
گزشتہ سال میں کم و بیش ۳۹ ہزار مہاجرین نے، جن میں زیادہ تر کا تعلق شمالی افریقا سے تھا، فرانس کی بندرگاہ کیلس سے ٹرکوں اور ٹرینوں کے ذریعے انگلش راہداری کو پار کرتے ہوئے برطانیہ کی طرف جانے کی کوشش کی۔ جواباً، کیلس کی ٹنل میں داخلے کو محفوظ بنانے کے لیے برطانوی حکومت نے ڈھائی میل کا حفاظتی جنگلا استعمال کیا، جو اس سے قبل ۲۰۱۲ء کے اولمپک مقابلوں اور ۲۰۱۴ء میں نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر استعمال کیا گیا تھا۔
برطانیہ کا تارکینِ وطن کے بحران پر ایک مربوط پالیسی کے بجائے استعمال شدہ جنگلوں کو استعمال کرکے وقتی طور پر مسئلے سے نمٹنے کی پالیسی غماز ہے کہ اپنے ساحلوں سے دور دنیا کے بارے میں برطانیہ کی سوچ تیزی سے محدود ہو رہی ہے۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی قدامت پسند جماعت کی حکومت کے پاس عالمی سطح پر برطانیہ کے مقام ایک واضح تصور کا فقدان ہے۔ ایک ایٹمی طاقت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کے باوجود اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ بیرونی دنیا کے ساتھ مشغول نہیں ہونا چاہتا، بلکہ الگ تھلگ رہنا چاہتا ہے۔ بات صرف یہ نہیں کہ برطانیہ کے پاس ایک وسیع حکمتِ عملی کی کمی ہے۔ اس کے پاس کسی بھی قسم کی واضح طور پر بیان شدہ خارجہ پالیسی سرے سے موجود ہی نہیں، سوائے ایک محدود تجارتی ایجنڈے کے۔
تاریخی طور پر برطانیہ عالمی سیاست میں ایک فعال کھلاڑی رہا ہے۔ اپنی سلطنت کے نقصان کے بعد وہ دنیا کے بعد از جنگ اداروں کا بانی اور سرگرم رکن ملک تھا۔ مختلف برطانوی حکومتیں سیرا لیون سے کوسوو تک، انسانی بنیادوں پر مداخلت کے لیے ماحول بنانے اور اس میں حصہ لینے میں پیش پیش تھیں اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دونوں اطراف کے لیے ایک عظیم اثاثہ رہے ہیں۔
تاہم حال میں بہت سے عوامل نے، مثلاً افغانستان اور عراق کی جنگوں کے بعد کی تھکن، کساد بازاری اور امورِ خارجہ میں وزرائے اعظم کی عدم دلچسپی نے برطانیہ کو بے حد اکیلا کردیا ہے۔ سخت کٹوتی کے اقدامات کی وجہ سے برطانوی سفارتی اہلکاروں اور فوج کی صلاحیتوں میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ خود ساختہ اسلامی ریاست (المعروف داعش) کے خلاف مہم میں اپنے محدود کردار، چین کے معاملے میں تاجرانہ نقطۂ نظر کو فوقیت دینے اور یوکرین میں روسی جارحیت کے جواب میں ایک حقیقی حکمتِ عملی وضع کرنے میں ناکامی کے ذریعے برطانیہ نے واضح کیا ہے کہ بین الاقوامی سلامتی کے وسیع تر تحفظات کے مقابلے میں وہ تنگ معاشی مفادات کو ترجیح دے رہا ہے۔
یورپی یونین میں برطانیہ کی رُکنیت کے معاملے پر ممکنہ طور پر ۲۰۱۶ء میں منعقد ہونے والے قومی ریفرنڈم کے ساتھ ہی دنیا میں برطانیہ کے مقام کے بارے میں درج ذیل موضوعات پر بحث توجہ کا مرکز بن گئی۔ تنہا رہ کر کام کرنے سے برطانیہ کتنا فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا لندن کو زوال پزیر ہوتی قومی صلاحیتوں کے پیشِ نظر شراکت داروں کے ساتھ کام کرنا چاہیے؟ بین الاقوامی تنظیمیں رکن ممالک کے اثر و رسوخ یا طاقت میں اضافہ کرتی ہیں یا کمی؟
ان سوالوں کے جو جوابات برطانیہ فراہم کرے گا، وہی آنے والے سالوں میں اس کی بین الاقوامی سیاست کے ساتھ مشغولیت کا نقشہ تشکیل دیں گے۔ رائے شماری کا نتیجہ اگر برطانوی خروج کے حق میں ہوا تو لندن اور برسلز کے درمیان کئی مہینے تلخ بحث و مباحثہ چلے گا، جس کے بعد یورپی تنگ نظری اور بڑھ جائے گی، جو پہلے ہی پریشان کُن سطح پر ہے۔ یہ نتیجہ نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپی یونین کو بھی کمزور کرے گا جو اپنے عالمی سطح پر سب سے زیادہ مشغول اور عسکری لحاظ سے طاقتور رُکن ریاست سے محروم ہو جائے گی۔
خرچ میں کنجوسی
بجٹ میں کٹوتیاں برطانوی سلطنت کے معتکف ہو جانے کا سب سے زیادہ مرئی نشان ہیں۔ ۲۰۱۰ء کے بعد سے دفتر خارجہ کا بجٹ ۲۰ فیصد تک کم ہو چکا ہے اور وزارت کو مزید ۲۵ سے ۴۰ فیصد تک کمی کے لیے تیار رہنے کو کہا گیا ہے۔ مسلح افواج کے حجم میں بھی کمی لائی گئی ہے اور جو فوج ۲۰۱۰ء تک ایک لاکھ بیس ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی، ۲۰۲۰ء تک اس کے بیاسی ہزار تک سکڑ جانے کی توقع ہے۔ شاہی بحریہ کے سابق سربراہ نے برطانیہ کے موجودہ اور ۱۹۳۰ء کی دہائی کے اوائل کے دفاع میں ’’پریشان کُن مشابہتوں‘‘ کا ذکر کیا ہے۔
برطانوی صلاحیتیں اس حد تک گر چکی ہیں کہ نیٹو کے ۲۰۱۱ء میں لیبیا کے مشن کے دوران برطانیہ کو ایک تیسرے درجے کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی امداد پر تکلیف دہ انحصار کرنا پڑا۔ پہلے سے ہی متروک زمین پر بگولے داغنے والے جیٹ طیاروں کی کمی نے داعش کے خلاف حالیہ مہم میں برطانیہ کا حصہ محدود کر دیا ہے۔ صرف آٹھ طیارے تعینات ہونے کی وجہ سے فضائی حملوں میں برطانوی اعانت انتہائی کم ہے۔ اور ۲۰۱۰ء میں سمندری نگرانی کے جہاز نمرود کو خیر آباد کہنے کے برطانوی فیصلے نے ملک کو آئرش سمندر میں روسی آبدوزوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
کنارہ کشی اختیار کرنے کا رجحان صرف انتظامی شاخ تک محدود نہیں ہے۔ ۲۰۱۳ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے شام میں فوجی مداخلت کے خلاف ووٹ دیا، جو عمومی طور پر فوجی مداخلت کے لیے ایک زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنے کا عندیہ تھا۔ رائے عامہ بھی غیر ملکی جھگڑوں میں الجھنے سے اتنی ہی بیزار لگتی ہے۔ ۲۰۱۵ء کے ایک پیو سروے کے مطابق نصف سے بھی کم برطانوی عوام مسلح جارحیت کا نشانہ بننے والے کسی نیٹو اتحادی کی زمین کا دفاع کرنے کے حق میں ہیں۔ انتخابات کے بعد سیکرٹری خارجہ فلپ ہامموند کا یہ کہنا کہ ’’دفاع کے حق میں کوئی ووٹ نہیں‘‘ بالکل غلط نہیں تھا۔ دریں اثناء حزب اختلاف لیبر پارٹی نے ایک ایسے راہنما، جیریمی کاربن کو چنا ہے جو اقوام متحدہ کی واضح منظوری حاصل کیے بغیر ہر طرح کی فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔ جنہوں نے اسلامی ریاست کی ظالمانہ کارروائیوں کا فلوجہ میں امریکی مظالم سے تقابل کیا ہے اور جنہوں نے نیٹو سے برطانیہ کی علیحدگی کی بات کی ہے۔
پیسے کی پیروی
جب سے برطانوی پالیسی سازوں نے بیرونی دنیا کے ساتھ مشغولیت میں دلچسپی کھو ئی ہے، انہوں نے معاشی مفادات کا ایک تنگ تصور اپنا لیا ہے۔ دفتر خارجہ نے اپنے عزائم محدود کر لیے ہیں اور اب اس کا مرکزی کردار حکومت کے نام نہاد خوشحالی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے تجارت کو فروغ دینا ہے۔
یہ تنگ نظر روش سب سے زیادہ چین کے معاملے میں واضح ہے، جہاں برطانوی حکومت نے معاشی نفع کے لیے سیاسی درگزر کی پالیسی اپنائی ہے۔ جولائی میں برطانیہ نے چین کے ناراض مصور آئی ویاویا کو ویزا دینے سے انکار کردیا، جسے بہت سے لوگوں نے اکتوبر میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورۂ لندن سے قبل انہیں رام کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا۔ ویسے تو دفترِ خارجہ کی زیادہ تر شاخوں میں عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے، لیکن بیجنگ میں برطانوی سفارت خانہ تجارتی ملازمین سے بھر چکا ہے۔
مبصرین کی یہ سوچ قابلِ معافی ہے کہ برطانوی خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کو ابھی ادراک ہی نہیں ہوا کہ چین ایک جغرافیائی سیاسی چیلنج پیدا کر سکتا ہے۔ انڈونیشیا، ملائشیا، سنگاپور اور ویت نام کے اپنے حالیہ دورے میں کیمرون نے خطے کو درپیش سلامتی خدشات کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا، البتہ انہوں نے کئی تجارتی معاہدوں پر دستخط کی نگرانی ضرور کی۔
اسی قسم کی تاجرانہ ترجیحات خلیجِ فارس میں بھی برطانیہ کی خارجہ پالیسی کی صورت گری کر رہی ہیں۔ جہاں مثال کے طور پر، بحرین کے ساتھ ہتھیاروں کے نفع بخش معاہدے علاقائی استحکام کے تزویراتی تحفظات یا جمہوریت کے فروغ پر بازی لے گئے ہیں۔ یہی کوتاہ بینی روس کے بارے میں برطانوی برتاؤ کی وضاحت کرتی ہے۔ اس واقعے کو تقریباً ایک دہائی گزر چکی ہے، جب سابق روسی جاسوس الیگزینڈر لیتوینین کوف کو لندن میں روسی ایجنٹوں نے قتل کیا تھا۔ اس وقت سے اب تک روسی جارحیت کے مقابلے کے لیے ایک مربوط برطانوی نقطۂ نظر کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیے، سوائے کبھی کبھار سخت مذمتی الفاظ کے۔ برطانیہ یوکرینی بحران پر یورپی سفارتی ردعمل کی قیادت فرانس اور جرمنی کو سونپ کر مطمئن ہو گیا ہے۔ اور لندن میں پراپرٹی کی تلاش میں سرگرداں روسی تاجروں کا روسی صدر ولادی میر پوٹن کی حمایت کے باوجود پہلے کی طرح گرم جوش اِستقبال ہو رہا ہے۔
لندن کے تنگ نظر تجارتی نظریے کے بارے میں جو شے نہایت پریشان کُن ہے، وہ یہ کہ اگر صرف اقتصادی خوشحالی ہی خارجہ پالیسی کا مرکزی مقصد ہے، تب بھی موجودہ حکمتِ عملی کوتاہ بینی پر مشتمل ہے۔ منافع بخش تجارت ایک مستحکم اور باضابطہ بین الاقوامی نظام کے تحفظ پر منحصر ہے جسے داعش اور پیوٹن دونوں ہی بدلنے کے خواہاں ہیں۔ چین ایک بڑی اور لبھانے والی منڈی ہو سکتا ہے، لیکن ایشیا میں جغرافیائی سیاسی رقابت عالمی خوشحالی کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے۔ محض تجارتی پالیسی پر زور بین الاقوامی نظم کو درپیش کچھ بڑے چیلنجز کا توڑ نہیں کر سکے گا۔ مثلاً افریقا کے ساحل پر بحری قزاقوں کا مسئلہ، داعش کی مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کی معیشتوں کو افراتفری کا شکار کرنے کی کوشش اور تارکینِ وطن کا بحیرۂ روم پر شدید دباؤ۔ کوئی یورپی ریاست، بلکہ درحقیقت کوئی بھی ریاست ان چیلنجوں کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ محدود وسائل کے حامل ملک کو اس بڑی سطح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اجتماعی عمل کی ضرورت ہے۔
اندر یا باہر؟
اس وقت جب خاص طور پر بین الاقوامی تعاون کی اشد ضرورت ہے، ایک نئی سیاسی بحث برطانیہ کے تعاون کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرے گی۔ وہ بحث یہ ہے کہ کیا برطانیہ کو یورپی یونین چھوڑ دینا چاہیے۔ کیمرون نے ۲۰۱۷ء کے اختتام تک یورپی یونین کی رکنیت کے معاملے پر ایک ریفرنڈم کا وعدہ کیا ہے اور اس بات کا امکان نظر آتا ہے کہ وہ ریفرنڈم ۲۰۱۶ء میں ہی ہو جائے۔ برطانیہ، یورپی یونین کے تمام اراکین کی طرح برسلز میں بحیثیت مجموعی یورپی یونین کے لیے تشکیل دی جانے والی خارجہ پالیسی کے علاوہ اپنی علیحدہ خارجہ پالیسی پر بھی کاربند ہے۔ تاہم اس کی طرف سے یورپی اتحاد کو چھوڑ دینے کا فیصلہ اس کے عالمی اثر و رسوخ کو کمزور اور بین الاقوامی نظام کے استحکام کو مزید نقصان پہنچائے گا۔
یورپی یونین سے برطانوی خروج کے کچھ حامیوں (بریگزٹ) کے لیے یہ انخلا کنارہ کشی کی ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ چوبیس میں سے تیس قدامت پسند اراکین پارلیمنٹ نے جنہوں نے شام میں مداخلت کے خلاف ووٹ دیا تھا، اکتوبر ۲۰۱۱ء میں اپنی جماعت سے انحراف کرتے ہوئے یورپی یونین کی رکنیت پر ریفرنڈم کے حق میں ووٹ دیا۔
تاہم یورپی اتحاد سے مایوس کچھ دوسرے مفکرین کے لیے، یورپی یونین سے برطانیہ کا خروج اس کے عالمی اثر کو بڑھانے میں مددگار ہوگا۔ برطانیہ کی دائیں بازو کی جماعت آزادی پارٹی کے سربراہ نائیجل فاراج کے مطابق یورپی یونین سے باہر ہو کر برطانیہ ’’ایک فروغ پذیر، عالمی مرکز‘‘ ملک بن کر ابھرے گا۔
یورپی اتحاد سے ناامید لوگوں کا کہنا ہے کہ بھاری بھرکم افسر شاہی پر مشتمل یورپی یونین ایک ایسی ہوشیار خارجہ پالیسی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی جو تیزی سے سکڑتی ہوئی دنیا کا تقاضا ہے۔ علاوہ ازیں وہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ یورپی اتحاد کی رکنیت کے معاشی فوائد کم تر ہیں۔ برطانوی برآمدات کا تقریباً ۶۰ فیصد فی الحال یورپی یونین کے ممالک سے باہر جاتا ہے، لہٰذا برطانوی معیشت کو یورپی یونین کے عائد کردہ سخت ضوابط کا پابند رکھنے کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔ اور جہاں تک جغرافیائی سیاسی چیلنجوں کی بات ہے تو یورپی یونین سے نکل جانے کے بعد بھی برطانیہ کی نیٹو میں رکنیت اس کی سلامتی کی ضمانت ہوگی۔
یورپی یونین پر خارجہ پالیسی کے تعاون کے لیے بحیثیت ایک فورَم ہونے والی بیشتر تنقیدیں درست ہیں۔ گزشتہ ۲۰ سال میں ایک ’’مشترکہ خارجہ اور سلامتی پالیسی‘‘ بنانے کی کوشش کا نتیجہ سوائے اَن گنت اجلاسوں، اعلانات، اہداف اور بیان بازی کے کچھ نہیں نکلا۔ بامقصد پالیسیاں کم ہی مرتب ہوئی ہیں۔ یورپی بامعنی دفاعی تعاون نہ ہونے کے برابر ہے، نہ ہی چین کے لیے کوئی مضبوط مشترکہ پالیسی موجود ہے۔ جب اپنے گھر کے پچھواڑے میں عدم تحفظ کا مقابلہ کرنے کی بات آتی ہو، چاہے جنوب میں ہو یا مشرق میں، یورپی یونین کے پاس حکمتِ عملی تو بہت ہیں لیکن مؤثر پالیسیوں کی قلت ہے۔
لیکن یورپی اتحاد سے مایوسیوں اور ناکامیوں کا سارا الزام برسلز میں موجود بدنام افسر شاہی کے سر ڈال دینا درست نہیں۔ بہت سے مسائل کی جڑ خود رُکن ممالک ہیں جو دل و جان سے ایک کثیرالفریق یورپی خارجہ پالیسی کو اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ لیکن چونکہ یورپی یونین کے بڑے ارکان، مثلاً برطانیہ، کی صلاحیتیں بھی زوال کا شکار ہیں، ان کے پاس سوائے ایک ناقص ادارے میں سرمایہ کاری کرنے کے کوئی راستہ نہیں۔
دفاعی صنعت سے لے کر تجارتی پالیسی تک تعاون کو فروغ دینے کا ڈھانچا صرف یورپی یونین کے پاس ہے۔ ایک پیچیدہ دنیا جہاں اقتصادی اور سلامتی کے مسائل آپس میں الجھے ہوئے ہیں، صرف ایک جامع پالیسی ہی ان کے حل کی ضمانت ہوسکتی ہے۔ ایسی کثیر الفریقی پالیسی کے لیے برطانیہ جیسی اہم رکن ریاستوں کو اور زیادہ حقیقی وابستگی دکھانی پڑے گی تاکہ برسلز میں ادارہ جاتی کمزوریوں پر غور کیا جاسکے اور ان پر قابو پایا جاسکے۔
قلعہ برطانیہ؟
یورپی یونین کی رکنیت سے مایوس تجزیہ نگاروں کی بہت سی تنقید کی بنیاد برطانوی طاقت کے بارے میں الجھن ہے۔ ایک طرف یورپی یونین چھوڑ دینے کی وکالت کرنے ولوں کا مؤقف ہے کہ لندن کا برسلز میں اثر و رسوخ بہت کمزور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپی یونین کی، ضرورت سے زیادہ سخت ریگولیشن اور اندرونی سلطنت تعمیر کرنے کی کوشش (جو اس کی ’’بہت ہی قریبی اتحاد‘‘ بنانے کی مہم سے واضح ہے) طویل مدتی رجحانات ہیں جنہیں ختم کرنے کے لیے برطانیہ کچھ نہیں کر سکتا۔ دوسری جانب، انہی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے طوق سے آزاد برطانیہ بذاتِ خود اتنا طاقتور ہوگا کہ اس کے پاس چین جیسی ریاستوں کے ساتھ مؤثر طریقے سے تجارتی معاہدوں پر گفت و شنید کرنے کے لیے عالمی اثر و رسوخ آجائے گا۔
شواہد سے پتا چلتا ہے کہ کم از کم چین کے حوالے سے لندن کا اثر و رسوخ بہت محدود ہے۔ مئی ۲۰۱۲ء میں اپنی پہلی مدت کے دوران کیمرون نے دلائی لامہ کے ساتھ ملاقات کر کے چینی تنقید کو دعوت دی۔ مگر اگلے ہی سال مؤقف تبدیل کرکے تبت کی آزادی کی مخالفت کردی۔ لیکن کسی بھی اقدام نے نہ تو چینی حکومت کی پالیسی میں کوئی قابلِ ذکر تغیر رونما کیا، نہ ہی کوئی معتبر ثبوت ہے کہ بیجنگ نے لندن کی چاپلوسی کی وجہ سے ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۴ء کے دوران اس سے دگنی سرمایہ کاری کی، جتنی کہ گزشتہ سات برسوں میں کی تھی۔
اگر برطانیہ یورپی یونین کو چھوڑ کر چین کے ساتھ ایک نفع بخش تجارتی معاہدہ کر بھی لے، تب بھی رکنیت چھوڑ دینے کی صورت میں اس سے کہیں زیادہ اہم فوائد کا نقصان ہوگا۔ ایک بات یہ کہ تجارت محض تجارت کے لیے نہیں ہوتی۔ بحرِ اقیانوس کے آر پار تجارت اور سرمایہ کاری میں شراکت داری، جس پر برسلز اور واشنگٹن کے درمیان بات چیت کی جاری ہے، اہم معاشی فوائد فراہم کرسکتا ہے۔ (بنیادی طور پر نوٹیرف رکاوٹیں ہٹنے کی صورت میں، جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور یورپ کے درمیان محصولات پہلے ہی کم ہیں)۔ لیکن اس کے اثرات جتنے معاشی نوعیت کے ہوں گے، اُتنے ہی جغرافیائی اور سیاسی بھی۔ یہ سودا جتنا عام سیاسی چیلنجوں کے سامنے مغربی نصف کرہ کی اقوام کی یکجہتی کا اظہار ہے، اُتنا ہی تجارت کو مزید کھولنے سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذریعہ ہے۔ اور یہ یکجہتی آج کی غیر مستحکم دنیا میں انتہائی اہم ہے۔ برطانیہ اپنے مفادات کا تنہا دفاع نہیں کرسکتا۔ یورپی یونین سے نکلنے کے بہت سے حامیوں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تعاون یورپی یونین کے بجائے امریکا کے ذریعے ہونا چاہیے۔ ابھی تک لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کو یورپی یونین سے دور ایک تنگ نظر برطانیہ کے ساتھ کام کرنے میں دلچسپی ہے یا نہیں۔ برطانوی بزدلی برطانیہ کے ساتھ امریکی ناامیدی کو بڑھاوا دیتی ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ برطانیہ نہ صرف یورپ بلکہ وسیع تر دنیا سے دوری اختیار کر رہا ہے اور خوشحالی کے نام پر جغرافیائی سیاسی اصولوں کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ یوکرین میں بحران کے مسئلے پر منسک مذاکرات اور ساہل جیسے غیر مستحکم علاقوں میں برطانیہ کی عدم موجودگی، خاص طور پر اُس وقت جب امریکا کی خواہش ہے کہ یورپ ان ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے تاکہ وہ ایشیا کی طرف رُخ کرسکے، بحرِ اوقیانوس کے پار شکوک و شبہات کو تقویت دیتی ہے۔
ان دنوں واشنگٹن کی آرزو ہے کہ اس کے اتحادی اپنے پچھواڑوں میں سلامتی کو برقرار رکھنے کا زیادہ تر بوجھ خود اٹھائیں۔ مزید براں پہلے کے ادوار سے بالکل برعکس واشنگٹن کو یقین ہے کہ سلامتی برقرار رکھنے کے لیے یورپیوں کو یورپی یونین کے اندر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اب یورپ بحرِ اقیانوس کے اطراف کے مابین تعلقات کا مخالف نہیں بلکہ اس سے مضبوط حامیوں میں سے ایک ہے۔ زیادہ مؤثر نیٹو کا راستہ برسلز سے ہو کر گزرتا ہے۔ یورپی یونین کے ڈھانچے کو استعمال کرکے ہی بہترین یورپی فوجی تعاون ممکن ہو سکتا ہے جو بحرِ اقیانوس کی طاقتوں کے اتحاد کو مضبوط کرنے کی لازمی شرط ہے۔
کامل اتحاد
اگر برطانیہ پوری دلجمعی سے اجتماعی خارجہ اور سکیورٹی پالیسیوں کی تعمیر کے کام میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلے تو اس سے یورپی یونین کی فعالیت میں کئی گنا فرق پڑے گا۔ جب کبھی لندن ایسا کرتا ہے جس کا موقع کم ہی آتا ہے (ایک مثال افریقا کے ساحل پر بحری قزاقوں کے خاتمے کے لیے یورپی یونین کے جنگی مشن کے ساتھ تعاون ہے) اجتماعی عمل مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ لیکن جب کبھی یہ یورپی یونین میں آگے بڑھ کر کام کرنے سے ہچکچاتا ہے، تو نہ صرف یورپی یونین کمزور ہوتی ہے بلکہ اس کمزوری کی وجہ سے یورپی یونین کے ناقدین کے دلائل کو بھی استحکام نصیب ہو جاتا ہے۔
یورپ کی ایک طاقتور فوجی ریاست ہونے کے ناتے برطانیہ یورپی یونین کی قیادت کے لیے موزوں ہے۔ یہ ٹونی بلیئر کی حکومت تھی جس نے بالآخر یورپی یونین کو، تجربے کے طور پرہی سہی، اپنی دفاعی پالیسی وضع کرنے کی اجازت دی تھی۔ بعد کی برطانوی حکومتوں کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے یہ پالیسیاں مؤثر ثابت نہ ہو سکیں۔ ہتھیاروں کے پروگرام پر تعاون، یورپی فوجی مداخلتوں کے بارے میں ہونے والی بحثوں میں شمولیت اور یونین کی خارجہ پالیسیوں کی تیاری میں سرگرم حصہ لے کر لندن یورپ کے بین الاقوامی اثرات کو مضبوط بنانے میں تمام ریاستوں سے زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔
دنیا میں برطانیہ کی جگہ کے بارے میں غیر یقینی کوئی نیا رجحان نہیں۔ ۱۹۶۲ء میں سابق امریکی وزیرِ خارجہ ڈین اچیسن نے اعلان کیا تھا کہ برطانیہ اپنی سلطنت کھو چکا ہے اور ابھی تک اپنے لیے کوئی کردار نہیں ڈھونڈ سکا ہے۔ آج برطانیہ بین الاقوامی امور میں مشغول ہونے کے بارے میں اور بھی زیادہ ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ آئندہ ریفرنڈم فیصلہ کریں گے کہ ملک کی پسپائی کا سفر جاری رہے گا یا نہیں۔ مگر برطانیہ چاہے یا نہ چاہے، وہ مشرقی یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا میں ہونے والے واقعات سے مکمل طور پر علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا واحد قابلِ عمل متبادل یورپ کا اجتماعی عمل ہے، وہی اجتماعی عمل جس کے لیے یورپی یونین بنائی گئی تھی۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“Littler England: The United Kingdom’s retreat from global leadership”.
(“Foreign Affairs”. Nov-Dec. 2015)
Leave a Reply