
سوال: جناب! کیا امریکا افغانستان میں جنگ ہار گیا؟
Tierney: میرا خیال ہے اس کا جواب ہے ’’ہاں‘‘ کوئی اور ایسا لفظ نہیں ہے جسے بیس سالہ جنگ کی ناکامی کے سوِا نام دیاجا سکے۔امریکانے اس معنی میں تو جنگ نہیں ہاری کہ اس نے شکست کھائی اور کسی نے اس پر قبضہ کر لیا، لیکن امریکا نے اس معنی میں جنگ ہاری ہے کہ اس پر انتہائی غیر معمولی اخراجات ہوئے ہیں۔ ڈھائی ہزار امریکی مارے گئے، بیس ہزار زخمی ہوئے۔ ٹریلین ڈالر یا اس سے بھی زیادہ اخراجات ہوئے، کس کام کے لیے؟ طالبان، جیسا کہ نظر آرہا ہے، دوبارہ اقتدار میں آگئے ہیں۔ اس لیے تاریخ میں اِسے امریکی ناکامی کے طور پر محفوظ کیا جائے گا۔
سوال: آپ نے اب تک جو تحقیق کی ہے اُس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جنگ ِ عظیم دوم کے بعد کسی جنگ میں امریکا کو کامیابی نہیں ملی ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات ہے کہ جنگ خلیج میں جو کچھ بھی کامیابی ملی ہے، وہ کسی نتیجے کے بغیر ہے۔ کیا نئے امریکا کی حقیقت بس یہ ہے۔
Tierney: یہی بات ہے۔بہت سے لوگ اس حقیقت کی نشاندہی کررہے ہیں کہ افغانستان میں شکست صرف سال ۲۰۲۱ء کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ بڑی کہانی ہے جو بیس سالوں پر پھیلی ہوئی ہے۔میرے خیال میں یہ ایک اہم نُکتہ ہے۔ افغانستان اور بیس سالہ جنگ، امریکا کی فوجی تاریخ کا حصّہ ہے جو جنگ ِ عظیم دوم تک جاتاہے۔جنگ ِ عظیم دوم سے پہلے امریکانے جو بھی جنگ لڑی وہ جیتی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد عالم یہ ہے کہ امریکا نے شاید ہی کوئی بڑی جنگ جیتی ہو ۱۹۹۱ء کی جنگ خلیج کے بارے میں وثو ق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک کامیابی تھی۔تاہم یہ اُس قسم کی واضح اور فیصلہ کُن جیت نہیں تھی جسے یار لوگ قرار دیتے ہیں۔ کوریا ایسا معاملہ تھا جس میں ہر چیز منجمد ہوگئی تھی۔اس کے بعد ویت نام کا ذِکر آتاہے۔امریکا کی بدنام زمانہ شکست ……عراق،امریکا کی ایک اور ناکامی۔آپ اس میں مزید ناکامیاں شامل کرسکتے ہیں مثلاً لیبیا،مثلاً صومالیہ۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں لیکن ا ن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ ِ عظیم دوم کے بعد جنگ کی نوعیت ہی مطلقاً تبدیل ہوگئی۔ہم نے دیکھا کہ مختلف ممالک کے درمیان روایتی جنگ وقوع پذیر ہورہی ہے۔ ہم بھی اسی پر چل پڑے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ اب جو جنگیں لڑی جارہی ہیں وہ معاشرتی جنگیں (Civil Wars) ہیں۔ انسدادِ مزاحمت اور دہشت گردی کے پیچ در پیچ میدان ہیں۔ جب امریکا کو آپ کسی ایسے میدانِ جنگ میں اُتارتے ہیں جہاں مدمقابل فوج ہو جس نے یونیفارم پہن رکھی تو اس قسمِ کی جنگوں میں امریکا کامیاب ہو جاتاہے جیساکہ جنگِ خلیج میں ۱۹۹۱ء میں ہوا تھا۔ لیکن پیچیدہ معاشرتی جنگوں میں۔ امریکا کو جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ جیسے ہی امریکا عالمی طاقت بنا، اُسی دورانیے میں جنگ کی نوعیت بھی تبدیل ہوگئی۔
سوال: پچھتّر برس گزرچکے ہیں ایسا کیسے ہو ا کہ قومی لیڈر اِس تبدیلی کو سمجھ نہ سکے،اس کی پیمائش نہ کرسکے؟
