
آٹھ صدی قبل اسپین کے شہروں کے بارے میں آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ لائبریریوں کی کثرت ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ بغداد اور ترکی علوم کے سر چشمے تھے۔ خلیفہ عبدلاحکم ثانی (متوفی ۳۵۰ء) کی ذاتی لائبریری میں چار لاکھ کتابیں موجود تھیں۔ دس ہزار خوش نویس محض کتابیں نقل کرنے پر مامور تھے۔ آج یہ عالم ہے کہ خواص کا کتاب کو خرید کر پڑھنا کارِ دارد ہے، کتاب تو کتاب! ہم اخبار اور رسائل تک خریدکر نہیں پڑھتے۔
سوویت روس میں اخبار’’پراودا‘‘ کی اشاعت ایک کروڑ تھی۔ امریکہ اور یورپ میںمتعدد اخبارات اور رسائل پچاس لاکھ سے ایک کروڑ تک چھپتے ہیں جب کہ روزنامے پچاس پچاس صفحات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اسی طرح کتابوں کے ایڈیشن نہ صرف یہ کہ پانچ لاکھ سے دس لاکھ چھپتے ہیں بلکہ ان پر تبصرے بھی اسی شدو مد سے پڑھے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں آج یہ حال ہے کہ ادبی کتابیں پانچ سو سے زیادہ نہیں چھپتیں اور وہ بھی یاردوستوں میں مفت تقسیم ہوتی ہیں۔ کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اس کتاب کو خرید کر پڑھے۔ اب کتاب کے تبصرے سے بھلا کسی کو کیا سر وکار؟
۱۹۹۹ء کی بات ہے میں دہلی میں انجمن ترقی اردو کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ ادارے کے روح رواں، ڈاکٹر خلیق انجم نے پوچھا: آج کل آپ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا: اردوا دب کی مختلف صنف میں کتابیں تیار کروا کر شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ وہ بولے ارے رے رے ! یہ آپ کو کس نے مشورہ دیا؟ کل تک لوگوں کے پاس قوت خرید نہیں تھی آج حکومت کے معاندانہ رویہ کی وجہ سے گھر گھر ہندی کا چلن ہے۔ ہماری نئی نسل اردو جانتی کب ہے۔ اردو کتابیں اب خریدے گا کون؟ میں نے انہیں چھیڑا: محترم کسی کا قول ہے کہ وہ گھر قبرستان کی مانند ہے جس میں کوئی کتاب نہیں! خلیق صاحب لحیمی سے بولے : اگر کوئی شخص یہ طے کیے بیٹھا ہے کہ اسے زندہ رہنے کا ثبوت نہیں دینا ہے تو آپ کا کن فیکون کا م نہیں آئے گا۔ دوسری بات یہ کہ آپ کسی جاگتے ہوئے شخص کو کیسے جگائیں گے ؟
میرے قیام جدہ کا واقعہ ہے میں اخبار لینے وہاں کے ایک دیدہ زیب بازار بلد پہنچا۔ مشہور زمانہ تاجر محی الدین ملیباری کی اخبار کی دکان میں سینکڑوں کی بھیڑ تھی۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ یہ وہ دن تھا جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔ بھیڑ کو چیرتا ہوا میں کائونٹر پر پہنچا۔ بمبئی کا انقلاب میں نے طلب کیا۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ کراچی کا جنگ اخبار سعودی عرب میں سات لاکھ روزانہ بکتا ہے اور بمبئی کا انقلاب اور حیدر آباد کا سیاست صرف پانچ۔ دراصل یہ ہمارے قومی مزاج کا تعارف ہے۔ صرف ایک اسی بات کا تجزیہ کیا جائے تو حیرت ناک بات سامنے آئے گی کہ ہندوستان میں جمہوری ادارہ مستحکم ہے لہذا یہاں کے عوام کا سیاسی شعور زیادہ پختہ ہونا چاہیے۔ اخبارو رسائل خرید کر پڑھنے کی عادت انہیں زیادہ ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس ادھر دیکھے…پاکستان میں جمہوری ادارے مستقل شکست وریخت سے دوچار ہوتے رہے۔ جس سے عوام میں جمہوری قدروں کو سمجھنے اور برتنے کا فقدان ہے مگر اخبارات، رسائل اور کتابوں کی خرید و فروخت میں ہمارے اور ان کے مزاجوں میں بعد االمشرقین ہے۔
