورتحال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلم ممالک میں عام طور پر ابتدائی‘ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر قومی پیداوار کا کم سے کم تناسب خرچ کیا جاتا ہے۔
مزید اعداد و شمار اور تفصیلات میں گئے بغیر یہاں صرف اتنا عرض کرنا مقصود ہے کہ اگر اس صورتحال میں کوئی خوش آئند تبدیلی درکار ہو تو ہمیں علم و اخلاق کے منبع اول‘ یعنی سیرت پاکﷺ کی جانب رجوع کرنا ہو گا۔ ذرا خیال فرمائیے کہ اب سے ۱۵۰۰ سال قبل حضورﷺ نے مدینہ میں حکم جاری فرمایا کہ جتنے لوگ مسلمان ہوئے ہیں ان کے نام لکھو۔ چنانچہ مردم شماری کی گئی اور صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ اس فہرست میں پندرہ سو اشخاص کے نام لکھے گئے۔ غالباً یہ انسانی تاریخ کی پہلی مردم شماری تھی۔ خیال رہے کہ موجودہ مہذب دنیا میں پہلی مردم شماری امریکا میں ۱۷۷۰ء برطانیہ میں ۱۸۷۱ء اور برصغیر پاک و ہند میں ۱۸۹۱ء میں ہوئی۔ مسلم دنیا میں اب بھی کئی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ’’مردم شماری‘‘ کا وجود ہی نہیں۔
تعلیمِ نسواں کے بارے میں اب بھی مسلم دنیا میں اکثر غیرضروری بحث و مباحثے نظر آتے ہیں۔ کئی نام نہاد ’’اسلامی حکومتیں‘‘ مدارس نسواں کو بند کرنا عین اسلامی فعل خیال کرتی ہیں۔ اس ضمن میں رسول اﷲﷺ کا طرزِ عمل ملاحظہ ہو:
صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہی کہ چند عورتوں نے رسول اﷲﷺ سے عرض کیا کہ مرد آپﷺ سے فائدہ اٹھانے میں آگے بڑھ سکتے ہیں اس لیے آپﷺ اپنی طرف سے ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر فرما دیں۔ آپﷺ نے ان کی ملاقات کے لیے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔ چنانچہ اس دن آپﷺ نے نصیحت فرمائی اور شریعت کے احکام بتائے۔
اس موضوع پر ڈاکٹر محمد حمید اﷲ نے ابن اسحاق کے مغازی سے یہ عبارت نقل کی ہے:
’’جب کبھی رسول اﷲﷺ پر قرآن مجید کی کوئی عبارت نازل ہوتی تو آپﷺ سب سے پہلے اسے مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے پھر اس کے بعد اسی عبارت کو عورتوں کی خصوصی محفل میں بھی سناتے‘‘۔
یہ ان تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا کہ قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطی کے اسلامی معاشرے تعلیم یافتہ معاشرے تھے۔ بے شک ان تعلیمات نے ریاستی پالیسی کو بھی متاثر کیا لیکن اس سے بھی زیادہ موثر بات یہ تھی کہ ان تعلیمات نے انسانی دلوں میں جستجو کا وہ اضطراب پیدا کر دیا تھا جو علم و فکر کی بنیاد ہے۔ اس دعوے کے ثبوت میں کوئی خارجی دلیل یا اعداد و شمار تو دستیاب نہیں لیکن اس کا ایک داخلی ثبوت یہ ضرور ہے کہ عربی زبان جو زمانہ قبل اسلام میں صرف ایک شعری اور جذباتی زبان تھی‘ اموی عہد کے آتے آتے ایک علمی زبان بن گئی۔ یہاں تک کہ عباسی عہد میں اس کو بین الاقوامی زبان کا درجہ مل گیا۔ اس کی علمی فتوحات اس حد تک پہنچیں کہ اٹھارہویں صدی تک ابنِ سینا کی القانون کا درس آکسفورڈ اور کیمبرج میں دیا جاتا تھا اور انیسویں صدی میں شاہ ولی اﷲ دہلی میں بیٹھ کر حجۃ اﷲ البالغہ عربی زبان میں تالیف فرماتے تھے۔
مختصر یہ کہ سیرت رسول پاکﷺ میں ہمارے عصری مسائل کے لیے رشد و ہدایت موجود ہے۔ بشرطیکہ ہم یہ ہدایت حاصل کرنا چاہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘۔ نئی دہلی۔ نومبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply