
بی جے پی نے ہمیشہ ہی مذہبی جذبات کا کھلواڑ کرکے اقتدار کا مزہ چکھا ہے، وہ ہر انتخابات سے پہلے مسلمانوں کے خلاف ہندو برادرانِ وطن کو صف بستہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ اب جب کہ بی جے پی برسراقتدار ہے اور اس وقت خصوصاً اترپردیش میں بے شمار چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ فسادات روز کا معمول بن چکے ہیں، وجوہات واضح ہیں کہ کچھ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور کچھ ضمنی انتخابات قریب تر آتے جارہے ہیں۔
مودی جس نعرہ کے ساتھ برسراقتدار آئے تھے، وہ نعرہ ترقی کا نعرہ تھا، اس غبارہ کی ہوا اترتی نظر آرہی ہے، مودی نے سو روزہ ترقیاتی پروگرام بھی تشکیل دیا تھا، مودی حکومت کے سو دن گزر چکے، لیکن اب تک عوام نے کوئی نئی تبدیلی نہیں دیکھی البتہ ریل کے کرایوں میں اضافہ اور چند ایک مہنگائی والے اقدام عوام نے ضرور دیکھے ہیں، لیکن جس ترقی اور معاشی استحکام اور اچھے دن آنے والے ہیں کی بات تھی، اب تک تو کچھ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ بلکہ جن مودی جی کے نام پر بی جے پی برسراقتدار آئی تھی، اب مودی جی کا جادو بھی کمتر ہوتا جارہا ہے۔ بہار اور کرناٹک کے ضمنی انتخابات نے برسراقتدار حکومت کے تعلق سے عوام کے رجحانات کا پتا دینا شروع کر دیا ہے، اگر بی جے پی اپنی پرانی روش اور ڈگر پر گامزن رہتی ہے اور عوام سے کیے گئے ترقی کے وعدے محض کاغذی وعدے یا زبانی جمع خرچ ثابت ہوتے ہیں تو ملک کے عوام اس ملک کی تقدیر کو کسی اور پارٹی کے حق میں دینے میں دیر نہیں کریں گے۔
ایک طرف برسراقتدار حکومت نے کوئی ترقیاتی ٹھوس قدم تو نہیں اٹھایا، البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ شرپسند عناصر بی جے پی کے برسراقتدار آتے ہی جری ہو گئے ہیں، آر ایس ایس کے سربراہ مومن بھاگوت کے بیانات ہوں یا پروین توگڑیا کے زہر آلود تیر و نشتر یہ سارے کے سارے برسراقتدار حکومت کے زور پر چلائے جارہے ہیں۔ متنازعہ اور بین مذہبی اختلافات کو ہوا دینے والے امور کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے، جو کسی صورت میں نہیں تھمتا، ابھی ابھی ’’لوجہاد‘‘ کا نعرہ پورے زور و شور سے بلند کیا گیا، ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب، انواع و اقسام کے مذاہب اور ذات پات کے لوگوں کے بیچ خلیج پیدا کرنے کے لیے مختلف تدبیروں اور پر مکر و فریب نعروں کا سہارا لے کر ہندوستان کے بقائے باہم اور اتحاد اور مذہبی رواداری کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، چنانچہ ہندوستان کی امن و امان کی فضا کو مکدر کرنے کے لیے یہ کارڈ کھیلا گیا کہ ’’لوجہاد‘‘ کا نعرہ دیا گیا، یعنی یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کی جانب سے ہندو لڑکیوں کو دامِ محبت میں گرفتار کرکے ان سے شادی رچا کر ان کو بجبر تبدیلی مذہب پر مجبور کیا جارہے۔ یہ نعرہ اس سے چند سال قبل کرناٹک اور کیرالا وغیرہ میں لگایا گیا، ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مخلوط تعلیم کا ماحول ہے، اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکے اور لڑکیوں کے باہم اختلاط کی وجہ سے بین مذہب شادیاں ایک عام رواج بن گیا ہے، لیکن اس بین مذہب شادیوں کے جواز و عدم جواز سے ہٹ کر مسلمانوں کو یہ الزام دینا کہ باضابطہ تنظیمی طور پر بجبر غیر مسلم لڑکیوں کو دامِ محبت میں گرفتار کرکے ان کا مذہب تبدیل کیا جارہا ہے، اس کے لیے خصوصاً میرٹھ کی ایک ہندو لڑکی جو معاشی بدحالی کی وجہ سے ایک مدرسہ میں بحیثیت استاذ خدمات انجام دے رہی تھی، اس کے ایک استاذکے برضا و رغبت معاشقہ کے واقعہ جبر و اکراہ اور تبدیلی مذہب کی مذموم کوشش باور کرا کے ماحول کو مسموم کرنے کی کوشش کی گئی، جس کی قلعی کھل گئی اور حقیقت واشگاف ہو گئی اور لڑکی کا بے جا الزام اور خصوصاً مدارس کو بدنام کرنے کی سازش کا پردہ فاش ہو گیا۔ ویسے مذہب اسلام میں کسی کو بھی بجبر و اکراہ اسلام میں داخل کرانے کی اجازت ہی نہیں، جب تک کوئی شخص برضا و رغبت دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوتا، وہ مسلمان ہی گردانا نہیں جاتا تو تبدیلی مذہب کے جبر و اکراہ کے کیا معنی، اس کے علاوہ اسلام غیر عورتوں کو تو چھوڑیے مسلم محارم کے علاوہ اجنبی عورتوں پر نگاہ ڈالنے تک کی ممانعت کرتا ہے، تو وہ کیوں کر عشق و معاشقہ کی غلط کاریوں کی اجازت دے سکتا ہے، یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جارہا ہے کہ کسی بھی طرح ماحول کو مسموم اور زہر آلود کرکے اپنی سیاسی دکان چمکائی جائے اور اقتدار کے مزے لوٹے جائیں۔ اس تعلق سے جو پروپیگنڈے اور ’’لوجہاد‘‘ کے نام سے مختلف کہانیاں گڑھی گئیں اور یو ٹیوب وغیرہ پر برقعہ پوش خواتین کو پیش کیا گیا جو کہ ہندو تھیں اور انہیں مذہب اسلام میں بجبر و اکراہ داخل کیا گیا، اس غلط ذہن سازی اور منافرانہ ماحول کو فروغ دینے کے لیے نہ صرف الیکٹرانک میڈیا ٹی وی انٹرنیٹ وغیرہ کا سہارا لیا گیا بلکہ پرنٹ میڈیا کے ذریعہ بھی اس غلط پروپیگنڈہ کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی۔ پمفلٹ، پوسٹروں اور کتابچوں کی شکل میں بھی اس مذموم کوشش کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی، لیکن جب یہ پروپیگنڈہ منظر عام پر آیا اور شرپسند عناصر کی جانب سے اس طرح کی غلط ذہنیت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی تو اخبار ہٰذا میں ایک فہرست ان شدت پسند عناصر کی شائع کی گئی جو ہر دم ہندوتوا کا راگ الاپتے ہیں اور ہندوستان کی پرامن فضا کو مکدر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہوں نے اپنی لڑکیوں کو مسلمانوں سے بیاہا ہوا ہے، اس طرح مختلف سرکردہ شدت پسند تنظیموں کے سربراہوں کی لڑکیوں کی مسلمانوں کے ساتھ برضا و رغبت شادی رچانے کی بات سن کر تو یوں لگتا ہے، چلے تھے مسلمانوں کو بدنام کرنے خود ہی کی قلعی کھل گئی اور خود ہی بھرے بازار رُسوا ہو گئے، جب ان کو مسلمان لڑکوں سے اس قدر نفرت ہے تو انہوں نے اپنی لڑکیوں کا نکاح مسلمانوں کے ساتھ کیوں رچایا، ہندو تنظیموں کے سربراہ اور اپنے آپ کو ہندو مذہب کے تعلق حد سے زیادہ عقیدت اور لگاؤ کا دعویٰ کرنے والے پہلے ’’لوجہاد‘‘ کا نعرہ لگانے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لیں کہ تمہاری لڑکیوں کا بیاہ تم نے برضا و رغبت مسلمانوں سے کیوں کروا دیا، کیا جب تمہیں یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ اس سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا، اعداد و شمار کی زیادتی کی وجہ سے مسلمان برسراقتدار آجائیں گے جو غلط پروپیگنڈہ تم اس وقت کر رہے ہو۔
چنانچہ وشوا ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل نے اپنی بیٹی کی شادی مختار عباس نقوی سے کروائی ہوئی ہے، مرلی منوہر جوشی نے اپنی بیٹی کی شادی شاہنواز حسین سے کی ہوئی ہے، مودی کی بھتیجی کی شادی بھی ایک مسلم نوجوان سے ہوئی ہے، لال کرشن ایڈوانی کی بیٹی پرتیبھا ایڈوانی نے دوسری شادی مسلم سے کی ہے، سبرامنیم سوامی نے اپنی بیٹی سہانی سوامی کی شادی ایک مسلم نوجوان حیدر ندیم سے کی ہے، شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے نے اپنی پوتی نیہا ٹھاکرے کی شادی مسلم نوجوان سے کی ہے، پروین توگڑیا جو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں ہراول دستے میں رہتے ہیں، انہوں نے اپنی بہن کی شادی ایک مسلم نوجوان سے کی ہوئی ہے اور ان کے تعلقات اپنی بہن کے ساتھ برابر اور بدستور قائم اور استوار ہیں۔ یہ ’’لو جہاد‘‘ کا نعرہ لگانے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک لیتے تو اس طرح کے غلط پروپیگنڈہ کا سہارا لینے سے گریز کرتے۔
اس کے علاوہ بات ایک طرف کی نہیں ہے، جس طرح ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں کے دامِ محبت میں گرفتار ہو کر نکاح کر رہی ہیں تو اس کو ’’لو جہاد‘‘ کا نام دیا جارہا ہے، آئے دن ایسے بے شمار واقعات پیش آتے ہیں کہ مسلم لڑکیاں ہندو لڑکوں کی محبت میں پھنس کر ان سے شادی رچاتی ہیں تو اس کو کیا نام دیا جانا چاہیے، ایسی بھی بے شمار مثالیں ہیں کہ مسلم لڑکیوں نے تبدیلی مذہب کے بعد غیر مسلموں سے شادیاں کیں، یہ محبت و عشق و معاشقہ کے قصے واقعات اس وجہ سے رونما نہیں ہوتے، یہ تو مغربی تہذیب اور بے حیا و بے شرم اور بے پردہ اور مخلوط معاشرہ اور مخلوط ماحول اور تعلیم کا نتیجہ ہے، جس میں اجنبی لڑکی لڑکے کی قربت کو جدت پسندی سمجھا جاتا ہے، جو یہ غلط نتائج پر منتج ہوتے ہیں۔
اسلام کی تعلیمات اس سلسلے میں واضح اور دوٹوک ہیں کہ غیر عورت سے تعلق دور کا رہا، اجنبی اور نامحرم عورت سے گفتگو یا اس پر نظر ڈالنے کی بھی اجازت نہیں، اس قدر پاکیزہ اور پاکباز مذہب کو جس کے پیروکاروں کو صرف بدنظری کرنے پر چالیس دن کی عبادت کی لذت سے محرومی کی بات کہی گئی ہے کیوں کر اپنے پیروکاروں کو عشق و معاشقہ جیسے گھنائونے اور ناجائز راستے کی تعلیم دے سکتا ہے اور اجنبی عورت سے دوستی کی تعلیم دے سکتا ہے، اسلام ایک کامل و مکمل مذہب ہے جس پر ہر گوشہ حیات سے متعلق اس کے پاس مکمل تعلیمات موجود ہیں، یہاں ہر دینی اور دنیاوی کام کے شرعی اصول و ضوابط ہیں، نکاح اور مناکحت کے اور پیغام رسانی کے بھی کچھ طور طریقے ہیں، یہ نہیں کہ دیگر مذاہب کی طرح محض دین کے فروغ کے لیے ناجائز اور غیر شرعی حربے تک استعمال کر دیے جائیں، عشق و معاشقہ کے جال بچھا کر داخل مذہب کیا جائے، اس کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا، کسی بھی جائز کام کے لیے ناجائز حربوں کے استعمال کی ہر گز اجازت یہاں نہیں۔
دراصل ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ میڈیا اور اردو اخبارات کے ذریعے ہندو مذہبی شدت پسندوں اور ہندو اور مسلم اتحاد میں رخنہ ڈالنے والے ان خود ساختہ مذہبی ٹھیکے داروں کو اس سے پہلے کہ وہ ’’لوجہاد‘‘ کا نعرہ بلند کرکے ملک کی فضا کو مسموم کرنے کی مذموم کوشش کرتے، خود اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے۔ ہندو برادران وطن کو اپنی لڑکیوں کی مسلمان نوجوانوں سے شادیوں کے سلسلے میں جواب دینا چاہیے، پھر کہیں جاکر یہ پروپیگنڈے اور مذموم حرکتیں کرتے تو بھی وہ کسی درجہ میں ہندو برادرانِ وطن میں مقبول ہوتے، لیکن انہوں نے یہ ایشو اٹھا کر ہی گویا اپنی قبر کھودنی شروع کردی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ’’ المنصف‘‘، حیدرآباد دکن)
Leave a Reply