پروفیسرظ۔ انصاری رقم طراز ہیں:’’سوویت روس میں سوویت لٹریچر(ادبی نصاب) رسالوں نے جنہیں اشتہارات اور تجارتی تقاضوں سے کوئی سروکار نہیں،تبصرے کو ذہنی تربیت اور مطالعے کی توسیع کا بہترین ذریعہ بنا دیا ہے۔ مطالعے کی توسیع کے علاوہ انہوں نے عالمی ادب کی تشویق کا وہ عظیم فریضہ انجام دیا ہے جو انگریزوں نے سلطنت ڈوبتے وقت کا ندھے سے اتار دیا تھا اور جرمن … فاتح عالم بننے کے خبط میں مبتلا ہونے سے پہلے اسے اٹھانے چلے تھے۔
ایک کتاب کو عام ہاتھوں تک پہنچانے کے لیے مارکیٹنگ بہت ضروری ہے۔ کتاب پر مختلف رسائل اور اخبارات میں تبصرے، اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اس پر مذاکرے ہوں۔
جس طرح ترازو میں مینڈک نہیں تو لے جاتے بالکل اسی طرح کتاب شناسی کے ضمن میں تبصرہ نگار کو بھی ٹھوس یا نپا تلا مال ہی رکھنا چاہیے۔ شائع ہونے والی آدھی سے زیادہ مطبوعات تبصرے کی حقدار نہیں ہوتیں۔ نپاتلا اورغیر جانب دارانہ تبصرہ کتاب کی قدروقیمت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ بسا اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کتاب سے زیادہ تبصرہ مشہور ہو گیا اور اس کی مانگ کتاب سے زیادہ بڑھ گئی۔ ڈاکٹر دیویندر کو شک کی ایک کتاب جو ہندوستان اور روس کے تعلقات پر مبنی تھی، اس پر لاکھوں کی اشاعت والے روسی ترجمان روزنامہ ازویستیا نے کئی کالم کا تبصرہ شائع کیا۔ تبصرے نے موضوع پر معلوماتی مقالے کا رنگ اختیار کر لیا۔ جس کے اقتباسات ہندوستان کے بیشتر اخبارات کو تقسیم ہوئے۔
علامہ شبلی نعمانی نے حالی کی تصنیف حیات جاوید مدلل مداحی کا ریمارک کیا تھا۔ریمارک چل پڑا۔ کہتے ہیں کتاب شناسی کا فن ڈیڑھ سال پہلے کالرج کی دَین ہے۔ فن تبصرہ نگاری کو مستقل فن اسی نے بنایا۔ وہ لکھتاہے: تبصرے نگار کو مصنف کے سامنے،چاہے اس کے ڈنکے بج رہے ہوں نہ نیاز مند ہونا چاہیے اور نہ حملہ آور۔
کتاب شناسی کسی نہ کسی درجے میں ذہنی تربیت کا ذریعہ ہے اخبارات اور رسائل کی یہ پیشہ وارانہ ذمے داری ہے کہ وہ موضوع واراسکالروں اور اہل قلم حضرات کی ایک فہرست بنائیں اور جس قماش/صنف کی کتاب ہو اسی قسم کے تبصرہ نگار کو بھیجی جائے اور کالم اور الفاظ کے تعین کے سوا اور کوئی حد نہ لگائی جائے۔
اردو اخبارات ورسائل اور عمومی کتب فروشوں کو مل کرایک ایسی حکمت عملی بنانی چاہیے کہ جس سے ہماری نوجوان نسل ٹی وی فوبیا کے حصار سے نکل کر صحت مند ادب کی طرف متوجہ ہو۔ کتابیں رسائل اور اخبارات خرید کر پڑھے تاکہ اس کے شعور کی آب یاری ہواور جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھے تو اسے اپنے فیصلوں میں امتیاز حاصل ہو۔ دراصل اساتذہ بچوں میں یہ فہم پیدا کرنے میں ناکام ہیں کہ اسکول، کالج اور جامعات میں پڑھنا، لکھنا اور سوچنا سکھایا جاتا ہے۔ اور علم…علم تو مطالعہ سے پیدا ہوتاہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’دارالسلام‘‘ بھارت۔ شمارہ: جون ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply