
ایران کے صدارتی انتخاب میں نسبتاً معتدل شخصیت کے حامل ہاشمی رفسنجانی کے مقابلے میں تہران کے سابق سخت گیر میئر محمود احمدی نژاد کی غیرمتوقع اور غیرمعمولی فتح نے دنیا بھر کے سیاسی ماہرین کو حیرانی میں ڈال دیا ہے۔ اس میں شاید ہی کوئی شبہ ہے کہ ایک جہاں دیدہ اور تجربہ کار سیاستدان ہاشمی رفسنجانی اور احمدی نژاد‘ جو بیرونی دنیا کے لیے واقعتا اجنبی‘ غیرمعروف اور سیاسی نووارد بھی تھا‘ کے مابین مقابلے کے نتیجہ نے بیشتر ماہر انتخابی پیش بینوں کے تجربوں اور پیش گوئیوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ جو یہ توقع کر رہے تھے کہ رفسنجانی بنیاد پرست حریف کو بہ آسانی شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مایوسی گو کہ دہشت نہیں امریکا میں چھائی رہی۔ ایرانی صدارتی انتخاب کے آخری مرحلے کے حوالے سے جس کا نتیجہ امریکا کے لیے مایوس کن تھا۔ ایک ایسا ملک جو ایران سے ایک سے زیادہ مفہوم میں بہت زیادہ دور ہے‘ پھر بھی انتہائی شدید اور قابلِ فہم دلچسپی ایران میں رکھتا ہے۔ بہرحال یہ حیران کن بات ہو گی اگر نوقدامت پرست جو واشنگٹن پر حکمراں ہیں‘ اطمینان بخش طریقے سے یہ اعتراف کر لیں کہ کس قدر اور کتنی گہرائی سے ان کی پالیسیوں اور بیانات نے انتخابی نتیجہ کو متاثر کیا ہے‘ جس پر وہ اچانک سکتے میں آگئے ہیں۔ یہ کسی تنازعہ سے ماورا بات ہے کہ ایران کے ہمسایہ ملک عراق پر امریکی جارحیت اور پھر اس کے بعد قبضے کا سلسلہ ایران میں اسلامی بنیاد پرستی کے ازسرِنو زور پکڑنے کی وجہ بنا ہے۔ ایرانی بجا طور سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے ملک کی غیرمذہبی اور اصلاح پسندانہ خطیں انہیں امریکا کے استعماری ضرب سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بالکل ناکافی ہیں۔ عراق میں صدام حسین کی بعثی حکومت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر بھی اس ملک پر امریکیوں نے اپنے مفاد کی خاطر حملہ کیا۔ اس کے علاوہ امریکی‘ صدر محمد خاتمی سے زیادہ ایران میں کوئی معتدل شخصیت پانے کی توقع نہیں کر سکتے تھے لیکن انہوں نے کبھی خاتمی کے ساتھ امن و دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا اور نہ ہی بنیاد پرستوں کے ساتھ ان کی طویل کشمکش میں کبھی ان کی کوئی مدد کی۔ اس کے برعکس صدر خاتمی کی ۸ سالہ حکومت کو بڑھتے ہوئے امریکی دبائو کا ہی سامنا رہا۔ واشنگٹن بغیر کوئی لچک دکھائے مستقل ایران کے خلاف دشمنانہ پالیسیوں پر عمل پیرا رہا ہے اور خاتمی حکومت پر شکنجہ کسنے کا کبھی کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا‘ خواہ معاملہ سیاست کا رہا ہو یا معیشت کا۔ ایران کو سخت معاشی پابندیوں اور مقاطعہ میں جکڑ دیا گیا۔
بش نے تہران کو بدی کے محور میں شامل کرنے کے لیے بڑی تعداد میں سازشی نوقدامت پرستوں کو اپنی حکومت میں جگہ دی‘ جن کی دشمنی تہران سے بہت زیادہ تھی۔ آخرکار ہوا یہ کہ خاتمی کو اپنے معتدل رویہ کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا جو وہ ایرانی عوام کو منتقل کرتے۔ تہذیبوں کے مابین گفتگو کا ان کا جرأت مندانہ اور منفرد مشورہ کو امریکا نے شدت سے مسترد کر دیا اور اس طرح انہیں‘ ان کے دوسرے اعتدال پسند ساتھیوں اور اصلاح پسندوں کو بنیاد پرستوں کے مقابلے میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ درحقیقت ایران کے خلاف مسلسل جاری امریکا کی دشمنی نے خاتمی کے حامیوں کی بڑی تعداد کو اور ان لوگوں کو جو تازہ تازہ روشن خیال ہوئے تھے‘ بنیاد پرستوں کے کیمپ میں دھکیل دیا جو بھرپور یقین کے ساتھ یہ دلیل دے رہے تھے کہ اعتدال پسندی ایرانی عوام کی ضرورتوں کا حامل نہیں بلکہ ایرانی عوام کے مسائل کا حل ۱۹۷۹ء کے خالص انقلاب کی جانب لوٹ جانے میں ہے۔ جوہری مسئلے سے متعلق ایران پر ڈالا جانے والا لگاتار اور پے در پے دبائو شاید وہ طاقتور عامل ہے جس نے عوامی مدوجزر کو بنیاد پرستی کے حق میں پھیر دیا۔ بش انتظامیہ نے جوہری طاقت بننے کے تہران کے مبینہ آرزو پر شبہ کا کو فائدہ دینے سے صاف انکار کر دیا اس کے باوجود کہ IAEA تواتر سے یہ کہتا رہا کہ اسے امریکی تشویش کے حق میں ایران کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے۔ لیکن بش انتظامیہ اس مسئلے پر اس قدر شدید اور یکطرفہ ذہنیت کی حامل رہی کہ سفارتی آداب سے بالکل بے پروا ہو کر IAEA کے محمد البرادی کے انتخابِ نو کے خلاف لابنگ کرتی رہی‘ محض اس وجہ سے کہ البرادی نے امریکی خواہشات کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا تھا۔ بش کے نوقدامت پرست ساتھیوں نے یورپی ممالک یعنی برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی سے بھی الجھنے میں دریغ نہیں کیا جو واشنگٹن کے مقابلے میں اس حساس مسئلے پر زیادہ مصالحانہ روش پر گامزن ہیں۔ جوہری مسئلے پر ایران کو واشنگٹن کی جانب سے کسی رعایت دینے کے انکار کے ساتھ ہی نوقدامت پرستوں نے یورپ کے نرم رویہ پر شور مچانا شروع کر دیا اور اسے ایران کو خوش کرنے کا وہی اقدام قرار دیا جو چمبرلین نے ہٹلر کے ساتھ مفاہمت کا عارضی حل نکالا تھا۔ اس کے بعد بنیاد پرستوں کو‘ ایرانی عوام کو یہی بات باور کرائی گئی کہ واشنگٹن کے دوہرے معیار نے آج تک اسرائیل کے جوہری اسلحوں کا تذکرہ نہیں کیا جسے ساری دنیا جانتی ہے اور امن کے لیے خطرہ بھی ہے۔ ایرانی انتخابی مہم کے خلاف امریکی دشمنی سے متعلق جو کم سے کم بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ یہ بالکل ہی بلاجواز تھی۔ بش نے انتخاب پر تبصرہ کرنے میں خود پہل کی حالانکہ ابھی ایران میں ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا تھا۔ بش کے تبصرے میں ایرانی انتخاب کا مذاق اڑایا گیا تھا کہ اس میں جمہوریت کے بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پہلے مرحلے کے انتخاب میں جس میں ایرانی ووٹروں کی دو تہائی تعداد ووٹ دینے نکلی‘ کیا جمہوریت کے بنیادی تقاضوں کی تکمیل نہیں ہوتی ہے؟ یادداشت جہاں تک ساتھ دیتی ہے یہ تعداد امریکا کے کسی بھی صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ صدر بش نے ایران کے جمہوری عمل پر یہ کہہ کر مزید زہر اگلا کہ ایرانی حکمرانوں کے جبر کے ریکارڈ نے انتخاب کو ناجائز ثابت کر دیا ہے۔ لیکن ایران کے علما پر تو اس کی پرچھائیں بھی نہیں پڑی ہے جس جبر کا مظاہرہ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے کیا ہے‘ جنہوں نے اپنے مخالفین کا بے رحمانہ سفاکیت کے ساتھ تعاقب کیا ہے‘ محض یہ کہہ کر کہ یہ اسلامی جنگجو ہیں۔ کریموف دہشت گردی کے خلاف بش کے انتہائی قابلِ قدر دوست ہیں۔ ایران کے ہمسائے میں اور بھی دوسرے حکمراں ہیں جو قانونی جواز اور عوامی تائید سے محروم ہیں۔ لیکن ان کے اسناد کبھی بھی واشنگٹن کی نظر میں مشکوک نہیں قرار پائے۔ ایرانی حکمرانوں نے تو حزبِ مخالف کے امیدواروں کو پس زنداں نہیں دھکیلا جو کہ مصر کے صدر حسنی مبارک کا سفاک وتیرہ رہا ہے۔
واشنگٹن نے کبھی صدر مبارک کے انتخاب کو ناجائز قرار نہیں دیا جبکہ اس کے انتخابی مقابلے میں ان کا کوئی مدمقابل بھی نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ ایرانیوں کو ہر طرح سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ بش سے سوال کریں بلکہ واشنگٹن میں کسی بھی شخص سے یہ سوال کریں کہ ۱۹۵۳ء میں کیوں سی آئی اے نے عوام کی منتخب کردہ ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ کر جابر و ظالم شاہ کو ایران پر مسلط کر دیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ بش نے ۲۴ جون کو عراقی وزیراعظم ابراہیم جعفری کا وائٹ ہائوس میں استقبال کیا اور انہیں عراق میں جمہوریت کا محافظ کہہ کر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ہاں! وہ عراق جو ابھی تک امریکا کے زیرِ تسلط ہے اور جس کی خود مختاری محض ایک فریب ہے‘ جس کی آڑ میں امریکا خلیج میں اپنی عسکری موجودگی پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ لیکن ٹھیک اسی دن جب محمود احمدی نژاد کی فتح نے واشنگٹن میں سبھوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بش اور کونڈو لیزا رائس دونوں نے اس انتخاب کو دھوکہ اور قانونی جواز سے خالی قرار دے کر اس کی مذمت کی۔
ناقدین یہ بجاطور سے نشاندہی کریں گے کہ احمدی نژاد جس کو ایرانیوں کے تمام طبقوں نے ووٹ دیا جبکہ جعفری جو عراق کی سنی اقلیت کے ووٹ سے محروم رہے‘ ان میں سے کون قانونی جواز اور عوامی مقبولیت کا حامل کہلانے کا زیادہ حقدار ہے! احمدی نژاد یا ابراہیم جعفری؟ بش اور ان کے نوقدامت پرست ساتھی اس حقیقت کو قبول کرنے میں بھی متامل ہیں کہ جعفری اور عراقی الائنس کے ان کے دوسرے ساتھی وہاں عراق کے مرجع عظیم آیت اﷲ سید علی حسین سیستانی کی حمایت اور آشیرواد کے طفیل اقتدار پر براجمان ہیں۔ ایران کے آیت اﷲ اور آیت اﷲ سیستانی میں ولایتِ فقیہ کے سیاسی فکر و فلسفہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر ایرانی آیت اﷲ واشنگٹن کی نظر میں تنگ نظر ہیں تو آیت اﷲ سیستانی کو بھی اسی نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔ بش اور اس کے نوقدامت پرست مذہبی ہم خیالوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جنہیں امریکی بڑے شد و مد سے گلے لگا رہے ہیں وہ ایران کے اسی طرح دوست ہیں جس طرح کوئی دوسرا فرد جس نے صدام کی ظالمانہ کارروائیوں سے تنگ آکر ایران میں پناہ لی تھی۔ واضح رہے کہ ابراہیم جعفری نے بھی صدام کے ظلم سے تنگ آکر ۱۹۸۰ء میں تہران میں پناہ لی تھی۔ لہٰذا اس پر کسی کو کم ہی حیرت ہونی چاہیے کہ بغداد میں جعفری نے جس بیرونی مہمان کو سب سے پہلے دعوت دی وہ ایران کے وزیرِ خارجہ ڈاکٹر کمال خرازی ہیں۔ عراقی شیعہ الائنس جعفری جس کا انتخاب ہیں‘ نے یہ اعلان کرنے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیا کہ صدام نے جب ۱۹۸۰ء میں ایران پر جارحیت کی تھی تو اس نے ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بش انتظامیہ بغداد اور تہران کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے پیشِ نظر پہلے سے کہیں زیادہ حواس باختہ ہے۔ اگر محمود احمدی نژاد کا انتخاب ان دو ممالک کے قریبی تعلقات میں کوئی مہمیز نہ بھی لگاتا ہے تو سنی مزاحمتی تحریک کی طرف سے حملے ہی اس بات کے لیے کافی ہیں کہ یہ دونوں قربت سمت میں پیش رفت کریں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی قبضے کے شروع میں اس اشتعال انگیز پروپیگنڈہ کے باوجود کہ حملہ آور عراق میں ایرانی سرحدوں سے داخل ہو رہے ہیں‘ واشنگٹن اپنے اس الزام کو کبھی ثابت نہیں کر سکا۔ شاید جن لوگوں کو ایران کے صدارتی انتخاب کے نتیجہ سے اطمینان ہوا ہے وہ صرف واشنگٹن کے بنیاد پرست نوقدامت پرست ہیں اور ممکن ہے تل ابیب کے لوگ بھی ہوں جو کچھ دنوں سے ایران میں طاقت کے استعمال کے سہارے عراق کی طرح کی تبدیلیٔ حکومت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا شاید یہ خیال ہو کہ ایران میں اعتدال پسندوں کی پسپائی اور بنیاد پرستوں کی فتح انہیں یہ موقع فراہم کرے گی کہ ایران میں وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل پوری چاہت کے ساتھ کر سکیں۔ لیکن ان کی یہ خواہش خواب و خیال ہی رہے گی۔
دائیں بازو کی جانب ایران کے فیصلہ کن جھکائو کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایران کے بنیاد پرست اور ان کے سرپرست ملا واشنگٹن کے ساتھ تصادم کی ڈگر اپنا رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ امریکی اور اسرائیلی بنیاد پرستوں کو ایران سے انتقام لینے کا جونکتہ میسر آیا ہے وہ یہ کہ ایران نے اثباتی طور سے اعتدال پسندی کے خلاف اپنے موقف کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہنا کافی ہے کہ ایران عراق نہیں ہے جو ۱۲ سالوں کی معاشی پابندیوں کے سبب بے جان ہو۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی)
Leave a Reply