
یہ اہانت کا احساس ہی تھا جس نے مشرقی پاکستان کے عوام کو خود اپنا ایک ملک تعمیر کرنے کے اسباب فراہم کیے۔ یہ کوئی ۳۸ سال پہلے کی بات ہے جب بنگلا دیش وجود میں آیا تھا۔ قلیل وسائل اور کثیر تر آبادی کے باوجود ملک کو سونار بنگلا دیش بنانے کے ان کے عزم میں لغزش نہیں آئی لیکن رفتہ رفتہ وہاں کے عوام کے مزاج پر ایک بے یقینی کی کیفیت چھا گئی ہے۔ پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب بنگلا دیش کے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمن کو قتل کیا گیا۔ ان میں بصیرت تھی اور انہیں عوام کی تائید حاصل تھی جو ان کے اشارے پر قربانی دینے کو تیار رہتے تھے۔ دوسرا جھٹکا فوج کی شہ پر ہونے والی وہ بغاوت تھی جس نے شفاف اور جمہوری معاشرے کو تباہ کر ڈالا۔ ایسے عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی گئی جنہوں نے اعتدال پسندوں اور ان کے آدرشوں کو دیوار سے لگا دیا۔ طاقت جنون اور نزاع کے یکجا ہونے کا مقولہ درست ثابت ہوا۔ بنگلا دیش کو ترقی کرنے کے لیے عوام کے درمیان اتحاد کی ضرورت تھی لیکن اس نے فوجی حکومتوں اور جابرانہ نظاموں کا عتاب ہی دیکھا اور اس کے بعد باری آئی ہر وقت باہم دست و گریباں رہنے والی بیگمات کی۔ عوامی لیگ کی شیخ حسینہ کا ٹکرائو بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی خالدہ ضیاء سے ہوا بے بس عوام کی حالت پھر پہلے جیسی ہو گئی اور انہوں نے دو تہائی سے زیادہ پارلیمانی نشستیں بانی بنگلا دیش کی دختر شیخ حسینہ کو دے دیں۔ پھر بھی سیاسی اتحاد ان سے کوسوں دور ہے کیونکہ بی این پی نے پارلیمنٹ کا مقاطعہ کر رکھا ہے۔ بعض نامبارک تبدیلیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ اسلامی انتہا پسندی پھر سر ابھار رہی ہے۔ نفرت فروشی اور تاریخ فراموشی اس کا پیشہ ہے۔ جہادی عناصر جہاں تہاں پھیل رہے ہیں۔ یہ ایک صحت مند اشارہ ہے کہ گزشتہ سال بنگلا بھائی اور اس کے ۸ بنیاد پرست ساتھیوں کو پھانسی دیے جانے کے خلاف کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ وہ مذہبی شخصیت سے زیادہ ایک قاتل تھا، اس کے قتل پر ملائوں نے بھی راحت کی سانس لی۔
جس انداز میں بنیاد پرستوں نے بی این پی سے ہاتھ ملایا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہب اور سیاست کو باہم ملانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جماعت اسلامی کی حمایت انہیں حاصل ہے اگرچہ اس نے ہچکچاتے ہوئے اس کا اعتراف کیا ہے کہ آزادی کی جدوجہد کا تعاون آزادی میں رہا ہے۔ عوامی لیگ جس کی کارکردگی کمزور پڑ رہی ہے کو شاید معلوم ہو کہ یہ طاقتیں عام آدمی کے تخیل کو گرفت میں لے رہی ہیں، باوجود اس کے کہ بنگلا دیش کا مزاج اعتدال پسندانہ ہے۔ (ان کے قومی ترانے کے خالق ایک ہندوستانی بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور ہیں)
ایک اور ناخوشگوار بات یہ ہوئی ہے کہ بنگلا دیش جو لاکھوں کی تعداد میں ملازمتیں فراہم کرنے کے مسئلہ میں الجھا ہوا ہے اپنی سرحدوں کی طرف سے غافل ہو گیا ہے۔ وہ ہندوستان، سری لنکا اور یہاں تک کہ میانمار میں ممنوع تمام تنظیموں کی کھیت بن گیا ہے۔ وہ بنگلا دیش کی سرزمین سے اپنا کام کرتی ہیں جہاں سے انہیں آسانی ہوتی ہے۔ ان کا تعلق یونائیٹڈ فرنٹ آف آسام (القا) لبریشن کانگریس آف تمل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) اور دیگر غیر قانونی تنظیموں سے ہے۔ چند روز پہلے دہلی میں بنگلا دیشی وزیر خارجہ ددیپوڈوتی اور ان کے ہندوستانی ہم منصب ایس ایم کرشنا کے درمیان ملاقات میں اول الذکر نے ان ممنوع تنظیموں کے خلاف منظم جنگ چھیڑنے کا وعدہ کیا ہے۔ موصوفہ نے کہا کہ ہم انہیں گرفتار کرنے اور جڑ سے اکھاڑنے کی کارروائی کر رہے ہیں اور یہ یقین دلایا کہ ہم اپنی سرزمین پر کسی دہشت گرد کو پنپنے نہیں دیں گے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی ذات، نسل اور رنگ سے ہو۔
اس کے نتیجے میں ہندوستان نے سرحد پر لگنے والے بازاروں کی اجازت دی ہے اور بنگلا دیش کو ۱۰۰۰ میگاواٹ بجلی فراہم کر دی ہے جو پاور گرڈ سے اتصال کی سہولت کی فراہمی کے علاوہ ہے (بنگلا دیش کو بری طرح بجلی کی قلت کا سامنا ہے) مغرب سے تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد ہندوستان وہ پہلا ملک تھا جہاں شیخ حسینہ نے اس کا جائزہ لینے کے لیے اپنا خصوصی سفیر بھیجا کہ ہندوستان کس حد تک بنگلا دیش سے تعلقات نبھانے پر آمادہ ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ بجلی سے متعلق کسی معاہدے سے مطمئن نہیں ہو سکتیں کیونکہ وہ وسیع تر اور قریب تر تعاون کی توقع رکھتی ہیں۔
درحقیقت بنگلا دیش کی آزادی کے بعد نئی دہلی اور ڈھاکہ کا ایک مشترک پلاننگ بورڈ تھا۔ اس کے بارے میں ایک بنیادی خاکہ تیار کیا گیا کہ باہمی فائدے کے لیے دونوں ملکوں کی معیشتوں کو کس طرح ترقی دی جائے۔ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد سے ہر چیز کاغذ پر ہی رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ نئی دہلی کی اپنی حدود اور مجبوریاں ہیں لیکن اس کی معشت بھی تو زیادہ بڑی ہے۔ وہ اپنے وعدے سے بڑھ کر بھی کچھ کر سکتا ہے۔ شاید نئی دہلی بعض نجی سرمایہ کاروں کو بنگلا دیش میں پیسہ لگانے کی ترغیب دے سکتا ہے یا مشترک تجارتی سرگرمیوں پرآمادہ کر سکتا ہے تاکہ وہ چیزیں تیار کی جا سکیں جن کی ضرورت ہندوستان کو ہے۔ ٹاٹا کا تجربہ خراب رہا ہے لیکن اس وقت بی این پی اقتدار میں تھی اور اس کا موقف ہند مخالف تھا جو اب بھی ہے۔ ہندوستان کو بنگلا دیش کی اس ضمانت سے فائدہ پہنچا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے کارروائی کرنے والے اسلامی انتہا پسندوں اور شورش پسندوں کا تعاقب کرے گا لیکن جیسا کہ شیخ حسینہ کو اپنے اقتدار کے پہلے دور میں اندازہ ہوا ہے، ان عناصر کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے، کیونکہ ان کے سرپرست دونوں ملکوں میں موجود ہیں۔ شورش پسندوں کے ہاتھوں نشیلی دوائوں کی ناجائز تجارت سے انہیں کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ ان کے یا جرائم پیشہ افراد کے جال کا خاتمہ کرنا ضروری ہے لیکن نشیلی دوائوں کا استعمال کرنے والے افراد اونچے سیاسی رسوخ رکھتے ہیں۔ ڈھاکہ کی طرف سے ان کے خلاف کوئی بھی اقدام بہت مشکل ہے کیونکہ ماضی میں بھی مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔ یہ اقدام ہند مخالف آگ کو اور تیز کر دے گا جو پہلے ہی سے دہک رہی ہے۔ پاکستان مخالف احساسات کی جگہ اب ہند مخالف احساسات نے لے لی ہے، پھر بھی ڈھاکہ کو مسئلے کا سامنا کرنا ہی ہے۔ اب یہ مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ وہ چور اور شاہ دونوں سے بنا کر رکھے۔ بنگلا دیش جانتا ہے کہ اس کی سرزمین سے کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں پر قابو پانے میں اس کی ناکامی ملک کے لیے مہنگی پڑے گی۔ بہرحال اس وقت اسے ہندوستان سے ملنے والی امداد دائو پر لگی ہے۔
اسے نئی دہلی کی طرف سے فکرمند ہونا چاہیے جو کچھ ڈھاکہ دے سکتا ہے نئی دہلی اس سے زیادہ کی توقع رکھتا ہے۔ ہندوستان بھی اسے اپنے شمال مشرق تک پہنچنے کا عبوری حق اور برآمدات کے لیے چٹا گانگ بندرگاہ پر سہولتیں فراہم کرنا چاہتا ہے۔ عام آدمی ان اقدامات کو نئی دہلی کی چوہدراہٹ تصور کرتا ہے۔ اس طرح کے امور پر مذاکرات سے ماضی میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں ترشی آئی ہے۔ نئی دہلی کو بنگلا دیش کے عوام کو ان اقدامات کی معقولیت اور ان سے وابستہ بنگلا دیشی مفادات کا یقین دلانے کی کوشش کرنی ہو گی۔ شکر ہے کہ قدرتی گیس کے مطالبے کی تجدید نہیں کی گئی۔ یہ بنگلا دیش کے لیے بڑا حساس موضوع ہے۔
اس کے علاوہ یہ کہ بارک اور توائی ندیوں کے سنگم پر منی پور میں واقع تپائی مکھ ڈیم پروجیکٹ کے بارے میں بھی بنگلا دیش کی طرف سے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ نئی دہلی یہ کہتا ہے کہ پانی کا رُخ بدلا نہیں جائے گا۔ کسی طرح شکوک رفع کرنے کے لیے ہندوستان اور بنگلا دیش کے انجینئروں پر مشتمل بورڈ کے ذریعے پروجیکٹ کی نگرانی کی سفارش کیوں نہ کی جائے؟ فراخا بیراج تنازعہ کو ہی ہم بڑی مشکل سے سلجھا پائے ہیں۔
ہندوستان کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے تمام ہمسایہ ممالک نے اس سے دوری کیوں اختیار کر لی ہے۔ بے شک اس کا طول و عرض اس کی ایک وجہ ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس کے پڑوسی محسوس کرتے ہیں کہ دہلی میں عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کا احساس دن بہ دن شدید ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اپنا دبائو اطراف و جوانب پر اس انداز میں بنائے رکھنا چاہتا ہے کہ اس کے پڑوسی اس کی اسناد پر شک کرنے لگے ہیں۔
نئی دہلی کو کسی قدر اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے تمام پڑوسی باغی ہو گئے ہوں۔ ہاں ان کے ذہنوں میں بعض شکوک ضرور ابھر آئے ہیں جنہیں نئی دہلی کو اپنے عمل سے دور کرنا ہو گا۔
(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply