گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء سے اب تک پاکستان اور امریکا کے مابین دہشت گردی کے خلاف جنگ کے متعلق پائی جانے والی مفاہمت ۲ سال ۸ ماہ پرانی ہو چکی ہے۔ تمام دشواریوں سے قطع نظر یہ مفاہمت پرویز مشرف کے لیے نعمتِ خداوندی ثابت ہوئی‘ اس لیے کہ اس کی وجہ سے انہیں اپنی حکومت یا فوج کی حکومت کو قانونی بنانے میں بہت مدد ملی۔ اشتراکِ عمل کی یہ صورتحال پرویز مشرف کے لیے بظاہر بہت ہی مسرت بخش تھی یا پھر پرویز مشرف کو ایسا محسوس ہوتا تھا۔ بہرحال کچھ عظیم خطرات تھے‘ جن سے جنرل پہلی مرتبہ دوچار ہوئے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ قابلِ اعتماد غیر نیٹو حلیف کا مطلب امریکا کے خط پر چلنا ہے اور اس خط پر نہ چلنے کا مطلب آگ سے کھیلنا ہے۔ اندرونی حلقے کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں پرویز مشرف کی ٹال مٹول‘ جیسا کہ امریکا کا اشارہ ہے‘ کراچی میں خانہ جنگی کے بھڑکنے کا سبب بنا ہے‘ جو کہ پاکستان کا تجارتی و مالیاتی دارالحکومت ہے۔ ۲۰۰۴ء کے آغاز سے ہی اونچی اہمیت کے حامل افراد جو ہدفِ مطلوب ہیں‘ کی نام کے ساتھ شناخت کر لی گئی حتیٰ کہ ان کے ٹھکانوں اور معاونین کا بھی پتا لگا لیا گیا۔ امریکا کے جاسوسی نیٹ ورک نے خواہ ان کا تعلق فضا سے ہو یا زمین سے‘ ان کی حرکات و سکنات کا پتا لگا لیا لیکن شمالی و جنوبی وزیرستان میں شروع کی گئی محدود جنگ کی ناکامی کے بعد پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ آسانی سے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بہرحال واشنگٹن اس قسم کا جواب انتہائی قابلِ اعتماد حلیف سے سننے کے لیے آمادہ نہیں تھا کیونکہ بش انتظامیہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے جس پر اس نے ایک بار پھر اپنی بھرپور توجہ مرکوز کر رکھی ہے‘ اہم کامیابیوں کی ضرورت ہے۔
پسندیدہ عذر خواہی
اس انتخابی سال میں بش کی مایوسی کا یہ عالم ہے کہ امریکی فوج اور اس کے مقامی جنگجو یعنی افغان ملیشیا نے سرحدی حدود کی بارہا خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ پاک فوج کی اس رسوائی کے بعد اگرچہ امریکا نے ہمیشہ پرلطف عذر خواہی کی۔ تاہم پاکستان میں امریکا کے اہم ہمنوا حلقوں میں اختلافِ رائے پیدا ہو گیا۔ بمباری اور حملوں سے انکار کیا گیا اور زمینی حقائق پر مسئلے کا حل تلاش کیا گیا۔ بہرحال یہ رویہ وائٹ ہائوس سے باہر سرگرم عمل سیاسی مہم جوئوں کو مطمئن کرنے میں شاید ہی مفید ہو سکا۔ پاکستانی حکومت کو بار بار شکست کا سامنا ہوا۔ اس بار کو حکومت کی عوامی شکل کو بھی چیلنج کا سامنا ہے۔ پے در پے چار منتخب جمہوری حکومتیں اس لیے ختم کر دی گئیں کہ پاک فوج کو امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال‘ جس میں قتل کی واردات روز افزوں تھیں‘ پر تشویش لاحق تھی۔ اسی طرح کی صورتحال گزشتہ مہینہ دیکھنے میں آئی‘ خاص طور سے وہاں جو پاکستان کا مالیاتی مرکز ہے۔ فوج کی پشت پناہی سے چلنے والی حکومت جو مشرف حکومت کے پروگرام سے ہم آہنگ تھی‘ اپنی ساکھ کھو بیٹھی۔ مداخلت کا جو طریقہ اس بار استعمال کیا گیا‘ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی وہی پرانے ہاتھ ہیں۔
مشرف کے لیے وارننگ
امریکی قونصل جنرل کی رہائش کے قریب دو بم کے دھماکے ہوئے جبکہ سڑک کے کنارے جہاں یہ رہائش گاہ واقع ہے‘ اس پر کڑا پہرہ تھا۔ امریکی وزارتِ خارجہ فوراً ہی حرکت میں آگئی اور بیان دیا کہ ایک انگلش لینگویج اسکول اس کا نشانہ تھا۔ ماضی میں اس قسم کے دھماکے کی شدید مذمت کی گئی۔ بہرحال جنرل مشرف اور ان کے کان و آنکھ یعنی آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہ متعین طور سے یہ جانتے ہیں کہ امریکی حکام نے کیوں ان دھماکوں کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا جبکہ یہ ان کی املاک سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہوا۔ مشرف حکومت کو دھمکیوں اور دبائو کا سامنا ہے۔ یہ دھمکیاں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی افسران اور پاکستان میں مقیم امریکی افسران ہر دوکی جانب سے براہِ راست اور بالواسطہ رہی ہیں۔ پاکستان کو قبائلی پٹی میں سخت کریک ڈائون کرنے پر تاکید تھی‘ بصورت دیگر کراچی کو جہنم بنا دینے کی دھمکی تھی۔ ۳۰ مئی بروز اتوار حکومت نے دھیمے انداز میں دوبارہ کارروائی کا آغاز کر دیا۔ اس بار یہ کام اقتصادی ناکہ بندیوں اور فوج کی تعیناتی کے ذریعہ کیا گیا تاکہ جنوبی وزیرستان کے لوگوں کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ غیرملکیوں کو حکومت کے حوالے کر دیں۔ اسی دن ایک بہت ہی اہم شخصیت مفتی نظام الدین شامزئی کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے پیچھے بھی اُسی قاتل گروہ کا ہاتھ معلوم ہوتا ہے جو ماضی میں سرگرمِ عمل رہا ہے۔ اس قتل میں وہ چنگاری موجود تھی جو پورے کراچی کو جہنم بنا دے۔ لیکن متحدہ مجلسِ عمل کے اعلیٰ رہنمائوں مثلاً مولانا فضل الرحمن‘ صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ درانی‘ مولانا سمیع الحق اور پاکستان کے مفتی اعظم رفیع عثمانی نے ہزاروں مشتعل افراد پر مشتمل جلوس کو کنٹرول میں رکھا۔ ان مشتعل افراد میں جہادی تنظیموں کے رہنما و کارکنان بھی شامل تھے۔ تمام سوگواران جن میں علما‘ قائدین اور کارکنان سبھی شامل تھے‘ یک آواز ہو کر اس واقعۂ قتل میں شیعہ برادری کے ملوث ہونے کے امکان کو سختی سے مسترد کر دیا۔ سبھوں کا یہ مشترک موقف تھا کہ یہ فرقہ ورانہ قتل نہیں ہے بلکہ Target Killing ہے۔
شیعہ علما کی جانب سے سنیوں کی بے گناہی کا اعلان
کشیدگی اگرچہ باقی تھی تاہم فضا پرسکون تھی اور فرقہ ورانہ جذبات قابو میں تھے کہ ۳۱ مئی پیر کی شب امام بارگاہ علی رضا میں اچانک ایک ہلاکت خیز بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق ۲۴ نمازی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس مرتبہ مشتعل صورتحال کو شیعہ علما نے قابو میں رکھا۔ شیعہ علما نے اس انسان سوز واقعے میں سنیوں کے ملوث ہونے کے امکان کو سختی سے مسترد کر دیا۔ ایک بار پھر عوام نے کراچی کو جلنے سے بچا لیا جبکہ وہ لوگ جن پر امن و امان کے قیام کی اصل ذمہ داری تھی انہوں نے بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شعلے بھڑکانے اور اسے ہوا دینے کا کام کیا۔ شیعہ برادری کے ایک اعلیٰ رہنما علامہ حسن ترابی نے راقم سے کہا کہ پولیس کے رویوں اور ان کے جاری کردہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام کو مسلسل گمراہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس محض اپنے آپ کو بچانے کے لیے اس سانحہ کو خودکش حملہ کا نتیجہ قرار دے رہی ہے۔ کیونکہ خودکش حملے کی صورت میں تحقیقات کا دروازہ بند کیا جاسکتا ہے اور واقعے کے ذمہ دار مجرموں کی گرفتاری کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ امام بارگاہ علی رضا کو کیوں سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی اور اس امر پر بھی اپنے تعجب کا اظہار کیا کہ جب سنیوں نے متفقہ طور سے مفتی شامزئی کے قتل میں شیعہ برادری کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کر دیا تو پھر ان کی جانب سے کیونکر اس امام بارگاہ کو نشانہ بنایا جائے گا۔ شیعہ و سنی دونوں فرقوں کے رہنمائوں کا اس پر مکمل اتفاق تھا کہ مفتی شامزئی کا قتل پیشگی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے اور اس کے باوجود جب دونوں گروہ کے لوگوں نے اپنی روایتی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر الزام تراشی سے گریز کیا تو پھر لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے امام بارگاہ کو نشانہ بنایا گیا۔ دوسرے روز ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ کراچی میں جہنم کے تمام شعلے امڈ آئے ہیں۔ کہیں گاڑیاں جل رہی ہیں تو کہیں پولیس چیک پوسٹ کی تباہی کا منظر تھا۔ بازار سنسان پڑے تھے۔ حالات کو قابو میں کرنے کے بجائے صوبائی حکومت کی پولیس نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں اور اشک آور گولے پھینکے‘ اس لیے کہ وہ ان پر پتھرائو کر رہے تھے۔ ایسے مواقع پر عام طور سے پولیس ہٹ جاتی ہے تاکہ لوگوں کا غصہ ٹھنڈا پڑ جائے مگر اس بار ایسا نہیں تھا۔ خفیہ ایجنسیوں کے بعض اہم ذرائع نے اس بات سے انکار کیا کہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں بم دھماکہ یا اس کے بعد کراچی پورٹ ایریا کا دھماکہ یا مفتی نظام الدین شامزئی کا قتل اور اب امام بارگاہ علی رضا کا تازہ ہولناک واقعہ کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق ہے۔ ان ذرائع نے ایک لسانی تنظیم کی جانب نشاندہی کی ہے جو کہ وفاقی اور صوبائی حکومت میں شریک ہے‘ یعنی متحدہ قومی موومنٹ۔ ایجنسیوں نے اپنی جامع رپورٹ اسلام آباد بھیج دی ہے اور جنرل مشرف نے مبینہ طور سے شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے سندھ میں بڑی تبدیلی لانے کا عزم کیا ہے۔
مشرف مشکل میں
بہرحال مشرف کو یہ بھی معلوم ہے کہ فوج بطور ادارہ ایم کیو ایم کے ساتھ محبت و نفرت کا تعلق رکھتی ہے اور پرویز مشرف کو تو بطور خاص ان کی ضرورت ہے۔ دوسرے بم دھماکہ کے بعد اعلیٰ حکام کے اجلاس میں ابتداً یہ طے پاگیا تھا کہ ایم کیو ایم کے اثر و رسوخ کو مخلوط حکومت میں کم کیا جائے گا اور سندھ کے سابق گورنر معین الدین حیدر کو سندھ کے امور کے لیے صدارتی مشیر بنایا جائے گا۔ ایم کیو ایم کے جلاوطن قائد الطاف حسین کی جانب سے اس پر شدید ردِعمل سامنے آیا‘ جنہوں نے اپنی تنظیم کے ہاتھ باندھے جانے کی پرزور مخالفت کرتے ہوئے فوجی قیادت پر شدید تنقید کی۔ اپنے آپ کو بدنامی سے بچانے کے لیے تب یہ فیصلہ کیا گیا کہ پہلے ہی سب بے اختیار وزیراعلیٰ کو قربان گاہ کی نذر کر دیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقیم امریکی سفارت کاروں نے مشرف کو ایم کیو ایم کے خلاف سخت کارروائی سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر صدر پہلے بے خبر تھے تو اب انہیں اچھی طرح معلوم ہو گیا ہو گا کہ ایم کیو ایم فوج کے مقابلے میں زیادہ طاقتور دوست رکھتی ہے۔ شامزئی کے قاتلوں کے طریقۂ واردات سے سندھ پولیس پر چشم پوشی کا شبہ ہوتا ہے اور پولیس واضح طور سے متحدہ کے وزیر کے زیرِ کنٹرول ہے۔ انہیں اپنی پوزیشن واضح کرنا ہو گا۔ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ شامزئی کے قتل کے ۲۴ گھنٹے قبل ان کے اپارٹمنٹ کے سامنے ٹیکسی اسٹینڈ کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ مفتی شامزئی کے گھر کے باہر ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ بھی تھا۔ یہ ریسٹورنٹ ضرورت مندوں کو مفت کھانا تقسیم کرتا تھا اور اس کے لیے ریسٹورنٹ کے مالک کو عوام چندہ دیا کرتے تھے۔ عام طور سے ہوٹل کے باہر فقیروں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ قتل سے ۲۴ گھنٹے قبل اس ہوٹل کو بھی اور فقیروں کو بھی وہاں سے ہٹا دیا گیا۔
مفتی شامزئی کو کس نے قتل کیا؟
پولیس کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس نہ کہ ٹریفک پولیس نے موقعٔ واردات کی صفائی کے دونوں کام کیے۔ انکا کہنا ہے کہ قاتلوں کے ذہن میں متعلقہ نقصان (Collatoral damage) کا تصور نہیں بلکہ بغیر کسی رکاوٹ کے گولی مارنے کا خیال تھا۔ اس سے پہلے کے بیشتر ہدف زدہ قتل (Target Killings) میں عام طور سے صرف دو لوگ ملوث ہوتے تھے جو ایک بائیک پر آگے پیچھے بیٹھے ہوتے تھے۔ لیکن مفتی شامزئی کے محافظ کے مطابق جو اس واقعے میں زخمی بھی ہوا کہ اس خاص واقعہ میں ایک درجن یا اس سے ملتی جلتی تعداد میں حملہ آوروں نے مفتی شامزئی کی گاڑی کو اپنے محاصرے میں لے لیا اور پھر اپنی مرضی سے فائرنگ کرتے رہے۔ محافظ نے جوابی فائرنگ کی اور ایک حملہ آور کو زخمی بھی کر دیا۔ حملہ آوروں نے اپنے زخمی کو اٹھایا اور قریب کے اسکول میں لے گئے‘ جہاں معلوم ہوتا ہے کہ فرار کا پہلے سے انتظام موجود تھا‘ اس لیے کہ وہ وہاں پیدل گئے اور پھر دوبارہ نظر نہیں آئے۔ قاتل گروہ کے ذریعہ یہ طریقہ پہلے بھی اپنایا جاتا رہا ہے۔ بہت سارے اخبارات نے ایک مشکوک زخمی شخص کی اسٹوری چھاپی جسے علاج کی غرض سے ایمرجنسی میں داخل کیا گیا تھا۔ مذکورہ زخمی کو پیٹ میں گولی لگی تھی اور اسے اس اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جو لسانی تنظیم کے سندھ ہیڈ کوارٹرز کے قریب واقع ہے۔ اس اسٹوری سے محافظ کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ مفتی نظام الدین شامزئی کے قتل کا مقصد کیا تھا؟ ظاہراً تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک معروف و محترم عالمِ دین کو‘ جسے بنوری ٹائون مدرسہ کے علما بھی بہت محترم جانتے تھے‘ کو قتل کر کے سنی مسلح و جہادی گروہوں میں اشتعال پیدا کرنا تھا اور انہیں تشدد کے لیے اُکسانا تھا۔ اگر مولانا یوسف لدھیانوی کے قتل کی یاد ماند پڑ رہی ہو تو پھر یہ ایک بار تازہ ہو جائے۔
مفتی شامزئی کو کیوں قتل کیا گیا؟