Tierney: چند ایک کام ہوئے ہیں۔ امریکی فوج اور امریکی معاشرہ بھی، جنگ عظیم دوم جیسی روایتی تاریخی جنگوں کے لیے منصوبہ بندی کو ترجیح دیتے ہیں۔کہاجاسکتا ہے کہ بنیادی طور پر جنگ ِ عظیم دوم ایسی جنگ تھی، جس کے بارے میں امریکی سمجھتے ہیں کہ جنگ ایسی ہونی چاہیے،جس میں دشمن واضح ہومیدان ِ جنگ میںہمیں کا میابی ملتی ہے۔لیکن آخرکار شکست کے معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب ہی ہوتی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنگ عجائب گھر کا حصہ بن چکی ہے۔ اس چیز کا زیادہ تعلق نہیں ہے کہ جنگ کیسی نظر آتی ہے؟ آج بھی ہم ایف ۳۵جنگی جہازوں، نئے بحری جہازوں اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے ہارڈوئیر کے گرد گھوم رہے ہیں، یہ سب کچھ ایسی جنگوں کی تیاری ہے جو فی الواقع کہیں وقوع پذیر نہیں ہوں گی۔
سوال: کیا کمرہ جماعت میں بھی ان ہیروز (قائدین) کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے گا؟
Tierney: کہانی کا ایک اور رُخ بے حد وحساب غرور و اعتماد ہے، جب یہ جنگیں شروع ہوتی ہیں۔ عموماً امریکا روایتی طورپر مثبت اشارے دیتا ہے کہ جنگ کس طرح لڑی جارہی ہے۔عراق اور افغانستان میںجلد ہی ہم فتح کا جشن منارہے ہوں گے۔ پھر بعد میں ان جنگوں کے دوران جو کچھ ہوتا ہے، وہ سب کو پتا ہے۔ ایسی صورتحال سامنے آتی ہے، جس کا ذِکر نہیں کیا جاتا۔ عموماً یہ سب کچھ ایسے ممالک میں ہورہا ہوتا ہے جو امریکا سے دور بہت دور ہوتے ہیں اور امریکیوں کو اُن کے بارے میں کم ہی معلوم ہوتا ہے، امریکی فوج کو جو کچھ نظر آتا ہے اُسے وہ تباہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جب دُشمن نظر ہی نہ آرہا ہو۔ اس سے مشکلات جنم لیتی ہیں۔
ان جنگوں اور تنازعات میںجب زیادہ وقت گزر جاتا ہے۔ امریکا کو ایک اور مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے:(اسے محسوس ہو تاہے کہ) دُشمن کی لگن امریکا کے نزدیک ہر تنازع بہت سے تنازعات میں سے ایک ہوتا؟ افغانستان میں محاورہ بولا جاتا ہے کہ امریکا کے پاس گھڑی ہے اور افغانستان کے پاس وقت ہے۔ اس سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ امریکا کے پاس صلاحیت تو بہت زیادہ ہے تاہم طالبان کی کمٹمنٹ کہیں زیادہ ہے۔
سوال: امریکا کی جو دیومالا ہے اس میں یہ صاف شفاف کہانی فٹ نہیں بیٹھتی؟
Tierney: بالکل نہیں: تمام ممالک کی اپنی اپنی دیومالائی کہانیاں ہیں، کئی لحاظ سے قومی شناخت سب سے بڑی دیومالا ہے اگر آ پ واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل مال پر چلے جائیں، مرکزی شاہراؤں کے درمیان آپ کو متعدد یادگاریں ملیں گی۔ لنکن میموریل، جنگ عظیم دوم میموریل، یہ امریکا کی کامیابی کی کہانیوں کا حالیہ بیانیہ ہے۔ یہ جنگیں ایسی نہیں ہیں جیسی کہ موجودہ دور کی جنگ ہے۔ ویت نام جنگ میموریل یا پھر کوریا جنگ یہ مشکل ترین جنگیں ہیں جن کا حالیہ سالوں میں امریکا نے مقابلہ کیا۔ میری تجویز ہے کہ مرکزی شاہراہ پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میموریل بنایے، اس کی کیا صورت ہوسکتی؟
سوال: فوجی منصوبہ بندی کی یہ کس قدر ناکامی ہے اور کس قدر سیاسی حقائق کو نہ سمجھنے کی ناکامی ہے؟
Tierney: میرے خیال میں یہ دونوں ناکامیاں ہیں، بش، رمز فیلڈ ٹیم سمجھتی تھی کہ امریکی فوج ایک انتہائی باریک سلائی ہے جو دشمنوں کے دِلوں کو سی دے گی اور مہر لگا دے گی، پھر ہمیں بالکل ضرورت پیش نہ آئے گی کہ ہم تعمیر نو کا کوئی کام کریں اور ہم آسانی کے ساتھ کسی دوسرے ملک کی طرف حرکت کرسکیں گے۔ اور وہ عراق تھا۔ پھر لوگ سوچنے لگے کہ اب ایران کے خلاف جنگ ہوئی جہاں ہم ’’بُرائی‘‘کا اسی طرح خاتمہ کردیں گے، جس طرح صلیبی جنگوں کے حق پرست کر دیا کرتے تھے۔ بلاشک وشبہ یہ غیر معمولی تکبّر اور خود پسندی تھی۔ ابھی چندہفتوں پہلے کی بات ہے، جوبائیڈن نے (جس کے بارے میں میراخیال ہے کہ وہ تکبّر اور خود پسندی کا شکار نہیں) سرعام کہہ رہا تھا کہ افغان فوج کسی صورت برباد نہ ہوگی اور اس کا کم ہی امکان ہے کہ طالبان افغانستان پر واضح فتح حاصل کرلیں۔
۔ امریکا اس قدر طاقتور ہے کہ حقیقی معنوںمیں وہ دُنیا کے دوسرے کنارے پر جاکر جنگ لڑنا شروع کردیتا ہے۔ عراق ہے افغانستان ہے۔ جب میں کہتا ہوں کہ انہیں ان ممالک کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں تو میں کوئی خالی خولی الزام بازی نہیں کر رہا ہوتا۔ جب امریکا نے ۲۰۰۱ء میں افغانستان میں مداخلت کی تو اس کے پاس افغان سرزمین کے نقشے تک نہیں تھے۔ ڈونلڈ رمز فیلڈ نے اپنی یادداشتوں میں تحریر کیا کہ جب امریکا نے عراق میں مداخلت کی۔ ہمیں حقیقتاً مقامی تنازعات، قبائلی شناختوں اور مذہب کا علم نہیں تھا۔ ۲۰۰۶ء میں جب عراق کی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ یہ جان کر مجھے شدید اچھنبا ہوا کہ بغداد میں امریکی سفارتخانے میں ایک ہزار افراد تھے لیکن اُن میں سے صر ف چھ لوگ عربی جانتے تھے۔ اس قسم کے شدید پیچیدہ الجھائو میں اس طرز کی لاعلمی ہلاکت خیز ہوتی ہے؟
۔ طالبان کی پیش قدمی کے بارے میں قابلِ تعریف بات ہے کہ انتقالِ اقتدار حد درجہ پُرامن رہا ہے۔ طالبان نے افغان فوج کے کمانڈروں کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔ طالبان مقامی نیٹ ورک، قبائلی تعلقات اور پیچیدہ وفاداریوں سے خوب آگاہی رکھتے ہیں۔ بات یہ نہیں ہے کہ امریکی طالبان سے کم علم رکھتے ہیں بات یہ ہے کہ طالبان اپنے وطن میں ہیں اور ظاہر ہے اُنہوں نے ایسے معاملات کا انتخاب نہیں کرنا تھا جو اُن کے لیے چیلنج بنتے۔ یہ جنگ امریکا کے لیے خلائی مخلوق جنگ تھی ممکن تھا یہ جنگ ان کے لیے چاند پہ جنگ بن گئی ہو۔
سوال: آپ جو رخ پیش کر رہے ہیں، اُس سے یہ منظرسامنے آتا ہے کہ معاملات صلیبی جنگوں سے دلدل کی طرف جارہے ہیں کیا ایسا تبدیلی کا کوئی نکتہ تھا، جس کی بدولت امریکانے انصاف اور حقیقت پسندی پر مبنی مثالی جنگ کو ناقابلِ فتح برباد ی میں تبدیل کر دیا؟
Tierney: ہماری جنگ سچائی کے لیے جنگ نہ تھی۔ امریکا کی طرف سے کی جانے والی ان جنگوں میں آپ کو فضا سے ایسی جھلک دکھائی جاتی رہی جہاں جنگ کے آغاز سے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکیوں کو وہی سچائی حاصل ہے جو صلیبی جنگیں لڑنے والوں کو حاصل تھی اور نائن الیون کے بعد تو خاص طور پر یہی منظر بناکر پیش کیا گیا، جمہوریت پھیلانے کی امید دلانے اور ظلم وبربریت کو شکست دینے کے لیے ایک خیالی جذباتیت ہے۔ ان جنگوں میں صلیبیوں کا غضب نظر آتا ہے۔ گنہگار کو سزا دینے کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اُن لوگوں کو سزا دینے کا جنہوں نے نائن الیون کو امریکی شہریوں کو قتل کیا تھا۔
۔ امریکا افغانستان میں حق پرست، حقیقت پسند، اخلاق پرست شعلہ بردار تلوار لے کر داخل ہوا لیکن جنگ بڑھتی رہی اور جب اس نے قومی تعمیر کے لیے پیچیدہ اور مشکل مزاحمت کی شکل اختیار کر لی تو امریکی حقیقت پسندی اور حق پرستی نے موجودہ شرمناک تھکاوٹ کی شکل اختیار کرلی۔ ہم نے گذشتہ چند مہینوں میں دیکھا ہے کہ صدر مملکت جوبائیڈن کسی بھی صورت میںجنگ ختم کرنا چاہتا تھا۔ اور اس کی پیچیدگیوں سے بھی کچھ آگاہی رکھتا ہے لیکن اصل بات یہ تھی کہ وہ کسی صورت میں بھی جنگ کا مسئلہ نئی نسل کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اب یہ صورتحال ہے کہ ایک طرف امریکا نے حقیقت پسند ی سے تھکاوٹ کا راستہ اختیار کر لیا ہے، جب کہ طالبا ن اپنی جنگ میں قابل تعریف استقامت کے حامل چلے آرہے ہیں اور طالبان کو اس کا بھی فائدہ ہوگا۔
افغانستان کی جنگ کے المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ امریکا ۲۰۰۲ء میں طالبان سے مذاکرات کرکے بہتر نتائج حاصل کرسکتا تھا۔ ۲۰۰۲ء میں طالبان نے امریکیوں سے رابطہ کیا اور کہا ’’ہم جنگ ہارچکے ہیں۔ اگر آپ نئے افغانستان میں کوئی جگہ دے دیں گے تو ہم اپنے آپ کو سیاسی جماعت میں تبدیل کرنے کی پیشکش کرتے ہیں‘‘۔
۔ بش انتظامیہ نے اس پر کان تک نہ دھرے کیونکہ اُس زمانے میں بُرے لڑکوں، بدکاروں اور نازیوں کے ذکر میں طالبان اور داعش کو ایک ہی سمجھا جاتا رہا تھا۔ ہم بھی اُس وقت کوئی مذاکرات کرنے کے موڈ میں نہ تھے۔ اگر ۲۰۰۲ء میں ہم کسی حد تک کم حقیقت اور کم سچائی پسند ہو جاتے اور جنگ کی صورتحال کو صحیح طور پر سمجھ لیتے اور یہ اندازہ لگا لیتے کہ اس جنگ کو جیتنا آسان نہیں ہے تو ہم کوئی معاملہ طے کر لیتے۔ امریکا اور افغانستان کو اس کی بہت کم قیمت دینا پڑتی۔ ہوسکتا ہے ہمیں مغربی جمہوریت سے کم تر کسی نظام کے معاہدے کو ماننا پڑتا، جسے افغانستان والے بعد میں خود وضع کر لیتے تو آج یہ شرمناک دن نہ دیکھنا پڑتا۔
(ترجمہ: محمد ایوب منیر)
ڈومینیک ٹائے ارنی “The Signal” کے مضمون نگار سوارتھ فور یونیورسٹی نپسلوانیا امریکا کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ ہیں، ان کے مطالعے کا موضوع ’’دیگر ممالک میں امریکی مداخلت اور رسوائی پر مبنی پسپائی‘‘ رہا ہے اُن کی درج ذیل کتابیں شائع ہوچکی ہیں:
1. The Right way to lose a war: America in an Age of Unwinnable conflicts .
2. How we fight : Crusades, quagnires and the American way of war.
3. Failing at win, Perceptions of Victory and Defeat in international Politics.
۔۔۔۔۔
“Major American failure. A political scientist on why the U.S. lost in Afghanistan”.(“Time”. August 18, 2021)
Leave a Reply