مولانا لدھیانوی اور مفتی شامزئی میں شاید فرق یہ تھا کہ مولانا لدھیانوی کو علما کے درمیان سب سے اہم مقام حاصل تھا جو کہ واقعی ایک خصوصی حیثیت تھی۔ چنانچہ مولانا شامزئی کے قتل سے اس شدت کا ردِعمل تو پیدا نہیں ہوتا جو مولانا لدھیانوی کے قتل سے ہوا‘ تاہم لوگوں کے ہجوم نے بہرحال پولیس کے ساتھ بڑی حد تک اسی انداز میں جارحانہ رویہ اپنایا۔ محدود ردِعمل‘ مایوسی اور غصے کی ملی جلی کیفیت کے سبب تھا اور اس میں زیادہ شدت اس لیے نہ تھی کہ علما تکراریہ بیان دے رہے تھے کہ قتل کی اس واردات کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا کراچی کو آگ و خون میں نہانے کا مقصد حاصل نہ ہو سکا۔ جب معاملہ یہ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قتل کے ذریعہ کس کو پیغام دینا مقصود تھا؟ مفتی نظام الدین شامزئی وادیٔ سوات کے خوبصورت علاقے میں ۱۹۵۲ء میں پیدا ہوئے۔ وادیٔ سوات سندھ تہذیب کی عظیم یادگار ہے۔ اس تہذیب کے آج بھی بہت ساری تہذیبوں پر اثرات نمایاں ہیں۔ مثلاً جاپان اور درمیان میں پائے جانے والے دیگر ملک پر۔ شامزئی مذہبی پس منظر کے حامل تھے۔ وہ کراچی آئے اور جامعہ فاروقیہ میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اس درسگاہ میں ۲۲ سال تک معلمی کے فرائض بھی انجام دیے‘ یہاں تک کہ وہ بنوری ٹائون مدرسہ میں حدیث کے استاد ہوئے۔ علمِ حدیث‘ فہمِ قرآن اور تفسیرِ قرآن کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ وہ مولانا مودودی اور مولانا نورانی کی طرح بین الاقوامی شہرت کے تو حامل نہیں تھے تاہم وہ اپنے مقصد سے لگن اور راست بازی کے لیے مشہور تھے‘ جب طالبان تحریک سامنے آئی تو مفتی شامزئی نے سب سے پہلے اس کی حمایت کی۔ طالبان انہیں بہت محترم جانتے تھے اور مشوروں اور اطلاعات کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شامزئی یہ سمجھتے تھے کہ طالبان گندگی کو دور کر دیں گے اور اس خلا کو پُر کریں گے جو سویت جارحیت سے افغانستان میں پیدا ہو گیا تھا۔ جب امریکا نے ۱۹۹۸ء میں کروز میزائل سے افغانستان پر حملہ کیا تو شامزئی پہلے مفتی تھے جنہوں نے فتویٰ جاری کیا کہ ’’اب پوری دنیا میں امریکی تنصیبات اور مفادات پر جوابی حملے کرنا مسلمانوں کے لیے جائز ہے‘‘۔ انہوں نے ایسا ہی ایک فتویٰ گیارہ ستمبر کے بعد بھی جاری کیا جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کرنے کا اعلان کیا۔ جب بش انتظامیہ نے پاکستانی فوج کو مجبور کیا کہ وہ قبائلی عوام کے خلاف احمقانہ جنگ شروع کرے تو شامزئی نے اس فتوے کی توثیق کی جس میں کہا گیا تھا کہ جو مسلمان اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے مارے جائیں گے وہ شہید ہوں گے اور جو سپاہی (جنوبی وزیرستان کے) مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہوئے مارا جائے گا اسے بیرونی قوتوں کا زرخرید سمجھا جائے گا اور اسے تجہیز و تکفین کے حق سے محروم رکھا جائے گا۔
سپاہیوں نے انکار کر دیا
فوجی اصطلاح میں یہ جنگ تباہی تھی۔ اس لیے کہ بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی تھیں اور لاشوں کو سربریدہ کیا گیا تھا۔ یہ فوج چھوٹے پیمانے کی بغاوت تھی‘ جیسا کہ بعض فوجی افسران نے اپنے ہی عوام پر بم برسانے اور حملہ کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکی اس قدر بوکھلائے ہوئے تھے کہ انہوں نے پاکستان میں اپنے ہی قوت کے مرکز کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب کوئی کامیابی نظر نہ آئی تو دھمکی اور لالچ کی پالیسی کی انتہا کر دی گئی۔ پاکستان کو غیرنیٹو امریکی حلیف کی مشکوک نوازش کی پیشکش کی گئی۔ ان سب باتوں کا حقیقتاً یہ مطلب تھا کہ پاکستان وہ ملٹری ہارڈویئر خرید سکتا ہے جو اس کی الماری میں موجود نہیں ہیں اور وہ بھی کم قیمت پر۔ اس نے ’’بچوں‘‘ کو دل لبھانے والے کھلونوں اور فوجی معاہدوں سے مسرور کر دیا۔ دھمکی کی صورت میں شمالی و جنوبی وزیرستان کے قبائلی سردروں کی حوالگی کا مطالبہ تھا۔ پاک فوج کی مذاکرات اور ترغیب کی کوششوں کو کم تر درجے میں سست رفتار خیال کیا گیا اور اسے بدتر درجے میں ٹال مٹول کا بہانہ قرار دیا گیا۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوج نے تاجک ملیشیا کے ساتھ مل کر پاکستانی سرزمین میں دو سنگین مداخلت کی حتیٰ کہ بعض چیک پوسٹ پر مارٹر گولوں سے بھی حملہ کیا۔ امریکا کا مقصد اپنی بے خبری کو ظاہر کرنا تھا اور پاکستانی فوج کو ایک دوسری فوجی کارروائی کے لیے پریشان کرنا تھا۔ یہ طریقہ ایسے نتائج کے لحاظ سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اس نے پاک فوج کو ایک ناقابلِ دفاع صورت حال میں ڈال دیا چنانچہ حکومت نے خاموشی کے ساتھ سرحدی حدود کی خلاف ورزی کو قبول کر لیا۔ فوج نے محسوس کیا کہ عوام کی نظروں میں فوج کی ذمہ داری پاکستان کی ارضی سلامتی کا دفاع کرنا ہے اور اگر وہ اس میں ناکام رہتی ہے تو اسے ایک قانونی اور جائز فوج تصور نہیں کیا جائے گا۔ ایک بار پھر امریکا کی مایوس اور معذور انتظامیہ خطے کے اپنے ایک بہترین دوست کو قربان کر دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہی ہے۔
مشرف کو امریکا کا پیغام
فوج کے سہارے سے چلنے والی حکومت کے مسائل کا یہ اختتام نہیں ہے۔ سندھ مدرسہ کی مسجد کا سانحہ‘ پورٹ ایریا میں دھماکے پھر اس ہولناک اور بھیانک یادوں کی طرف لے جاتے ہیں جو کسی حد تک محو ہو چکی تھیں۔ حکومت کی قوتِ نافذہ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ کچھ دنوں بعد فوجی قیادت متوجہ ہوئی۔ جنوبی وزیرستان کے قبائل پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں۔ لیکن یہ دوبارہ انتخاب کو یقینی بنانے کے حوالے سے کچھ نامناسب خیال کی گئیں۔ اس کے بعد حکومت کو ایک اہم عالمِ دین کے قتل سے پیدا ہونے والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مقتول عالِم امریکا مخالف خیالات کے حامل تھے اور طالبان قیادت کے فکری و علمی مشیر تھے۔ یہ وہ سخت گیر گروہ تھا جسے امریکا ختم کرنا چاہتا تھا جبکہ یہ یہاں ایک دوسرے گروہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوشاں تھا جو ہاسٹن کے بڑے تیل تاجروں کے لیے قابلِ قبول تھا۔ یہ پیغام تمام لوگوں کے لیے تھا۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ مقتول مولانا شاید واحد آدمی تھے جو قبائلی علاقوں کے بحران کو ختم کر سکتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے دوست خیال کیے جانے کے باعث مفتی شامزئی نے بہت سارے مسائل کے حل میں حکومت کی مدد کی۔
ایک معتدل شخصیت سے محرومی
اکتوبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر امریکی جارحیت سے قبل ایک موثر قبائلی قوت پاکستان کی امریکی پالیسی کے لیے حمایت پر احتجاج کرتے ہوئے شاہراہِ ریشم کی ناکہ بندی کر دی۔ اس موقع پر مفتی شامزئی کو بلایا گیا اور وہ صورتحال کو ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یوں ایک فوجی تصادم جس کا سلسلہ بہت طول پکڑ سکتا تھا‘ شروع ہونے سے رک گیا اور خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ پاکستان فوج کا کسی دوسری طرف مصروف ہونا کسی بھی طرح سے امریکی مفاد میں نہیں تھا۔ مفتی شامزئی کے ساتھ ہی جہادیوں پر کسی معتدل شخصیت کا اثر و رسوخ بھی ختم ہو گیا۔ اب جبکہ اسٹیبلشمنٹ کسی دوسرے متبادل کی تلاش میں ہے وہ اپنے اداروں کے ساتھ کسی ایسی مفاہمت کو نامناسب خیال کرے گی جو پاکستان کو غیرمستحکم کرنے والی ہو۔ لیکن اگر ایسی کوئی مفاہمت کی صورتحال سامنے آگئی ہے تو امریکا وہ پہلا ملک ہو گا جو پاکستان کی جانب انگشت نمائی کرے گا اور پاکستان پر الزام لگائے گا کہ یہ دہشت گردوں کی حمایت کرنے والا ایک ناقابلِ اصلاح ملک ہے۔ قطع نظر اس سے کہ فوج ہو یا عوامی روپ لیے اس کی حکومت ہو۔ جوں جوں گلے کا پھندا تنگ ہوتا جارہا ہے‘ جنرل پرویز مشرف اسی صورتحال سے دوچار ہو رہے ہیں‘ جس میں ان کو اپنی جان کی حفاظت کی پڑی ہے۔ سندھ کی مخلوط حکومت جسے اسٹیبلشمنٹ نے بڑی محنتوں سے جوڑ رکھا ہے اور حکومتی وسائل کا سہارا لے کر جس طریقے سے انتخاب کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے گئے اور مخالفین کو سرِتسلیم خم کرنے پر مجبور کیا گیا یا دوسرے لفظوں میں ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ افزائی کی گئی یہ سب کارروائیاں پرویز مشرف کے کمزور ہونے کا ثبوت ہیں۔ جیسا کہ ایک دل جلے نے تبصرہ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے تمام انڈے ایم کیو ایم کی ٹوکری میں ڈال دیے ہیں اور کراچی اس ٹوکری کا خول بن کر رہ گیا ہے۔ اپوزیشن کو سندھ میں حکومت تشکیل کی دعوت دینا مشرف کی پسند و ترجیح کو قبول کر لینے کا واضح ثبوت ہے۔
مشرف کی مشکل کا آغاز
ایم کیو ایم کے قائدین کو خوش قسمتی سے ایک نیا حلیف مل گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے ایک اندر کے آدمی کا کہنا ہے کہ جب الطاف حسین کریک ڈائون سے بچ کر لندن پہنچے تو وہ ایک مایوس اور سہمے ہوئے آدمی تھے۔ ہفتوں اور مہینوں میں انہوں نے اپنے نئے دوستوں کے سہارے پرانی تمکنت کو بحال کر لیا۔ اب وہ ایک برطانوی شہری ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایک زبردست حامی ہیں۔ مشرف کی مشکل یہ ہے کہ جس گروپ پر انہوں نے اعتماد کیا وہ آئندہ انہیں کوئی فائدہ پہنچانے سے قاصر ہے۔ جنرل کی انٹیلی جینس ایجنسیاں مبینہ طور سے اس امر پر زور دے رہی ہیں کہ کراچی کو شعلہ بداماں کرنے میں ایم کیو ایم کا کردار ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنی جانب سے بارہا یہ اعلان کیا ہے کہ وہ فرقہ ورانہ تشدد کی مخالف ہے‘ اس لیے کہ اس طرح کا تشدد ان کی تحریک کو جڑ سے کمزور کر دے گا۔ چونکہ تمام سیاست مقامی ہے اور بقا سب سے اہم‘ لہٰذا پرویز مشرف اپنے فیصلے پر مجبور ہو سکتے ہیں‘ جسے لینے سے وہ اول دن سے گریز کر رہے ہیں‘ ممکن ہے وہ سندھ میں ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کریں جس میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کی شمولیت لازمی ہو گی جیسا کہ حال ہی میں اس کی جانب وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات نے اشارہ کیا ہے۔ عوام کی وسیع تر خواہش کو تسلیم کرنے میں ہی ان کے اپنے نظام کی بقا مضمر ہے۔ بہت سارے لوگ اس اقدام کو قوم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بامعنی پیش رفت خیال کرتے ہیں۔
(بشکریہ: ڈیلی ’’اسٹار‘‘۔ کراچی‘ ۵ جون ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply